مخدوم محی الدین جدید شاعری کے آئینے میں - از عبادت بریلوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-15

مخدوم محی الدین جدید شاعری کے آئینے میں - از عبادت بریلوی

makhdoom-mohiuddin-jadid-shairi

اقبال، چکبست، اور جوش کے بعد عظمت اللہ خاں، اختر شیرانی ، حفیظ جالندھری، حامد اللہ افسر، احسان دانش، روش صدیقی ، ساغر نظامی، منظور حسین شور اور الطاف مشہدی، جدید شاعری کے صحیح ماحول کا باقی رکھنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ ان کے ہاں بھی ایک نیا احساس، ایک نیا شعور اور ایک نیا جذبہ ملتا ہے، ان سب نے زندگی کے متنوع پہلوؤں کی طرف توجہ کی ہے۔ غرض یہ کہ اس زمانے کی جذباتی، ذہنی، عملی اور فکری زندگی کے تمام پہلوؤں کی ترجمانی ان کی نظموں میں ملتی ہے اس لئے ان میں جدت کا احساس ہوتا ہے اور وہ جدید شاعری کو آگے بڑھاتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔


یہ شاعر یوں تو آج بھی موجود ہیں اور ان میں اکثر شاعری بھی کر رہے ہیں لیکن ان کے دوش بدوش کچھ اور شاعر بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے ان سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے اور یہ شاعروہ ہیں جن کی نشوونما 30ء اور 35ء کے قریب ہوئی ہے۔
ہمارے ملک میں یہ زمانہ حد درجہ سیاسی کشمکش کا زمانہ رہا ہے، اس زمانے میں سیاسی اور سماجی شعور میں اضافہ ہوا ہے انقلاب کے تصورات صحیح بنیادوں پر قائم ہوئے ہیں۔ جذباتیت کا خاتمہ ہوا ہے اور اس کی جگہ عقل و شعور نے لے لی ہے زندگی کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کے خیالات پھیلے ہیں۔ تاریخی اور طبقاتی شعور بڑھا ہے۔ ایک نئے نظام کو قائم کرنے کے تصورات عام ہوئے ہیں۔ انسانی قدروں کا خیال دلوں میں جاگزیں ہوا ہے اور اس ماحول نے جدید شاعری کی دنیا بدل دی ہے اس میں ایک نیا رنگ آہنگ اور ایک نیا لب و لہجہ پیدا ہوا ہے۔ فکری اور حکیمانہ پہلو اس میں نمایاں ہوئے ہیں۔ تاثیر، فیض ،مجاز، جذبی، جاں نثار اختر، مخدوم محی الدین، علی سردار جعفری، علی جواد زیدی، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی ، اختر انصاری، سلام مچھلی شہری، سکندر علی وجد وغیرہ ان رجحانات کے علم بردار ہیں ، ان سب نے بھی اپنے حدود میں رہ کر اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق زندگی کے مختلف پہلوؤں کی ترجمانی کی اور عکاسی کی ہے۔


مخدوم محی الدین کی شاعری میں نظریے کی پختگی اور استواری کا احساس سب سے زیادہ ہوتا ہے ، انہو ں نے جو نظمیں لکھی ہیں، ان میں گہرے سماجی شعور کا پتہ چلتا ہے اور انقلابی کیفیت نظر آتی ہے۔ جدید شاعری میں ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انہوں نے اپنی شعری تخلیقات سے اس میں بعض اہم اضافے کئے ہیں۔ ان کے یہاں رومان رو حقیقت کی ہم آہنگی ملتی ہے۔ زندگی کو وہ بہت قریب سے دیکھتے ہیں ، جذباتی زندگی سے بھی انہیں گہری دلچسپی ہے۔ اجتماعی معاملات کا بھی وہ گہرا شعور رکھتے ہیں اس لئے ان کے یہاں گہرائی، تنوع، وسعت اور ہمہ گیری کا احساس ہوتا ہے ، اور یہی وہ خصوصیات ہیں جو جدید شاعری میں انہوں نے پیدا کی ہیں۔


ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے ایک جگہ اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ شاعری میں نئے انداز اور نئی ہئیت کی ایجاد کو کسی قوم کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھنا چاہئے۔ یہ خیال حقیقت پر مبنی ہے اور اردو شاعری پر بھی صادق آتا ہے۔۔ اس میں انداز بیان اسلوب اور ہیئت کے جو تجربے ہوئے ہیں وہ ہماری زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ ہماری بدلتی ہوئی ذہنی اور جذباتی زندگی کی پیداوار ہیں۔ اور انہوں نے خود زندگی کے ان پہلوؤں کو متاثر کیا ہے ، ان کے لئے نئی راہیں نکالی ہیں اور نئے میدان تلاش کئے ہیں۔ اور اس طرح شاعری نے زندگی اور زندگی نے شاعری کو بدلا ہے۔ اس لئے آج زندگی بھی ایک نئے راستے پر گامزن ہے اور شاعری بھی نئی منزلوں کی تلاش میں رواں دواں ہے۔ اسی صورت حال کو جدت پسندی کہہ سکتے ہیں۔ اور اس جدت پسندی کی روایت اردو میں بہت پرانی ہے۔


حالی اقبال، چکبست ، سردار جہاں آبادی، عظمت اللہ خاں، جوش ، علی اختر، سیماب اور ان کے بعد آنے والے شعر اء ، یعنی احسان دانش، ساغر، روش صدیقی وغیرہ جدید ضرور ہیں۔ ان کے یہاں جدت بھی پائی جاتی ہے لیکن وہ جدت پسند نہیں ہیں۔ ان کی شاعری میں جو جدت نظر آتی ہے وہ نہ تو روایت سے تمام تر منحرف ہونے کا نتیجہ ہے اور نہ اس کی نوعیت شعوری ہے۔ وہ تو روایت کے ارتقائی تسلسل کا ایک نتیجہ ہے۔ جدت پسندی کے علمبردار تو وہ شاعر ہیں جو ان شعراء کے بعد سامنے آتے ہیں۔
اردو شاعری میں جدت پسندی کا میلان اپنے پیش روؤں سے کسی حد تک مختلف ضرور ہے لیکن اس کے باوجود وہ ان کی پیدا کی ہوئی جدتوں کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ پیش روؤں نے جو روایات قائم کیں اور انہیں آگے بڑھایا اس کو جدت کے علم بردارو ں نے نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ ان روایات کو سامنے رکھ کر ایسی روایات کی تشکیل کی جو ان کی صحت مند جدت پسندی پر دلالت کرتی ہیں۔
ان روایات کے علمبرداروں میں مخدوم محی الدین نظر آتے ہیں۔ ان میں اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں سوچنے کا نیا زاویہ اور پیش کرنے کا نیا انداز نظر آتا ہے۔ حالی، اقبال، چکبست اور جوش کی آوازیں ان کے یہاں بھی سنائی دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اپنی آواز پہچانی جاتی ہے۔ ان کے یہاں موضوع اور مواد یوں تو اپنے پیش روؤں کے موضوع اور مواد سے ملتا جلتا ہے لیکن ان کا مخصوص زاویہ نظر اور بڑھا ہوا شعور ا س موضوع پر مواد کو ایک نئی شکل دے دیتا ہے۔
چنانچہ ان کے یہاں حسن وعشق کا موضوع صرف دلچسپی لینے اور مخطوط ہونے کا ذریعہ ہی نہیں بن جاتا، وہ اسے زندگی کی اہم حقیقت کی طرح بھی دیکھتے ہیں اور اس لئے اس کے مختلف پہلوؤں کا اظہار ایک متانت ، سنجیدگی اور وقار کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر ان کے یہاں ان کے اظہار میں نری جذباتیت کسی سطحیت کو پیدا نہیں ہونے دیتی۔ وہ ان کے اظہار میں متبذل نہیں ہوتے، نیچے نہیں گرتے برخلاف اس کے ان کے یہاں خاصی بلندی کا احساس ہوتا ہے خاصی رفعت اور ترفع کی کیفیت نظر آتی ہے۔


تاثیر، فیض، مجاز، ندیم، جذبی، جاں نظر اختر، علی جواد زیدی، علی سردار جعفری ، ساحر لدھیانوی، اختر انصاری، سکندر علی ، وجد، ظہیر کاشمیری، قتیل شفائی، عارف عبدالمتین، اور مخدوم محی الدین جدت کے علمبردار ضرور ہیں اور جدت پسندی ان میں ایک قدر مشترک ہے۔ لیکن ویسے ان میں سے ہر ایک اپنی ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ جدت پسندی کے علمبردار کی حیثیت سے ان میں ہر ایک کا ایک مخصوص مرتبہ ہے۔


مخدوم محی الدین ان سب سے مختلف ہیں، ان کے یہاں زندگی کا گہرا شعور ہے، تاریخی اور طبقاتی حقائق کو انہوں نے اپنے لئے شمع راہ بنایا ہے جس نے ان کے یہاں نظریاتی صفائی پیدا کی ہے۔ اسی لئے وہ ہر خیال کو بے باکی کے ساتھ کھل کر بیان کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں ایک جارحانہ انداز پیدا ہو جاتا ہے۔ مخدوم نے کم لکھا ہے لیکن جو کچھ لکھا ہے اس میں ان کی جدت پسندی ایک نئی ایجاد ہونے کی حیثیت سے اس دور کی زندگی کا سب سے اہم کارنامہ ہے اور اس لئے اس کو جدید اردو شاعری میں ایک اہم تحریک سے تعبیر کرنا ایسا کچھ بے جا نہیں۔


ادب اور شاعری میں جدید رجحانات کے چراغ اس وقت روشن ہوتے ہیں جب زندگی کے افق پر انقلابات کی بجلیاں کوندنے لگتی ہیں۔ جب زندگی اپنے دائرے کو وسیع کر کے نئے نئے افکار و خیالات اور نئے نئے مسائل و مقتضیات کو اپنے دامن میں جگہ دیتی ہے۔ جب غور و فکر کے لئے نئی نئی راہیں تعمیر ہوتی ہیں جب تخیل پرواز کے لئے کسی نئے افق کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ یہ نئے رجحانات یوں تو کم و بیش تمام نئے شاعروں کے یہاں نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے علمبرداروں میں مخدوم خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔


مخدوم اس سماج کو ایک بوسیدہ حویلی سے تعبیر کرتا ہے جہاں اسے ہر طرف اندھیاریاں ہی اندھیاریاں نظر آتی ہیں۔ اس میں کہیں بے نواؤں کے گروہ ہیں اور کہیں بے نان و پوشش گداؤں کی جماعتیں۔۔۔ لیکن وہ اس ماحول میں ایسے نغمے چھیڑنے کے لئے اکساتا ہے جس سے زندگی مسکرا اٹھے۔ اس نے زندگی کے بنیادی موضوعات پر غور و فکر کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور اردو شاعری کے انقلابی رجحان میں گہرائی اور ایک واضح نقطۂ نظر کو پیش کیا ہے۔
مخدوم نے نئے نئے موضوعات کو اپنی شاعری میں سمو کر اسے بہت وسعت دی ہے۔ اگر جوش نے اس میں انقلاب کے نعرے بلند کئے ہیں، بظاہر فطرت اور مناظر قدرت کی تصویریں کھینچی ہیں، حسن و عشق کی مختلف کیفیات کو حقیقت نگاری کے رنگ میں پیش کیا ہے اور انسانیت کی بلندی کے گیت گائے ہیں تو مخدوم نے انسانیت کی بنیادی قدروں کو اپنا موضوع بناکر حقیقت کی ترجمانی کی ہے۔


مخدوم اپنی شاعری میں وقت کے ضروری اور اہم مسائل کو سمو رہے ہیں۔ وہ اپنی شاعری سے مور کا کام لینا چاہتے ہیں۔ ان پر عورت سوار نہیں ہے۔ ان کا تعلق حقیقت پسند تحریک اور انسان دوست حلقے سے ہے۔ ان کے یہاں تو عریانی دور تک نظر نہیں آتی۔ یہ زندگی کی تلخ اور ٹھوس حقیقتوں کو پیش کرتے ہیں۔ اور زندگی کے ضروری اور اہم مسائل کو پیش کرنے کے سوا کچھ جانتے ہی نہیں۔۔۔۔ یہ تو عورت تک کا ذکر کم کرتے ہیں اور جہاں عورت کا ذکر کرتے بھی ہیں وہاں عریانی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔


مخدوم وقت کے اچھے نباض تھے۔ ان پر مغربی ممالک کی شاعری میں چلتی ہوئی تحریکوں کا بھی اثر پڑا تھا۔ ان حالات میں انہوں نے اپنی شاعری کو قدامت سے ہم آغوش دیکھ کر اپنی راہ الگ بنانی چاہی۔ ان کا اقدام اس فوٹو گرافی کا رد عمل تھا جس کا آغاز جوش نے کیا تھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ شاعری در حقیقت فوٹو گرافی نہیں مصوری ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر یہ آگے بڑھے اور شاعری کو فن کاری کا اعلی نمونہ بناکر پیش کیا۔


اب انقلاب کے جذباتی رومانی تصورات تفکر کے سانچے میں ڈھل رہے ہیں ، مخدوم کی مختلف نظمیں، اس نئے تصور کو اپنے دامن میں جگہ دیتی ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کی محبت، اس کی زبوں حالی کا احساس اور اس زبوں حالی کو دور کرنے کے ایک نئے نظام اقدار کے قیام کا خیال، سب ہی کچھ مل جاتا ہے۔


مخدوم اپنی شاعری کی ظاہری صورت اور ہیئت کو بھی ایک نئے سانچے میں ڈھالتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں اسالیب کے نئے تجربے ہیں جو مواد کے ساتھ انداز بیاں اور طرز ادا کی ہم آہنگی کا نتیجہ ہیں۔۔۔ ان کی علامتیں نئی ہیں، اشارے نئے ہیں، تشبیہیں نئی ہیں، استعارے نئے ہیں۔ آہنگ نیا ہے ، نغمگی نئی ہے۔۔ غرض اظہار کے ہر پہلو میں ان کے یہاں ایک جدت کا احساس ہوتا ہے۔۔ اسی لئے مخدوم محی الدین کو جدید شاعری میں ایک صحت مند جدت پسندی کا علمبردار کہنا ایسا کچھ بے جا نہیں۔

***
ماخوذ از رسالہ: صبا ، مخدوم محی الدین نمبر 1966
مرتب: سلیمان اریب

Makhdoom Mohiuddin's poetry in view of modernism.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں