پرویز ید اللہ مہدی کی تخلیقات میں خالص مزاح - از محمد علی رفعت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-12-28

پرویز ید اللہ مہدی کی تخلیقات میں خالص مزاح - از محمد علی رفعت

urdu-humorist-pervez-yadullah-mehdi
سید ید اللہ مہدی حسینی جو ادبی حلقوں میں "پرویز ید اللہ مہدی" کے اسم سے معروف تھے 21/جون 1943 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور 20/اگست 2018 کو بعمر 75 سال شکاگو (امریکہ) میں انتقال کر گئے۔ حیدرآباد میں تعلیم کے بعد انہوں نے ممبئی منتقل ہو کر ریڈیو کے ذریعے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا کی تھی اور ملک بھر کے ادبی رسائل میں لکھا کرتے تھے۔
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد) نے اپنا ایک خصوصی نمبر (فروری/مارچ 2009) بطور "پرویز ید اللہ مہدی نمبر" شائع کیا تھا۔ جس میں محمد علی رفعت کا تحریرکردہ درج ذیل مہمان اداریہ بھی موجود ہے۔

افلاطون نے اپنی کتاب Philebus میں فن مزاح پر تبصرہ کرتے ہوئے سقراط سے کہا تھا کہ :
"تمسخر کا نچوڑ کمزور کی نادانی میں پایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اپنا مذاق اڑائے جانے کی صورت میں اس کا بدلہ لے سکے۔ یہی چیز ادب میں مزاح کا سبب بنتی ہے"۔


افلاطون نے شاید یہ بھی کہا تھا :
"لیکن پیارے سقراط، ہزاروں سال بعد دکن کی سرزمین پر ایک مزاح نگار پیدا ہوگا جو کسی کمزور اور نادان کا استہزا کیے بغیر ہی ایسا مزاح پیدا کرے گا کہ سننے والے عوام جھوم اٹھیں گے"۔


اس تبصرہ کے بعد ہمارے پاس رہ ہی کیا جاتا ہے؟ واقعی اس شخص کو کیا کہیں جو داڑھی کے فنی محاسن و عیوب پر مزاح نگاری کرنے سے پہلے خود داڑھی بڑھائے اور اتنی بڑھائے کہ بڑے بڑے مولویوں کی داڑھیاں اپنی کوتاہ قامتی کا گلہ کرنے لگیں اور اس کے بعد مختلف تجربات کی روشنی میں ریش درازی کی افادیت کے ایسے پہلو اجاگر کرے کہ پڑھنے والے اپنی اپنی داڑھیوں پر ہاتھ پھیرتے رہ جائیں۔ اپنی برفانی ریش سے ، جس کی لمبائی صرف بڑی پٹری ہی سے ناپی جاسکتی ہے ، پرویز میاں ہوا کے رخ کا بے کم و کاست اندازہ کرلیتے ہیں۔ ریش طویل کے دیگر فوائد کے لیے سالنامہ شگوفہ 2009 میں پرویز کا مضمون لائق مطالعہ ہے۔


افلاطون کے بعد اس کے شاگرد کے شاگرد حکیم ارسطو نے اپنی کتاب Poetics میں مزاح کے بنیادی عناصر پر یوں تبصرہ کیا تھا کہ :
"بدنمائی ( بدصورتی ، بھدّا پن ، گھناونا پن ) جس سے تنفریا اکراہ نہ ہو ، وہ مزاح کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے"۔
ارسطو کے نزدیک بھی مزاح کے لیے انسانی کمزوریوں کا اس طرح نشانہ بنایا جانا کہ جس سے ہدف سے نفرت نہ ہو ضروری قرار پایا۔


ارسطو کی Poetics کا جب عربی ترجمہ ہوا تو ابوالبشر ، اس کا شاگرد ابوالنصر الفارابی ، ابی سینا اور ابی راس جیسے عرب علماء نے فن مزاح کی وسیع تر تشریح کی ، جو بالاخر طنز اور طرب کو ہم معنی قرار دینے پر اختتام پذیر ہوئی اور جو ارسطو کے نظریہ مزاح سے بالکل جداگانہ شکل میں ڈھل گئی۔ اس کی وجہ شاید تہذیبوں کا اختلاف تھا ، جس نے عرب علماء کو یونانی فلاسفہ کے بنیادی نقاط نظر سے اختلاف کرنے پر مجبور کیا۔ یونانیوں کے نزدیک مزاح عام طور پر ڈرامہ کی شکل میں تخلیق کیا جاتا تھا اور عربوں نے ان کی اپنی شاعری کو مزاح کی تخلیق کا ذریعہ بنایا۔ کیوں کہ عربوں کے پاس ڈرامہ کا تصور ہی نہیں تھا۔ اس طرح عربی شاعری میں ہجو گوئی کے ذریعہ مزاح نگاری کی کوششیں کی گئیں۔


پرویز کے مزاح میں طنز کا عنصر شاید ہی مل سکے۔ ہاں قدم قدم پر طرب اور رجائیت نمایاں ہوگی۔ قدیم یونانی مزاح کی ایک خاص صفت Comedy ( طربیہ ڈرامہ ) ہوا کرتی تھی جس کا آغاز کلفت کے واقعات سے ہوتا اور انجام شادمانی پر مبنی ہوتا۔ لیکن عرب فَلاسفہ نے طرب (Comedy) کو محض فن عیب جوئی ہی جانا۔ اس طرح یونانی فلاسفہ اور عرب فلاسفہ میں بعد المشرقین پیدا ہوتا گیا۔ یونانی فَلاسفہ کے نزدیک مزاح کا تفریح پر منتج ہونا لازمی تھا ، جب کہ عرب میں ہجو کے ذریعہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا او راپنی زبان دانی کا مظاہرہ کرنا مزاح کا لازمی عنصر قرار پایا۔ یونان اور عرب کے اس تقابل کے درمیان پرویز ید اللہ مہدی کی مزاح نگاری کا جائزہ لیں تو پرویز بلا شبہ یونان کے فلاسفہ کا نمائندہ نظر آتا ہے۔ یہ کیسا مسلمان مزاح نگار ہے جس نے داڑھی تو عرب فلاسفہ سے بھی لمبی رکھی ہے لیکن وہ مزاح کے فنی سانچوں کی تشکیل یونانی انداز میں کرتے ہوئے افلاطون ، سقراط اور ارسطو کے بنائے ہوئے خاکوں میں رنگ بھرتا نظر آتا ہے۔


مزاح نگاری سے متعلق یوروپی فلاسفہ نے اپنی ایک الگ ڈگر بنائی جو یونانی اور لاطینی نظریات سے بہت مختلف ہے۔ ایمانویل کانٹ نے مزاح کی تشریح نظریہ عدم توافق (Theory of Incongruity) کے ذریعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے خیال میں مزاح ( 'طرب' Comic ) ایسے جال کا نام ہے جس کے بچھائے جانے کے بعد توقعات تو پیدا ہوتی ہیں کہ کچھ ہوگا لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ اس کے باوجود نتیجہ مایوسی نہیں بلکہ تفریح طبع کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ ہنری برگسان (Bergson) نے اپنے مضمون
"Laughter: An essay on the meaning of the Comic"
میں جو 1900 میں لکھا گیا ، نظریہ عدم توافق کو مزید وسعت دی اور بلوغ کو پہنچایا۔ برگسان کے مطابق مزاح دو متضاد چیزوں کو ایک دوسرے کے مقابل رکھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی قہقہہ بردوش ادب وہ ہوتا ہے جو دو متضاد چیزوں کے تقابل سے مضحکہ خیزی پیدا کرے۔

پرویز میاں کے ' کچوکے ' اگر برگسان کی نظر سے گذرتے تو یقینا وہ اپنے نظریات پر نظر ثانی کرتا۔ پرویز کی ' چڑی کے غلام ' تو تو میں میں ' کے علاوہ ریڈیائی ڈرامے ، فلمی مکالمے ، سفر نامے ، شخصی خاکے ، وغیرہ یونانی حکما اور یوروپی فلاسفہ کی تشریحات سے آگے کی چیزیں ہیں۔ بالفاظ دیگر اردو زبان و ادب میں مزاح نگاری نے ہر صنف ادب میں اپنا رنگ جمایا ہے۔ جب کہ یوروپ میں مزاح کی تخلیق کے لیے ڈرامہ کی وساطت لازمی سمجھی جاتی تھی۔


مزاحیہ ادب مشکل ترین اصناف ادب میں سے ایک ہے ، یہی وجہ ہے کہ مشاہیر جیسے شوکت تھانوی ، پطرس بخاری ، کرنل شفیق الرحمن ، کرنل محمد خان ، مشفق خواجہ ، مشتاق احمد یوسفی ، مجتبیٰ حسین ، عطاء الحق قاسمی ، یوسف ناظم ، پرویز ید اللہ مہدی ، فیاض فیضی ، مسیح انجم ، نریندر لوتھر ، بھارت چند کھنہ ، جیسے نام صرف انگلیوں پر ہی گنے جاسکتے ہے اور ان کی تخلیقات کی تعداد بھی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ مزاحیہ ادب اور بسیار نویسی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ مزاح نگار اگر بسیار نویسی پر اتر آئے تو مزاح کے معیار میں نمایاں کمی واقع ہونے لگتی ہے بلکہ مزاح کم سے کم تر ہوتا جاتا ہے اور تحریر یا تو طنز کی کڑواہٹ میں گھل جاتی ہے یا پھر پھیکے لطیفوں کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔
بعض ادیبوں کی بسیار نویسی کے باوجود مزاح کی چاشنی میں کسی قسم کی کمی نہیں دیکھی جاسکتی اور ہماری نظر میں مشفق خواجہ مرحوم اور پرویز ید اللہ مہدی طولعمرہ وہ مزاح نگار ہیں جن کی بسیار نویسی کے ساتھ ساتھ مزاح کے معیار میں کسی قسم کا اتار نہیں دکھائی دیتا۔ پرویز کا مزاحیہ ادب اس بات کا متقاضی ہے کہ یوروپ اور امریکہ کی جامعات میں تحقیق کا موضوع بنے۔


ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے جو حضرات یوسف ناظم ، مجتبیٰ حسین اور پرویز ید اللہ مہدی کے فن پر ریسرچ کررہے ہیں ان کے مقالوں میں وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو ان حضرات کے فن کا بین الاقوامی ادبی تناظر میں جائزہ لینے کے بعد پیدا ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر مصطفی کمال کی یہ کوشش کہ شگوفہ کا ایک خاص نمبر پرویز کے نام کیا جائے حق بہ حقدار رسید کے مصداق ہے۔


ہو سکتا ہے کہ اس خاص نمبر کے ذریعہ ہی سے انگلستان ، امریکہ اور یوروپ کی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے ادب اس جانب توجہ کریں اور پرویز کے فن کا بین الاقوامی پیمانہ پر تقابلی جائزہ لیا جاسکے۔ شگوفہ کے 'پرویز ید اللہ مہدی نمبر 'کا مہمان مدیر ہونے کا اعزاز مجھ جیسے کم مایہ شخص کے لیے بہت بڑی بات ہے۔ لیکن برادرم ممتاز مہدی کی معاونت سے ، جو خود بھی اس نمبر کے مہمان مدیر ہیں ، جو کمی میری ذات کی وجہ سے واقع ہوئی اس کو ممتاز مہدی نے پورا کیا۔ اب یقین ہے کہ پرویز ید اللہ مہدی نمبر مزاحیہ ادب میں ان کے معیار و مقام کے شایان شان اپنا ایک منفرد مقام بنائے گا۔۔


ماخوذ:
"شگوفہ" (حیدرآباد، انڈیا)۔
مدیر و ناشر: مصطفیٰ کمال۔ سن اشاعت: مارچ 2009ء۔

An overview of Pervez Yadullah Mehdi's humour, by: Muhammad Ali Rafat.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں