اردو کی اصلاح کا بیڑا - حافظ صفوان چوہان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-06

اردو کی اصلاح کا بیڑا - حافظ صفوان چوہان

urdu-ki-islaah

یہ پرویز مشرف دور کے بالکل شروع کی بات ہے جب مجھے اردو کے املا کی اصلاح کا پہلونٹھا دورہ پڑا تھا۔ اُن دنوں میرے بٹوے میں گھر کے سودا سلف کی پرچیوں کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی ڈائری ہوا کرتی تھی جس میں مختلف الاملا، مختلف الہجا اور مختلف التلفظ الفاظ کی فہرستیں ہوتی تھیں۔ حالت یہ تھی کہ اردو کے پروفیسروں میں سے بعض تو میرے سامنے آنے سے یوں کتراتے تھے جیسے ابنِ انشاء کے استادِ مرحوم کا حال لکھا ہے جو ناواقفان سے ترکاریوں کے انگریزی نام پوچھا کرتے تھے اور وہ بے چارے بغلیں جھانکا کرتے تھے۔ لاچار کیوں غلط ہے اور ناچار کیوں درست، لاپروا کیوں غلط ہے اور بے پروا کیوں درست، جواہر لال نہرو کیوں غلط ہے اور جواہر لعل نہرو کیوں درست، توتی کیوں بجتی ہے اور طوطیِ شکر مقال کا اتا پتہ کیا ہے، لبِ سڑک درست ہے یا بر لبِ سڑک، فوق البھڑک اور عظیم الڈان کیوں درست ہیں اور الپھول کیوں غلط، طریقِ کار کیوں درست ہے اور طریقۂ کار کیوں غلط، جھاڑو اور دہی مذکر ہیں یا مونث، دو ٹانگوں والی حافظہ کیوں مونث ہے اور یادداشت والا حافظہ کیوں مذکر، یادداشت اور کارروائی میں دو دال اور دو رائیں کیوں ہیں اور جانثار میں ایک نون کیوں، خوناب اور گلاب کیوں درست ہیں، گلاب کا پھول کیوں درست ہے اور شبِ قدر کی رات کیوں غلط، سہ روزہ لکھنے میں ہ کے نیچے ڈُنڈی کیوں نہیں لگتی اور محبوب کے تیرِ نظر کو سہہ جانے والی ہ اِس ڈُنڈی کی کیوں محتاج ہے، سیمینار اور سیمیں بدن نار میں کیا فرق ہے، او ری این ٹل اور اورینٹل میں سے کون سا درست ہے، جس کانفرنس میں بعض ناگوارا سکالروں سکالرائنوں کے مقالات کو کان سے پکڑ کر نکال دیا جائے اُسے کان فرنس کیوں نہ لکھا جائے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب اردو کا بیڑہ ڈوب رہا ہے تو حافظ صفوان اُس میں سے املا کا بیڑا کیوں اٹھائے پھر رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ میرے ہاتھ میں لفظ نوٹ کرنے والی ڈائری دیکھ کر یہ جملہ اُنہی دنوں اقبال اکادمی لاہور کے دفتر میں برادرم محمد سہیل عمر سے سرزد ہوا تھا کہ حافظ صفوان اصلاحِ املا کا بیڑا اٹھائے پھر رہا ہے۔


تو صاحبو، اِس معرکۃ الآراء فہرست میں پانچ سو سے قریب ایسی لفظیں تھیں جن پر بابایانِ اردو باہم معرکہ آرا تھے اور ایوانِ اردو میں مچھلی منڈی کا سماں تھا۔ میرا درست املا کی کتاب شائع کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے اور اردو والوں کو شرمندہ کرنے کا پروگرام قریب آ رہا تھا کہ جنابِ شان الحق حقی نے 31 جنوری 2004ء کو ایم ایس این ٹیکسٹ چیٹ میں بتایا کہ آپ کی بھیجی یہ فہرست مجھے کامل نصف صدی سے ازبر ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اِس فہرست میں سے ہر ایک لفظ پر فلاں فلاں سے رائے لے لیجیے اور املا و تلفظ کی جس صورت و صوت پر آپ کا دل مطمئن ہوجائے اُسے شائع کرا لیجیے؛ ویسے آپ اِس فہرست کو موجودہ حالت میں ہی شائع کرا دیں تب بھی ٹھیک ہے۔ روزانہ کے اعتبار سے بڑھتی اِس فہرست کے بننے کی صورت بھی یہ ہوئی تھی کہ جنابِ مشفق خواجہ، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر خورشید رضوی اور رشید حسن خاں سے لے کر خان محمد احسن خاں، ڈاکٹر وحید قریشی اور جنابِ افتخار عارف وغیرہ وغیرہ تک سبھی سے کچھ نہ کچھ پوچھ رکھا تھا۔ بلکہ افتخار عارف صاحب نے ایک بار "ٹھیکی لینا" کا محاورہ بولا جو میں نے فوراً ڈائری میں نوٹ کیا تو اُن پہ میری اِس عادت کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ یہ کام کتنا آسان اور سیدھا تھا، اِس کا اندازہ اِس سے کیا جاسکتا ہے کہ کتاب مکمل تو آج تک نہ ہوسکی البتہ اِس کا لفظیات والا ابتدائی حصہ کہیں جاکر 2011ء میں "اردو کے نئے، اہم اور بنیادی الفاظ" کے نام سے چھپا۔
یہ 2 فروری 2004ء کی بات ہے جب دنیا بھر میں مسلمان بڑی عید منا رہے تھے تو میں نے دو دن لگاکر مختلف لوگوں کو فون پر عید کی مبارک دینے کے بعد اِس فہرست پر استصواب کیا۔ روداد بڑی دلچسپ ہے لیکن اِس کا صرف وہ حصہ پیش کروں گا جو بعد ازاں ای میلز وغیرہ میں اِدھر اُدھر ڈسکس کیا جاتا رہا، یا میں پہلے بھی کہیں نہ کہیں لکھ چکا ہوں۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر فیسبک کی آمد سے پہلے بھی مجھے پڑھتے رہے ہیں اُنھیں اِس طویل تحریر میں شاید کوئی نئی چیز نہ ملے۔ البتہ جو تفصیلات پہلے مختلف مضامین میں لکھ رکھی ہیں اُن کو دوبارہ لکھنا تکرار ہے جس کی ضرورت نہیں۔


عید کے دن پہلا فون جنابِ مختار مسعود کو کیا۔ اُن کے پاس زیرِ بحث فہرستِ الفاظ کا ایک پرنٹ آؤٹ موجود تھا جو میں نے اُنھیں چند دن پہلے لاہور جاکر پیش کیا تھا۔ اُس دن اُنھوں نے مجھے جنابِ رشید حسن خاں کی بھیجی "کلاسیکی ادب کی فرہنگ" دکھائی اور "زٹل نامہ" کا بتایا تھا؛ اِن دونوں کتابوں کو شائع ہوئے ابھی بمشکل ڈیڑھ دو ماہ ہوئے تھے۔ اُنھوں نے فہرستِ الفاظ میں سے مختلف اردو الفاظ و تراکیب پر رائے دینے کے ساتھ ساتھ انگریزی کے دخیل اور مستعار لفظوں پر ٹھکتی رائے دی۔ فرمانے لگے کہ جو لفظ انگریزی میں مختلف Syllables کے باوجود اکٹھے لکھے جاتے ہیں اُنھیں اردو رسمِ خط میں بھی اکٹھا ہی لکھا جائے، اور ترقیِ اردو بورڈ انڈیا کے "املا نامہ" سے دیکھ کر بتایا کہ اِن لوگوں نے گلکرسٹ، ٹیلیوژن، یونیورسٹی اور سیمینار وغیرہ کو اکٹھا لکھ کر درست تجویز دی ہے۔


جنابِ مختار مسعود نے مزید بتایا کہ انسانی ناموں اور شہروں ملکوں کے ناموں کو ویسے ہی لکھنا چاہیے جیسے وہ معروف یعنی ہماری آنکھیں اُن سے آشنا ہیں مثلًا امریکہ، افریقہ۔ ہم افریکا اِس لیے نہیں لکھ سکتے کہ اردو میں اِس کے یہ ہجے معروف نہیں ہیں۔ ہم امریکہ میں C کو ک لکھتے ہیں لیکن Constantinople میں C کا حرف ق کی آواز کے لیے لایا گیا ہے۔ کوئی اصولی اگر اِس بنیاد پر امریکہ کو امریقہ لکھنے کی تجویز دے تو اُسے مذاق ہی کہا جائے گا۔ میں نے اپنی معلومات کے دریا میں آنے والی طغیانی کی لہر کو بہانے میں دیر نہیں کی اور فوراً عرض کیا کہ اردو والوں نے ملک ہنگری کا ترجمہ مجارستان کر رکھا ہے۔ اِس پر ہنسے اور کہنے لگے کہ عزیزم، مجارستان ہنگری کا اردو ترجمہ نہیں بلکہ دراصل Magyarország (تلفظ: مے یارور سیگ) کا قریب ترین فارسی و اردو تلفظ ہے۔ اِسے لغت میں دیکھیے گا۔


اُن دنوں مائیکرو سافٹ لوکلائزیشن پراجیکٹ پر کام شروع تھا تو میں نے اِس حوالے سے اردو میں بعض متبادل اصطلاحات بھی دریافت کیں۔ جنابِ مختار مسعود فرمانے لگے کہ ملکوں ملکوں چلنے والی سیاسی اور سائنسی اصطلاحات کے اردو ترجمے کی اوّل تو ضرورت نہیں لیکن اگر کرنا ہی ہو تو اِن کے لیے متبادل لفظ علاقائی زبانوں یا فارسی کے معروف لفظوں میں سے تلاش کیے جائیں، کیونکہ اصطلاحات کے اِن تراجم کی ضرورت صرف مقامی ہے نہ کہ عالمی۔ مزید فرمایا کہ کسی بھی اصطلاح کے لیے متبادل بھاری بھرکم عربی لفظ لانا درست نہیں کیونکہ عوام ایسے لفظوں کو قبول نہیں کرتی۔ عرض کیا کہ ہمارا تو قومی ترانہ بھی فارسی میں ہے اِس لیے فارسی سمجھنے میں ہمیں مشکل نہیں ہوتی۔ فرمانے لگے کہ ہمارے قومی ترانے کی شاعری فارسی نہیں اردو ہے اور اِس میں اردو ہی کے لفظ شامل ہیں۔ ہر وہ لفظ اردو ہے جو اردو والے بول رہے ہیں۔
اگلا فون قبلہ یوسفی صاحب کو کیا۔ اُنھوں نے مجھ سے تجربہ اور کرشن چندر کا تلفظ دریافت کیا۔ میں نے درست بتایا تو اِس امتحان میں پاس ہونے کی پاداش میں مجھے لفظ بھیانک کا اشتقاق بتایا۔ اُن کی آواز بَھے کا لفظ بولتے ہوئے خاصی ڈراؤنی ہوگئی تھی۔ پھر اپنے ایک نودریافتہ لفظ "دِرڑھ" اور اِس کے مشتقات کے بارے میں مزے لے لے کر بتایا اور فرمایا کہ مجھے اِس کا مصداق قائدِ اعظم محمد علی جناح کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔ کہنے لگے کہ لفظ سنبھال کر استعمال کرنے چاہییں کیونکہ اِن کی حرمت ہوتی ہے اور ہر لفظ ہر کسی کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔


یوسفی صاحب نے فرمایا کہ اردو املا کی معیار بندی ضرور ہونی چاہیے لیکن بہت سے لفظوں کا متبادل املا بھی ہوتا ہے جو بسا اوقات صرف آواز اور موقع کے فرق سے بنتا ہے۔ اِس کی مثال دی کہ لفظ "بے چارہ" ڈکشنری کا لفظ ضرور ہے لیکن اگر یہ کسی مکالمے میں لکھا ملے گا تو وہاں اِس کا املا "بچارہ" ہوگا، جو کہ درست ہے۔ پھر پطرس بخاری کے بارے میں بتایا کہ اُن کے نزدیک لفظوں کا املا اُن کی صورت ہوتا ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں چنانچہ کسی لفظ کو شکل سے بے شکل نہیں کرنا چاہیے۔ کہنے لگے کہ بکرے کو ذبح کرکے بوٹی بوٹی کرلینے کے بعد اُسے بکرا نہیں کہا جاسکتا (بکرے کا ذکر اِس لیے در آیا کہ یہ بکرید کا دن تھا۔) بہترین، بہرحال اور بخوبی جیسے الفاظ کو توڑ کر لکھنے پر وہ سخت نالاں اور خفا تھے۔ اصل میں اُن دنوں اُن کی کتابوں کا مجموعہ چھپنے والا تھا۔ ایک کمپوزر کی کوشش تھی کہ مجموعۂ یوسفی کو ابتدائی سکولوں کے بچے بھی ہجے اور جوڑ کرکے پڑھ سکیں جس پر یوسفی صاحب سخت جزبز تھے اور اٹھتے بیٹھتے اُس کی صفت سرائی فرمایا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ پچھلے دنوں ڈاکٹر صابر کلوروی کے ہاں پی ایچ ڈی اردو کے ایک تھیسس میں خاندان کو خان دان لکھا میں نے بچشمِ خود دیکھا ہے۔ اِس پر اُنھوں نے ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی شان میں ایک فی البدیہہ نثری قصیدہ نونیہ عطا فرمایا ۔ یہ قصیدہ صرف سینہ گزٹ میں چلتا ہے اور مستحق شائقین کو عند الطلب سنایا جاسکتا ہے۔
املا کی معیار بندی پر یوسفی صاحب نے بات جاری رکھی۔ کہنے لگے کہ حقی صاحب کے لغت (فرہنگِ تلفظ) کے اندراجات میں بعض لفظوں کا متبادل املا موجود ہے یا نہیں؟ عرض کیا کہ بالکل ہے۔ فرمایا یہ کافی ثبوت ہے اِس بات کا کہ اردو کے املا میں نیرنگی رہے گی اور ساری اردو دنیا کسی ایک املا پر کبھی متفق نہ ہوگی۔


جنابِ شان الحق حقی کا ذکر آیا تو یوسفی صاحب کہنے لگے کہ حقی بھی تو کنیڈا جا بیٹھے ہیں اِس لیے اُن سے ملاقات نہیں ہوتی، اور ڈکشنریاں ڈھو لانے والا وہ واقعہ سنایا جو بعد ازاں "شامِ شعریاراں" میں حقی صاحب والے مضمون میں چھپا ہے۔ اِسے وہیں پڑھ لیجیے۔ پھر کہنے لگے کہ میاں، بعض لوگوں کے لیے ہجرت ہی میں عافیت ہوتی ہے۔ حقی صاحب اگر پاکستان چھوڑ نہ گئے ہوتے تو نہ فرہنگِ تلفظ مکمل کر پاتے اور نہ اوکسفرڈ ڈکشنری۔ (حقی صاحب کی اوکسفرڈ انگریزی-اردو لغت کو مکمل ہوئے کچھ ہی مہینے گزرے تھے۔ اُنھوں نے اُس کی بعض فائلیں میرے ساتھ شیئر کی تھیں اور کچھ کام بھی ذمے لگایا تھا۔ اِسی طرح اوکسفرڈ اردو-اردو لغت کی بھی، جو ابھی تک مکمل نہیں ہوپایا۔)
اُس روز یوسفی صاحب نے آخری بات یہ دریافت کی کہ آپ نے اپنے والد صاحب کا مجموعۂ کلام (پانی میں ماہتاب) اب تک کیوں شائع نہیں کیا۔ میں نے عدیم الفرصتی کا عذر کیا تو فرمانے لگے کہ میاں، مصروفیت خدا کی نعمت ہے۔ فارغ آدمی کو کوئی کام نہیں ملتا۔ اِسی مصروفیت میں چلتے چلاتے جو ہوسکے کر گزریے۔


ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کو فون کیا تو اُنھوں نے بتایا کہ املا کی معیار بندی ہونی چاہیے لیکن املا کا انتشار صرف اردو میں نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ بہت سی زبانوں میں ایک ہی لفظ کے دو دو املا باقاعدہ موجود ہیں جو لغات کا بھی حصہ ہیں۔ اُنھوں نے انگریزی کے بعض لفظوں میں L اور ڈبل L کی اور کچھ اور مثالیں دیں۔ پھر بتایا کہ ہندی میں تو الفاظ کے تین تین املا نہ صرف لغات میں لکھے ہیں بلکہ بولے بھی جاتے ہیں، اور یہ اختلاف لفظ کے شروع، درمیان اور آخر تینوں جگہوں پر آتا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اردو اور ہندی میں بہت سے لفظوں میں ی اور الف آپس میں بدل جاتے ہیں مثلًا کیسے/ کاسے، ی اور واؤ آپس میں بدل جاتے ہیں مثلًا میرا/ مورا، وغیرہ۔ اِسی طرح اُنھوں نے ب اور واؤ کی اور ل اور ر کی باہم تبدیلی کی بعض مثالیں دیں اور بتایا کہ اردو و ہندی میں مثلًا اسمِ مکبر و مصغر کی ایسی صورتیں ملتی ہیں جو صرف اِنہی زبانوں سے خاص ہیں جیسے میت سے متوا، کلیجہ سے کلَجوا، مرلی سے مُرَلیا، آم سے امبیا/ اموا، بانسری سے بنسی، وغیرہ۔ فرمانے لگے کہ یہ سب ڈکشنری کے لفظ ہیں۔


اردو املا کی معیار بندی سے متعلق خواجہ صاحب کا کہنا تھا کہ معیار بندی کا مطلب یہی ہے کہ زیادہ تر لوگ ایک انداز اور صورت میں لکھیں، لیکن اِن مختلف املاؤں کو ڈکشنری اور بول چال دونوں سے ختم کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ لفظوں کو لوگ بولتے برتتے رہیں گے تو اِن میں تبدیلیاں آتی ہی رہیں گی۔ لفظوں کا املا اور تلفظ ایک سے زائد ہونا زبان کے زیادہ چلن کی علامت ہے، جو ایک اچھی بات ہے نہ کہ اِس سے پریشانی ہونی چاہیے۔
خواجہ صاحب نے اردو کے رسمِ خط میں کچھ اِعراب کی شمولیت پر زور دیا اور بتایا کہ اردو میں مثلًا pen میں آنے والے e کے لکھنے کے لیے اردو میں کوئی علامت نہیں ہے۔ یہ علامت ضرور بنانی اور رواج میں لانی چاہیے کیونکہ اِس آواز والے بے شمار لفظ اردو میں داخل ہوچکے ہیں۔ اُن کی Urdu for Beginners کا ذکر بھی اُن دنوں کئی بار ہوا۔


میں نے خواجہ صاحب سے اردو-انگریزی ترجمے کے لیے سب سے اچھے لغت کا پوچھا اور کلیم الدین احمد کے مرتَّبہ چھہ جلدی لغت کے بارے میں اُن کی رائے دریافت کی۔ اُنھوں نے کہا کہ مجھے تو سب سے اچھا یعنی کارآمد لغت پلیٹس کا لگا ہے۔ کلیم الدین احمد کے لغت کے بارے میں بتایا کہ میں نے سب سے پہلے منگوایا تھا انڈیا سے، لیکن اِس سے موقع کا لفظ کئی بار تلاش کیا تو نہ ملا اِس لیے اب اِسے نہیں کھولتا۔
لغت میں الفاظ کے استناد سے متعلق بات ہوئی تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ صحتِ زبان کی سند صرف شعر سے نہیں لی جاسکتی کیونکہ شاعر تو لفظ کے املا اور تلفظ دونوں کو شعری ضرورت کے مطابق کم و بیش بھی کرتا رہتا ہے، اور استاد شعرا بھی ایسا کرتے ہیں۔ البتہ شعر سے مذکر مونث کی سند ضرور لی جاسکتی ہے۔ اُنھوں نے بعض شعر سنائے جن میں استاد شعراء نے ضرورتِ شعری سے الفاظ کی تخفیف یا تفریس/ تورید وغیرہ کرکے یعنی مصوتے گھٹا بڑھا کر یا مصمتے قریب ترین آواز والے حروفِ تہجی سے بدل کر "نئے" لفظ بنا رکھے ہیں چنانچہ یہ الفاظ اپنے معیاری املا و تلفظ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ آج اُنھوں نے تفصیل سے سمجھایا کہ اِن الفاظ کے یہ ہجے غلط ہجے (Misspelling) نہیں ہیں۔


ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب سے عربی کے بعض لفظوں کا املا پوچھا جو اردو میں استعمال ہوتے ہیں۔ اُنھوں نے نشاۃِ ثانیہ کا بتایا کہ عربی میں اِس کا درست املا النشاۃ الثانیۃ ہے جسے اردو والوں نے سہل کرکے فارسی طریقے سے نشاۃِ ثانیہ بنا لیا ہے اور اِسے نشا تے سانیہ بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ اور اِس کا یہ تلفظ خالص اردو کے ہیں چنانچہ اردو میں اِس کا درست املا و تلفظ یہی ہے۔ مزید بتایا کہ نشاۃِ ثانیہ کو جن معنی میں اردو میں برتا جاتا ہے، عربی میں یہ اُن معنی میں مستعمل نہیں ہے۔ پھر میں نے لفظ ثقاہت کے بارے میں دریافت کیا تو بتانے لگے کہ ثقاہت بذاتِ خود غیر ثقہ لفظ ہے کیونکہ اِس کا مادّہ و ث ق ہے جس میں ہ کو دخل نہیں۔ لیکن اردو میں ثقاہت جن معنی میں چل پڑا ہے اُس سے عوام کو روکا نہیں جاسکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ آپ یہ لفظ استعمال نہ کیجیے۔ میں نے عربی کی ناقدری پر تاسف کیا تو اُنھوں نے ہنستے ہوئے فرمایا کہ جب آدمی نئی نئی اردو لکھنی سیکھتا ہے تو بہت بھاری بھاری عربی الفاظ لکھتا ہے۔ آپ بھی یہی کر رہے ہیں۔ اُن دنوں میں نے کسی مضمون میں عربی کی کہاوت طابق النعل بالنعل استعمال کی تھی جس کی مثال اُنھوں نے کہیں پر دی تھی۔
پھر میں نے کئی لفظوں کے تلفظ پوچھے جن میں سے اُس روز اخراجات بمعنی خرچہ (Expenditure) میں الف کی حرکت کا بھی دریافت کیا۔ خورشید رضوی صاحب نے فرمایا کہ یہ اردو کا اپنا لفظ ہے اِس لیے اِس کا تلفظ بھی اردو والے جیسے چاہیں کریں، تاہم جن معنی میں یہ استعمال ہو رہا ہے اُن کے لیے الف کے نیچے زیر یعنی اِخراجات بہتر ہے۔ Folk Etymology والے عربی الفاظ یعنی وہ لفظ جو عربی ڈکشنری کے لفظ نہ ہوں اُن کا تلفظ مقامی لوگ جیسے چاہیں کرلیں۔
ڈاکٹر خورشید رضوی نے اُس دن آخری بات یہ کی کہ مجھے اردو کا رسم الخط شدید خطرے میں نظر آ رہا ہے۔ پہلے تو صرف دکانوں کے سائن بورڈز سے مسئلہ ہوتا تھا لیکن اب تو ہر ہاتھ میں موبائل فون ہے اور ہر کوئی رومن حروف میں اردو لکھ رہا ہے اِس لیے اردو الفاظ کے ہم صوت یا قریب الصوت حروفِ تہجی (ق/ک، ص/س/ث، ذ/ز/ض/ظ، ا/ع/ء) کو لکھنے کے لیے ایک ہی رومن حرف استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ چلے گا تو لوگ ذرا/زرا اور زیادہ/زیادہ وغیرہ وغیرہ کا فرق بالکل بھول جائیں گے۔


جنابِ شمس الرحمٰن فاروقی سے بات ہوئی اور بعض الفاظ کا املا پوچھا تو اُنھوں نے رومن اردو کا قصہ چھیڑ دیا کیونکہ چند دن پہلے اُن سے ای میل میں رومن سکرپٹ پر بات چل رہی تھی۔ فرمانے لگے کہ جہاں ضروری ہو وہاں رومن اردو ضرور استعمال کی جائے لیکن یہ سوچ درست نہیں ہے کہ اردو کو رومن میں لکھنے سے اردو مر جائے گی یا اردو کا موجودہ رسم الخط زبان کے سیکھنے میں مشکل پیدا کرتا ہے۔ فرمایا کہ ہر رسم الخط نامکمل ہے سمیت اردو کے روایتی اور رومن رسم الخط کے۔ اردو کا روایتی رسم الخط اگر ناکافی ہے تو رومن اِس سیر پر سوا سیر ہے اور الفاظ کا سوا ستیا ناس کرتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ آپ نے اردو املا پر خاصی بحث کی ہے اور اردو لغت بورڈ کے لغات پر سب سے اچھی تنقید تو آپ ہی نے کی ہے، تو آپ اردو املا کی معیار بندی پر باقاعدہ لکھیے۔ فاروقی صاحب فرمانے لگے کہ میاں مجھے اور بہت سے کام ہیں۔ اردو کا املا درست کرانا بے ثمر مشقت اور کارِ خر ہے۔ املا پر کام جو لوگ کر رہے ہیں وہ کرتے رہیں، ساری زندگی گزار کر بھی وہ یہی دیکھیں گے کہ جہاں سے چلے تھے وہیں پہ کھڑے ہیں۔
اردو میں اصطلاحات کے ترجمے کے بارے میں فاروقی صاحب نے کہا کہ یہ خوامخواہ کی مشقت ہے؛ جو لفظ جہاں سے آیا ہے وہ اکیلا نہیں آیا بلکہ اپنے ساتھ کوئی چیز یا کوئی خیال لے کر آیا ہے اِس لیے اُسی اصطلاح کو استعمال کرنا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صاحب کو ایک ملک میں زید کہا جاتا ہو اور دوسرے ملک میں بکر۔ ایک انسان کا ایک ہی نام ہوا کرتا ہے۔ مزید کہا کہ اصطلاحات تو اصل زبان ہی کی استعمال کی جائیں لیکن باقی بات اور لکھائی اپنی زبان میں یعنی اردو میں کی جائے۔


اردو کے حروفِ تہجی کے بارے میں فاروقی صاحب کی رائے تھی کہ اِن کی تعداد 38 ہے۔ وہ ہائیہ آوازوں کو حروفِ تہجی کی گنتی میں شامل کرنے کے سخت خلاف تھے۔ پھر وہ اردو کے لغات کا حال بتاتے رہے کہ ڈاکٹر فیلن اور پلیٹس سے لے کر بابائے اردو اور آج حقی صاحب سمیت کسی نے اب تک اردو کے لغت کے لیے سرلفظ کی حتمی Definition نہیں کی۔ جب لفظ کی تعریف ہی مکمل نہیں ہے تو املا اور تلفظ پہ کاہے کو روتے ہیں۔
ڈاکٹر وحید قریشی کو فون کیا تو بات اردو کے املا اور حروفِ تہجی سے آگے بڑھ کر شخصیتوں اور اُن کی حرکتوں کی طرف رخ کرگئی اور دور تک نکل گئی۔ اِس دریائے تند و تیز کے اترتے اترتے آخر میں میں نے لگے ہاتھوں پوچھ لیا کہ آپ کی مقتدرۂ قومی زبان کی چیئرمینی کے دنوں میں ہونے والے قومی سیمینار برائے املا و رموزِ اوقاف کی سفارشات نامکمل سی ہیں۔ کہنے لگے کہ جن لوگوں نے اُن سفارشات کو مرتَّب کیا تھا وہ بھی اُن پر عمل نہیں کرتے تو کوئی اور کیوں کرے؟ اصل میں اِن میں سے کئی سفارشات سارے پڑھے لکھوں کو ان پڑھ بنانے کی کوشش تھیں۔ میں خود بھی اُن میں سے کچھ سفارشات پر عمل نہیں کرتا۔
میرے ابا جان نے باجی نزہت کو ایم اے میں لانجائنس کے رسالے On the Sublime کا اردو ترجمہ "ارفعیت کے بارے میں" کرنے کے کام کی نگرانی کی تھی اور میں اُن دنوں یہ مقالہ ڈاکٹر صاحب سے شائع کرانے کی سبیل کر رہا تھا۔ اُس دن اِس موضوع پر بھی بات ہوئی۔ کہنے لگے کہ یہ ترجمہ بہت اچھا ہے اور بڑی محنت سے کرایا ہوا کام ہے ورنہ ایم اے کے مقالوں میں ایسی قابلیت کا کام نہیں ملتا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کو فون کیا اور اُن سے پرانی اردو کے بعض لفظوں کا اور انگریزی کے بعض لفظوں کا اردو رسمِ خط میں لکھنے کو پوچھا۔ فرمانے لگے کہ اگر ترقیِ اردو کونسل انڈیا، مقتدرۂ قومی زبان پاکستان اور اردو لغت بورڈ کراچی تینوں مل کر ایک سیمینار اور ورکشاپ منعقد کرلیں اور مشترک سفارشات پیش کریں تو املے میں یکسانی لائی جاسکتی ہے۔ چند سو لفظ ہیں جن کے املوں میں دو رائی ہے۔ اِن سب کا ایک فیصلہ کرکے بڑے اخباروں اور ٹی وی اور سکول کی سطح پر املے کی وہی صورت لکھوانا لازمی کر دیا جائے تو چند سال بعد املے کی رنگا رنگی ختم ہوجائے گی۔


اردو کے حروفِ تہجی کی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جالبی نے کہا کہ اردو ہمارے اندلمانی کلچر کی پیداوار ہے اور میں بابائے اردو کے بتائے ہوئے 50 حروفِ تہجی کی تائید کرتا ہوں، لیکن اصل میں تو اب سافٹ ویئر طے کرے گا کہ حروفِ تہجی کتنے ہونے چاہییں۔ سچ پوچھیے تو مجھے تو 38 حروفِ تہجی والی تختی یاد ہے اور اِس میں کوئی اضافہ میں یاد نہیں رکھ سکتا۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے بات ہوئی تو اُنھوں نے کہا کہ ہم اگر اردو میں موجود عربی لفظوں کو اصول کے مطابق لکھنے کو لازم کرلیں تو اردو کے املا میں معیاریت ازخود آجائے گی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ عربی رسم الخط کی وجہ سے اردو کے حروفِ تہجی بنیادی طور عربی ہیں اِس لیے اردو کا املا ہے ہی عربی۔ تو جب بنیاد ٹھیک بیٹھ جائے گی تو اِس پر کھڑی کی جانے والی عمارت درست استوار ہوگی۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے خیال میں اردو کے حروفِ تہجی کی تعداد 49 ہے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ تقسیم کے بعد بدلے ہوئے سیاسی منظر نامے میں اردو کا الگ تشخص ضروری ہے اور اِس لیے اِس کا ہندی سے الگ ہونا ہی بہتر ہے۔


ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی کو دنیا اب صرف نعت کے حوالے سے جانتی ہے جب کہ وہ اصلًا باقاعدہ لنگوئسٹ تھے۔ اُن سے بات ہوئی تو فرمانے لگے کہ اردو کے لفظوں اور رسمِ تحریر کو سماجی لسانیات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ اردو کے حروفِ تہجی کی تعداد بھی اُتنی ہی ہے جتنی شروع سے چلتی آ رہی ہے یعنی 38، اور ہائیہ آوازیں حروفِ تہجی میں شامل نہیں ہیں۔ اُنھوں نے رواجِ عام ہی کو زبان کا درست املا اور درست تلفظ قرار دیا اور کہنے لگے کہ سماجی لسانیات کے اصول کے تحت ہر بارہ کوس پہ بولی بدل جاتی ہے۔ چنانچہ ایک لفظ اگر کراچی میں مذکر بولا جاتا ہے اور لاہور میں مونث، تو یہ دونوں درست ہیں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ کراچی کے اندر بھی اگر ایک علاقے میں کسی لفظ کا تلفظ اور جنس مختلف ہے اور دوسرے میں مختلف، تو سماجی لسانیات کے سائنسی اصول سے یہ بھی بالکل درست ہے۔


میں نے کشفی صاحب سے پوچھا کہ چیونٹی کا کون سا تلفظ درست ہے: چیوں ٹی/ چے انٹی/ چے ینٹی/ چیں ٹی۔ اُنھوں نے پوچھا کہ آپ کی نانی کہاں کی رہنے والی ہیں؟ آپ کی دادی کہاں رہتی ہیں؟ آپ نے یہ لفظ اِن دونوں سے کیسے سنا؟ عرض کیا کہ دادی کو تو میں نے دیکھا نہیں لیکن وہ دوراہا منڈی پٹیالہ کی تھیں، البتہ نانی جالندھر کی تھیں اور وہ "چیوں ٹی" بولتی تھیں۔ کشفی صاحب نے فرمایا کہ کئی ہزار کلومیٹر پر پھیلے اِس جغرافیے میں ایک لفظ چار نسلوں سے جس تلفظ کے ساتھ بولا جا رہا ہے تو اِس کا تلفظ لغت سے دیکھ کر درست کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا پون صدی کے عرصے سے اِتنے بڑے علاقے میں بولا جانے والا تلفظ بجائے خود سند نہیں بن جاتا؟ اپنی زبان پر فخر کیجیے اور کوئی لفظ جیسا آپ کے ماحول میں بولا جاتا ہے اُس تلفظ اور اُس املا کا خون نہ کیجیے۔ لسانی ثقافت کا مطلب لسانی رنگا رنگی ہے۔ زبان کے چمن کو اختلاف ہی سے زینت ملتی ہے۔
ڈاکٹر کشفی کے نزدیک اردو کے حروفِ تہجی کی تعداد 56 تھی۔ وہ فرماتے تھے کہ اردو والوں کے منہوں سے جتنی آوازیں نکل رہی ہیں اُن سب کے لیے نمائندہ حروفِ ہجا ہونے چاہییں۔


کراچی میں ڈاکٹر اسلم فرخی سے بھی بات ہوئی۔ اردو املا کی معیار بندی کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو قومی جذبے کے ساتھ یہ مسئلہ ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے ڈپٹی نذیر احمد کے رسالے "رسم الخط" کا ذکر کیا اور کہا کہ اُن کی بنائی ہوئی مشقی تختیاں اردو لکھائی سیکھنے کے لیے آج بھی بہت کام دے سکتی ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ڈپٹی صاحب نے اپنے رسالے کا نام "رسم الخط" غلط لکھا ہے کیونکہ اِس میں رسم الخط نہیں بلکہ املا کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ غالبًا اِس کی وجہ یہ ہو کہ جن دنوں یہ رسالہ لکھا گیا وہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں ہندوؤوں نے اپنی زبان کے رسم الخط کے لیے اردو کے مقابلے میں سیاسی تحریک اٹھا دی تھی۔ اُنھوں نے میرے خیال سے اتفاق کیا۔ اِس فون سے چند دن پہلے میں نے ڈاکٹر فرخی کی مرتَّبہ"اردو کی پہلی کتاب" کی لفظ شماری کا کام کیا تھا اور اب اِس پر تعلیمی کارپس کے حوالے ایک مضمون لکھنے کا سوچ رہا تھا۔ بعد ازاں یہ مضمون مکمل ہوا اور بڑی جامعات میں سے اردو کے کسی ریسرچ جرنل میں شائع بھی ہوا۔ حوالہ سرِ دست یاد نہیں۔


جنابِ مشفق خواجہ نے بتایا کہ لوگوں کا املا درست کرانے کے بجائے اپنا املا درست کیجیے اور لوگوں کا تلفظ درست کرانے کے بجائے اپنا تلفظ درست کیجیے اور پھر اِن کی ہمیشہ پابندی کیجیے، لوگ آپ کا لکھا دیکھ کر اپنا املا اور آپ کی گفتگو سن کر اپنا تلفظ خود ٹھیک کرنے لگیں گے۔ اِس سے زیادہ عملی اور فوری صورت املا میں معیاریت لانے اور زبان کی درستی کی کوئی اور میرے ذہن میں نہیں آتی۔ اردو والوں میں ہر وقت چند لوگ ایسے موجود ہونے چاہییں جنھیں ادب کے اعلیٰ ذوق کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی آتی ہو اور جن کی زبان کو بھی سند سمجھا جاتا ہو۔ اِس وقت ایسے لوگوں میں سرِ فہرست مختار مسعود، یوسفی اور حقی صاحب ہیں۔
ڈاکٹر صابر کلوروی نے بتایا کہ درست املا کے چھوٹے چھوٹے کتابچے زیادہ بہتر نتائج دے سکتے ہیں بجائے اِس کے کہ موٹی موٹی کتابیں لکھی جائیں یا اردو کے لیے بڑی بڑی کانفرنسیں اور سیمینار کیے جائیں۔ فرمانے لگے کہ رشید حسن خاں صاحب کے مجوزہ املا کا بمشکل دس فیصد درست ہے، باقی سب کا سب اُن کی اپنی آراء ہیں جن سے متفق ہونا اور نامتفق ہونا اردو لکھنے والوں کا اپنا جمہوری حق ہے۔
برطانیہ میں ڈاکٹر الٰہی بخش اختر اعوان سے بات ہوئی تو اُنھوں نے لسانیات کا باقاعدہ پرچہ ماسٹرز لیول پر ہر زبان کے کورس میں شامل کرنے ضرورت پر گفتگو کی۔ کہنے لگے کہ لوگ لسانیات کو صرف انگریزی یا صرف اردو سے متعلق سمجھتے ہیں جب کہ یہ ایک الگ شعبۂ علم ہے۔ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں میں ماسٹرز کرنے والوں کو ایک لازمی پرچہ لسانیات کا پڑھانا چاہیے۔ اُن کے نزدیک ہائیہ آوازیں اردو کے حروفِ تہجی میں شامل نہیں تھیں۔
جنابِ عبداللہ حسین سے بات ہوئی تو فرمانے لگے کہ املا کی معیار بندی تو بعد کی بات ہے، آپ اردو پڑھنے کا شوق اور ضرورت تو پیدا کیجیے۔ جو حالات جا رہے ہیں اُن سے تو محسوس ہوتا ہے کہ اگلی نسل اردو کے موجودہ رسمِ خط سے اُتنی ہی واقف ہوگی جتنی آج کل اخلاقیات سے ہے۔


جنابِ عبدالعزیز خالد نے بتایا کہ اردو کے املا میں معیار بندی کے لیے عربی اور فارسی الفاظ کا درست املا سمجھنا اور اُس کی مشق ہونا ضروری ہے ۔ عربی نہ آتی ہو یا کم سے کم عربی کی سمجھ بوجھ نہ ہو تو درست اردو نہ تو بولنا ممکن ہے اور نہ لکھنا۔ طلبہ کو ڈکشنری سے لفظ دیکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے خیال میں اردو کی سب سے اچھی ڈکشنری سٹینگاس والی ہے۔
ڈاکٹر صدیق جاوید نے بتایا کہ اردو کا رخ بہت تیزی سے انگریزی کی طرف ہو رہا ہے۔ اردو املا میں معیاریت لانے کے لیے یہ طے کرنا زیادہ ضروری ہے کہ اردو میں آ جانے والے انگریزی الفاظ کو کن ہجوں میں اور کس طرح لکھا جائے۔ اُنھوں نے اورینٹل کالج کو او ری اینٹل کالج لکھنے پر پیش آنے والا سچا واقعہ سنایا اور میں ہنس ہنس کر دوہرا ہوگیا۔ کان فرنس اور سیمی نار پر بھی کماحقہما سیر حاصل دادِ تضحیک و تحقیق دی گئی۔
ڈاکٹر سید معین الرحمٰن نے بتایا کہ اردو املا میں معیاریت لانے کے لیے مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد والی سفارشارت سے بہتر ترقیِ اردو بیورو انڈیا کی سفارشات ہیں کیونکہ اُن میں تفصیلات ہیں جب کہ ہمارے ہاں شائع ہونے والی سفارشات مختصر ہیں۔ اُنھوں نے املا میں یکسانی لانے کے لیے اپنی بعض علمی اور ادارہ جاتی خدمات کا ذکر کیا اور قومی سطح پر یہ شعور پیدا کرنے کے لیے میڈیا کے استعمال اور درست املا کے ساتھ کتابیں شائع کرنے پر زور دیا۔
ڈاکٹر انور سدید صاحب سے بات ہوئی تو فرمانے لگے کہ مقتدرہ والوں نے اردو املا کی سفارشات پیش کرکے پڑھے لکھے لوگوں کو کچی پکی کا طالب علم بنا دیا ہے۔ کچھ بھی لکھنے لگو تو خطرہ ہی رہتا ہے کہ ٹھیک لکھا یا غلط۔ زبان پر بے جا پابندیاں ٹھیک نہیں ہیں۔ لوگ جیسے لکھ رہے ہیں اُنھیں لکھنے دیجیے۔ اصلاح کرنے والے اصلاح کرتے رہیں اور لکھنے والے لکھتے رہیں۔ دونوں اپنا اپنا کام کرتے رہیں، اردو ہی کا بھلا ہوگا۔ کہنے لگے کہ مرکب الفاظ کو الگ ہی لکھنا چاہیے لیکن آپ زبان پر کوئی قانون نافذ نہیں کرسکتے۔ جو لفظ جیسے معروف ہیں ویسے ہی لکھنے چاہییں۔


ڈاکٹر وزیر آغا صاحب سے بات ہوئی تو اُنھوں نے اردو املا کی معیار بندی کو انتہائی ضروری قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے نزدیک اردو کے حروفِ تہجی کی وہی تعداد درست ہے جو شان الحق حقی صاحب بتائیں اور املا بھی وہی درست ہے جو حقی صاحب لکھتے ہیں۔ اُنھوں نے بھی مرکبات کو لازمًا الگ الگ لکھنے کے بجائے رواجِ عام کے مطابق لکھنے کی تائید کی۔ فرمانے لگے کہ ادبی رسالے کے ایڈیٹر کو اِن کٹھنائیوں سے بہت گزرنا پڑتا ہے لیکن اگر وہ خود کسی ایک روشِ املا پر قائم نہ رہے تو رسالے کا حال بگڑ جاتا ہے۔ اردو کے املا کی اصلاح اور معیاریت کے لیے اردو کے ادبی رسالوں کو کسی ایک روش پر متفق ہوجانا چاہیے۔
حیدر آباد سے ڈاکٹر الیاس عشقی نے بتایا کہ جب تک اردو میں علاقائی زبانوں کے الفاظ کی آمد اور استقبال باقی ہے، اردو کو کوئی خطرہ نہیں۔ اردو کا چلن صرف اِس پر موقوف ہے کہ علاقائی زبانوں والے اُس میں کتنا کتنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اُنھوں نے الفاظ کے تلفظ کو معیاری بنانے اور لوگوں کو اِس کی تربیت دینے کے ضمن میں ریڈیو پاکستان کی خدمات کا ذکر کیا اور کہا کہ تلفظ کو معیاری بنانے کا سب سے موثر ذریعہ ریڈیو ہے اور اُس کے بعد ٹی وی۔
راول پنڈی میں خواجہ غلام ربانی مجال صاحب سے بات ہوئی تو اُنھوں نے فرمایا کہ اردو والوں کو املا کی درستی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر چند سو ایسے الفاظ پر مشتمل فہرستیں بناکر عام کرنی چاہییں جو اردو میں عام استعمال ہوتے ہیں۔ یہ فہرستیں ہر دفتر اور ایسی جگہ پر موجود ہوں جہاں لوگ کمپیوٹر استعمال کرتے ہوں۔ اُنھوں نے کیے، لیے، دیے، کیجیے، چاہیے، وغیرہ وغیرہ کو اصول کے مطابق یعنی ہمزہ سے لکھنے پر زور دیا اور بتایا کہ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو اردو کا رشتہ عربی سے ٹوٹ جائے گا۔ اُنھوں نے جنابِ رشید حسن خاں کے اردو میں سے ہمزہ کو خارج کرنے کے بارے میں سخت باتیں کیں۔ فرمانے لگے کہ ہمیں اردو میں موجود عربی، فارسی اور ہندی لفظوں کو اُن کی اصل لکھتی شناخت پر برقرار رکھنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اردو کا املا گملے کا پودا بن کر رہ جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اردو کو ٹیکنالوجی کا ساتھ دینے والی زبان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم میڈیکل سائنسز اور انجینئرنگ کے مختلف شعبوں کے تکنیکی مواد کو اردو میں ترجمہ کرتے وقت سبھی قسم کے الفاظ اور اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کیا کریں۔


اُس دن علی گڑھ میں پہلا فون ڈاکٹر محمد انصار اللہ صاحب کو کیا۔ فرمانے لگے کہ میرے نزدیک اردو کے حروفِ تہجی کی تعداد 37 ہے۔ آپ میرا کتابچہ "اردو کے حروفِ تہجی" (1972ء) دیکھیے اور اُس میں ہندی اور اردو کی لکھت میں اشتراکات دیکھیے۔ فرمانے لگے کہ اردو املا کے مسائل اور املا کی معیاریت براہِ راست ہندی سے منسلک ہے اِس لیے ہندی سمجھے بغیر اردو پر بات کرنا بے بنیاد ہوتا ہے۔ فرمانے لگے کہ میرے نزدیک اردو ہمارے اپنے ملک کی پیداوار ہے نہ کہ باہر سے آئی ہے اور یہ لشکری زبان نہیں ہے کیونکہ لشکر جب بھی آئے تو صرف مخصوص جگہوں پر رہے نہ کہ سارے ہندوستان میں پھیلے جب کہ اردو سارے ہندوستان میں موجود ہے، البتہ اردو کو مسلمانوں کی آمد کے بعد ہی الگ حیثیت حاصل ہوئی۔ فرمانے لگے کہ اردو کے مرکبات کو الگ الگ لکھنا مستقل قانون نہیں بنایا جاسکتا بلکہ رواجِ عام کو دیکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کا اردو میں آنا باعثِ برکت ہے اور سنسکرت کے وہ لفظ جو اردو میں بے تکلف استعمال ہوسکیں، اگر ہمارے ادیب شاعر اُنھیں اپنی نگارشات میں استعمال کر لیا کریں تو اردو ہمارے کلچر میں مزید گہری ہوجائے گی۔ ڈاکٹر محمد انصاراللہ کے مرتَّب کردہ "سنسکرت-اردو لغت" کی بہت شہرت تھی۔ اِس کا دوسرا ایڈیشن میں نے 2009ء میں مقتدرۂ قومی زبان سے شائع کرایا۔
اُس دن میں نے علی گڑھ میں دوسرا فون ڈاکٹر مسعود حسین خاں صاحب کو کیا اور اُن سے عرض کیا کہ آپ نے اردو میں عربی کی بعض آوازوں کو Redundant یعنی اضافی یا فاضل کہا ہے کیونکہ اردو والے اِن آوازوں کو بعض دیگر حروف سے بھی ادا کر لیتے ہیں۔ لیکن آپ نے اِن آوازوں کے لیے مقرر عربی حروف کی شکلوں کو مردہ لاشیں کہہ کر مخالفین کو زبان دے دی۔ فرمانے لگے کہ لوگ توجہ سے میرا مقالہ پڑھیں تو اُنھیں معلوم ہوگا کہ میں نے صرف علمی اور سائنسی بات کی تھی۔ یہ الگ موضوع ہے کہ اِس جملے کو سیاسی انداز میں اچھالا گیا۔ یہ لوگ میرے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ فرمانے لگے کہ میں اپنی بات پر قائم ہوں اِس لیے کہ سائنسی طور پر یہی درست ہے۔ میں نے اردو لکھنے والوں سے کبھی اعراض نہیں کیا کہ وہ یہ حروف اپنی تحریروں کی املا میں کیوں لکھتے ہیں۔ میں نے اپنی تمام اردو کتابیں اور مضامین اُن حروف کے ساتھ ہی لکھی ہیں جن کو میں نے صوتیاتی اعتبار سے اردو میں مردہ لاشیں کہا ہے۔ دراصل املا لفظوں کے حروف (Letters) کا مجموعہ ہوتا ہے اور لفظ اپنا اپنا جغرافیہ رکھتے ہیں، جب کہ صوتیے (Phonemes) ایک مختلف شعبۂ علم ہے۔ دنیا میں بیسیوں بڑی اور اہم زبانیں ہیں جو دیکھنے میں الگ الگ حروفِ تہجی رکھتی ہیں جن کے مجموعے کی تعداد ہزاروں میں جا پڑتی ہے لیکن اِن سب میں صوتیوں کی مشترک تعداد محض چند درجن بنتی ہے۔ علمِ صوتیات کی رو سے ایسے تمام حروفِ تہجی مردہ لاشیں ہی کہلائیں گے خواہ وہ کسی بھی زبان کے ہوں۔


اردو میں بیرونی زبانوں سے آنے والے شعبہائے علوم کی اصطلاحات کے ترجمے کے بارے میں ڈاکٹر مسعود حسین خاں نے کہا کہ اصطلاحات کا ترجمہ اگر ضروری ہو جائے تب بھی واضح رہنا چاہیے کہ یہ صرف مقامی حد تک کام دے سکتا ہے۔ اگر آپ کو دنیا بھر سے علمی رابطے میں رہنا ہے تو آپ کو عالمی طور پر مشترک اصطلاحات اپنانا ہوں گی۔
جنابِ رشید حسن خاں سے بات ہوئی تو فرمانے لگے کہ اردو والوں کو اردو لکھنے میں کسی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہماری زبان ہے اور یہ ایک مستقل زبان ہے۔ اِس کو لکھنے کے اپنے اصول ہیں۔ وہ ہمزہ کو اردو حروفِ تہجی میں شمار نہیں کرتے اور اُن کے نزدیک اردو کے حروفِ تہجی کی تعداد 35 ہے جو اُنھوں نے اپنے کتابچے "اردو کیسے لکھیں" میں دے رکھی ہے۔ آج یہ مضمون مکمل کرتے وقت برادرم ڈاکٹر ابراہیم افسر سے تصدیق کی تو اُنھوں نے بھی یہی بتایا کہ جنابِ رشید حسن خاں کے نزدیک اردو کے حروفِ تہجی کی تعداد 35 ہے۔
تفاوتِ وقت کی وجہ سے اُس دن جنابِ شان الحق حقی کو رات کے وقت فون کیا اور اُن سے الفِ مقصورہ پر بات کی۔ دریافت کیا کہ رحمٰن/ رحمان اور اسمٰعیل/ اسماعیل وغیرہ کے املا کی کیا صورت درست ہے، اور اگر ہم اردو کے متن میں قرآن کی آیت لکھ رہے ہوں تو کیا رحمٰن اور اسمٰعیل کو الف سے لکھیں، یعنی کیا بسم اللہ الرحمان الرحیم لکھنا درست ہے؟ جواب ملا کہ چونکہ ہم اردو لکھ رہے ہیں نہ کہ عربی اِس لیے عربی کے تمام الفاظ کو لازمًا عربی والے مروّج املا میں لکھنے پر اصرار درست نہیں ہے، بلکہ چلن کو دیکھنا چاہیے۔ فرمایا کہ چلن سے مراد یہ ہے کہ مثلًا شمس الرحمٰن فاروقی اپنے نام میں رحمٰن کھڑی زبر سے لکھتے ہیں تو اُن کا نام اُسی طرح لکھنا چاہیے جیسے وہ لکھتے ہیں اور اگر بشریٰ رحمان اپنے نام میں رحمان الف سے لکھتی ہیں تو اُن کا نام الف کے ساتھ لکھنا چاہیے یعنی جیسے وہ لکھتی ہیں۔ پھر فرمایا کہ اسمائے معرفہ کا املا بھی معرفہ ہوتا ہے۔ مزید فرمایا کہ البتہ قرآن کی آیت یا حدیث شریف کا اقتباس لکھا جائے تو اُس میں عربی کے چلن کو سامنے رکھا جائے یعنی رحمٰن اور اسمٰعیل وغیرہ ہی لکھا جائے۔
جنابِ حقی نے فرمایا کہ ذولسانی تراکیب پر خوامخواہ ناک بھوں نہیں چڑھانی چاہیے اور اب جو بھی ذولسانی تراکیب ٹی وی اور اخبار میں عام ہو رہی ہیں اُنھیں چلنے سے روکا نہیں جاسکے گا۔ اردو والوں کا واسطہ جتنی زیادہ دنیا سے پڑے گا اُتنے ہی زیادہ لفظ اِس کے لفظ خزانے میں آئیں گے کیونکہ اردو کا املائی اور صوتیاتی مزاج ہی ایسا ہے کہ اِس میں ہر زبان کا لفظ رچ بس جاتا ہے اور اپنا اپنا لگنے لگتا ہے۔ اردو میں چالیس کے قریب زبانوں کے الفاظ موجود ہیں جو شاید دنیا کی سب زبانوں سے تعداد میں زیادہ ہیں۔


میں نے سکونِ اوّل کا پوچھا تو جنابِ حقی نے فرمایا اب اردو والے سکونِ اوّل پر قادر ہوچکے ہیں اِس لیے سٹاف، سکول، سکندر، ہسپتال وغیرہ کے شروع میں الف لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ سکندر کو اسکندر بھی لکھا جاسکتا ہے کیونکہ اِس کے انگریزی ہجے A سے شروع ہوتے ہیں لیکن چونکہ ہمارے بڑے شاعروں نے اِسے الف کے بغیر باندھا ہے اِس لیے اردو میں اب یہ لفظ الف کے بغیر ہی درست ہے۔
جنابِ حقی نے فرمایا کہ اردو کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ یہ لشکری زبان ہے بلکہ یہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کی قدیم زبانوں کے باہم ملنے سے پیدا ہوئی ہے، اور اِس میں اُتنا ہی حصہ پنجابی کا ہے جتنا کہ دکن اور دیگر علاقوں کی مقامی زبانوں کا۔ پھر فرمایا کہ زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا سوائے اِس کے کہ کسی مذہب کی تعلیمات صرف ایک ہی زبان میں لکھی جائیں۔ فرمایا کہ عربی اگر مسلمانوں کی زبان ہوتی تو آج انڈیا اور ملائشیا انڈونیشیا فلپائن وغیرہ وغیرہ میں کوئی مسلمان نہ ہوتا۔ فرمایا کہ اردو مسلمانوں کی نہیں بلکہ ہندوستانیوں کی زبان ہے اور سر سید نے جب اِسے مسلمانوں کی زبان کہا تھا تو اُن کی مراد رسم الخط تھی نہ کہ زبان۔
اردو میں اصطلاحات کے ترجمے کے بارے میں جنابِ حقی نے وہی کچھ کہا جو شمس الرحمٰن فاروقی نے کہا تھا۔ مزید کہا کہ مجھے اصطلاحات کے ترجمے سے زیادہ بے ثمر مشقت کوئی نہیں لگتی۔
جنابِ حقی نے مزید کہا کہ عملی ضرورتوں کی وجہ سے اردو کے حروفِ تہجی کی تعداد 51 ہے، تاہم اِن کو یاد کرنے کے لیے وہی پرانی تختی درست ہے جس میں 38 الفاظ ہیں، البتہ اُس میں نونِ غنہ بھی شامل کرنا چاہیے (یعنی 39 حروف)۔ مزید فرمایا کہ اردو ویسے ہی لکھی جائے گی جیسی سہولت اِسے کمپیوٹر اور دستی مشینیں سافٹ ویئر میں دیں گی۔ اگر لوگ اردو کے املا میں معیاریت لانے میں سنجیدہ ہیں اور اردو کے موجود رسمِ خط کو بچانے کا خیال رکھتے ہیں تو اُنھیں روشنی کی رفتار سے سافٹ ویئر پر منتقل ہوجانا چاہیے۔
جنابِ حقی سے اُن کے تالیف کردہ اوکسفرڈ انگریزی-اردو لغت سے متعلق کئی بار بات ہوتی رہتی تھی۔ اُس دن اُنھوں نے بتایا کہ یہ میری پچھلے کچھ سال کی بے حد دلچسپ مصروفیت تھی اور اِس نےمجھے بہت مزہ دیا۔ اگر میں اِس قدر خوبصورت اور رنگین کام میں مصروف نہ رہتا تو یہ دن بہت بے کیفی میں گزرتے۔
اُس دن فون پر گفتگو میں حقی صاحب نے میرے بچوں کو نام بنام دعا اور عید کی مبارک باد بھی دی۔


تو جناب، یہ ہمارے دور کے بڑے لوگوں کی اردو لکھائی سے متعلق ڈیڑھ عشرہ پرانی کچھ ضروری باتوں کا اعادہ تھا۔ آپ دیکھیے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ 2 اور 3 فروری 2004ء کی اِن تمام گفتگوؤوں میں اردو کے حروفِ تہجی کی تعداد کے بارے میں سوال اِس لیے کیا کہ اُن دنوں مائیکروسافٹ لوکلائزیشن پراجیکٹ کا غلغلہ تھا اور یہ خوابیدہ مسئلہ دوبارہ کھڑا ہوگیا تھا۔ یہاں یہ بات وضاحت سے لکھتا ہوں کہ میرے نزدیک اردو کے اصولی حروفِ تہجی کی تعداد 36 ہے یعنی وہ تعداد جو جان ٹی پلیٹس نے فیلڈ ورک اور لسانی تحقیق کی روشنی میں 1884ء میں بتائی ہے؛ البتہ استعمالی آسانی کی وجہ سے میں اردو کے حروفِ تہجی کی تعداد 38 تسلیم کرتا ہوں، یعنی وہ تعداد جسے جنابِ شمس الرحمٰن فاروقی نے سماجی لسانیات کی روشنی میں اردو کے تہذیبی حوالے کے ساتھ حتمی بتایا ہے۔ بحیثیت کمپیوٹر پروفیشنل میں جانتا ہوں کہ مشینی ضرورت پوری کرنے کے لیے حروفِ تہجی کی متذکرۂ بالا تعداد بالکل کافی ہے لیکن اگر کوئی پروگرامر ضرورت محسوس کرے تو اردو والوں کے منہوں سے جتنی آوازیں آج نکل رہی ہیں اُن سب کے لیے نمائندہ حروفِ ہجا کے کوڈ مختص کرسکتا/ سکتی ہے، یعنی 58 حروف؛ کوڈز کی یہ تعداد کہیں اور کے اردو بولنے والوں کی ضرورت کے پیشِ نظر مزید بھی بڑھائی جاسکتی ہے۔
اِس مضمون میں میں نے جنابِ شان الحق حقی سے زبان پر لسانی تحقیق کی روشنی میں مودب اختلاف کیا ہے اور جان ٹی پلیٹس سے اتفاق کیا ہے۔ اگر مضمون کسی کے نام معنون کرنے کی کوئی روایت نہیں ہے تب بھی میں اِس کاوش کو پلیٹس اور مسعود حسین خاں کے نام کرکے اِس روایت کو شروع کر رہا ہوں۔

***
بشکریہ: حافظ صفوان چوہان کی فیس بک ٹائم لائن (3/ اگست 2021ء)
اردو کی اصلاح کا بیڑا ۔۔۔

The task of reformation of Urdu. - Essay: Hafiz Safwan Chauhan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں