شاہ رفیع الدین دہلوی کی عربی نعتیہ شاعری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-16

شاہ رفیع الدین دہلوی کی عربی نعتیہ شاعری

shah-rafiuddin-dehlavi-arabic-naat-poetry
پیدائش اور حالات زندگی (1163ھ - 1233ھ) :

شاہ رفیع الدین عبد الوہاب بن ولی اللہ بن عبد الرحیم عمری دہلوی شہر دہلی میں 1163ھ میں پیدا ہوئے ، آپ نے شیخ عبد العزیز دہلوی سے ایک عرصہ دراز تک کسب فیض کیا اور مختلف علوم و فنون میں دسترس حاصل کی۔ آ پ کا شمار نابغہ زمانہ میں ہوتا تھا ،حتی کہ آ پ علماء و فضلا کے مرجع و مصدر بن گئے ،شیخ عبد العزیز دہلوی نے بھی حالت مرض میں آپ ہی کو منصب درس و افادہ تفویض کردیا تھا۔ آ پ اپنے زمانہ کے بلند پایہ بزرگ عالم دین ، محدث اور فقیہ تھے۔ جس کسی موضوع پر گفتگو کرتے اس کا حق ادا کردیتے۔ سامع کو یہ محسوس ہوتا کہ گویا یہی آپ کا میدان خاص ہے ،اس طرح آپ ہر علمی موضوع پر کا مل دسترس اور عبور رکھتے تھے۔ آپ علم و عمل کے جامع پیکر تھے ،آپ کی شخصیت زہد و تقویٰ سے عبارت تھی ،بقول سر سید احمد خان " آپ انسانی روپ میں فرشتہ تھے" ،آپ نے سن 1233ھ میں کثیر علمی و ادبی ترکہ کے ساتھ دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔


شاعری :

شیخ رفیع الدین دہلوی علوم اسلامیہ و ادبیہ میں عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے بھائی شیخ عبد العزیز دہلوی نے شیخ محمد شیروانی کو ایک خط لکھا جس میں شاہ رفیع الدین کے علمی و ادبی کمالا ت کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ پیس کیا۔ اس خط میں آپ نے شاہ رفیع الدین کو اس زمانہ کا علمی و ادبی عجوبہ شمار کیا ہے۔ شاہ رفیع الدین عربی زبان و ادب پر کا فی مہارت رکھتے تھے ، جس کا بین ثبوت آپ کا وہ قصیدہ ہے جس میں شیخ علی ابن سینا کے عینیہ قصیدہ قصیدۃ الروح کا جواب دیا گیا ہے اس کا مطلع ہے۔

ہبطت إلیک من المحل الأرفع
ورقاء ذات تعزز وتمنع

جوابا شیخ رفیع الدین دہلوی نے ایک قصیدہ کہا اس کا مطلع ہے ،

عجبا لشیخ فیلسوف ألمعی
خفیت لعینیہ منـارۃ مشرع


یہ قصیدہ 116، اشعار پر مشتمل ہے۔ نعت نبی ﷺ پر مشتمل آپ کا قصیدہ جوکہ ہمارا موضوع بحث ہے ،30 اشعار پر مشتمل ہے، قصیدہ کا ہر شعر عمدہ تعبیرات اور پاکیزہ خیالات سے عبارت ہے ،آپ کے اشعار افراط و تفریط سے پاک ہیں۔ شاعر رسول حضرت حسّان بن ثابتؓ نے جس طرح نہایت بلیغ اور جامع انداز میں آپ کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا۔

(1) أحسن منک لم تر قط عینی
وأجمل منک لم تلد النساء
(2) خلقت مُبرء اً من کل عیب
کأنک قد خلقت کما تشاء


(1) آپ سے زیادہ خوبرو آج تک کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اورآپ سے زیادہ حسن و جمال کا پیکر آج تک پید اہی نہیں ہوا۔
(2) آپ ہر عیب سے ایسے پاک ہوئے ہیں کہ گویا کہ آپ کی ولادت آپ کے منشاء کے مطابق ہی ہوئی ہے۔


اسی اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے شاہ رفیع الدین دہلوی نے بھی شان نبوت میں ہدیہ تبریک پیش کیا ہے ،آپ نے جاہلی اسلوب سے گریز کرتے ہوئے قصیدہ کو نسیب ،غزل اور تشبیب سے شروع نہیں کیا ،بلکہ نعت نبویؐ کیلئے ایک منفرد اسلوب اختیار کیا یہ مکمل قصیدہ واقعہ معراج پر مشتمل ہے، ابتدائے قصیدہ میں شاعر کہتا ہے:


1 : یا أحمد المختار یا زین الورٰی : یا خاتما للرسل ما أعلا کا
2 : ہل کان غیرک فی الأنام من استوی : فوق البراق وجاوز الأفلاکا
3 : واستمسک الروح الأمین رکابہ : فی سیرہ واستخدم الملاکا
4 : عرضت لک الدنیا وداعوملۃ : نسخت ببعثک طامعین رداکا
5 : فرددتہم فی خیبۃ عن قصدہم : اللہ صانک عنہم ووقاکا
6 : واخترت من لبن وخمر فطرۃ : إلاسلام بالہدی إلیک ہداکا
7 : قعدت لک الرسل العظام ترقبا : فعلوت مغبوطا لہم مسراکا
8 : وأمّمتہم فی القدس بعد تجاوز : منہم بأمر اللہ إذ ولّاکا


(1) اے احمد مختار اور مخلوق کے لئے باعث شرف،اے خاتم النبیین آپ کا مقام و مرتبہ کس قدر بلند ہے۔
(2) مخلوق میں آپ کے علاوہ کوئی ے جس کے حصہ میں براق کی سواری آئی ہو اور جسے آسمانوں سے پرے بھی مہمانی کی توقیر حاصل ہوئی ہو۔
(3) دوران سفر روح الامین حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کی سواری کی رکاب تھامے ہوئے تھے اور فرشتے آپ کی خدمت میں مصروف تھے۔
(4) دنیا زیب و زینت کے ساتھ آپ کے سامنے آئی اور مختلف مذاہب کے پیشوا بھی سرگرم عمل ہوئے لیکن آپ کی بعثت نے مذہبی پیشواؤں کی آرزوؤٔں پر پانی پھیر دیا اور ان کے مذاہب کو منسوخ کردیا۔
(5) آپ نے ان کو ان کی کوششوں میں ناکام کردیا اور اللہ نے اپنے فضل سے آپ کی حفاظت فرمائی اور ان کے شرور و فتن سے محفوظ رکھا۔
(6) بیت المقدس میں معراج کے موقع پر شراب اوردودھ میں سے آپ نے دودھ یعنی فطرت اسلام کا انتخاب فرمایا۔
(7) معراج کے موقع پر بیت المقدس میں تمام انبیائے کرام آپ کے لئے سراپا انتظار تھے۔
(8) اور آپ نے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیائے کرام کی اللہ کے حکم سے ان حضرات کی خواہش پر امامت فرمائی۔


قصیدہ نہایت ہی سلیس عبار ت سے آراستہ ہے ،تکلف و تصنع سے مبرا اور تعقید لفظی و معنوی سے پاک ہے۔ معراج میں حاصل اعلی مکان و مقام کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

1 : أد ناک ربک فی منازل قربہ : جلّی لک الأکوان ثم حباکا
2 : وأتم نعمتہ علیک فلم تسل : أن توثر الإنفاق والإمساکا
3 : ألقی إلیک کنوز أسرار سمت : من حیطۃ الأفہام إذ ناجاکا
4 : وسألت فینا العفو منا شفاعۃ : فأجاب ربّک قد وہبت مناکا
5 : حتی اذا تم الدنو تسترت : منک الہویۃ فی سنا مولاکا
6 : فلک المناصب والسیادۃ للوری : وخلافۃ الرحمن یا بشراکا


(1) اللہ تعالیٰ نے آپ کو قربت کے قریب ترین شرف سے نوازا اس طور پر کہ تمام حجابات دور کردیئے گئے۔
(2) اورپھر آپ پرتمام نعمتوں کے دہانے کھول دئے گئے تو اب انفاق و جز رسی کی اثر انگیزی کے بارے میں کچھ سوال نہ کرو۔
(3) اور جب آپ کو لذت مناجاۃ حاصل ہوئی تو اس وقت جو اسرار و رموز آپ پر منکشف کیے گئے عقل انسانی میں یہ مجال نہیں کہ اس کا احاطہ کرسکے۔
(4) وہاں آپ ﷺنے اللہ سے اپنی امت کے لئے عفو و درگزر اور شفاعت کی درخواست کی اور جواب میں رب نے کہا کہ آپ کی تمام گزارشات کو شرف قبولیت سے نوازدیا گیا۔
(5) پھر جب آپ کو اللہ کا انتہائی درجہ قرب حاصل ہوا تو اللہ کے نور کی تجلی نے آپ کے جسم مبارک کو ڈھانپ لیا۔
(6) تمام مخلوق کی سیادت و امامت آپ کے حصہ میں آئی اور مزید سرفرازی یہ کہ اللہ کی نیابت کاسہرا بھی آپ ہی کے سر ہے۔


یہ قصیدہ کا فی اثر انگیز واقع ہوا ہے اورکیو ں نہ ہو شاعر کا مقصود بالکل واضح ہے کہ وہ نام و نمود یا مال و دولت کے حصول کیلئے شاعری نہیں کررہا ہے بلکہ تاریخ انسانیت کا اہم ترین مرحلہ واقعہ معراج کو بیان کر رضاء الٰہی کا طالب ہے۔ ہر تنگی کے بعد خوشحالی آئے گی اور جانفشانی کے بعد رحمت الٰہی کا ظہور ہوگا ،آپؐ کی کل زندگی دراصل یہی سبق دیتی ہے ، شاعر مزید کہتا ہے:

1 : أعطاک تخفیفا وتیسیرا إلی : دین قدیم محکم لقواکا
2 : وسواہ من نعم جسام ما لہا : عدّ وحدّ ینتہی أولاکا
3 : فرجعت مسروراً لہا فی لمحۃ : وجمیع خلق اللہ قد ہنّاکا
4 : أجریت دین اللہ بعد نضوبۃ : ومحوت رأس الجہل والإشراکا


(1) آپ کی میزبانی اس طرح کی گئی کہ دین قویم کے بعض احکام میں آسانی اور تخفیف کردی گئی تاکہ اللہ کے نزدیک آپ کی عظمت کا اظہار ہو۔
(2) ہر طرح کی نعمتوں سے آپ کے دامن مراد کو مالا مال کردیا گیا۔ جس کا شمار نا ممکن ہے اور اس کی گنتی اختر شماری کے مرادف ہے۔
(3) اور چند لمحوں میں آپ سیر افلاک کے بعد فرحت و انبساط کے ساتھ واپس تشریف لائے اور اللہ کی تمام مخلوق نے آپ کو مبارباد پیش کی۔
(4) اللہ کا محبوب دین جو موت و زیست کی کشمکش سے دو چار تھا آپ نے اس کو حیات نو بخشی اور شرک و جہالت کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لئے مٹادیا۔


شیریں الفاظ ،سہل اسلوب اور دلنشیں معانی کے ساتھ قصیدہ کا اختتا م ہوتا ہے، واقعہ معراج کے بیان میں مکمل قصیدہ قرآن اور احادیث نبویہ کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ تعلیمات اسلامی کے خلاف قصیدہ میں کوئی بات نہیں ہے، مدح نبوی میں شاعر کو توفیق الٰہی شامل رہی ہے کہ اس نے جادہ اعتدال سے گریز نہیں کیا۔


***
ڈاکٹر خلیل احمد ندوی۔ صدر شعبہ عربی۔ کوہ نور کالج ،خلدآباد
Email: chishtikhalil[@]gmail.com
ڈاکٹر خلیل احمد ندوی

The Arabic Naat poetry of Shah Rafiuddin Dehlavi. Essay: Dr. Khalil Ahmed Nadvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں