گنگوبائی کاٹھیاواڑی - کماٹی پورہ ممبئی کی ایک متنازعہ تاریخی شخصیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-27

گنگوبائی کاٹھیاواڑی - کماٹی پورہ ممبئی کی ایک متنازعہ تاریخی شخصیت

gangubai-special-story-farhan-hanif-warsi

گنگوبائی کاٹھیاواڑی نے کریم لالہ کو راکھی باندھ کر بھائی بنایا تھا
کماٹی پورہ میں 1950 کی دہائی میں اس نے گھر والی کا چناؤ جیت کر اپنی عدالت قائم کی تھی


فلم 'گنگوبائی کاٹھیاواڑی' آخر کار ریلیز ہو چکی ہے اور اسے اچھی اوپننگ بھی مل گئی ہے۔
یہ فلم انگریزی کے صحافی ایس حسین زیدی اورخاتون صحافی Jane Borges کی کتاب Mafia Queens Of Mumbai : Womens Of Ganglands پر مبنی ہے۔ 15 اپریل 2011 کو Tranquebar نامی پبلشنگ ہاؤس نے اس کتاب کو شائع کیا تھا۔ مذکورہ کتاب میں گنگو بائی کاٹھیا واڑی کے حالات زندگی کو 38/ صفحات میں محفوظ کیا گیا ہے۔


عالیہ بھٹ نے اس فلم میں گنگو بائی کاٹھیاوڑی کا کردار نبھایا ہے۔ حالیہ دنوں میں گنگوبائی کی اسکرین پر نمائندگی کے بارے میں بہت سے متنازعہ دعوے سامنے آئے ہیں، لیکن زیادہ تر لوگوں کو گنگو بائی کے بارے میں اتنی جانکاری نہیں ہے۔خود کماٹی پورہ کے ساکنوں کو بھی یہ پتہ نہیں تھا کہ ان کے یہاں ایک گنگو بائی کاٹھیا واڑی بھی گذری ہے۔ گنگو بائی کاٹھیا واڑی کے بارے میں سب سے پہلے اردو کے بزرگ صحافی عثمان غنی نے ممبئی سے نکلنے والے ایک اردو اخبار کے لیے اسٹوری لکھی تھی۔ عثمان غنی کی اس سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔


ایس حسین زیدی اور Jane Borges کی کتاب میں گنگا ہرجیون داس کاٹھیا واڑی (اس کا اصل نام) کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جس کا عنوان ہے The Matriarch Of Kamathipura یعنی کماٹی پورہ کی ماں۔ گنگا کا جنم 1939 میں گجرات کے کاٹھیا واڑ میں ہوا تھا۔ اس کے خاندان میں بچوں کو تعلیم دلانے کا رواج تھا اور اس کی پرورش وکلاء اور ماہرین تعلیم کے درمیان ہوئی تھی، اور اس کے تعلقات کاٹھیاواڑ کے شاہی خاندان سے تھے۔ اس کا خاندان کافی سخت تھا، لیکن وہ اپنی بیٹی کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینے پر یقین رکھتے تھے، جو اس دور میں کافی غیر معمولی تھا۔ لیکن گنگا ممبئی میں فلمی اداکار بننا چاہتی تھیں۔ اپنی نوعمری میں ہی گنگا کو ایک اکاؤنٹنٹ سے پیار ہو گیا جسے اس کے والد نے رکھا تھا۔ رمنیک لال نام کے اس شخص نے دعویٰ کیا کہ اس نے کچھ سال ممبئی میں گزارے تھے، جس سے گنگا کی اس کی طرف کشش بڑھ گئی۔ محبت اس وقت اور پروان چڑھی جب رمنیک لال نے گنگا کے ممبئی جانے کے خوابوں کی حوصلہ افزائی کی اور جلد ہی، دونوں نے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ گنگا نے کچھ نقدی اور زیورات باندھے، ایک چھوٹے سے مندر میں رمنیک سے شادی کی اور دونوں ممبئی روانہ ہو گئے۔


شروع کے چند دن تھوڑے اچھے گذرےتھے لیکن ان کے پاس جمع رقم ختم ہو رہی تھی۔ رمنیک لال نے گنگا کو اپنی خالہ کے پاس چند دن رہنے کا مشورہ دیا تاکہ وہ سستی رہائش کا بندوبست کر سکیں۔ گنگا راضی ہو گئی اور کماٹی پورہ کےریڈ لائٹ ایریا میں آ گئی جہاں اسے معلوم ہوا کہ رمنیک نے اسے 500/روپے میں بیچ دیا ہے۔ گنگاکی عمر اس وقت 15/ سال تھی۔ اس نے اب خود کو ایک کوٹھے میں پایا اور پہلے کچھ دنوں تک وہ بھوکی رہی اور اسے بے تحاشا مارا پیٹا گیا۔ گنگا کو احساس ہوا کہ وہ کاٹھیا واڑ میں اپنے خاندان کے پاس واپس نہیں جا سکتی کیونکہ اس سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ جب اس نے موت کے بارے میں سوچا تو یہ ناممکن لگ رہا تھا کیونکہ وہ مسلسل نگرانی میں تھی۔ دو ہفتوں کے بعد، گنگا نے اپنے کوٹھے کے رکھوالے کے مطالبات مان لیا اور جسم فروشی کے لیے تیار ہو گئی۔ یہاں سے اس کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اسے کماٹی پورہ کی ' ماں ' بنا دیا۔


اس کی زندگی میں آنے والے پہلے مرد نے اس کے ارمانوں کو شدید ٹھیس پہنچائی تھی اور اسے دوزخ میں ڈھکیل دیا تھا۔ اس نے اپنی خاندانی شناخت چھپاتے ہوئے اپنا نام گنگو تجویز کیا۔ وہ اب مکمل فاحشہ بن چکی تھی۔ اس کی کم سن جوانی اور شباب نے اسے راتوں رات اتنا مشہور کر دیا تھا کہ اس کے چکلے میں آنے والا ہر مرد یا گاہک اس کے ساتھ مباشرت کرنا چاہتا تھا۔ اس کے گاہکوں میں ایک شوکت خان بھی تھا۔ شوکت خان ایک وحشی درندہ تھا جو اس کے ساتھ وحشی سلوک کرتا تھا۔ گنگو کو اس سے شدید نفرت ہو گئی تھی ،کیونکہ اس نے دو مرتبہ اس کا ریپ کیا تھا اور اس دوران اسے چوٹیں آئی تھیں۔
گنگو نے ایک دن فیصلہ کیا کہ وہ اس جانور کو سبق سکھائے گی۔ لہذا اس نے پولیس کے ذریعے شوکت خان کا انکاؤنٹر کروا دیا۔ جب اس واقعے کا لوگوں کو علم ہوا تو اس کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ گنگوکا ایک گاہک اور تھا جو اس کے ساتھ زیادتی کرتا تھا اور وہ اسے ناپسند کرتی تھی۔ گنگو کو اس دوران معلوم ہوا کہ اس گاہک کا گرانٹ روڈ اور ڈونگری کے ڈان کریم لالہ سے رشتہ ہے اور وہ کریم لالہ کے لیے کام کرتا ہے۔ تو اس نے فوراً کریم لالہ سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ گنگو نے گرانٹ روڈ پر واقع رہائش گاہ پر عبدالکریم خان عرف کریم لالہ سے ملاقات کی اورانھیں اس آدمی کی زیادتیوں سے باخبر کیا۔ اس نے کریم لالہ سے مدد کی درخواست کی اور ان کی کلائی پر راکھی باندھ کر انھیں اپنا بھائی بنایا۔


گنگو کی فریاد سن کر کریم لالہ نے اس کی مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اسے راکھی بہن کے طور پر قبول کر لیا۔ اگلی بار جب وہ شخص گنگو کے ساتھ زیادتی کرنے آیا تو اس نےچپکے سے کریم لالہ تک اپنا پیغام پہنچایا اور کریم لالہ نے بھی اسی وقت اپنے گرگوں کو بھیج کر اس کی مدد کی۔ اس واقعے نے اس کی ساکھ میں اضافہ کیا ، کیونکہ گنگو کو اب ایک ایسے شخص کی حمایت حاصل تھی جس کا انڈر ورلڈ میں دبدبہ قائم ہو چکا تھا۔ اس نے کریم لالہ کی بدولت مقامی پولیس کے ساتھ بھی روابط بنائے۔ اس کے فوراً بعد، گنگوبائی کاتھیوالی (لفظ 'کوٹھیوالی اور کاٹھیاواڑی کا انضمام)، جیسا کہ اب اسے پہچان مل چکی تھی، نے بھی گھروالی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنی شہرت اور کریم لالہ کی مدد سے اس الیکشن میں کامیابی حاصل کر لی۔ گھروالی مقامی اصطلاح تھی جو کوٹھے کے رکھوالوں کے لیے استعمال ہوتی تھی، اور اب بھی ہوتی ہے۔


اس دور میں الیکشن میں اترنے اور اسے جیتنے والی جسم فروش عورت کا رعب اور قد بڑھ جاتا تھا ، اور گنگو کا دبدبہ بھی بڑھ گیا اور وہ گنگو بائی بن گئی۔ اب وہ اپنے ماتحت آنے والی جسم فروش عورتوں کو کمانڈ کرنے لگیں۔ یہاں تک کہ اس کی عدالت قائم ہو گئی جس میں وہ جسم فروش عورتوں کے تنازعوں کا فیصلہ کرتی۔ گنگو بائی کاٹھیا واڑی کی کہانی مادھو نامی لڑکی کی کہانی سے شروع ہوتی ہے، جسے گنگا کی طرح جھوٹے بہانے سے کماٹی پورہ لایا گیا تھا۔
کہانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب مقامی کوٹھے کے رکھوالے نے گنگوبائی کو مدھو سے بات کرنے کے لیے بلایا تاکہ وہ اسے لائن میں لا سکے۔گنگو بائی نے مدھو سے بات کی تو پتہ چلا کہ اسے زبردستی اس دھندے میں لایا جا رہا ہے۔ گنگوبائی نے فیصلہ کیا کہ وہ اسےدھندے سے نکال کر اس کے آبائی مقام پر جانے دے گی۔ اس واقعے سےگنگوبائی کو اچھی خاصی شہرت ملی ،کیونکہ یہ دیکھا گیا تھا کہ وہ عورتوں کو پیسے سے زیادہ اہمیت دیتی تھی۔ گنگوبائی نہ صرف نئی بھرتی ہونے والی عورتوں کو چھوڑنے کی اجازت دیتی تھی ، بلکہ وہ ان عورتوں کو جانے کی اجازت بھی نہیں دیتی تھی جو اپنی مرضی سے اس کاروبار میں آتی تھی۔ ریڈ لائٹ ایریا ان کا مقدر بن جاتا تھا۔


گنگو بائی کو گنگوما کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ اس نے گھروالی کےمتعدد چناؤ (علاقے کے بہت سے گھروالیوں سے برتر) جیتے تھے جس سے اسے مزید طاقت ملی۔ گنگوبائی شہروں میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت دینے کے بارے میں آواز اٹھاتی تھی۔ آزاد میدان میں ان دنوں مختلف این جی اوز اور سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں گنگو بائی نےنہ صرف شرکت کی تھی ، بلکہ ان کی حمایت میں تقریر بھی کی تھی۔ اسٹیج پر بلاتے وقت ان کا تعارف بطور صدر کرایا گیا تھا۔ انھوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ میں ایک گھروالی (کوٹھے والی میڈم) ہوں، گھر توڑنے والی نہیں۔
گنگو بائی کاٹھیا واڑی نے 68-69 سال کی عمر پائی۔ 2008 میں ان کی موت کماٹی پورہ میں ہوئی تھی۔ اس کی موت کے بعد کماٹی پورہ کے چکلوں میں اس کی تصاویر اور مجسمے لگائے گئے تھے۔ کماٹی پورہ کا ریڈ لائٹ ایریا اب تقریباً ختم ہو چکا ہے اور بس چند گلیوں میں محدود سطح پر چکلے موجود ہیں۔ گنگو بائی اسی کماٹی پورہ کی بارہویں گلی میں رہتی تھی۔


Gangubai Kathiawadi, special news story in Mumbai Urdunews by Farhan Hanif Warsi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں