نیا حمام - ذاکر فیضی کی کہانیاں - ایک تجزیاتی مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-09

نیا حمام - ذاکر فیضی کی کہانیاں - ایک تجزیاتی مطالعہ

"نیا حمام" پانچ افسانچے اور پچیس زندہ کہانیوں پر مشتمل دو سو تین صفحات پر پھیلا ہوا ذاکر فیضی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے، جس کے کردار ہمارے اور آپ کے درمیان ہی سانس لیتے ہیں اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر فیضی نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے اور اس وقت تدریس سے وابستہ ہیں۔ "نیا حمام" منظر عام پر آنے کے بعد ذاکر فیضی کا نام ادبی دنیا میں مصنف کی حیثیت سے بھی شامل ہو چکا ہے۔ ذاکر فیضی کا تعلق اترپردیش کے شہر مرادآباد سے ہے اور فی الوقت دہلی میں وہ قیام پذیر ہیں۔ ذاکر فیضی تین دہائیوں سے لکھ رہے ہیں اور اردو کے معتبر رسائل و جرائد میں آپ کی کہانیاں، تنقیدی و تحقیقی مضامین مسلسل شائع ہوتے رہے ہیں، مزید پاکستان سے شائع ہونے والے افسانوی انتخاب سرخاب میں آپ کی ایک کہانی بھی شامل ہے۔


"نیا حمام" کی کہانیاں اسلوب، انداز، بیان اور ہیئت کے اعتبار سے ایک نیا احساس اور انفرادیت لیے ہوئے ہیں، جس میں فن کے لوازمات کا پاس اور تخلیقی رو کا بہترین استعمال ملتا ہے۔ ذاکر فیضی کی کہانیوں پر اجنبیت کا نقاب نہیں پڑا ہے بلکہ انہوں نے اپنے افسانوں میں جو تصویر دکھائی ہے وہ ہمارے آج کے معاشرے کا عکس ہے، ان پر قدامت و رجعت کا ٹھپہ نہیں لگایا جا سکتا۔ آپ کے قلم کے نیچے زمانہ کی نبض دھڑکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، جس نے ذاکر فیضی کو واقعی "فرضی کہانی کار" ہونے سے بچا لیا ہے۔ آپ کے افسانوں میں کشمکش اور دائمی اضطراب کی کیفیت ملتی ہے۔ ذاکر فیضی تجربے اور احساسات کی نئی صورتیں وضع کرتے ہیں جو زیادہ مانوس، زندگی سے قریب اور سچی معلوم ہوتی ہیں، افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے زندگی کو بہت قریب سے، گہری اور حساس نظروں سے دیکھا ہے۔


کتاب کی ابتداء میں غلام عباس نیر کی نظم "خواب کو موت آتی نہیں" شامل ہے، ایک صفحہ پر مشاہیر کے اقوال ہیں، اگلے صفحات پر رضی شہاب اور ڈاکٹر رغبت شمیم کے تاثرات کے علاوہ مصنف نے اپنے قلمی، تعلیمی اور لکھنے سے چھپنے تک کا مرحلہ طے ہونے کی مختصر روداد بیان کی ہے۔ پہلا افسانہ "نیا حمام" ہے اور یہی کتاب کا نام بھی ہے، جس میں ڈاکٹر فیضی نے میڈیا کے اس تاریک اور پوشیدہ حصے سے نقاب اٹھایا ہے جو آج عام ہو کر بھی ایک دائرہ میں قید محسوس ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے بوجھتے ہوئے اس سے نظر پھیر رہے ہوتے ہیں۔ کہانی میں مرکزی کردار گودی میڈیا ہے اور اسکرپٹ رائیٹر، رپورٹر، کیمرہ مین، چینل ایڈیٹر، این جی اوز کے صدر، فلاحی تنظیمیں اور ادارے، بزنس مین وغیرہ ایسے مہرے ہیں جو آنکھوں پر مفاد پرستی کی عینک چڑھا کر اپنا بھرپور رول ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جرم میں بھی جواز کی شکل ڈھونڈ لاتے ہیں۔ کہانی میں ٹی آر پی کے لئے میڈیا کی ان شرمناک حرکتوں کا بیان ہے جو انسانیت سے اعتماد اٹھانے کے لئے کافی ہے۔ معاشرے کے افراد میں مادیت پرستی کے عناصر ایسے پیوست ہو چکے ہیں کہ انسان جرم کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں کرتا اور ایسے طریقے اپناتا ہے جس سے سیاہ بھی سفید نظر آنے لگے۔ کہانی پڑھ کر قاری ایک بار چونکتا ضرور ہے۔ فیضی صاحب نے اتنی آہستہ روی سے یہ کہانی بنی ہے کہ قاری تشنج میں مبتلا ہو جائے، کہانی کی ابتدا چونکانے اور قاری کو باندھ لینے والی ہے جس کے اختتام پر ماں کی ممتا کا عکس دھندلا ہو جاتا ہے۔


افسانہ "ٹوٹے گملے کا پودا" انسانی رشتوں کی شکست و ریخت کی ایک مضطرب کہانی ہے، آج کا انسان محبت بانٹنا بھولتا جا رہا ہے جس سے نئے نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں، جو کسی زخم سے کم نہیں ہوتے، یہ افسانہ پدرم سلطان بود، بے جا انا اور خود فریبی کا عکاس ہے۔ "فنکار" ایک چبھتا ہوا افسانہ ہے، ہر شخص اپنے فن اور آرٹ کی آڑ لے کر اپنی تسکین اور مفاد دیکھتا ہے، وہ اذیت کی تصویر تو کھینچ دیتا ہے لیکن اذیت اس کے لئے ایک کہانی، ایک پینٹنگ اور ایک تصویر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، اصل فنکار تو وہ ہیں جو اس کرب سے گزرتے ہیں، خاموش مصائب کو جھیلتے ہیں اور ان کے خشک لبوں سے مسکراہٹ لمحہ بھر کو بھی نہیں بجھتی۔ یہ ایک تیزاب زدہ لڑکی کہانی ہے، جس میں کچھ نہ کہہ کر بہت کچھ کہہ دیا گیا ہے، مثلا ہزاروں سال سے عورتوں کا استحصال ہوتا چلا آرہا ہے لیکن اب اس کا طریقہ کار بدل گیا ہے، جس کی ذمہ دار عورتیں نہیں مرد خود ہیں، افسانہ کا ایک اقتباس پڑھئے اور غور کیجئے:
"چوتھے نے تینوں کو باری باری دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا: یہ تو حقیقت ہے کہ مردوں کے لئے استعمال ہونے والی چیزوں میں بھی لڑکیاں ہی نظر آتی ہیں، مگر کیا کبھی ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ان پروڈکٹ کی کمپنیوں کے مالک بھی زیادہ تر مرد حضرات ہی ہوتے ہیں، اور ایڈ بنانے والی ایجنسیوں کے مالک بھی مرد ہی ہوتے ہیں، آخر وہ کیوں لڑکوں کا استعمال نہیں کرتے، آخر پبلک تو وہی دیکھتی ہے جو کمپنیاں دکھاتی ہیں، اس اعتبار سے معاشرے کی گرتی ہوئی قدروں کے ذمہ دار عورتیں نہیں ہیں"۔


"ٹی او ڈی" کے عنوان سے لکھا گیا افسانہ، افسانہ نہیں بلکہ ہماری اور آپ کی حقیقی داستان ہے، یہ ان کی کہانی ہے جو خواب دیکھتے ہیں اور اس کا ٹیکس اپنی سانسوں سے ادا کرتے ہیں، یہ کہانی حکومت کی تانا شاہی اور من چاہے فیصلوں کو بیان کرتی ہے، جسے پڑھ کر گزشتہ سالوں کے واقعات ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں۔ "وائرس" ایک نفسیاتی قسم کی کہانی ہے، جس میں قاتل پر مقتول کے آخری جملے اثر انداز ہوتے ہیں اور وہ نفسیاتی الجھن، تناؤ اور بے چینی کا شکار ہوکر ایک زندہ لاش بن جاتا ہے۔


"اسٹوری میں دم نہیں ہے" بچوں سے زیادتی اور ان کے جسمانی استحصال پر مبنی ہے، ساتھ ہی نیوز رپورٹرس اور تھانے داروں کا بخیہ ادھیڑا گیا ہے، لیکن جملے بے ربط ہیں اور روانی سے خالی ہیں، کہانی بس ٹھیک ہے۔ "ہریا کی حیرانیاں" میں جمورا وقت کا استعارہ ہے، یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ "میں آدمی وہ انسان" اس کہانی میں بتایا ہے کہ آج بھی کچھ افراد ایسے ہیں جن کے اندر کا انسان ابھی بھی زندہ ہے اور وہ اس بھری پُری بے ڈول دنیا میں بغیر کسی غرض اور مقصد کے محض ہمدردی کے جذبہ سے لوگوں کا دکھ درد بانٹتے ہیں۔ "اتفاق" یہ ایک استعاراتی کہانی ہے، جس میں ترقی یافتہ گھرانے کے ماحول، بے حیائی، بڑھتی ہوئی بے شرمی اور ان خواتین پر بھرپور چوٹ کی ہے جو شوہر کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور ہر وہ کام انجام دے لینے کی ہمت رکھتی ہیں جو اپنے شوہر کے ساتھ نہیں کرتیں، کہانی کا اختتام دلخراش اور حیرت زدہ کرنے والا ہے۔


یادیں ہمیشہ ہمارا پیچھا کرتی رہتی ہیں، بطور خاص زمانہ طالب علمی کے ایام اور وہ جگہ جہاں یہ دن گزارے گئے ہوں شدت سے یاد آنے لگتے ہیں، بے جان چیزوں سے بھی آپ کو بعض وقت لگاؤ ہو جاتا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی بات بھی خوشی دیتی ہے۔ افسانہ "میرا کمرہ" اسی جذبہ اور احساس کی عکاسی کرتا ہے، آپ کے اندر کا ہنس مکھ اور کھلنڈرا جوان ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور کالج لائف کی مٹر گشتیاں دل کے کہیں کسی گوشہ میں چھپی بیٹھی رہتی ہیں۔ "جنگ جاری ہے" یہ افسانہ ضمیر، ایمان، شیطان، سچ، جھوٹ، حال، مستقبل کے ذریعہ بُنی گئی ہے، لفظوں کی بنت مزیدار نہیں ہے، البتہ کہانی ہمارے حال کی آئینہ دار ہے جس میں سماجی، معاشرتی و سیاسی منطر نامہ کی بھرپور تصویر کشی کی گئی ہے۔ "ہم دھرتی پر بوجھ ہیں" ایک عجب کہانی ہے جس کی ابتداء اور اختتام نرالا ہے، جس کا موضوع افلاس، پریشانی، کشمکش، تعصب، فرقہ وارانہ فسادات ہیں، ساتھ ہی افسانہ نت نئی بیماریوں لوگوں کی کسمپرسی، لاچاری و بیچارگی کو بیان کرتا ہے، یہ پورا افسانہ بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے جس کی آواز کی گونج وقتاً فوقتاً ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور سہتے رہتے ہیں۔ "عجوبہ کا عجائب گھر" یہ کہانی خاندانی شرافت، بے لوث محبت، خلوص اور اخلاقیات کا درس دیتی ہے۔ "گیتا اور قرآن" میں مطلب پرستی اور مفاد پرستی کو درشایا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کہانی کار فرضی قصوں میں مرچ مسالہ لگاکر، سچ وجھوٹ کا مکسچر کرکے اپنی مارکیٹ بنانے کے لئے کس طرح لوگوں کے جذبات سے کھیلتا ہے، حالانکہ قصے کا اختتام دوسرے رنگ اور ڈھنگ سے بھی کیا جا سکتا تھا۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
"پروفیسر صمدانی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا: بھئی بات یہ ہے کہ مارکیٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، بازار واد ہے، مارکیٹ کا زمانہ ہے، ڈیمانڈ اور سپلائی کا معاملہ ہے، آج کل ایسی ہی کہانیوں، افسانوں اور ناول کی ڈیمانڈ ہے، مارکیٹ ہے تو میرے ذہن نے اسی کو سپلائی کیا، انہیں لفظوں کے ساتھ پروفیسر صمدانی کی گاڑی آگے بڑھ گئی"۔


"آدی مانو" ریپ، لوٹ مار، عورتوں کے استحصال پر ایک اچھی کہانی ہے، آج کی جو صورت حال ہے وہ یقیناً زمانہ قدیم کی طرف ہمیں ڈھکیل رہی ہے۔ "مُردوں کی الف لیلی" نے مجھ پر ایک خاص تاثر قائم کیا، افسانہ کے اختتام پر لمحہ بھر کو سکتہ سا رہا، اس میں جیتے جاگتے شخص کو مردے سے، گھر کو قبر سے تشبیہ دے کر پریشانیوں اور مصیبتوں کو جن سے ایک انسان جھوجھتا ہے کیڑے مکوڑوں سے تعبیر کرتے ہوئے، پورا افسانہ بہترین پیرائے اور دلکش انداز میں لکھا گیا ہے، جس کے اخیر میں وہی مردہ یادداشت کھونے کا ڈرامہ رچتا ہے:
"مردہ اب جلد ہی گھبرا جاتا ہے، یہ دیکھ کر کہ بڑی بیٹی کی شادی کا قرض سر پر ہے، چھوٹی بیٹی جوان ہو چکی ہے، یہ دیکھ کر کہ بڑا بیٹا بے روزگار ہے، سرکاری نوکری کے علاوہ زندگی کی جنگ لڑنا نہیں چاہتا، یہ دیکھ کر کہ چھوٹے بیٹے کی پڑھائی ادھوری ہے، یہ دیکھ کر کہ قبر کا ایک تختہ گل گیا ہے"۔
دوست جاتے وقت مردے کی گود میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ڈال گیا، ٹکڑے پر لکھا تھا:
"ابے مردے! یادداشت کھوجانے کا ڈرامہ بند کردے، یہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔۔۔۔ یہ ڈرامہ میں خود پر آزما چکا ہوں"۔


"کوڑا گھر"، "ورثے میں ملی بارود"، "کلائمکس"، "اخبار کی اولاد" اور "بدری" میں لڑکی کی پیدائش پر اظہار نفرت، غربت، مفلسی، بے روزگاری، رشوت خوری، پولیس والوں کی کمینگی اور چھپری باز لونڈوں کی حرکتوں کا ذکر ملتا ہے۔ "کھڑکی لرزتی ہے" آج کے نوجوانوں کی محبت اور عشق پر ایک شاندار افسانہ ہے۔ "دعوت نون ویج" پڑھتے ہوئے لگتا ہے یہ کہانی بچوں کے لئے لکھی گئی ہے، لیکن پروٹسٹر، آتنک وادی جیسے الفاظ پڑھ کر یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے، بہرحال ایک عمدہ اسٹوری ہے، جس میں موجودہ صورتحال کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔


کتاب میں شامل افسانچے "جھٹکے کا گوشت"، "اکیسویں صدی کی داستان"، "دلہن"، "انسان کی موت" اور "کپڑوں میں پیشاب کرنے والے" اپنے اندر نیا پن اور انفرادیت لئے ہوئے ہیں۔ "اکیسویں صدی کی داستان" درد و کرب میں لپٹا ایک دلچسپ افسانچہ ہے، جس کا ایک جملہ نذر قارئین ہے:
"یہی کہ ان کے پیٹ میں روٹی ہے، بوڑھے نے یہ کہہ کر انٹلیکچوئلی کا بھاری گٹھر سر پر لاد لیا اور لرزتی، کانپتی سوکھی ٹانگیں آگے بڑھ گئیں"۔


ذاکر فیضی کہانی نہیں لکھتے ہیں تصویر میں رنگ بھرتے ہیں اور ساکت مجسمہ میں لفظوں سے روح ڈالنا آپ کے لئے کوئی مشکل عمل نہیں ہے، کمال تو یہ ہے کہ نہ صرف روح ڈالتے ہیں بلکہ ساکت مجسمہ کو بولنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ آپ کی کہانیوں کا کینوس بہت وسیع ہے جو بیک وقت کئی چیزوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، سیدھا صاف اسلوب، سلیس زبان و بیان چونکا دیتا ہے اور قاری اس میں محو ہو جاتا ہے جیسے کوئی الٹی سگریٹ بے خیالی میں ہونٹوں پر رکھ لے، تصنع اور تکلف میں لپٹی زبان اور لفاظی بگھار کر قاری اور کہانی کے بیچ کے تعلق کو بوجھل نہیں کرتے ہیں، یوں سمجھئے کسی نے سگریٹ کا کش لے کر سانس چھوڑی ہے اور دھواں اپنے حساب سے فضا میں تحلیل ہو رہا ہے۔
طباعت اور کاغذ عمدہ و دیدہ زیب ہے، کتاب کا جاذب نظر سرورق ایک معمہ معلوم ہوتا ہے جسے دیکھ کر ذہن کے کینوس پر مختلف شکلیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔


کتاب: نیا حمام
صنف: افسانہ
مصنف: ڈاکٹر ذاکر فیضی
سن اشاعت: 2020ء
مطبع: روشان پرنٹرس
صفحات: دو سو تین (203)
قیمت: ڈھائی سو روپئے
ملنے کا پتہ: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
***
ایس ایم حسینی۔ ندوہ کیمپس، ڈالی گنج، لکھنؤ۔

Email: hamzahusaini0981[@]gmail.com


Naya Hammam, collection of short stories by Zakir Faizi. - Book Reviewer: S. M. Husaini

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں