پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن : مسلمان کیا کریں؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-16

پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن : مسلمان کیا کریں؟

5-states-elections-and-muslims-strategy

پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن
تو مسلمان کیا کریں؟


پانچ ریاستوں کی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کے اعلان کے بعد سے یہ سوال بار بار اٹھ رہا ہے!
کچھ کا کہنا ہے کہ مسلمان بی جے پی کو ہرانے کا نعرہ نہ بلند کریں، ہاں کسی کو جتانے کی بات ضرور کریں۔ تو کچھ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ کیوں نہ مسلمان اپنی ہی کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو بی جے پی کے حق میں بولتے نظر آ رہے ہیں۔ ' کچھ' سے یہاں مراد ' مسلمان ' ہی ہیں۔
جی ہاں، آج بھی جبکہ اس ملک میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مسلمانوں کے لیے، حالات دن بدن خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں اور بات ان کی زندگی اور موت اور کاروبار اور روزی و روٹی سے ہوتے ہوئے مذہب اور شناخت کے بحران تک آ پہنچی ہے ، وہ سوالوں میں الجھے ہوئے ہیں ، دریافت کرتے پھر رہے ہیں کہ 'ہم کیاکریں؟'
اور انہیں اس سوال کے بعد ایسے ایسے مشورے مل رہے ہیں جن سے ان کے دماغ کی کھڑکیاں کھلنے کی بجائے ان کی الجھنیں مزید بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔


اب یہ دیکھ لیں کہ ایک طرف سے یہ آواز اٹھی ہے کہ مسلمان بی جے پی کو ہرانے کا نعرہ نہ لگائیں۔ یہ آواز جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید اسعد محمود مدنی کی ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے ان کا مطلب غیر بی جے پی سیاسی پارٹیوں تک یہ پیغام پہنچانا ہو کہ اس ملک کے مسلمانوں کو "ووٹ بینک" نہ سمجھا جائے۔
یہ تو سچ ہے کہ اس ملک کی سیکولر سیاسی جماعتیں ، کیا کانگریس ، ایس پی اور بی ایس پی و این سی پی ، سب ہی دلتوں ، پچھڑوں اور مسلمانوں کو ، بالخصوص مسلمانوں کو، اپنا "ووٹ بینک" سمجھتی چلی آئی ہیں۔ اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو خوب اندازہ ہو جاتا ہیکہ کانگریس نے ' سیکولرزم'، ' جمہوریت' اور ' بی جے پی و شیوسینا' کے نام پر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرکے اپنے سیاسی مفادات کو بھی، اور لیڈران نے اپنے ذاتی مفادات کو بھی خوب تقویت پہنچائی ہے۔
اور رہا مسلمان تو وہ جہاں گزرے ہوئے کل کو کھڑا ہوا تھا آج بھی کھڑا ہوا ہے ، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ آج وہ کل کے مقام سے کئی قدم پیچھے چلا گیا ہے۔ فسادات ، اردو زبان ، بابری مسجد اور مسلمانوں کی روزی روٹی ، سرکاری ملازمتیں ، تعلیمی و سماجی ذلت اور اقتدار سے محرومی ، یہ سب کچھ کانگریس ہی کا "تحفہ" رہا ہے۔


ہاں ، کچھ مسلمان لیڈر ایسے ضرور رہے ہیں جنہوں نے ، عام مسلمانوں کو "بے وقوف" بنانے کے عمل میں اپنے آقاؤں کا ساتھ دیا۔ اور خوب فائدہ اٹھایا۔ لہٰذا بہت ممکن ہے کہ مولانا محمود مدنی نے اپنی بات مذکورہ تناظر ہی میں کہی ہو ، مقصد سیاسی پارٹیوں تک یہ پیغام پہنچانا رہا ہو کہ :
"مسلمانوں کو ووٹ بینک نہ سمجھا جائے ، وہ تمہیں اور تمہارے سیاسی وذاتی مفادات کو تقویت پہنچانے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ بی جے پی کو ہرانے کا نعرہ بلند کریں۔"


اگر مولانا محمود مدنی اپنی بات سے مذکورہ پیغام ملک کی سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیوں تک پہنچانا چاہتے تھے یا ہیں ، تو ٹھیک ہے ، ان کی بات بڑی حد تک درست کہی جا سکتی ہے۔ لیکن بڑا اہم سوال یہ ہیکہ ایک جمہوری ملک اپنے شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی کو ہرانے اور کسی کو جِتانے کے لیے ووٹ دیں ، تو کیا ان کی بات اس حق کے منافی نہیں ہے؟
یہ سوال ان سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ کیوں مسلمان اور دیگر اقلیتیں بی جے پی کو ہرانے کے لیے ووٹ نہ دیں؟ کیا دیا ہے بی جے پی نے انہیں؟ اور آج جب اترپردیش (یو۔پی) میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ 80 بنام 20 کا فارمولہ سامنے لا رہے ہیں ، تو کیوں نہ وہ جو 20 فیصد ہیں ان کے خلاف ووٹ ڈالیں اور جس طرح یوگی نے کھل کر بات کی ہے ، کھل کر ووٹ ڈالیں؟


سچ ہیکہ کانگریس ، ایس پی ، بی ایس پی ، این سی پی اور کمیونسٹ پارٹیاں ، سب ہی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں و پچھڑوں کا ہر طرح سے استحصال کرتے چلی آئی ہیں۔۔۔ اور ممکن ہے کہ آئندہ بھی استحصال کریں، لیکن کیا یہ سچ نہیں ہیکہ آج "نسل کشی" کی بات کی جا رہی ہے ، آج بڑے پیمانے پر "گھر واپسی" کے نام پر دھرم پریورتن کی تحریک شروع ہے ، اور ہر آئے دن کسی مسلم لڑکی کی ہندو لڑکے سے یا مسلم لڑکے کی کسی ہندو لڑکی سے ، دھرم پریورتن کرکے ، شادیاں کرنے کی خبریں آ رہی ہیں ؟
چلئے مان لیتے ہیں کہ یہ جمہوری حق ہے ، آئین اس کی اجازت دیتا ہے ، لیکن یہ آئین تو دوسرے مذاہب کو بھی اس کی اجازت دیتا ہے لیکن ہو یہ رہا ہیکہ اگر کوئی غیر مسلم اپنے دھرم کو چھوڑ کر مسلمان ہو جائے تو اسے "غیر قانونی" اور "غیر آئینی" قرار دے دیا جاتا ہے۔ پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بہت سے لوگ کر دیئے جاتے ہیں۔
کیا مولانا کلیم صدیقی اور عمر گوتم وغیرہ سلاخوں کے پیچھے نہیں ہیں ؟ ایک کا عمل 'قانونی' دوسرے کے لیے 'غیر قانونی' بن جاتا یا بنا دیا جاتا ہے۔
اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج کے دنوں میں قرآن پاک میں ترمیم ، پابندی اور اللہ کے رسول حضرت محمدؐ کی ذاتِ پاک پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک جسارت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ حرکتیں کرنے والے سر آنکھوں پر بٹھائے جا رہے ہیں؟
اور ایک بڑا خطرہ تو ابھی آنا ہے ، شہریت کے چھین لیے جانے اور ملک بدر کیے جانے کا خطرہ۔


یہ حقیقت تو بالکل عیاں ہے کہ بی جے پی کو مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہیے۔ بار بار یہ بات کہی گئی ہے۔ الیکشن کے مواقع پر تو اب بی جے پی مسلمانوں کو امیدواری تک نہیں دیتی ہے۔ یوگی 20 اور 80 کا فارمولہ سامنے لے آئے ہیں۔ 80 فیصد کا مطلب تمام ہندو ، اور 20 فیصد کا مطلب 15 فیصد مسلمان اور 5 فیصد دیگر اقوام۔ یہ 20 فیصد یوگی نے پہلے ہی سے اپنے ووٹروں کی فہرست میں سے منہا کر دیئے ہیں ، انہیں اِن ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے تو پھر کیوں نہ کھل کر بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا جائے ؟
ہاں اگر بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں کو کسی طرح کی افہام و تفہیم کا ، کسی طرح سے 'اچھے دنوں' کی یقین دہانی کا کوئی اشارہ ملتا ، تو بات الگ تھی۔ تب سیاسی تقاضوں کی بناء پر اس کی طرف ایک قدم بڑھایا جا سکتا تھا۔ جہاں تک بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کی بات ہے تو اس کے لیے یہ ضروری ہیکہ سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو "ووٹ بینک" نہ سمجھیں۔
ویسے مسلمانوں پر منحصر ہے کہ وہ اس تعلق سے کیسی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیئےکہ سیدھے سادے انداز میں کانگریس ، ایس پی اور دیگر سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعتوں، کو بتا دیں ، آگاہ کر دیں یا انہیں سمجھا دیں کہ :
" ہم بھی دیگر ووٹروں ہی کی طرح ہیں ، برائے کرم ہمیں کوئی ووٹ بینک سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔"


اگر مسلمان اپنی بات سیکولر کہی جانے والی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے ذہنوں میں بٹھانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر انہیں یعنی مسلمانوں کو 'مالِ مفت' نہیں سمجھا جائے گا ، انہیں اور ان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ لیا جائے گا ، غور کیا جائے گا اور ہر سیکولر کہی جانے والی سیاسی پارٹی یہ کوشش کرے گی کہ مسلمانوں کو ' ناراض' نہ کیا جائے کیونکہ وہ " تو نہیں اور سہی" پر عمل کرنا جان گئے ہیں۔
اس کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ان مسلم لیڈروں کو ، جو اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے مسلم ووٹروں کو "بے وقوف" بنانے سے نہیں چوکتے "لات" ماری جائے۔ یا یہ سیکھ لیا جائے کہ کیسے "لات" ماری جاتی ہے۔ اب لالچی مسلم لیڈروں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ "لاتوں کے ہی بھوت ہیں"۔ بہت ضروری ہیکہ "بِکنا" اور "خریدنا" بند ہو جائے۔


الیکشن کے اس موسم میں "کچھ لوگ" اپنی پارٹی کا نعرہ لگارہے ہیں۔ مراد "مسلم پارٹی" سے ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم) کے گن گائے جارہے ہیں۔ ویسے "اپنی پارٹی اور اپنی قیادت" کا نعرہ لگانے میں کوئی ہرج نہیں ہے ، لیکن یہ نعرے "دوسروں کو متحد کرنے والے" نہ ہوں۔ نعرے سیاسی ہوں اور اپنے مسائل کو اجاگر کرتے ہوں، یہ فرقہ وارانہ اور مذہبی نہ ہوں۔
فرقہ وارانہ اور مذہبی نعرے ہمیشہ نقصان پہنچانے ہیں ، یہ ایک فرقے کے خلاف دوسرے فرقے کے، مختلف نظریات رکھنے والوں کو ،ایک نظریہ اپنانے پر متحد کر دیتے ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں یہ بات نقصان دہ ہی نہیں خطرناک بھی ہے۔
اویسی ایک اچھے لیڈر ہیں اور انہیں اس ملک کی سیاسی جماعتوں اور قائدین سے یہ دریافت کرنے کا حق ہے کہ کیوں ایک ایسی سیاسی جماعت کو جس کا سربراہ ایک مسلمان ہے ، مین اسٹریم سیاسی دھارے سے علیحدہ رکھا جارہا ہے ، کیوں ان کے ساتھ اتحاد نہیں کیا جا رہا ہے ؟ آج کے دنوں میں یہ سوال بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔۔۔


سماج وادی پارٹی کے نوجوان سربراہ اکھلیش سنگھ یادو نے اپنی پارٹی کے دروازے سوامی پرساد موریہ ، چوہان اور سینی کے لیے کھول دیئے ہیں جو کل تک فرقہ پرست بی جے پی کے وزراء تھے ، لیکن وہ اویسی سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں ہیں!
کیوں ؟
کیا موریہ ، چوہان اور سینی بی جے پی چھوڑنے کے بعد فرقہ پرست نہیں رہے ؟
اویسی کا سوال جائز ہے۔
ابھی حال ہی میں 'بھیم آرمی' کے پرمکھ چندرشیکھر آزاد نے ایک اچھی بات کہی ہے کہ سماج وادی پارٹی دلت ووٹوں کو حاصل کرنا چاہتی ہے مگر دلت لیڈر شپ نہیں چاہتی۔ یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ مسلمانوں کے ووٹ مطلوب مگر مسلم قیادت نامنظور۔ یہ جمہوریت کے منافی عمل ہے ، اس میں ہر سیاسی پارٹی کو ہر ایک ذات پات اور ہر مذہب کے افراد کو اپنا سمجھنے کی ضرورت ہے۔


بات اویسی کی چل رہی تھی جو اچھے لیڈر ضرور ہیں لیکن وہ بس خاص خاص مواقع سے ہی عوام میں جاتے ہیں ، بس الیکشن کے دنوں میں۔۔۔ یہ سیاست بلکہ اچھی سیاست نہیں ہے ، یہ بھی ایک طرح کا استحصال ہے۔۔۔ وہ بھی اپنی اور خاندانی قیادت چاہتے ہیں لیکن ' مسلم قیادت' کو پروان چڑھانے کو تیار نہیں ہیں ، اگر وہ اپنی خو بدل لیں تو ایک بہت اچھے لیڈر بن سکتے ہیں۔


سوال یہ ہیکہ مسلمان کیا کریں؟
مسلمان بس یہ کریں کہ اپنے ووٹوں کو تقسیم نہ ہونے دیں ، ان کے مسائل کو جو پارٹی فوقیت دے ، جو پارٹی مسلمانوں کو انتخابی میدان میں اتارے اور جو پارٹی واقعی فرقہ پرستوں کو ہرانے کی سکت رکھے ، اسے ووٹ دیں۔
نہ جذبات میں بہیں ، نہ ہی فرقہ پرستی اور نہ مذہبی نعروں کو خود پر حاوی ہونے دیں۔ اس بار کےگوا ، منی پور ، پنجاب اور اتراکھنڈ کے الیکشن ، بالخصوص یوپی کے الیکشن بی جے پی ، مودی ، مسلمان ، سیکولرزم ، جمہوریت ، این آر سی اور فرقہ پرستی جیسے موضوعات کے لیے اہم ہیں۔ ان کے نتائج ملک کو بنا بھی سکتے ہیں اور تباہ بھی کر سکتے ہیں۔

***
بشکریہ: شکیل رشید فیس بک ٹائم لائن
khansh.rasheed[@]gmail.com

Elections in five states, the Muslims strategy. Column: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں