جارحانہ ہندوتوا کی جیت - کالم از معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-13

جارحانہ ہندوتوا کی جیت - کالم از معصوم مرادآبادی

up-election-aggressive-hindutva-victory

اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ان حلقوں میں مایوسی کی لہر دوڑا دی ہے جو تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ بالخصوص یوپی اور اتراکھنڈ میں بی جے پی کی واپسی پر سیکولر حلقوں میں غم کا ماحول ہے۔ اضطراب اور بے چینی کی ایسی لہر ہے جسے پوری طرح لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ انتخابی نتائج کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوتوا کی جارحانہ سیاست نے عوام کے ذہنوں پر اپنا تسلط قایم کر لیا ہے اور وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں سوچنے کی طاقت کھو چکے ہیں۔


اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور کہا جاتا ہے کہ دہلی کی گدی کا راستہ لکھنؤ سے ہوکر گزرتا ہے۔ اسی لیے یہاں کی ہر سیاسی سرگرمی پر پوری دنیا کی نگاہ ہوتی ہے۔ یوں تو اس بار پانچ صوبوں میں چناؤ ہو رہے تھے، لیکن سب کی نگاہ اترپردیش پر ہی مرکوز تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ اگر بی جے پی اترپردیش کا چناؤ ہارگئی تو پھر اس کے لیے 2024 کا چناؤ جیتنا مشکل ہو جائے گا اور ملک میں تبدیلی کی لہر آ جائے گی۔ اسی لیے سیکولر حلقوں کی کوشش یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح یوپی میں بی جے پی کے قدموں کو روک کر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ لیکن یہ کوشش ناکام ہوئی اور بی جے پی ایک بار پھر یوپی کے اقتدار پر قابض ہو گئی۔ اس کے ساتھ وزیراعظم نریندرمودی نے اپنے لئے 2024 کی راہ آسان ہونے کا اشارہ بھی دیا۔

ان نتائج سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ملک میں اب سیکولر سیاست کی جگہ محدود ہو گئی ہے۔ تاہم اطمینان بخش بات یہ ہے کہ یوپی میں سماجوادی پارٹی اس بار ایک مضبوط اپوزیشن کے طورپر ابھری ہے اور اس کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ 2017 کے مقابلے اس کی سیٹیں ڈھائی گنا بڑھ گئی ہیں۔ سماجوادی پارٹی کی کامیابی میں مسلم ووٹ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری اطمینان بخش بات یہ ہے کہ جس مسلم ووٹ بینک کو ختم کرنے کا بی جے پی نے دعویٰ کیا تھا، وہ ایک بار پھر یوپی کی سیاست کے محور میں آ گیا ہے۔ اس مرتبہ مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد میں دس کا اضافہ درج ہوا ہے۔ پچھلے الیکشن میں مسلم ممبران کی تعداد 23 تک سمٹ گئی تھی، جو اب بڑھ کر 33 ہو گئی ہے۔ کئی حلقوں میں سماجوادی پارٹی کے مسلم امیدواروں نے بی جے پی کو دھول چٹائی ہے۔


سبھی کو معلوم ہے کہ سنگھ پریوار نے اترپردیش کو ہی سب سے پہلے اپنی فرقہ وارانہ سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا۔ 90 کی دہائی میں جب یہاں رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع کیا گیا تو ماحول پوری طرح 'شانت' تھا، لیکن جیسے جیسے بابری مسجد کے خلاف زہر افشانی شروع ہوئی تو ماحول پراگندہ ہوتا چلا گیا اور اس کے نتیجے میں بی جے پی کو اترپردیش کی کرسی ملی۔ کانگریس یہاں سے صاف ہو گئی اور اس کا ووٹ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی میں منتقل ہو گیا۔ آج اترپردیش میں کانگریس کا کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دلت ووٹوں کی واحد ٹھیکیدار مایا وتی بھی حاشیہ پر پہنچ گئی ہیں۔ نتائج کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مایا وتی نے اپنا ووٹ بی جے پی کو منتقل کرا دیا ہے اور یہ کام کسی بڑی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مایا وتی نے اپنی بدترین شکست کا ٹھیکرا ان مسلمانوں کے سر پھوڑا ہے، جنھیں کبھی انھوں نے اہمیت نہیں دی۔


اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یوپی میں یوگی سرکار کے خلاف عوام میں زبردست ناراضگی تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس بار عوام یوگی کا تختہ پلٹ کر اترپردیش کی کمان سماجوادی پارٹی کو سونپ دیں گے، لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ سماجودای پارٹی کی سیٹوں میں خاصا اضافہ تو ہوا لیکن وہ اکثریت تک نہیں پہنچ پائی۔ 2012 کے اسمبلی چناؤ کی طرح اس بار بھی مسلمانوں نے اپنا سارا ووٹ اس کی جھولی میں ڈال دیا۔ حالانکہ پوری انتخابی مہم کے دوران اکھلیش یادو نے مسلمانوں سے 'دو گز کی دوری' بنائے رکھی اور ان کی کسی میٹنگ یا روڈ شو میں مسلمان نام کی کوئی چڑیا بھی ان کے ساتھ نظر نہیں آئی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ رکھیں گے تو بی جے پی ان پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگائے گی۔
حالانکہ وہ اس الزام سے خود کو بچا نہیں پائے اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے متعدد ریلیوں میں ہندوؤں کو یہ خوف دلایا کہ اگر سماجوادی پارٹی اقتدار میں آئی تو طاقت کا توازن اعظم خاں، ناہید حسن اور مختار انصاری کے پاس ہوگا۔ وہ ایسا تاثر دینا چاہتے تھے کہ 25 کروڑ کی آبادی والے اس عظیم صوبے میں یہی تین داغدار ہیں۔ ظاہر ہے یہ برادران وطن کے ذہنوں کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش تھی، جس میں بی جے پی کامیاب ہو گئی۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ امت شاہ کے اس منفی پروپیگنڈے کے باوجود اعظم خاں اور ناہید حسن نے جیل میں رہتے ہوئے زبردست کامیابی حاصل کی اور مختار انصاری کا بیٹا بھی کامیاب ہوا۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی یوپی میں کسانوں کا اتحاد توڑنے کے لیے بی جے پی نے مظفر نگر اور کیرانہ کا جو موضوع اچھالا تھا، اس کا الٹا ہی اثر ہوا۔ ایک طرف جہاں کیرانہ میں 'پلائن' کا موضوع اچھالنے والے بی جے پی لیڈر آنجہانی حکم سنگھ کی بیٹی کیرانہ سے ناہید حسن کے ہاتھوں شکست کھا گئی تو وہیں مظفر نگر فساد کے کلیدی ملزمان میں شامل بی جے پی کے تین ممبران اسمبلی سریش رانا، سنگیت سوم اور امیش ملک شکست فاش سے دوچار ہوئے۔ دو بار کے ایم ایل اے سنگیت سوم کو سردھنہ حلقے میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار اتل پردھان نے 18 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ جبکہ دوسری طرف یوگی سرکار کے وزیر اور مظفرنگر فساد کے ملزم سریش رانا کو تھانہ بھون سیٹ سے آر ایل ڈی کے اشرف علی خان نے شکست فاش سے دوچار کر دیا۔ فساد کے ایک اور ملزم امیش ملک کو بڈھانہ حلقہ میں آر ایل ڈی امیدوار راج پال بالیان نے شکست دی۔
یہ وہ حلقے ہیں جہاں امت شاہ نے عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے 650 برس پہلے ہونے والے جاٹوں اور مغلوں کے کسی معرکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح جاٹوں نے مغلوں سے لوہا لیا تھا، اس طرح ہم بھی لے رہے ہیں۔


اگر آپ اترپردیش میں بی جے پی کی انتخابی مہم کا سرسری جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ مہم پوری طرح فرقہ وارانہ موضوعات پر مبنی تھی۔ امت شاہ نے بارہا ایسے بیانات دئیے جو بطور وزیر داخلہ انھیں زیب نہیں دیتے تھے۔ الیکشن کے میدان میں وہ اس حقیقت کو فراموش کر چکے تھے کہ ان کے کاندھوں پر ملک کی اندرونی سلامتی کی ذمہ داری بھی ہے۔ بی جے پی لیڈروں کی سب سے بڑی شناخت یہی ہے کہ وہ الیکشن کے میدان میں یہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے وزارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے کسی بھی فرد کے ساتھ بھید بھاؤ نہ کرنے کا حلف اٹھایا ہے اور آئین کی پاسداری کی قسم کھائی ہے۔


حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج میں دو ایسی باتیں ضرور ہوئی ہیں جنھوں نے سبھی کو چونکا دیا ہے۔ ان میں پہلی یہ ہے کہ بہوجن سماج پارٹی اس الیکشن میں پوری طرح صاف ہو گئی ہے۔ چار مرتبہ اترپردیش کی وزیر اعلیٰ رہ چکی بہن جی کو اس الیکشن میں رائے دہندگان نے پوری طرح مسترد کر دیا ہے۔ حالانکہ 2019 کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی نے لوک سبھا کی دس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن اس بار ان کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا۔
انھوں نے سب سے زیادہ 88 مسلم امیدوار یہ سوچ کر میدان میں اتارے تھے کہ مسلمان ان کی جھولی ووٹوں سے بھر دیں گے، مگر الیکشن کے دوران بی جے پی کی طرف ان کا جھکاؤ دیکھ کر لوگ سنبھل گئے تھے۔


دوسری اچنبھے والی بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی نے پنجاب میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ اس نے وہاں 97 سیٹیں جیت کر ریکارڈ قایم کر دیا ہے۔ برسراقتدار کانگریس پارٹی وہاں شرمناک شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ خود وزیراعلیٰ چنی کو عام آدمی پارٹی کے ایک ایسے امیدوار نے شکست دی ہے جو ایک موبائل شاپ میں معمولی ملازم ہے۔ اس طرح عام آدمی پارٹی اب دہلی کے بعد پنجاب میں بھی حکومت سازی کرنے جا رہی ہے۔


دیکھنا یہ ہے کہ پانچ اسمبلی انتخابات کے رزلٹ کے بعد اپوزیشن کیا حکمت عملی تیار کرتی ہے۔ 2024 کے چناؤ کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں اور وزیراعظم نے باقاعدہ اس کا بگل بجا دیا ہے۔ اگر اپوزیشن نے متحد ہو کر اس کی تیاری ابھی سے شروع نہیں کی تو نتائج اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔


***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

The victory of the aggressive Hindutva - Column: Masoom Moradabadi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں