مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-20

مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم

islamic-madrasa-curriculum

مدارس اسلامیہ کے قیام کا بنیادی مقصد اسلامی تعلیمات کو عام کرنا لوگوں تک صحیح اسلامی تعلیم کو پہنچانا اور ساتھ ہی بدعت و خرافات شرک و کفر کا منہ توڑ جواب دیکر اسےجڑ سے ختم کرنا ہے اس عظیم مقصد کے لئے مدارس اسلامیہ ایک لمبے مدت سے اپنے پورے خلوص اور محنت و لگن کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور انہیں اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے الحمدللہ جس کی گونج پورے ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی سنائی دے رہی ہے۔
صاحب تحفہ عبدالرحمن مبارک پوری ہوں یا مناظر اسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری ہوں یا پوری دنیا میں اپنے علم سے فیض پہنچانے والے شیخ الحدیث میاں نذیر حسین محدث دہلوی ہوں یا خطیب الہند عبدالقیوم و عبدالروف رحمانی ہوں یا پوری دنیا میں سلفیت کی نمائندگی کرنے والے عبدالحمید ابن عبد الجبار رحمانی ہوں۔۔۔ ان تمام حضرات نے اپنی پوری جانفشانی اور پورے خلوص و للہیت کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا تک پہنچانے کا کام کیا ہے ساتھ ہی مدارس اسلامیہ کا ایسا جال ہندوستان میں بچھایا ہے کہ جس سے آج بھی لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ اور دین کے مبلغ داعی اور دین کے سچے نمائندے کثیر تعداد میں پیدا ہو رہے ہیں۔ الحمدللہ علی نعمہ


علماء مدارس نے ہمیشہ حالات کے مطابق ضروری ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اس ملک کی ترقی و بلندی کے لئے ہمیشہ قربانی دی ہے ، جب بھی وطن عزیز کو قربانی کی ضرورت پڑی ہے تو علماء اسلام نے جان دینے تک سے قطعا گریز نہیں کیا بلکہ ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی واضح مثال 1857 کا وہ غدر ہے جس میں انگریزوں کے خلاف علماء نے ہی فتویٰ جہاد بلند کیا ، وہابی تحریک نے انگریزوں کے ہوش اڑا دئیے اور جس بنا پر اقتدار کے حریص فرنگیوں نے علماء سے ایسی دشمنی نبھائی جس کی سزا انہیں یہ ملی کہ میرٹھ سے لے کر دلی کے درختوں پر علماء کی لاشیں ہی لاشیں لٹک رہی تھیں اور چن چن کر علماء کو قتل کیا جارہا تھا سولی پر چڑھایا جارہا تھا اس طرح کی بے شمار قربانیوں و واقعات سے تاریخ کے صفحہات سیاہ پڑے ہوئے ہیں لیکن علماء نے ظالم اور فاسق طاقتوں کے خلاف محاذ آرائی کرنے میں پیچھے ہٹنا کبھی بھی گوارہ نہیں کیا۔


آج ہمارا وہی وطن عزیز ہندوستان جس کو ہم نے اپنے خون جگر سے سینچ کر پروان چڑھایا ہے دوبارہ بڑی مصیبتوں اور پریشانیوں سے گزر رہا ہے۔ اس بار کچھ اندرونی فاسق طاقتیں اسے کمزور کرنا چاہ رہی ہیں اور یہ ملک ہمیں زور زور سے آواز دیکر مدد کی فریاد کر رہا ہے۔ خواہ وہ فریاد لنچنگ اور بھیڑ کے ذریعہ زدوکوب کیا جانے والا مظلوم ،لاچار اور بےبس شخص کی صورت میں ہو ، CAA، یا NRC کے خوف میں مبتلا ایک پوری مظلوم قوم کی فریاد کی صورت میں ہو یا مسجدوں اور عبادت گاہوں کو مسمار کرکے جمہوریت کی روح سیکولرزم کے ڈھانچے کو تباہ کرنے والے واقعات ہوں۔۔۔ سب فریاد کر رہے ہیں کہ اس ملک کی سالمیت کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہے اس کو برقرار رکھنے کے لئے انصاف پسندوں کو آگے آنا ہوگا جس طرح ماضی میں انگریزوں کے خلاف ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا آج بھی ملک کے اندرونی فاسق اور ظالم طاقتوں سے لڑنے کے لئے ہمیں دوبارہ آگے کی طرف کمر بستہ ہونا ہوگا۔ کیوں کہ اس ملک کی سالمیت کو اگر کوئی برقرار رکھ سکتا ہے اور اس ملک کو ترقی کی بلندی پر کوئی لے جا سکتا ہے تو وہ قوم، علماء مدارس ہی کی قوم ہے لیکن یہ بات بھی دھیان رہے کہ آج کا زمانہ شمشیر زنی کا زمانہ نہیں بلکہ اعلی تعلیم کے ذریعہ ہی ہم اپنے مخالفین کو زیر کر سکتے ہیں اس لئے ہمیں علم کے ہر میدان میں آگے آنا ہوگا اور مضبوطی کے ساتھ آنا ہوگا۔


آج اگر ہم انصاف کا بول بالا چاہتے ہیں تو ہمیں وکالت اور جج کے عہدے کو سنبھالنا ہوگا
آج اگر ہم خوف سے دور امن کے ساتھ پرسکون طریقے سے رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں DM اور SDM کی کرسی پر بیٹھنا ہوگا۔
آج اگر ہم ظلم و زیادتی سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں پولس کے اعلی عہدے کی ذمہ داری سنبھالنی پڑے گی۔
اور آج اگر ہم اس ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں تو ہمیں سیاسی میدان میں اتر کر اپنا حق حاصل کرنا ہوگا۔
کیوں کہ اس ملک کی ترقی اور سالمیت اسی وقت ممکن ہے جب اس ملک سے محبت کرنے والے اور اس کے ترقی کی فکر کرنے والے لوگ آگے آئیں گے اور وہ علماء ہی کی جماعت ہے۔
اس لئے اگر ہم اس ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں ظلم و زیادتی سے پاک پرامن ماحول لوگوں کو فراہم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں منظم طور پر پلانگ کے ساتھ علم کے میدان میں آگے آنا ہوگا تبھی یہ ساری چیزیں ممکن ہو پائیں گی۔


اے اہل وطن، جان وطن بن کے دکھا دو
تم خاک کے ذروں کو بھی انسان بنا دو
ہے ملک میں تفریق جہالت کے سبب سے
تم علم کی قوت سے یہ جھگڑا ہی مٹا دو
بے علم کا جینا بھی ہے اک قسم کا مرنا
جیسے تنِ بے روح جلا دو کہ دبا دو

مدارس اسلامیہ نے عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتےہوئے ہمیشہ وقت کی ضرورت کے پیش نظر اپنے درسی نصاب میں بھی ضرورت کے لحاظ سے ترمیم و اضافہ سے کام لیا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ مدارس میں منطق ، فلسفہ ، فارسی کی بڑی کتابیں شامل نصاب ہوا کرتی تھیں جو وقت کی ضرورت تھیں کیوں کہ اس وقت دفتری زبان فارسی ہی ہوا کرتی تھی لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ مدارس نے اپنے نصاب میں کچھ ترمیم کیا اور منطق فلسفہ اور فارسی کو نصاب سے خارج کر دیا، اس کی جگہ ریاضی سائنس ،انگلش اور کمپیوٹر کو داخل نصاب کر لیا جو کہ وقت کی اہم ضرورت اور مانگ ہے کیوں کہ آج کے سرکاری دفتروں میں ان مضامین اور مادے کے بغیر کوئی کام کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔


مدارس کے اس ترمیم و اضافہ کو ہر کسی نے سراہا اور اس کا پرتپاک خیر مقدم کیا مختلف عصری یونیورسٹیاں نے تو طلبہ مدارس کو اپنے یہاں ہاتھوں ہاتھ لینا شروع کر دیا یہی نہیں بلکہ انھیں برج کورس جیسی سہولیات تک فراہم کرکے حوصلہ بڑھانے کا بھی کام کیا اور اب تک وہ یہ کام بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔ ان عصری یونیورسٹیوں میں:

  • علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
  • جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
  • مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
پیش پیش ہیں۔

مدارس کے نصاب میں ترمیم و اظافہ اور مختلف عصری یونیورسٹیوں کا اس کو سراہنا اتنا سود مند ثابت ہوا کہ وہ والدین جو اپنے بچوں کودینی اور عصری تعلیم کے زیور سے مالامال دیکھنا چاہتے تھے انھوں نے اپنے بچوں کو مدارس میں داخلہ کو ہی سب سے مناسب سمجھا اور دیکھتے ہی دیکھتے مدارس میں طلبہ کی تعداد اس قدر بڑھنا شروع ہوگئی کہ اس تعداد کو سنبھالنا مشکل ہوگیا اور ایک ایک کلاس کو کئی کئی گروپ میں تقسیم کرنا پڑا۔
اور پھر عام لوگ بھی مدارس سے بڑی تعداد میں جڑنے لگے۔ طلبہ مدارس سے بہت سی دینی اور دنیاوی اور وطن عزیز کی سالمیت و ترقی کی بھی ساری امیدیں وابستہ کرنے لگے اور اس کے لئے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی بھی کرانے لگے اور نتیجہ یہ ہوا کی بڑی تعداد میں لوگوں نے مدارس کے لئے تعاون و مدد کے دہانے کھول دئے جس سے مدارس کی رہائشی بلڈنگیں ،کلاس روم ، ڈائنگ ہال اور لائبریری کی عظیم عمارتوں کی اعلی سہولیات دستیاب ہوئیں جہاں طلبہ مدارس کو بہتر اور پرسکون ماحول میں اپنے آپ کو مزید نکھارنے اور پروان چڑھنے کا مزید موقع میسر ہوا۔


لیکن ان تمام طرح کی ترقی سہولیات اور آسانیوں کے باوجود آج اگر ہندوستانی طلبہ دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار ہندوستان کی قیادت کرنا چاہتے ہیں اسے ترقی کی بلندی پر لے جانا چاہتے ہیں اور ہندوستان کو جنت نشان بنانا چاہتے ہیں تو اہل مدارس کو اپنے نصاب کی جانب سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا جو وقت کی بہت بڑی مانگ اور ضرورت ہے
کیوں کہ آج کا زمانہ تخصیص اور Specialization کا زمانہ ہے اس لئے ہمیں اس جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تخصیص کے اس دور میں طلبہ مدارس کو کسی خاص میدان کا ماہر بنانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ کام طالب علم کی مرضی، سوچ اور فطری صلاحیت کے مطابق ہو تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:


صورت نمبر 1

جس طرح سے یونیورسٹیوں میں طلبہ کو زیادہ تر اختیاری مضامین دئےجاتے ہیں جو طالب علم اسے اپنی سہولت اور دل چسپی کے مطابق اختیار کرتا ہے وہ اختیاری مضمون طالب علم کا ہدف ہوتا ہے اور اس تک پہنچنے میں بہت معاون ہوتا ہے۔ ساتھ ہی طالب علم متعلقہ مضمون اپنی دلچسپی کی وجہ سے یا کسی ذاتی فائدے کی وجہ سے منتخب کرتا ہے۔ اس طرح وہ پڑھائی کو بوجھ نہیں سمجھتا بلکہ اس سے بھر پور لطف اندوز ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم مدارس کی چوتھی جماعت جو کہ دسویں کلاس یعنی میٹرک کا درجہ رکھتی ہے، اس جماعت کے بعد طالب علم کو اس کے مستقبل کی سہولت اور دلچسپی کے موافق کچھ اختیاری مضمون پڑھنے کی سہولت ملے گی تو طالب علم کو کافی سکون اور آسانی کا احساس ہوگا۔
مثلاً اگر کوئی طالب علم محدث بننا چاہتا ہے، اس کو احادیث کی چھان پھٹک سے دل چسپی ہے تو اس کو ایسے اختیاری مضمون کے انتخاب کی سہولت ہونی چاہئے جس سے وہ اس میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کر سکے۔ اسے اصول حدیث، جرح و تعدیل ، رواۃ کے حالات زندگی سے متعلق مضامین کو پڑھنے کا اختیار و سہولت ہونا چاہئے۔ اس کی مرضی کے خلاف اقتصادیات ، سیاسیات، جغرافیہ وغیرہ کی باریکی میں پڑنے پر اسے مجبور نہیں کیا جانا چاہئے۔
اسی طرح اگر کوئی طالب علم مدرسہ سے فارغ ہو کرجدید تعلیم حاصل کرنے کے لئے عصری یونیورسٹیوں کا رخ کرنا چاہتا ہے اور مقابلہ جاتی امتحان میں بیٹھنا چاہتا ہے تو اسے اختیاری طور پر تاریخ، جغرافیہ، سائنس اور سیاسیات و معاشیات جیسے مضامین کو پڑھنے کا اختیار ہونا چاہئے اور رکاوٹ بننے والی تمام دیگر تعلیمی راہوں کو روک کر اسی میدان میں اس کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ اس کی مرضی کے خلاف رواۃ کی حالات زندگی ، جرح و تعدیل اور اصول فقہ کی موٹی موٹی کتابیں پڑھنے پر اسے مجبور نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس سے فایدہ یہ ہوگا کہ طالب علم پڑھائی سے مکمل طور پر لطف اندوز ہوگا، مستقبل کے ہدف کو پانے میں اسے بہت سی آسانیاں حاصل ہوں گی اور ساتھ ہی ساتھ تعلیم کا معیار بلند سے بلند تر ہوگا۔ یوں مدارس کے طلبہ کی نمائندگی بھی ہر میدان میں بہتر سے بہتر طور ہوگی جس سے دعوتی سرگرمی جو کہ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد ہے اس میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوگی۔


صورت نمبر 2

طلبۂ مدارس کو چوتھی جماعت (دسویں کلاس کے مماثل) تک یکساں نصاب پڑھایا جائے اور تمام طلبا کو بنیادی طور پر ہر اعتبار سے مضبوط کیا جائے تاکہ طالب علم دنیا و دین دونوں کی تمام مبادیات سے اچھی طرح واقف ہو جائے۔ لیکن چوتھی جماعت کے بعد مناسب زمرہ بندی کا اہتمام ہونا چاہیے۔ جو طالب علم محدث یا مفسر بننا چاہتا ہو اسے کلیہ حدیث یا کلیہ القرآن میں شامل کیا جائے اور اسی میدان میں محنت کرائی جائے۔ قرآن و حدیث سے متعلق تمام اہم کتابوں کے ذریعے اس کے علم کو مضبوط کیا جائے اور دینی علوم کی تمام باریکیوں سے بھی واقف کرایا جائے۔
اور جو طالب علم عصری جامعات میں داخلہ لینا چاہتا ہو یا مقابلہ جاتی امتحان میں شرکت کا آرزومند ہو، اسے کلیہ لسانیات میں شامل کیا جائے اور اس میدان سے متعلق یعنی زبان و قواعد ، تاریخ و جغرافیہ ،کمپیوٹر اور سائنس جیسے مضامین اور کتابیں اسے زیادہ سے زیادہ پڑھائی جائیں۔
اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ طالب علم اپنے مقصد اور ہدف کا ایک مناسب وقت متعین کرے گا اور اگر اسے موزوں و مناسب کتابیں اور مواد دستیاب ہوگا تو اس کے معیارِ اعتماد اور سطحِ خوداعتمادی میں اضافہ ممکن ہے۔ یوں قومی مفاد کی خاطر طلبہ اپنی تخصیص (specialization) کے سہارے بلند مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔ کیوں کہ جو طالب علم قرآن جیسی عظیم المرتبت کتاب کو حرف با حرف یاد کر سکتا ہے
اس کے لئے دنیا کا کوئی بھی کام مشکل نہیں ہو سکتا اور نہ اس طرز عمل کا کوئی بہتر متبادل ہو سکتا ہے۔


مدارس کے نصاب سے متعلق وقت کی ضرورت کے لحاظ سے یہ چند گذارشات ہیں۔ یہ اتنا اہم اور ضروری حل طلب مسئلہ ہے کہ اس پر اعلی سطح کے ماہرین کا کوئی مشاورتی اجلاس یا مذاکرہ ہونا لازمی ہے۔ تفصیلی مکالمہ اور بحث کے ذریعہ مدارس کا کوئی ٹھوس، پائیدار اور مضبوط نصاب متعین کرنا چاہئے جو دینی و دنیاوی ہر اعتبار سے قوم کے حق میں سود مند ہو۔ اور یہ کام فی الحال وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔


***
عبدالوحید (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)۔
موبائل: 08587828683
Curriculum of an Islamic Madrasa. - Article: Abdul Waheed Nasir

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں