ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی (پیدائش: 31/مارچ 1921، دریاباد، اترپردیش - وفات: 10/جنوری 2017ء، نئی دہلی)
اس قدوائی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کے نامور ترین فرد، نامور عالم دین، مفسر قرآن اور اردو میں لاثانی طرز کے مالک مولانا عبدالماجد دریابادی رہے ہیں۔ ہاشم قدوائی کے پردادا مفتی مظہر کریم 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزی حکومت کے خلاف فتویٰ دینے کی پاداش میں جزائر انڈمان میں کئی سال محبوس رہے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی کے بھتیجے اور داماد ہونے کا شرف حاصل کرنے والے ڈاکٹر قدوائی 1948 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں لیکچرر کے عہدہ پر فائز ہو کر 34 سال کی ملازمت کے بعد مئی 1982 میں ریڈر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ اور 1984 سے 1990 تک راجیہ سبھا کے فعال اور سرگرم رکن رہے۔ عہد حاضر کی ان چند نامور شخصیات میں ان کا شمار ہوتا ہے جنہوں نے اپنی عمر کا زریں دور تحریک آزادی کی جدوجہد میں گزارا۔ مسلم یونیورسٹی میں وہ ایسے شفیق اور مثالی استاد رہے جن کے سینکڑوں شاگرد ملک و بیرون ملک اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ سابق نائب صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر حامد انصاری کا شمار بھی ڈاکٹر قدوائی کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔
26/جنوری 1950ء سے جو دستور ہندوستان میں نافذ ہے، اس کی تفصیلات ڈاکٹر قدوائی کی تصنیف کردہ کتاب "جمہوریۂ ہند کا دستور اساسی" میں بیان کی گئی ہیں۔ اسی کتاب کا گیارہواں ایڈیشن سہل اور عام فہم انداز میں 1987ء میں شائع کیا گیا تھا۔
73 ویں یومِ جمہوریہ کے موقع پر یہ اہم اور یادگار کتاب ہندوستان کی تاریخ و ثقافت میں دلچسپی رکھنے والے قارئین و محققین کی خدمت میں بشکل پی۔ڈی۔ایف فائل پیش ہے۔ تقریباً سوا تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم 12 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
ڈاکٹر شافع قدوائی اپنے ایک مضمون "ورق در ورق: ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی، افکار و جہات" (شائع شدہ: دی وائر اردو ویب ایڈیشن، مورخہ 24/فروری 2019) میں لکھتے ہیں ۔۔۔
ڈاکٹر ہاشم قدوائی صاحب نے اپنی قابل رشک یادداشت کی بنیاد پر ملک کے بعض معروف مؤرخوں، سیاست دانوں اور ادیبوں کی تحریروں میں تاریخی تسامحات اور واقعاتی غلطیوں کی برملا اور مصدقہ نشان دہی کو اپنا شعار بنا لیا تھا اور اکثر اپنے تبصروں میں کتابوں میں موجود لاتعداد اغلاط کو نشان زد کرتے تھے۔
پروفیسر ہاشم قدوائی گئے زمانوں کے عالموں کی طرح صلہ کی پروا اور ستائش کی تمنا سے بے پروا ہو کر نہ صرف علم و ادب کی آبیاری کرتے تھے بلکہ طلبہ کی ذہن سازی بھی کرتے تھے اور سیاست میں عملی دلچسپی لے کر ایک عوامی دانش ور ( Public Intellectual) کے فرائض بھی بڑی تندہی سے انجام دیتے تھے۔
وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات سے سبکدوشی کے بعد راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں اور انگریزی میں ان کی آپ بیتی The Life and Times of a Nationalist Muslim ملک کے علمی، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں بڑی مقبول ہوئی تھی۔ پروفیسر قدوائی نے جنگ آزادی کے دوران اور پھر آزاد ہندوستان میں ایک سچے قوم پرست مسلمان کے طور پر صبر آزما جدو جہد کا بڑا پُر اثر بیانیہ آپ بیتی کی صورت میں مرتب کیا ہے۔
***
نام کتاب: جمہوریۂ ہند کا دستورِ اساسی
مصنف: محمد ہاشم قدوائی۔ ناشر: ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ سنہ اشاعت: 1999ء
تعداد صفحات: 320
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 12 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
The Constitution Of India by Hashim Kidwai.pdf
فہرست مضامین | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | دیباچہ | 5 |
ب | تعارف | 7 |
حصہ اول | ||
1 | جمہوریۂ ہند کے دستور اساسی کی مختصر تاریخ | 13 |
2 | دستور کی چند خصوصیتیں | 55 |
3 | شہریت | 67 |
4 | بنیادی حقوق | 70 |
5 | مملکتی پالیسی کی رہنمائی کے اصول | 88 |
6 | انڈین یونین | 99 |
7 | مرکزی یا یونین حکومت | 122 |
8 | مرکزی مجلس قانون ساز پارلیمنٹ | 145 |
9 | ریاستی حکومت | 162 |
10 | ریاستی مجلس قانون ساز | 178 |
11 | سپریم کورٹ | 191 |
12 | ہائی کورٹ | 200 |
13 | پبلک سروس کمیشن | 205 |
14 | دستور اساسی میں ترمیمیں | 211 |
حصہ دوم | ||
15 | مقامی خود اختیار حکومت | 225 |
16 | کارپوریشن | 233 |
17 | میونسپل بورڈ | 236 |
18 | ڈسٹرکٹ بورڈ | 254 |
19 | گاؤں پنچایت | 267 |
20 | اترپردیش کی ضلع حکومت | 277 |
21 | ہندوستان کے بعض سماجی اور معاشی مسئلے اور منصوبہ بندی | 289 |
22 | ضمیمہ جات | 314 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں