بابری مسجد کی شہادت اور پھر سپریم کورٹ کے 'حتمی' فیصلہ نے ہندوستانی مسلمانوں کو جو زخم دئے تھے اب انہیں پھر کریدا جا رہا ہے۔
مسلمان اور ان کے مذہبی اور سیاسی قائدین ایک عرصہ سے یقین دہانی کرا رہے تھے کہ وہ عدالت عظمی کا 'ہر فیصلہ' بسروچشم تسلیم کرلیں گے۔ انہوں نے اپنے وعدہ کے مطابق عدالت کا و ہ فیصلہ بھی تسلیم کرلیا جس کی انہیں توقع نہیں تھی۔
انہی کو کیا ہر انصاف پسند کو اور ہر اس شخص کو جسے بابری مسجد کے قضیہ کے تمام قانونی نکات معلوم تھے، اس فیصلہ کی توقع نہیں تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس فیصلہ کو انصاف کہنا نا انصافی ہے۔ یہ بس ایک فیصلہ تھا۔ فیصلہ بالجبر۔ اور اس فیصلہ کی بنیاد قانونی شواہد نہیں تھے۔
زیرنظر سطور کا محرک تین عناصر ہیں:
یکم دسمبر کو سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کا ایک بیان سامنے آیا۔
دو دسمبر کو یوپی کے نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ نے ایک ٹویٹ کیا
اور
مختلف پلیٹ فارموں پر خود مسلمانوں کے بعض پرجوش احباب نے اپنی ہی جماعتوں کو لعن طعن شروع کر دیا۔
یہ تینوں عناصر تکلیف دہ ہیں۔ لیکن اول الذکر دو عناصر تو ہیبت ناک بھی ہیں۔ رنجن گوگوئی نے یکم دسمبرکو بنارس کے شریکر پاتری دھام میں 'ملک کی تعمیر میں نوجوانوں کے کردار' پر منعقدہ ایک پروگرام میں کہا کہ:
"جج، مذہب کی بنیاد پر نہیں چلتا، ہم آئین کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ رام مندر کا فیصلہ میرا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا تھا۔ رام مندر کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر ہوا ہے جذبات کی بنیاد پر نہیں"۔
میرا خیال ہے کہ حقائق کی روشنی میں اس بیان کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ اگر انتہائی اختصار سے بات کی جائے تو سپریم کورٹ میں یومیہ بنیادوں پر ہونے والی بحث، بحث کے دوران پیش کئے گئے استدلال اور ججوں کی نقد و جرح سے واضح ہو گیا تھا کہ اس امر کا کوئی ثبوت خود عدالت کو نہیں ملاکہ بابری مسجد کی تعمیر وہاں پہلے سے موجود کسی مندر کو منہدم کرکے کی گئی تھی۔
یہاں تک کہ یہ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا کہ 'رام' کی جائے پیدائش وہی مقام ہے جہاں بابری مسجد کا منبر یا محراب تھی۔خود 1600 صفحات کے پر اسرار فیصلہ میں بھی ایک سطر بھی ایسی نہیں ملتی جس سے ججوں کو اس کے پختہ شواہد مل گئے ہوں کہ مسلمان اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔
ایسے میں رنجن گوگوئی کیسے کہہ سکتے ہیں کہ: 'رام مندر کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پرہوا ہے؟'
ان سے یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ آخر اب اس پر بات کرنے اور اس طرح کا بیان دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا آپ سے کسی مسلمان نے سوال کیا ہے کہ آپ نے بابری مسجد کی زمین کو رام مندر کی تعمیر کیلئے دینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کسی مسلمان نے آپ سے یہ سوال نہیں کیا۔ بلکہ خود رام مندر کی تعمیر کے حامی اور دوسرے سخت گیر عناصر ہی آپ کو اس فیصلہ کا سہرا پہنا رہے ہیں۔ جس پروگرام میں آپ نے مذکورہ بیان دیا اسی میں سوامی ابھشیک برہمچاری نے کہا کہ:
"بھارت ورش اور سناتن دھرم ہمیشہ جسٹس گوگوئی کا مقروض رہے گا، جسٹس گوگوئی نے جس بے خوفی کے ساتھ پربھو شری رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ دیا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ آج بھی جوان ہیں۔"
یوا چیتنا کے قومی کنوینر نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ:
"راون کے قتل کیلئے رام کا اوتار، کنس کے مظالم کے خاتمہ کے لئے شری کرشن کا اوتار اور بھگوان رام کے مندر کی تعمیر کیلئے رنجن گوگوئی کا جنم ہوا۔ زمانوں تک ہم سبھی جسٹس گوگوئی کے احسان مند رہیں گے۔"
مسٹر گوگوئی! آپ سے پہلے 45 چیف جسٹس اور ہوئے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک کو چھوڑ کر کسی کو حکومت نے راجیہ سبھا میں نہیں بھیجا۔
سابق چیف جسٹس رنگناتھ مشرا کو کانگریس نے 1998 میں راجیہ سبھا میں بھیجا تھا۔ انہوں نے مشرا کمیشن کے سربراہ کے طور پر 1984 کے سکھ مخالف فسادات کی تحقیقات کے بعد کانگریس کو کلین چٹ دیدی تھی۔ بعد میں جسٹس تارکنڈے نے متاثرین کے بیانات کو نقل کرتے ہوئے لکھا تھا:
"یہ یکطرفہ تحقیقات تھیں، درحقیقت ہمیں اس کمیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنی بات کہنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا حالانکہ ہم سے اس کا وعدہ کیا گیا تھا۔"
لیفٹننٹ جنرل اروڑا نے کہا تھا کہ:
"اس کمیشن کا 'ٹرم آف ریفرینس' ہی متاثرین کے تئیں مبنی بر تعصب تھا۔ متاثرین پر ہی شواہد پیش کرنے کی ذمہ داری ڈال دی گئی تھی۔"
یہ بات بہت مشہور ہوئی تھی کہ کانگریس حکومت نے جسٹس رنگناتھ مشرا کو پہلے حقوق انسانی کمیشن کا سربراہ اور پھر راجیہ سبھا کا ممبر اسی خدمت کے عوض بنایا تھا۔
مسٹر گوگوئی! آپ کو آخر کس خدمت کے عوض راجیہ سبھا میں بھیجا گیا؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس نے تو اپنے کوٹہ سے رنگناتھ مشرا کو ٹکٹ دے کر راجیہ سبھا بھیجا تھا لیکن آپ کو تو براہ راست صدر جمہوریہ (حکومت) کے 'نامزدگی' والے کوٹہ سے بھیجا گیا۔
بابری مسجد کے فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ کے دو سابق ججوں، جسٹس ارون مشرا اور جسٹس اشوک بھوشن نے اس 'تاریخی' فیصلہ پر آپ کی ہی ہمت و شجاعت کی ستائش کی تھی۔ جسٹس مشرا وہ ہیں جنہوں نے سپریم کورٹ میں رہتے ہوئے، روایت کے برخلاف وزیر اعظم نریندر مودی کی زبردست تعریف کی تھی۔ جسٹس اشوک بھوشن خود اس بنچ میں شامل تھے جس نے یہ فیصلہ دیا تھا۔ بحث کے دوران وہی پرجوش اور جانبدارانہ جرح کر رہے تھے۔ رام کی پیدائش اور مندر کے باقیات سے متعلق سوالات بھی انہوں نے ہی کئے تھے۔
بابری مسجد فریق کے وکیل راجیو دھون کو بھری عدالت میں کہنا پڑا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ 'مائی لارڈ' میرے دلائل سے مشتعل ہو جاتے ہیں۔
بہت سے صحافیوں نے لکھا تھا کہ 1600 صفحات پر مشتمل رام مندر کا فیصلہ دراصل جسٹس اشوک بھوشن نے ہی لکھا تھا۔ لیکن اس فیصلہ پر کسی ایک جج کے بھی دستخط نہیں ہیں۔ جبکہ اس پر پانچوں ججوں کے اور کم سے کم تین ججوں کے دستخط ہونے چاہئیں تھے۔
اب جسٹس گوگوئی کے تازہ بیان کی روشنی میں ایک بنیادی سوال ان سے ہے:
اگر رام مندر کا فیصلہ قانون کی بنیاد پر ہوا اور جذبات کی بنیاد پر نہیں ہوا تو پھر آپ کو آرٹیکل 142 کا استعمال کیوں کرنا پڑا؟
درست بات یہ ہے کہ شواہد سراسر حق میں نہیں تھے۔ اسی لئے دستورکی دفعہ 142 کا استعمال کیا گیا۔
آئین میں یہ ایک انتہائی غیر معمولی انتظام ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آئین سازوں نے اس دفعہ کا التزام کیوں کیا؟ جب شواہد موجود نہ ہوں تو جج حضرات 'مکمل انصاف' کے نام پر اس دفعہ کا استعمال کرلیں۔ اس سے پہلے اس دفعہ کا استعمال بھوپال گیس سانحہ میں متاثرین کے حق میں معاوضہ کی رقم طے کرتے وقت کیا گیا تھا۔
لیکن بابری مسجد قضیہ میں اس کے استعمال کے بعد اس دفعہ کا استعمال سشانت راجپوت کی خود کشی والے ایک معاملہ میں بہار اور مہاراشٹر کے درمیان پیدا شدہ تنازعہ میں کر لیا گیا۔ اس میں بھی طے شدہ قانون اور روایت سے ہٹ کر بہار کے حق میں فیصلہ کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا بی جے پی کو بہار اسمبلی کے الیکشن میں فائدہ پہنچانے کی خاطر کیا گیا۔
یہ بحث بڑی طویل ہے۔ ایک کالم میں یہ پوری نہیں ہو سکتی۔
دو عناصر ابھی باقی ہیں۔ یوپی میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حالات کدھر جا رہے ہیں۔ الیکشن سر پر ہیں۔ بی جے پی ہر حال میں واپس آنا چاہتی ہے۔ عوام پریشان ہیں۔ کسانو ں نے الگ ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کچھ نئی سیاسی صف بندیاں بھی ہو رہی ہیں۔ ایسے میں معمولی فرقہ ورانہ چنگاری بھی بڑی آگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
یوپی کے وزیر اعلی کے ساتھ ان کے نائب نے بھی مورچہ سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا:
"ایودھیا، کاشی میں تعمیر جاری ہے۔ اب متھرا کی تیاری ہے"۔
ان کایہ بیان اگرچہ ناقابل فہم ہے لیکن انہوں نے ایودھیا کے ساتھ کاشی میں (مندر کی) تعمیر کے جاری ہونے کی بات کہہ کر یہ تو واضح کر ہی دیا ہے کہ بہت کچھ نہ سہی، کچھ تو ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی متھرا کی بھی دھمکی دیدی ہے۔
کھلے طور پر یہ یوپی کے مسلمانوں کو بھڑکانے کی کوشش ہے۔ ہماری دست بستہ اپیل ہے کہ یوپی کے مسلمان اس آگ میں کودنے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں۔
متھرا میں انتظامیہ نے بظاہر شرپسندوں کو روکنے کیلئے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ یہ وقت صبر وضبط، تدبر و تحمل اور بصیرت و دانش سے کام لینے کا متقاضی ہے۔ یہ وقت اپنی جماعتوں، اپنے قائدین اور اپنے زعماء کی پشت پر کھڑے ہونے کا ہے۔ یہ وقت یہ حساب کتاب کرنے کا نہیں ہے کہ ہمارے فلاں ادارہ نے بابری مسجد کے مقدمہ کی موثر پیروی نہیں کی۔ اگر کسی کو کچھ کرنا ہی ہے تو آپ کی موثر ترین پیروی بھی دفعہ 142 کی تلوار کے وار سے نہیں بچ سکے گی۔
ہرچند کہ عبادتگاہوں کے تحفظ کا قانون موجود ہے لیکن کاشی اور متھرا میں ایودھیا جیسے حالات پیدا کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔
یہ ہماری یکطرفہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس سازش کی چنگاری کو آگ میں بدلنے کا ایندھن نہ بنیں۔ یہ اسی وقت ہوگا جب ہم اس غیر ضروری بحث سے اجتناب کریں جو آج کل جاری ہے۔
(بشکریہ: ردعمل / روزنامہ انقلاب / 5 دسمبر 2021ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں