چارہ گروں کی کھوج - افسانہ از رضاء الجبار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-12-05

چارہ گروں کی کھوج - افسانہ از رضاء الجبار

charah-garon-ki-khoj-story-razaul-jabbar
رضاءالجبار (پیدائش: 10/مارچ 1937، حیدرآباد - وفات: 31/جنوری 2011، ٹورنٹو کناڈا)
اردو دنیا کے ممتاز افسانہ نگار اور محقق رہے ہیں۔ بچپن ہی سے پولیو کا شکار ہونے کے باوجود انہوں نے ایم۔کام، ایل۔ایل۔بی اور سی۔اے جیسی تعلیمی لیاقت حاصل کی۔ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے اواخر میں وہ کینیڈا منتقل ہو گئے۔ اب تک ان کے افسانوں کے سات مجموعے طبع ہو چکے ہیں۔
ماہنامہ "شمع" (نئی دہلی) کے شمارہ نومبر:1999ء میں شائع شدہ ان کا ایک مختصر افسانہ ملاحظہ کیجیے۔

"قتل!"
"قتل!"
"قتل!"
غضب ہو گیا خدا کا ۔۔۔ ایک دو نہیں پانچ قتل ہوئے تھے۔
"قاتل کو پکڑنا ضروری ہے۔"
ریڈیو اور ٹی۔وی کی خبروں کے ساتھ اور اخباروں کی اشاعت کے اندر بھی یہ اعلان دندنانے لگا کہ قاتل کا سراغ لگانا، اس تک پہنچنا اور اسے گرفتار کرنا یا کروانا ضروری ہے۔


یہ قتل نارتھ یارک شہر کے اندر ہوئے تھے۔ اس لیے نارتھ یارک میں رہنے والے شہریوں سے خصوصی طور پر خواہش کی گئی تھی کہ وہ جس قدر بھی معلومات مہیا کر سکتے ہیں، کریں۔ ان معلومات کی کڑیاں بنائی جائیں گی اور کچھ عجب نہیں ہے کہ سراغ رساں قاتل کے قریب آ جائیں۔ اعلان میں یہ بھی درج تھا کہ اطلاع دینے والے کا نام پوشیدہ رکھا جائے گا۔ البتہ اگر قاتل پکڑا گیا تو ایک بڑا انعام اس فرد کے لیے ہوگا جس نے اطلاع دی۔


لوگوں کو اس بات پر تجسس ہو رہا تھا کہ انعام کی رقم کتنی ہے؟ اس تجسس کو رفع کرنے کے لیے وہ بھی بتا دی گئی:
ساٹھ ہزار ڈالر ! (یعنی تقریباً ستائیس لاکھ روپے)
رقم واقعی خطیر تھی یعنی اطلاع دینے پر اتنی بڑی رقم کو بطور انعام دینے کا اعلان پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔


لوگوں کی واقفیت کے لیے وہ باتیں بھی بیان کر دی گئی تھیں جو مشاہدوں میں آئی تھیں۔ پہلا قتل کرنے کے لیے گردن پر چھری چلائی گئی تھی اور مردہ جسم کو اسکول کے احاطے میں پھینک دیا گیا تھا۔ دوسرے اور تیسرے قتل میں جسم کے دو ٹکڑے کیے گئے تھے اور ان رہائشی علاقوں میں، جہاں گنجان جھاڑیاں تھیں، لاشوں کے یہ ٹکڑے چھپا دئے گئے تھے۔ چوتھی اور پانچویں لاشوں سے پتا چلا کہ کسی سخت چیز سے دبا کر ان کا گلا گھونٹا گیا تھا۔ کوڑا کچرا ڈالنے کے بڑے لوہے کے ڈبوں میں سے یہ لاشیں نکلیں۔


وہیل چیر پر بیٹھے ہوئے دو معذور بوڑھوں نے بڑے افسوس کے ساتھ بیان دیا کہ بغیر کسی وجہ کے، ان کے رفیق ختم کر دئے گئے۔
چلڈرن ایڈ سوسائٹی کے چھوٹے بچوں نے پریشانی کے عالم میں سوال پوچھے کہ اب وہ کب، کہاں، کس کے ساتھ کھیل سکیں گے؟


"جانوروں کو ظالموں سے بچاؤ" نام کی رجسٹرڈ سوسائٹی کے دفتر کے اندر لوگ جمع ہو گئے۔ قتل کی تفتیش کرنے والے سراغ رساں نے بتایا کہ ان پانچوں لاشوں میں ایک کیفیت مشترک ملی۔ ہر جسم پر کسی اوزار سے لگائے ہوئے کچوکے دکھائی دئے جو وضع اور سائز کے لحاظ سے ایک جیسے تھے۔ انہیں دیکھ کر یہ اندازہ قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ کسی ایک ہی آدمی کی یہ کارستانی ہے۔


ایک آدمی بولا:
"اس شخص کے خمیر میں یقینی طور پر درندگی کی صفت ہے۔ اس ہفتے کے دوران اس نے پانچ بلیوں کا قتل کیا۔ اگلے ہفتے وہ پانچ کتوں کو بھی مار سکتا ہے۔"
دوسرا آدمی بولا:
"ایسا آدمی ہمارے معاشرے میں رہنے کے قابل نہیں ہے"۔


سوسائٹی کے دفتر میں آئے ہوئے لوگوں میں ایک خاتون بھی تھیں جو آبدیدہ ہو کر بولیں:
"بلی ایک ایسی ذات ہے جو نہ بھونکتی ہے اور نہ نوچتی ہے۔ اپنی فطرت میں مسکین جیسی ہوتی ہے۔ ہر پالنے والے کو صبر و شکر کی مثالیں دیتی رہتی ہے۔ تابعدار ایسی ہوتی ہے کہ آواز دو تو آ جاتی ہے، ہنکالو تو چلی جاتی ہے۔ کاندھے پر بٹھاؤ، گود میں دباؤ، ہاتھوں میں اٹھاؤ یا پیدل چلاؤ، ہر حالت میں وہ راضی رہتی ہے۔ بھوک لگتی ہے یا کسی وجہ سے کہیں تکلیف ہوتی ہے تو بس آنکھ میچ کر میاؤں کہہ دیتی ہے۔ ہائے! ایسی مخلوق کو مارا تو اس بدبخت کا آخر کیا بھلا ہوا؟"


'جانوروں کو ظالموں سے بچاؤ' سوسائٹی کے صدر اپنے کیبن سے باہر آئے اور لوگوں کو یقین دلایا کہ قاتل پکڑا جائے گا۔ اس یقین کے بعد پالتو جانوروں سے محبت کرنے والے عوام کے لیے انہوں نے ہدایات جاری کیں کہ۔۔۔ "لوگوں کو چاہیے کہ خصوصی طور پر بلیوں کی نگرانی کریں۔ انہیں اکیلا نہ چھوڑیں، گھر کے باہر نہ جانے دیں، کھڑکی اور دروازے کی چوکھٹوں پر نہ بٹھائیں۔ بیک یارڈ میں اگر وہ اچھل کود کر رہی رہیں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن گھر کا کوئی فرد قریب ہی رہنا چاہیے۔"


سوسائٹی کے صدر نے والنٹیر بلائے۔ عطیے جمع کرنے کے لیے وہ فون پر مصروف ہو گئے۔ وٹرنری ڈاکٹروں، پالتو جانوروں کی خرید و فروخت کی دکانوں کے مالکان اور بلیاں پالنے والے شوقین لوگوں سے فون پر رابطہ قائم کیا اور عطیوں کی اپیل کی۔
چار گھنٹوں کے اندر ایک لاکھ ڈالر جمع ہو گئے۔ عہدہ داروں کی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ ساٹھ ہزار ڈالر کا انعام قاتل کے بارے میں اطلاع دینے والے فرد کے لیے رکھا جائے اور چالیس ہزار ڈالر قتل کی تفتیش اور سراغ رسانی کے اخراجات کے لیے ہوں گے۔ اس دوسری مد میں سے اگر رقم بچ گئی تو بنک میں جمع رہے گی اور آئیندہ کے ایسے ہی کسی مسئلے میں کام آئے گی۔


اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ ایک والنٹیر خاتون نے چونگا اٹھایا۔ تھوڑی دیر تک "ہاں ۔۔ ہاں" کہہ کر باتیں سنتی رہی۔ پھر مختصر سا جواب دے کر فون رکھ دیا۔
سوسائٹی کے صدر کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے پوچھا: "کیا مزید رقم کا وعدہ آیا ہے؟"


"نہیں"۔ والنٹیر خاتون نے جواب دیا۔
"انسانی حقوق انٹرنیشنل کے دفتر سے فون آیا تھا۔ تفصیلات بتاتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے کہ کوسووا میں بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے مل کر بہت سے نہتے لوگوں کا قتل عام کیا ہے، گھر جلا دئے، لوٹ مار کی۔ تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں۔ جو لوگ اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ گئے اور پناہ لینے کے لیے آئے ہیں، ان کی حالت خراب ہے۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کی زندگیاں محفوظ رکھنے کے لیے انہیں مالی امداد کی فوری ضرورت ہے۔ وہ ہم سے التجا کر رہے تھے کہ کچھ رقم سے مدد کریں۔"
"تم نے کیا جواب دیا؟"
"میں نے کہہ دیا: سوری! آپ نے رانگ نمبر ڈائل کیا ہے۔"

ماخوذ:
ماہنامہ "شمع" نئی دہلی۔ شمارہ: نومبر 1999۔

Charah garoN ki khoj. Short Story by: Raza-ul-Jabbar.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں