شاہد احمد ہلوی اردو کے قابل قدر ادیب، مترجم، خاکہ نگار اور ایک جید موسیقار تھے۔ ان کی ولادت 1906ء کو دہلی میں ہوئی اور وفات 1967ء کو کراچی میں ہوئی۔
شاہد احمد دہلوی اردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے بیٹے تھے۔ مولوی بشیر الدین احمد، ڈپٹی نذیر احمد کے اکلوتے بیٹے تھے اور اکلوتے ہونے کی وجہ سے انہیں بے حد عزیز تھے۔ بشیر الدین احمد تاریخ کے عالم تھے اور انہیں تاریخ سے بے حد دلچسپی تھی۔ وہ اپنی کتاب "واقعاتِ دارالحکومت دہلی" کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
شاہد احمد دہلوی نے اپنے مشہور اور موقر ادبی جریدے "ساقی" کے حوالے سے شہرت دوام حاصل کی۔ "ساقی" کا اجرا جنوری 1930ء میں دہلی سے ہوا اور یہ ادبی جریدہ 1947ء تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ "ساقی" وہ واحد ادبی جریدہ تھا جس نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی۔ اردو کے معروف نقاد ڈاکٹر جمیل جالبی "ساقی" شاہد احمد دہلوی نمبر کے صفحہ 6 پر "نگاہ اولیں" کے عنوان سے لکھتے ہیں:
" اردو زبان کا کوئی پرانا یا نیا لکھنے والا ایسا نہیں جس نے'ساقی' میں چھپنا اپنے لئے باعث فخر نہ جانا ہو۔ پرانے لکھنے والے 'ساقی' میں چھپ کر نام وری کے بام عروج پر پہنچ گئے اور نئے لکھنے والے دیکھتے دیکھتے شہرت کے پروں پرا ڑنے لگے۔ اگر ان ناموں کی فہرست بنائی جائے تو آج کے بیشتر بڑے نام 'ساقی' ہی کے مرہونِ منت ہیں۔"
شاہد احمد دہلوی کی تصانیف میں ان کے خاکوں کے تین مجموعے: گنجینۂ گوہر (1926ء)، برم خوش نفساں (1985ء، مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی) اور طاق نسیاں (مرتبہ ڈاکٹر سید محمد عارف) بہت بلند ادبی رتبے کے حامل ہیں۔ انہوں نے اپنی دو تصانیف دلی کی بپتا (1950ء) اور اجڑا دیار (1967ء) میں ہندوستان کے دل دہلی (جو اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا مرکز تھا) کی تہذیب و ثقافت ، میلوں ٹھیلوں ، تہواروں، موسموں اور 1947ء کے فسادات میں دہلی کے ایک بار پھر اجڑنے کے واقعات کو بڑے دل گداز اور موثر پیرائے میں بیان کیا ہے۔ بقول مولانا الطاف حسین حالیؔ:
تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
یہ تو تھا شاہد احمد دہلوی کی ادبی خدمات کا تذکرہ لیکن جہاں تک فن موسیقی کا تعلق ہے تو عوام الناس کی اکثریت ان کی زندگی کے اس گوشے سے روشناس نہیں۔ شاہد احمد دہلوی جہاں اردو کے ایک فقید المثال ادیب تھے، وہاں وہ کلاسیکی موسیقی کے ایک جید عالم اور عامل بھی تھے۔ انہیں بچپن ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ ان کے پہلے استاد پنڈت لکشمن پرشاد تھے۔ ان کے بعد انہوں نے برصغیر کے عہد ساز اور نابغہ روزگار سارنگی نواز استاد بندو خاں کے برادر نسبتی استاد چاند خاں دہلوی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔
موسیقی کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ کم و بیش 25 برس تک جاری رہا۔ اور 1937ء میں شاہد احمد دہلوی نے ایس۔ احمد کے نام سے کلاسیکی گائک کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو دہلی کے پروگراموں میں شرکت کرنا شروع کر دیا اور 1947ء کے فسادات تک وہ مسلسل موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیتے رہے۔
اس ضمن میں ایک قابل کر بات یہ ہے کہ شاہد احمد دہلوی نے 1947ء تک ریڈیو سے گانے کا معاوضہ نہیں لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دہلی میں وہ بہت آسودہ حال تھے۔ خاندانی جائداد کے علاوہ روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ جہاں تک ریڈیو پر نام تبدیل کرکے گانے کا سوال ہے تو ان کا تعلق چونکہ مولویوں کے خاندان سے تھا اس لئے کھلم کھلا فن موسیقی سے اپنا تعلق خاطر ظاہر کرنا ان کے لئے مشکل تھا۔
قیام پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کچھ عرصہ کے لئے پہلے لاہور میں مقیم ہوئے اور بعد ازاں انہوں نے مستقل طور پر کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ ستمبر 1948ء میں کراچی سے دوبارہ "ساقی" کا اجرا کیا۔ دہلی سے لٹ پٹ کر آنے کے بعد پاکستان میں آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ان حالات میں بالآخر فن موسیقی نے ہی شاہد احمد دہلوی کی یاوری کی اور انہوں نے کراچی ریڈیو میں معاہداتی بنیاد (Contract Basis) پر بطور نگراں موسیقی ملازمت اختیار کرلی۔ اگرچہ ان کا تقرر بطور نگرانِ موسیقی ہوا تھا لیکن ان کی خدمات موسیقی تک محدود نہیں تھیں، بلکہ وہ ادبی ، علمی اور ثقافتی موضوعات پر تقریریں بھی کرتے اور فیچر اور غنائیے بھی تحریر کرتے تھے۔
شاہد احمد دہلوی فن موسیقی کے نہ صرف علمی اور تکنیکی پہلوؤں پر مکمل دسترس رکھتے تھے بلکہ وہ اس میدان کے عملی شہسوار بھی تھے اور بہت عمدگی سے کلاسیکی موسیقی کی تمام اصناف کا عملی مظاہرہ کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں پیشہ ور اور گھرانے دار گائک بھی احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔
اردو کے معروف افسانہ نگار غلام عباس نے "ساقی" کے شاہد احمد دہلوی نمبر کے لئے "ماہر موسیقی" کے عنوان سے ان پر ایک مضمون لکھا تھا۔شاہد احمد دہلوی نمبر کے صفحہ 27 پر وہ انہیں کچھ اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
"خدا بخشے شاہد احمد دہلوی کو بھی کن رس تھا۔ انہوں نے عمر بھر گوئیوں کی پرورش بھی کی اور استادوں کی جوتیاں بھی سیدھی کیں اور پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ انہوں نے سچی لگن اور محنت سے موسیقی میں ایسا کمال حاصل کر لیا کہ گانے بجانے کے رسیا خود ان کی جوتیاں بھی سیدھی کرنے لگے۔"
'شاہد احمد دہلوی نمبر' ہی میں ان کے موسیقی کے ایک شاگرد حسن علی مرزا نے ان پر ایک مضمون بعنوان "استاد شاہد احمد دہلوی" تحریر کیا تھا۔ مذکورہ نمبر کے صفحہ 36 پر وہ ان کی فن موسیقی میں مہارت کا تذکرہ کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
"استاد شاہد احمد دہلوی موسیقی میں علم کا دریا تھے۔ موسیقی کا باریک سے باریک نکتہ ان کی نظر سے چھپا ہوا نہیں تھا۔ مشکل سے مشکل سوال کیجئے، اس کو اس طرح کھول کر آسانی سے سمجھا دیتے تھے کہ مشکل، مشکل معلوم نہیں ہوتی تھی۔ کہا کرتے تھے کہ تعلیم یافتہ آدمی کے لئے کوئی چیز مشکل نہیں ہے۔ خاندانی گویوں نے کچھ پکے گانے کا ہوّا بھی کھڑا کر رکھا ہے۔ یہ بہت مشکل فن ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر مشکل کو آسان کرنے کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے۔"
شاہد احمد دہلوی کے استاد ، استاد چاند خاں دہلوی کے بھانجے اور استاد بندو خاں سارنگی نواز کے بیٹے استاد امراؤ بندو خاں کو بچپن میں ہی شاہد احمد دہلوی کی نگرانی میں دے دیا گیا تھا۔ استاد بندو خاں نے نہ صرف فن موسیقی بلکہ دیگر فنون میں بھی شاہد احمد دہلوی کے زیر سایہ تربیت پائی۔ اس کا اعتراف استاد بندو خاں نے رسالہ "ساقی" کے شاہد احمد دہلوی نمبر کے صفحہ 33 اور 34 پر اپنے لکھے ہوئے ایک مضمون "راگ ودّیا" میں کچھ اس طرح کیا ہے :
"اس وقت میری عمر گیارہ سال کی ہوگی۔ میرے والد خدا انہیں غریق رحمت کرے، اس وقت اندور میں تھے اور میں اپنے ماموں استاد چاند خاں کے پاس دلی میں رہتا تھا۔ موسیقی ہمارا خاندانی پیشہ ہے۔ اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے موسیقی کے نرم اور سریلے بول میرے کان میں رس گھولتے رہتے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ میں بھی گاؤں بجاؤں لیکن ہم جولیوں کے ساتھ کھیلنے کا جذبہ غالب آکر مجھے محلے کے گلی کوچوں میں لے جاتا اور میں اپنا وقت اسی طرح برباد کرتا پھرتا۔ ماموں (استاد چاند خاں) نے دیکھا کہ تو شاہد بھائی سے کہا کہ: 'اب آپ امراؤ کی دیکھ بھال کیجئے'۔ اس دن سے میں ان کی نگرانی میں آ گیا۔ صبح 9 بجے شاہد صاحب کے گھر پہنچ جاتا اور پھر روزانہ ان کے ساتھ مل کر بارہ ایک بجے تک ریاض کرتا۔ ریاض کا یہ عمل برسوں جاری رہا۔ بارش ہو یا طوفان اس میں ایک دن کا ناغہ نہ ہوا۔ اس عرصے میں میرے والد صاحب نے اندور سے شاہد صاحب کو ایک خط لکھا کہ امراؤ کو موسیقی کے ریاض کے ساتھ گھڑ سواری ، تیراکی، پتنگ بازی، بنوٹ، کشتی، اور شطرنج بھی ضرور سکھوا دیں کہ ان فنون کا تعلق بھی موسیقی سے گہرا ہے۔۔۔ شاہد صاحب کا علم بہت وسیع تھا۔ وہ علم موسیقی سے پورے طور پر واقف تھے۔ تان سین، نائک گوپال، نعمت خاں سدارنگ کی بندشوں پر ایسے بات کرتے کہ ان کا قائل ہونا پڑتا تھا۔ کسی علمی یا فنی بات پر جہاں گانے والے اٹکتے تو وہ شاہد صاحب سے ہی رجوع کرتے۔"
شاہد احمد دہلوی نے فن موسیقی میں ایک اختراع یہ کی کہ خیال کے پرانے بولوں کی جگہ علامہ اقبال اور داغ دہلوی کے قطعات اور غزلوں کو "خیال" میں بطور بندش گا کر پیش کیا۔ یہ ایک ایسی جدت تھی کہ شاہد احمد دہلوی کے علاوہ کسی گائک کو اس کا خیال تک نہ آیا ہو گا۔ بطور خاص علامہ اقبال کے اس قطعے کے جن دو مصرعوں کو انہوں نے "خیال" کے قالب میں ڈھالا تو ماہرین فن عش عش کر اٹھے:
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
شاہد احمد دہلوی نے فن موسیقی پر بہت کچھ لکھا۔ فن موسیقی پر ان کے مضامین پاکستان کے مشہور ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے کلاسیکی موسیقی کو دنیا کے دیگر ممالک سے روشناس کرانے کے لئے مختلف ممالک کے دورے بھی کئے ، فن موسیقی کے عملی مظاہرے بھی کئے اور انگریزی زبان میں تکنیکی اور علمی لیکچرز بھی دئیے۔ وہ فن موسیقی پر ایک کتاب بھی لکھنا چاہتے تھے مگر افسوس ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔
از: پروفیسر شہباز علی (راولپنڈی)۔ ماخوذ از کتاب: کیا صورتیں ہوں گی
تالیف: پروفیسر شہباز علی۔ ناشر: قاضی ظہور الحق اسکول آف اورینٹل میوزک (راولپنڈی)۔ سنہ اشاعت: 2012ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں