بن پھول کی کہانیاں اور احمد کمال حشمی کے تراجم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-15

بن پھول کی کہانیاں اور احمد کمال حشمی کے تراجم

ban-phool-by-ahmad-kamal-hashami-review-by-maqsood-hasan

آج سے تین چار سال قبل جب میں بنگلہ زبان سنجیدگی سے سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو میرے جوش کو دیکھتے ہوئے کچھ بنگالی دوستوں نے مذاقاً یہ مشورہ دیاتھا کہ اگر بنگہ زبان سیکھنی ہے تو کسی بنگالی لڑکی سے عشق کر لو (شادی سے پہلے اس مشورے پر عمل درآمد کیا بھی جا سکتا تھا مگر ایک شادی شدہ شخص کے لیے ایسا مشورہ زہر ہلاہل سے کم نہیں)۔ خیر کسی بنگالی لڑکی سے محبت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی مگرکچھ دنوں کے بعد بنگلہ زبان بالخصوص بنگلہ فکشن سے عشق ضرور ہو گیا اور اسی عشق نے مجھے سمریش مجمدار، ستیہ جیت رے اور بن پھول کی کہانیوں سے متعارف کرایا۔ پھر کچھ دنوں میں ہی بن پھول کی کہانیوں نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا۔


بن پھول کی کہانیاں عموماً کسی قسم کے تصنع سے پاک ہوتی ہیں۔ ان کی سادگی اور ان میں موجود کہانی پن بہت جلد قاری کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں۔ ان مختصر کہانیوں کے مطالعے سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کا مشاہدہ کتنا عمیق ہے۔ اپنے آس پاس رونما ہونے والے معمولی واقعات سے کس طرح وہ کہانی کا عرق کشید کرتا ہے۔ باتوں باتوں میں کہانی شروع ہوتی ہے ، پلاٹ بہت سادہ ہوتا ہے مگر کہانی جب اپنے اختتام پر پہنچتی ہے تو ہمارے ذہن کو جھنجھوڑ دیتی ہے، کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے کوئی پھوڑا مسل دیا ہو۔ بعض اوقات ان کہی باتوں کی کسک سے دل تڑپ اٹھتا ہے۔ بن پھول کی کہانیوں کے مطالعے کے دوران کم از کم مجھ پر تو یہی کیفیت طاری رہی۔


بن پھول کا اصل نام بولائی چند مکھو پادھیائے تھا۔ ان کی پیدائش 19، جولائی 1899ء کو بہار کے پورنیا ضلع (موجودہ کٹہار ضلع) کے منیہاری گاؤں میں ہوئی تھی۔ 9/فروری 1979ء کو لیک ٹاؤن کلکتہ میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ پیشے سے ایک کامیاب ڈاکٹر تھے کہا جاتا ہے کہ اپنی پریکٹس کے دوران وہ اپنے مریضوں کے بہت قریب ہو جایا کرتے تھے جس سے انہیں ان کے سکھ دکھ اور زندگی کے مختلف گوشوں میں جھانکنے کا موقع مل جاتا تھا مگر ان مشاہدوں اور تجربوں کو کہانی کی شکل دینا بن پھول کے فن کا ہی حصہ تھا۔
بن پھول کی کہانیوں کے مطالعے کے دوران مجھے اکثر یہ خیال آتا رہا کہ ان کی نمائندہ کہانیوں کا ایک عمدہ انتخاب اردو زبان میں شائع ہونا چاہئے تاکہ وہ اردو والے جو بنگلہ زبان و ادب سے انجان ہیں ، اس عظیم مصنف سے واقف ہو سکیں اور اس کی کہانیوں کی دنیا کی سیر کر سکیں۔ یوں تو بن پھول کی کہانیوں کے ترجمے وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں مگر کسی نے انہیں کتابی شکل میں شائع کرنے کی کوشش نہیں کی۔
چونکہ میں بن پھول کی زیادہ تر کہانیاں بنگلہ زبان میں پڑھ چکا ہوں اس لئے میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ احمد کمال حشمی نے بہت ہی کامیاب ترجمہ کیا ہے اور ان کے تراجم کے مطالعے سے ان کہانیوں پر طبع زاد کہانیوں کا گمان ہوتا ہے۔
یہ بات اسی وقت ممکن ہے جب مترجم کو دونوں زبانوں پر استعداد حاصل ہو۔
اچھا ترجمہ کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مترجم اصل متن کو اپنے اندر جذب کر لے اس کی روح میں اتر جائے ، تبھی اصل متن کی قرات سے جوکیفیت پیدا ہوگی وہی ترجمہ شدہ متن میں بھی نظر آئے گی۔ واضح رہے کہ اچھا ترجمہ کرنے کے لئے صرف دونوں زبانوں پر عبور ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ ان دو زبانوں کی تہذیب ، روایت، الفاظ کے مزاج، کلچر اور ماحول سے بھی بڑی حد تک آشنا ہونا ضروری ہے۔ چونکہ احمدکمال حشمی اپنی سروس کے دوران گزشتہ پچیس تیس برسوں سے مغربی بنگال کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر رہے ہیں ، بنگلہ کلچر اور زبان سے ہمیشہ ان کا سابقہ پڑا ہے، خود بھی اردو غزل کے اعلیٰ پائے کے شاعر ہیں اور گاہے بہ گاہے افسانچے بھی لکھتے رہتے ہیں اس لئے انہوں نے بنگلہ متن کو بڑی خوب صورتی اور کامیابی کے ساتھ اردو قالب میں اتارا ہے جس سے ترجمہ شدہ متن کا مزاج بڑی حد تک اصل کے قریب تک پہنچ گیا ہے اور یہی ان کے تراجم "بن پھول" کی نمایاں خوبی ہے۔


مغربی بنگال میں ترجمے کی روایت زیادہ مستحکم نہیں ہے۔ ہمارے بزرگوں میں سالک لکھنوی اور علقمہ شبلی صاحبان بڑی سنجیدگی سے بنگلہ زبان کی نظم اور نثر پاروں کو ترجمہ کرتے آئے ہیں۔ موجودہ زمانے میں پروفیسر شہناز نبی، مصطفیٰ اکبر، نسیم عزیزی، ف۔ س۔ اعجاز ، ایم علی ، فہیم انور اور شبیر احمد جیسے ادباء بنگلہ ادب کی تخلیقات سے اردو طبقے کو روسناش کراتے نظر آتے ہیں (پروفیسر شہناز نبی متواتر بنگلہ ادب کے تراجم کو اپنے رسالے "رہراوان ادب " میں جگہ دیتی رہی ہیں) مگر اس کے آگے کا منظرنامہ مایوس کن ہے۔


احمد کمال حشمی نے ــ"بن پھول"کے پیش لفظ "تیسرا خط" میں لکھا ہے :
"مغربی بنگال کے بیشتر اردو شعرا اور ادبا رابندر ناتھ ٹیگور، نذرالاسلام اور سرت چندر چٹرجی کے سوا کسی اور نام سے واقف بھی نہیں ہیں "
چنانچہ انہوں نے بالکل صحیح مشورہ دیا ہے کہ "مغربی بنگال کے تمام مترجمین سے میری گزارش ہے کہ اِدھر اُدھر کی منتخب نظموں اور کہانیوں کے ترجمے کرنے کے بجائے وہ کسی مخصوص شاعر یا کہانی نویس کی پچیس تیس نظموں یا کہانیوں کے ترجمے کریں تاکہ اردو کے قارئین بنگلہ زبان کے شاعروں اور ادیبوں سے واقف ہو سکیں"


جو لوگ افسانچہ نگاری کے فن سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کے لئے بن پھول میں شامل کہانیاں ایک عمدہ مشعلِ راہ ہیں۔ کسی صنف کو سمجھنے کے لئے اس صنف کے اعلیٰ نمونوں کو بھی پیش نظر رکھنا پڑتا ہے تا کہ اس کے خدوخال، کرافٹ اور معیار کا تصور ذہن میں واضح ہو سکے۔ ان دنوں اردو میں افسانچے کے فن کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے چونکہ افسانچہ مختصر ہوتا ہے اس لئے عام طور پر لوگ اس فن کو آسان سمجھتے ہیں کہ اس میں محنت نہیں لگتی اور نہ ہی غور و فکر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے چنانچہ فیس بک اور واٹس ایپ کے ادبی گروپوں میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی نصیحت ، قول زریں ، واقعہ، حادثہ یا خیال پر افسانچہ کا لیبل چسپاں کر کے پیش کر دیا جاتا ہے مگر اہل نظر بخوبی جانتے ہیں کہ اس میں افسانچہ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔
کسی واقعہ ، خیال، خبر یا احساس کو افسانچہ کیسے بنانا ہے ، اس کی پلاٹ سازی کیسے کرنی ہے ، کیا کہنا ہے اور کیا اَن کہا چھوڑ دینا ہے ، کہاں افسانچہ ختم کرنا ہے ، اس کے کلائمکس میں قاری کو کیسے چونکانا ہے یہ تمام باتیں بن پھول کی کہانیوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
چنانچہ احمد کمال حشمی کی کتا ب "بن پھول" عمدہ اور معیاری افسانچوں کی بہترین کتاب ہے جو افسانہ اور افسانچہ نگاری سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے لئے کسی تحفے سے کم نہیں۔


احمد کمال حشمی ایک فعال، زرخیز ذہن اور ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہی اپنی صلاحیتوں کو وسعت دینے کی کوشش کی ہے، تجربے کئے ہیں اور اہل نظر سے داد و تحسین حاصل کی ہے۔ وہ غزل کے ایک اعلیٰ پائے کے شاعر ہیں ، ادب اطفال میں بچوں کے لئے بھی شاعری کرتے ہیں ، "آدھی غزلیں " کے نام سے ان کی کتاب آ چکی ہے جس میں مشہور شعرا کی کسی غزل کے ہر شعر کے ثانی مصرعوں پر اولیٰ مصرعے لگا کر غزل کہنے کا تجربہ کیا گیا ہے۔
مزید براں انہوں نے تضمین کے فن میں بھی کمال دکھایا ہے اور مخمس کی شکل میں اساتذہ کے شعروں پر تضمینیں کہی ہیں ، اور اب بنگلہ زبان کے مشہور مصنف بولائی چند مکھو پادھیائے یعنی بن پھول کی نمائندہ کہانیوں /افسانچوں کا بہترین اور کامیاب ترجمہ بھی کیا ہے۔ جس کی زبان بہت ہی سلیس ، رواں دواں اور عمدہ نثر کی بہترین مثال ہے۔ جو نہ صرف بنگلہ ادب کے ایک اہم مصنف کو مغربی بنگال اور ہندوستان کے اردو حلقے سے متعارف کراتا ہے بلکہ بنگلہ ادب کے دیگر فن پاروں کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالنے کی ترغیب دیتاہے۔
مجھے قوی امید ہے کہ مستقبل میں احمد کمال حشمی کے فعال قلم سے بنگلہ ادب کے کچھ اور بھی فن پارے تراجم کی شکل میں منصۂ شہود پر ظہور پذیر ہوں گے۔

یہ کتاب کتابی شکل (ہارڈ کور) میں درج ذیل فون نمبر/ ای-میل پر ربط کر کے منگوائی جا سکتی ہے۔
کتاب: بن پھول
مترجم: احمد کمال حشمی
طبع اول: 2022
صفحات: 216
قیمت: 200 روپے
رابطہ :09433145485
ای-میل: ---
***
Maqsood Hasan,
Addl Superintendent of Police (HQ),
Office of the Superintendent of Police, Baruipur Police District,
Zila Parishad Bhawan, Kulpi Road
PO : Baruipur, Kolkata -700144
Email: maqsooddysp@gmail.com
مقصود حسن

Ban Phool, a review on Ahmad Kamal Hashami's translated book of Bangla short stories. Reviewer: Maqsood Hasan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں