کورونا وبا اور خواتین کے مسائل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-08

کورونا وبا اور خواتین کے مسائل

corona-virus-and-women-issues

دنیا کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور دوسرا نصف حصہ ان خواتین کی کوکھ سے ہی جنم لیتا ہے۔ لیکن ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابتدائے آفرنیش سے ہی خواتین ظلم و ستم کا شکار رہی ہیں۔ جبکہ ہر دور میں کئی مصلح قوم و رہبرانِ قوم نے خواتین کی عظمت کا لوگوں کو احساس دلایا لیکن خواتین اپنا مستحقہ مقام حاصل کرنے سے محروم رہیں۔
یہ بات روزِ روشن کی طر ح عیاں ہے کہ خواتین کی ترقی گویا انسانیت کی ترقی ہے۔ خواتین کی ترقی کے بغیر کوئی بھی سماج ، قوم اور ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ خواتین کی خوشحالی کے بغیر خوشحال زندگی گذارنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ صرف سال میں ایک مرتبہ یومِ خواتین منانے سے خواتین کے مسائل حل نہیں ہوتے اور نہ خواتین کی عظمت میں اضافہ ہوگا۔ خواتین کے مسائل کے حل کے لئے ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے اور خواتین کے تئیں مثبت سوچ اور رویہ میں نرمی پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ رجولیت کے غلبہ والے سماج میں خواتین کے تئیں احترام اور ان کی اہمیت کا احساس دلانا ضروری ہے۔ آج ہزاروں خاندان معاشی خوشحالی کے باوجود خوشحال زندگی گزارنے سے قاصر ہیں۔ اس کی اہم وجہ خواتین کا عدم احترام ، خواتین کے تئیں منفی سونچ اور خواتین پر عدم اعتمادی ہے۔


آن لائن تجارت کی مشہور کمپنی امیزون کے سربراہ کی اہلیہ نے جب طلاق لے کر شوہر سے علاحدگی اختیار کر لی تو علاحدگی کے سبب بطور ہرجانہ ملنے والی رقم لے کر وہ دنیا کی سب سے امیر ترین خاتون بن گئی تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دولت کی فراوانی کے باوجود بڑے بڑے امیروں کی ازدواجی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں۔ کورونا وبا کے دوران اور مابعد کورونا، اخبارات میں یہ سنسنی خیز رپورٹ آئی کہ کورونا وبا کے دوران خواتین پر گھریلو تشدد کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ درج کیا گیا۔ کورونا وبا کے ذیلی اثرات سے مردوں کی بہ نسبت خواتین ہی زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔
کورونا وبا کے دوران جہاں خواتین پر کام کے بوجھ میں اضافہ ہوا، گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا، ملازمت پیشہ اور مزدور خواتین روزگار سے محروم ہو گئیں۔ معاشی بدحالی کے نتیجہ میں وہ تغذیہ بخش غذا کھانے سے بھی محروم رہیں اور مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار ہوئیں۔خواتین کی قوتِ مدافعت میں قابل لحاظ کمی واقع ہوئی۔


دنیا کے ایک تہائی ممالک کی خواتین اقل ترین صفائی کے وسائل سے محروم ہیں۔ تاہم شعبہ حیات کے تمام شعبہ جات میں خواتین کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن وہ مساوی مواقع حاصل کرنے سے ہنوز محروم ہیں۔ مردوں کے مساوی کام کرنے کے باوجود بھی مردوں کے مساوی تنخواہ اور عزت و وقار حاصل کر نے میں خواتین ناکام ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ہرسال 8/ مارچ کو یومِ خواتین منانے کے باوجود بھی خواتین کے معیار زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ جنسی مساوات کے معاملہ میں دنیا کا کوئی بھی ملک یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس صد فیصد جنسی مساوات ہے۔ آبادی کا نصف حصہ اور اٹوٹ حصہ ہونے کے باوجود بھی اعلی عہدوں میں خواتین کی کمتر حصہ داری تشویشناک ہے۔ اراکینِ پارلیمنٹ میں صر ف 24 فیصد خواتین ہی شامل ہیں۔


عالمی سطح پر ہر تین کے منجملہ ایک خاتون جنسی ہراسانی کا شکار ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں آج بھی خواتین جنسی ہراسانی اور عدم مساوات کا شکار ہیں۔ اور اس کا آغاز خود ان کے گھروں سے اور افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ان کے والدین کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔ آج بھی اکثر والدین اپنے بچوں خاص طور پر لڑکے اور لڑکیوں کی پرورش میں تفریق کرتے ہیں۔ لڑکیوں کو آج بھی پرائی امانت کا بوجھ سمجھا جاتا ہے اور اس اعتبار سے ان کی بہتر نگہداشت اور پرورش پر توجہ نہیں دی جاتی۔ کئی لڑکیاں تغذیہ بخش غذا نہ ملنے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں۔


ملک کی مختلف ریاستوں میں خواتین اقل ترین انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ چولہا اور چکی اکثر خواتین کا مقدر بن گیا ہے۔ مذہبی ، جنسی ، طبقاتی ، علاقائی اور نسلی تفریق کا سب سے زیادہ شکار خواتین ہی ہوتی ہیں۔ گھریلو تشدد ، جہیز ہراسانی ، کام و ملازمت کے مقام پر ہراسانی، عوامی مقامات پر چھیڑ چھاڑ ، بسوں میں سفر کے دوران، رات کے اوقات میں سفر کے دوران خواتین کا تحفظ ایک غیر یقینی کیفیت بن چکا ہے۔ ترقی کے نام پر عورت کو عریاں کیا جا رہا ہے۔ آزادی کے نام پر عورت کو بازاروں میں تشہیری عنصر بنا دیا گیا ہے۔ راست اور بالراست عورتوں کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے۔ سرکاری اور خانگی شعبہ جات بھی اس معاملہ میں 'ہم کسی سے کم نہیں' کا منظرِ عام پیش کرتے ہیں۔ مردوں کے استعمال کی اشیا کی تشہیر کے لئے خواتین بلکہ عریاں خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا یہ خواتین کی توہین نہیں؟ جبکہ ہندوستان ایسا ملک ہے کہ یہاں ایک عرصہ تک سید ذات کی مسلمان لڑکی محض اس لئے کنواری رہ جاتی تھی کہ کوئی بھی اس سے شادی کر کے اس کی بے حرمتی کرنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن آج صورتحال برعکس ہے۔


ملک میں اس وقت گھریلو تشدد ایکٹ 2005ء ، امتناع جہیز ایکٹ 1961 پوکسو ایکٹ 2021 کے علاوہ دیشا ایکٹ وغیرہ جیسے قوانین موجود ہیں جو خواتین کی سلامتی و حفاظت کے لئے بنائے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی خواتین کی عظمت میں اضافہ نہ ہو سکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب خواتین کو ہی چاہئے کہ وہ اپنے ماتحت مردوں کو خواتین کے احترام کا سبق پڑھائیں۔ تاکہ عورتوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک اختیار کیا جائے۔ عورت اپنے ہر روپ ، ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کے روپ میں قابل احترام ہے۔
اگر ایک ماں اپنی گود میں پروان چڑھنے والے بچے کو عورت کی عظمت اور اس کا تقدس اور اہمیت سمجھائے تو خواتین کی اہمیت بچے کے ذہن میں جاگزین ہو جائے گی۔ قوانین وضع کرنے سے زیادہ عملی طور پر عورتوں کو اپنی صنفی امتیاز کے خلاف آواز اٹھانا ہوگا اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ مرد حضرات نیند سے بیدار ہونے کے بعد نیند کی آغوش میں جانے تک عورتوں سے اپنی جسمانی و روحانی تسکین جہاں حاصل کرتے ہیں وہیں انہیں چاہئے کہ خواتین کا مناسب احترام بھی کریں۔
خواتین کے عدم احترام اور ان کے حقوق کی عدم ادائیگی کا نتیجہ ہے کہ آج گھروں میں سکون نہیں ، شوہر بیوی ایک دوسرے سے خوش نہیں۔ ازدواجی زندگی قیامتِ صغری کا منظر پیش کرتی ہے۔ کورونا وبا کے دوران بھی ہم نے دیکھا کہ جہاں خواتین نے کئی گھریلو ذمہ داریوں کو بخوبی بنھایا وہیں اپنی پیشہ وارانہ فرائض بھی خوش اسلوبی سے ادا کیے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی صورتحال کے باوجود پورے ہندوستان اور تمام شعبہ جات کو چھٹی مل گئی لیکن خواتین کو چھٹی نہ ملی اور نہ ان کا شعبہ لاک ڈاؤن کا شکار ہوا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خواتین کے بغیر گھر کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ اقبال نے صد فیصد سچ کہا تھا کہ ؂
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

***
رفعت بیگم (پی جی ٹی اردو)۔ تلنگانہ اقلیتی اقامتی اسکول، نارائین کھیڑ، ضلع سنگاریڈی، تلنگانہ۔
ای-میل: prlnarayankhedboys[@]gmail.com

Corona virus and Women issues. Essay by: Rafat Sultana

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں