کمال خاں کی صحافت کا کمال - کالم از معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-15

کمال خاں کی صحافت کا کمال - کالم از معصوم مرادآبادی

ndtv-kamal-khan-journalism

جمعہ کی صبح کی اولین ساعتوں میں صحافی کمال خان کی اچانک موت کی اطلاع ملی تو کافی دیر تک اس پر یقین نہیں آیا۔ یوں محسوس ہوا کہ ابھی تھوڑی دیر میں وہ خود این ڈی ٹی وی کے اسکرین پر نمودار ہو کر اس 'افواہ' کی تردید کر دیں گے۔ لیکن جب میں نے رویش کمار کو این ڈی ٹی وی کے اسکرین پر اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے سنا تو دل بھر آیا۔


کمال خان واقعی باکمال صحافی تھے۔ میں انھیں ادین شرما، ایس پی سنگھ اور ونود ووا کی صف کے ان صحافیوں میں شمار کرتا ہوں جنھوں نے ہر قیمت پر سچ بولتے رہنے کی قسمیں کھائیں اور مرتے دم تک اس پر قایم رہے۔
کمال خان جب بھی اسکرین پر نمودار ہوتے تو سچ ہی بولتے تھے۔ انھوں نے ایک ایسے دور میں سچائی کا دامن آخری وقت تک تھامے رکھا جب میڈیا میں جھوٹ کی حکمرانی ہے۔ انھوں نے ٹی وی رپورٹنگ میں ایک نیا طرز ایجاد کیا تھا۔ مجھے اس میں لکھنؤ کی قصہ گوئی کا لطف آتا تھا۔ وہ نہایت دھیمے لب و لہجہ میں قصوں کی طرح خبروں کو دل میں اتارتے چلے جاتے تھے۔ جن لوگوں نے مایہ ناز لکھنوی صحافی ونود مہتہ کی آپ بیتی پڑھی ہے، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ گنگا جمنی تہذیب اور اجلی معاشرت کے لیے ممتاز لکھنو شہر کیسے کیسے کھلنڈروں کی پناہ گاہ تھا۔ کمال خان ایسے ہی لوگوں کی آخری نشانیوں میں سے ایک تھے۔


کمال خان سے میری کوئی زیادہ شناسائی نہیں تھی۔ ہاں مارچ 2015 میں جب مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے اپنے کیمپس میں صحافیوں کی ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا تو میں اور کمال خان یونیورسٹی کے ایک ہی گیسٹ ہاؤس میں مقیم ہوئے اور ان سے براہ راست بات چیت کا موقع ملا۔ یہ دو دن ہم نے لذیذ حیدرآبادی کھانوں اور مباحث کے درمیان گزارے۔ اس کانفرنس کی تھیم تھی:
"مسلمان، جمہوریت اور ذرائع ابلاغ : چیلنجز اور امکانات"


کانفرنس کے شرکاء میں این۔ رام، راج دیپ سرڈیسائی، ویدپرتاپ ویدک، شیکھر گپتا، ونود شرما، سعید نقوی، اسد مرزا اور سوپن داس گپتا جیسے بڑے صحافی شامل تھے۔ کمال خان اور میں کانفرنس کے ایک ہی سیشن میں ساتھ ساتھ تھے۔ انھوں نے بڑے سلیقے اور قرینے سے اپنی بات کہی۔ ان میں بلا کی خود اعتمادی تھی اور معاملہ فہمی بھی۔
عام خیال یہ ہے کہ ٹی وی اینکر اسکرین پر جو کچھ بولتے ہیں، وہ انھیں لکھ کر دیا جاتا ہے اور اس میں ان کی اپنی کسی صلاحیت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے، لیکن کمال خان صرف اینکر نہیں تھے۔ وہ ایک باشعور صحافی تھے اور ان کی تربیت 'نوبھارت ٹائمز' اخبار میں باشعور صحافیوں کے درمیان ہوئی تھی۔


وہ اہل زبان تھے۔ این ڈی ٹی وی پر وہ براہ راست رپورٹنگ کرتے تھے اور ان کا بیانیہ دوسروں سے قطعی مختلف تھا۔ وہ جب اسکرین پر نمودار ہوتے تو لوگ سب کچھ چھوڑ کر انھیں سننا چاہتے تھے۔ این ڈی ٹی وی پر انھوں نے دو دہائیوں تک اپنے کیریر کی بہترین رپورٹنگ کی اور ٹی وی جرنلزم میں ایک علیحدہ شناخت بنائی۔ اپنے پروفیشن سے ان کی عقیدت اور گہری دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی ناگہانی موت سے چند گھنٹے قبل تک وہ پرائم ٹائم کے لیے لکھنؤ سے رپورٹنگ کر رہے تھے۔ اترپردیش کے سیاسی اور سماجی حالات پر ان کی گرفت سب سے زیادہ مضبوط تھی۔


وہ ایک بہت مشکل دور میں سچی اور کھری صحافت کا پرچم بلند کئے ہوئے تھے۔ ایک ایسے دور میں جب ٹی وی جرنلزم کے بیشتر صحافی پیٹ کے بل چل رہے ہیں، وہ ایک کھرے پٹھان کی طرح سینہ تان کر چل رہے تھے۔ یہ جرات اور بے باکی ان ہی لوگوں کا شعار ہو سکتی ہے، جنھوں نے اپنی کشتیاں جلا ڈالی ہیں۔ اگر آپ ٹی وی جرنلزم کے موجودہ منظرنامے پر نظر ڈالیں تو آپ کو کمال خان کی قبیل کے چند ہی صحافی نظر آئیں گے۔


کمال خان صرف صحافت کی باریکیوں سے ہی آشنا نہیں تھے بلکہ انھیں بے باکی کے ساتھ اپنی بات کہنے اور اس پر ڈٹے رہنے کا ملکہ تھا۔ اگر آپ ان کے کیریر پر نگاہ ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ صاحبان اقتدار سے ان کی کبھی نہیں بنی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ چاپلوسوں کی صف میں شامل نہیں تھے بلکہ سچائی کو ہر قیمت پر اجاگر کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔


کمال خان نے ایک ایسے دور میں آنکھیں موندی ہیں جب اس ملک کو ان جیسے صحافیوں کی بڑی ضرورت ہے۔ کیونکہ سچ پر پہرے بٹھا دئے گئے ہیں اور جھوٹ کو اس شدت کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے جیسے کہ یہی سب سے بڑا سچ ہو۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان یہ لڑائی نئی نہیں ہے۔ جب سے دنیا بنی ہے، یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے والوں کی تعداد روز بروز کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور یہی سب سے بڑا روگ ہے جو موجودہ حکمرانوں کے اقتدار میں اس ملک کی صحافت کو لاحق ہے۔


کمال خان کے اچانک انتقال پر میڈیا اور شائقین میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ تمام بڑے اور جینوئن صحافیوں نے انھیں اور ان کی بے باک صحافت کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان کے ساتھی اور ملک کے سب سے سچے ٹی وی صحافی رویش کمار کا ٹوئٹ اس مضمون کا اختتام ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:


"پھر کوئی دوسرا کمال خان نہیں ہوگا۔ بھارت کی صحافت آج تہذیب سے ویران ہو گئی۔ وہ لکھنؤ آج خالی ہو گیا جس کی آواز کمال خان کے لفظوں سے کھنکتی تھی۔ این ڈی ٹی وی پریوار آج غمگین ہے۔ کمال کے چاہنے والے کروڑوں شائقین کا دکھ اونچی لہر بن کر امڈ رہا ہے۔
الوداع کمال سر"


***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Kamal Khan, an award-winning journalist known for his insightful and fearless reporting - Column: Masoom Moradabadi.
Veteran journalist Kamal Khan dies of heart attack.

1 تبصرہ:

  1. واقعی کمال خان کمال کے صحافی تھے، چیخنے چلانے اور جھوٹ پھیلانے کے اس میڈیا کے دؤر میں کمال خان کی موت جمہوریت کے چوتھے ستون اور بے زبان خوفزدہ عوام کا شدید نقصان ہے، جناب معصوم مراد آبادی صاحب اور تعمیر نیوز نے برقت کمال خان کی خدمات کو عمدہ خراج پیش کیا ہے

    جواب دیںحذف کریں