تصوف کی اہمیت:
انسان کی عقلی اور روحانی زندگی میں تصوف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ عصر حاضر کا مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل (Russell) جس کے بارے میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ تصوف کا حامی ہے، یہ کہتا ہے کہ:
"دنیا میں جس قدر عظیم ترین فلسفی گزرے ہیں سب نے فلسفے کے ساتھ ساتھ تصوف کی ضرورت کا بھی اعتراف کیا ہے۔ دنیائے افکار میں انتہائی بلند مقام صرف سائنس اور تصوف کے اتحاد سے حاصل ہو سکتا ہے۔ بہترین انسانی خوبیوں کا اظہار صرف تصوف ہی کے ذریعے سے ممکن ہے۔"
رسل نے اپنے دعوے کے ثبوت میں حسب ذیل فلاسفہ کے نام بطور مثال پیش کئے ہیں۔ ہرقلیطوس، پارمینائڈیز، افلاطون اور اسپنوزا۔ ظاہر ہے کہ یہ فہرست جامع نہیں ہے اس لئے چند اسماء کا اضافہ کئے دیتا ہوں مثلاً برونو، ہیگل، برگساں اور وہائٹ ہیڈ۔
تصوف کی خصوصیت:
تصوف کی سب سے بڑی خصوصیت جو اس دنیا کے دوسرے تمام علوم و فنون سے متمیز کر دیتی ہے یہ ہے کہ اس کی بدولت خدا، انسان کا محبوب بن جاتا ہے۔
یہاں اگر کسی کو یہ شبہ لاحق ہو کہ مذہب بھی خدا سے محبت کا سبق سکھاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی لئے تو میں نے ابتدائی بحث میں یہ لکھا ہے کہ تصوف، مذہب کی روح ہے ، جب کوئی مذہبی آدمی، خدا سے محبت کرنے لگتا ہے تو وہ تصوف کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔
تصوف کا طریقہ:
ہر مذہب، ہر قوم، ہر ملک اور ہر دور کے تصوف کا طریق کار ایک ہی رہا ہے ، یعنی عشق۔ اگر خدا محبوب ہے اور انسان محب ہے تو لامحالہ محبوب کے حصول کا طریقہ محبت (عشق) ہی قرار پا سکتا ہے۔ دوسرا کوئی طریقہ نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔
عشق کیا ہے ؟ اس کی ماہیت، نوعیت اور خاصیت کیا ہے ؟ ان تمام باتوں کی تفصیل آگے درج کی جائے گی۔
تصوف کی عالمگیریت:
مذہب کی طرح تصوف بھی ایک عالمگیر صداقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تصوف ، جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے ، مذہب کی روح ہے۔ تصور مذہب سے کوئی قوم خالی نہیں ہے، اس لئے تصوف بھی ہر قوم میں کار فرما رہا ہے۔ اللہ کے طالبین ہر زمانے میں، ہر قوم میں موجود رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔
اصول تصوف کی یکسانیت:
تصوف کے اصول اور مبادی ہر قوم میں یکساں رہے ہیں۔ ہر صوفی دراصل عاشق ہوتا ہے اس لئے ہر قوم اور ہر ملک کے تصوف کا دارومدار عشق و محبت ہی پر ہے۔ فرق جو کچھ نظر آتا ہے وہ صرف ظاہری اوضاع و رسوم میں ہے۔ مثلاً جب عید کے دن کسی شہر کے مسلمان عید گاہ کی طرف جاتے ہیں تو ایک آدمی پیدل عید گاہ جاتا ہے ، دوسرا بیل گاڑی میں، تیسرا فٹن میں، چوتھا موٹر میں۔ ان کی وضع ظاہری اور رفتار میں تو فرق نظر آتا ہے مگر منزل مقصود چاروں کی ایک ہی ہے ، اور جذبۂ محرکہ (داعیۂ باطنی) بھی ایک ہی ہے۔
الغرض صوفی خواہ ہندو ہو یا مسلمان، مقصود دونوں کا ایک ہی ہے، مگر ان کے عقائد مذہبی ، شعائر مذہبی اور رسوم مذہبی میں اختلاف کی وجہ سے دونوں کے مزاج میں فرق ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً ہندو کا تصوف اسے ترک دنیا کی طرف مائل کر دیتا ہے لیکن مسلمان کا تصوف اسے خدمت خلق پر آمادہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو کی نگاہ میں یہ سنسار 'بندھن' ہے ، مگر مسلمان کی نظر میں یہ دنیا "مزرع آخرت" ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تصوف میں "سنیاس" (ترک دنیا) کی نہ تعلیم دی جاتی ہے اور نہ دی جا سکتی ہے۔
فی الجملہ تصوف کے بنیادی اصول جو ہر ملک اور قوم کے تصوف میں یکساں طور پر مسلم ہیں، حسب ذیل ہیں:
1۔ حقیقت، واحدہ ہے، صرف ایک ہے، لا شریک ہے ، وحدۃ مطلقہ ہے۔ اسی کو صوفی الحق سے تعبیر کرتا ہے۔
2۔ یہ حقیقۃ واحدہ ، زبان اور بیان ، تحریر اور تقریر کی گرفت سے باہر ہے۔ ہم اسے بذریعہ الفاظ، بیان نہیں کر سکتے۔ بقول نظامی:
دوربنانِ بارگاہ الست
جز ازیں پے نبردہ اند کہ ہست
3۔ روح انسانی ، اگرچہ باعتبار تعین، غیر حق ہے مگر باعتبار وجود، عین حق ہے۔ روح کو موجودہ اصطلاح میں خودی اور حق کو خدا کہتے ہیں۔ اور صوفیہ کا عام دستور ہے کہ اختصاراً اپنا بنیادی عقیدہ بایں طور بیان کرتے ہیں کہ خودی عین خدا ہے۔ اس کا مطلب دراصل وہی ہے جو سطور بالا میں مذکور ہے کہ خودی، باعتبار وجود عین خدا ہے مگر باعتبار تعین، غیر خدا ہے۔ صوفی جب کبھی عینیت کا اثبات کرتا ہے تو غیریت کا تصور محذوف ہوتا ہے۔ یہی وحدۃ الوجود اورحلول میں بنیادی فرق ہے۔
جو صوفی عینیت مطلقہ کا قائل ہے وہ وجودی نہیں ہے حلولی ہے۔ اور حلول راقم الحروف کے مذہب و مشرب میں سراسر الحاد اور زندقہ ہے۔ بقول علامہ شبستری:
حلول و اتحاد اینجا محال است
کہ در وحدت ، دوئ عین ضلال است
4۔ اسی وحدۃ مطلقہ سے وصل ممکن ہے یعنی خودی، خدا سے واصل ہو سکتی ہے۔
5۔ طریق وصل، عشق ہے۔
6۔ عشق کی صفت، عاشقوں کی صحبت میں بیٹھنے سے حاصل ہو سکتی ہے :
صحبت از علم کتابی خوشتر است
صحبت مردانِ حر ، آدم گر است (مرید ہندی)
نفس نتواں کشت الا ظل پیر
دامن آن نفس کش را سخت گیر (مرشد رومیؒ)
انسانی زندگی پر تصوف کا اثر :
انسانی زندگی پر تصوف کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یا تصوف کا ثمرہ کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ بخوف طوالت چند اشارات پر اکتفا کرتا ہوں :
1۔ سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ صوفی ( اگر وہ درحقیقت تصوف پر عامل ہے) تمام رذائل اخلاق سے پاک ہوجاتا ہے کیونکہ تصوف(عشق ) تمام انسانی عیوب کا ازالہ کردیتا ہے بقول مرشد رومیؒ:
شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
وے طبیب جملہ علت ہائے ما
ہر کرا جامہ ز عشقے چاک شد
او ، ز حرص و آز، کلی پاک شد (رومیؒ)
اس جگہ اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ تصور میں سارا زور عمل پر دیا جاتا ہے۔ بلکہ تصوف کی تعلیم یہ ہے کہ حقیقی علم ( عرفان یا گیان) صرف عمل کے بعد ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ پس جو صوفی عمل نہیں کرتا وہ صوفی نہیں ہے بلکہ فلسفی یا متکلم ہے۔
ہندو رشیوں (عارفوں) نے بھی یہی کہا ہے کہ تصوف ان پانچ بنیادی عیوب کا ازالہ کر دیتا ہے جو آتما(روح) کو درشن(دیدار) سے محروم رکھتے ہیں:
کام (نفسانی خواہش یا شہوت)، کرودھ( غضب)، موہ(حرص)، لوبھ( طمع) اور اہنکار (خود بینی)
اگر یہ شبہ لاحق ہو کہ مذہب بھی تو یہی تعلیم دیتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قبل ازیں اس حقیقت کو واضح کرچکے ہیں کہ تصوف مذہب کی روح ہے، مذہب سے جداگانہ کوئی شے نہیں ہے۔
بات یہ ہے کہ عالم دین (خواہ کسی مذہب کا ہو) صرف تعلیم پر اکتفا کرتا ہے یعنی وہ صرف زبان سے اپنے شاگردوں کو اس بات کا علم عطا کر دیتا ہے کہ خدا نے تزکیہ نفس کا حکم دیا ہے ، لیکن وہ نہ انہیں اس کا طریقہ بتاتا ہے نہ عملاً کسی کا تزکیۂ نفس کرکے دکھاتا ہے۔ اس کے پاس صرف تھیوری( نظریہ) ہے اور وہ اسی پر اکتفا کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو کہ عالم دین رنگ فروش ہے۔ رنگ بیچتا ہے مگر چڑھا نہیں سکتا۔
صوفی (عارف) بھی تزکیہ نفس ہی کی تلقین کرتا ہے مگر وہ صرف تلقین پر اکتفا نہیں کرتا، وہ اپنے شاگردوں سے یہ کہتا ہے کہ میرے پاس آؤ میری صحبت میں بیٹھو، میں بالفعل تمہارے نفس کا تزکیہ کردوں گا۔ عالم دین نے تمہیں بتایا ہے کہ خدا ہے؛ میں تمہیں دکھا دوں گاکہ واقعی خدا ہے۔ جب ایک طالب اس عارف(مرشد) کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس پر رنگ چڑھنے لگتا ہے۔ یعنی مرشد دراصل رنگ ریز ہوتا ہے۔ جو سالک کو خدا کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ "خدا کا رنگ" کیا ہے ؟ اس کی تفصیل آئندہ کی جائے گی۔
بہرحال سمجھانا یہ تھا کہ تصوف مذہب کی روح ہے یعنی زندہ خدا کے ساتھ زندہ رابطہ پید اکرنے یا اسے اپنے باطن کی گہرائیوں میں مشاہدہ کرنے کا دوسرانام ہے۔ اور جب ایک مذہبی آدمی رابطہ پیدا کرنا شروع کردیتا ہے تو خود بخود تصوف کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔
2۔ تصوف کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان، کافر اور مومن، ہندو اور مسلمان، کالے اور گورے غرض کہ ہر شخص سے محبت کرنے لگتا ہے۔
بندۂ عشق از خدا گیرد طریق
می شود بر کافر و مومن شفیق ( اقبال)
اگر کوئی صوفی" کافر" کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے یا اس پر شفقت نہیں کرتا، اس کے ساتھ ہمدردی نہیں کرتا، اس کے دکھ کو اپنا دکھ نہیں سمجھتا تو وہ ہر گز صوفی نہیں ہے بلکہ بندۂ نفس اور دنیا کو دھوکا دے رہا ہے۔
تصوف کا پہلا سبق یہ ہے کہ سب انسان، اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں، اس لئے مجازاً اللہ کا کنبہ ہیں چنانچہ ارشاد نبویؐ بھی یہی ہے۔ "الخلق عیال اللہ"
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدٰی کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا (حالی)
چونکہ ہر شئے میں اسی کا جلوہ ہے ، ساری کائنات اس کی جلوہ گاہ ہے ، ہر شے سے وہی ظاہر ہوتا ہے ، اس لئے ہر انسان، مظہر ذات و صفات ہے۔ اگر ہندو میں اس کا جلوہ ہے تو مسلمان میں بھی وہی جلوہ گر ہے۔ اس لئے صوفی جملہ افراد انسانی کو مظاہر ذات سمجھ کر سب سے یکساں محبت کرتا ہے۔ اسی لئے وہ مسجد کے علاوہ گرجے اور صومعے اور مندر کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے بلکہ یوں کہتا ہے :
رکھ تصدیق نہ تھیں آوارہ
کعبہ، قبلہ، دیر، دوارہ
مسجد، مندر، ہیکڑ و نور (خواجہ غلام فرید)
یعنی اے طالب حق! اس بات پر یقین رکھ اور اپنے دل کو انتشار سے محفوظ رکھ کہ کعبے، دیر ، ٹھاکر دوارے، مندر اور مسجد ، ہر معبد میں وہی ایک نور جلوہ گر ہے۔ یعنی لوگوں نے مکانوں کے نام تو ضرور مختلف رکھ لئے ہیں مگر مدعو یا مسجود یا مطلوب یا مقصود یا محبوب سب کا ایک ہی ہے۔
نتیجہ اس زاویۂ نگاہ کا یہ نکلتا ہے کہ صوفی کے دل و د ماغ سے تعصب، تنگ نظری، نفرت، حقارت، امتیاز رنگ و نسل، اختلاف عقائد و مذہب، فرقہ بندی، گروہ بندی، بیجا پاس داری اور ناحق کوشی یا باطل پسندی کے جذبات بالکل مٹ جاتے ہیں۔ اسی لئے وہ کسی کو آزار نہیں پہنچا سکتا انسان تو انسان ہے وہ تو حیوانات پر بھی رحم کرتا ہے :
مباش درپئے آزار و ہر چہ خواہی کن
کہ در طریقت ما بیش ازیں گناہے نیست (حافظ)
خلاصۂ کلام ایں کہ تصوف، انسان کو رذائل اخلاق سے پاک کردیتا ہے اور ان کی جگہ بہترین اخلاقی صفات سے مزین کردیتا ہے۔ لیکن اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ یہ تبدیلی مرشد کی صحبت کے بغیر ناممکن ہے کیوں کہ ہر فن ، صاحب فن کی صحبت میں رہ کر ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ غواصی، طباخی ، نجاری ، خوش نویسی، ستار نوازی، خیاطی وغیرہ ان میں سے کوئی فن کتابوں یا تقریروں سے حاصل نہیں ہو سکتا ، اسی طرح صیقل گری ( تزکیہ نفس) بھی ایک فن ہے اور وہ کسی صاحب فن کی نگاہ ہی کی بدولت حاصل ہو سکتا ہے۔ تصوف کی پوری تاریخ ہمارے اس دعوے کی صداقت پر شاہد ہے۔ اور تمام انسانوں کا روز مرہ مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے کہ چراغِ چراغ ہی سے روشن ہو سکتا ہے۔
میں نے اس بات کی صراحت اس لئے کی ہے کہ اس دور مادیت میں تعلیم یافتہ لوگ عموماًاس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مصوری، موسیقی، خطاطی ، سنگ تراشی، نقاشی وغیرہ کے لئے تو صحبت ماہر فن (مرشد) ضروری ہے لیکن تزکیہ نفس کے لئے کسی ماہر فن (مرشد) کی صحبت ضروری نہیں ہے۔
ماخوذ از کتاب: تاریخِ تصوف
تالیف: پروفیسر یوسف سلیم چشتی۔ ناشر: علما اکیڈیمی محکمہ اوقاف پنجاب (لاہور)۔ سنہ اشاعت: 1976ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں