اسلوب طرزِ تحریر اور طرز بیان کا نام ہے، جس کے ذریعہ ایک شخص اپنے خیالات اور جذبات کو بیان کرتا ہے۔ اسلوب مصنف کی تمام زندگی کا عکس اور خیال کا لباس ہے۔ اسلوب سے مراد کسی لکھنے والے کی وہ انفرادی طرز نگارش ہے، جس کی بنا پر وہ دوسرے لکھنے والوں سے ممیز ہوتا ہے۔
ہر شخص کے سوچنے اور محسوس کرنے کا مخصوص انداز ہوتا ہے اور یہ مخصوص انداز انسان کے لب و لہجے میں ایک انفرادیت پیدا کر دیتا ہے اور یہی انفرادیت فن کا اسلوب کہلاتا ہے۔ جب ہم کسی شعر یا نثر پارے کی تعریف کرتے ہیں تو بسا اوقات اس کے موضوع کی نہیں بلکہ اس اسلوبِ ادا کی تعریف کرتے ہیں جو فنکار نے اپنی تخلیق میں اختیار کیا ہے۔
اردو زبان و ادب کی نشو و نما، ترویج اور ترقی میں علماء کرام اور صوفیائے کرام کی خدمات سے تمام اہل نظر واقف ہیں۔ ان کا مطمح نظر تبلیغ و اشاعتِ دین تھا تاہم اس کے لئے جس زبان کو وسیلۂ اظہار بنایا گیا، وہ یہی اردو تھی جس کی ترقی یافتہ شکل آج ہمارے سامنے ہے۔ ابتدا میں ان لوگوں نے دینی تعلیمات کو اپنے مذہبی رسالوں میں عربی و فارسی سے ترجمہ کر کے اردو میں شائع کیا۔ اس لئے ابتدائی نثر پاروں کے عمومی رجحان کا اثر اردو زبان و ادب پر بھی پڑا اور مذہبی نثر کی ابتدا ہوئی۔
قرن اول کی مذہبی نثر قدیم اردو نثر کے اولین نمونے ہیں کیونکہ علماء کرام کے رسالوں، کتابوں اور ملفوظات کے مخاطب عوام تھے۔ اس لئے ان کے طرز بیان کا خارج از تکلف ہونا ناگریز تھا۔ دوسری طرف، آسان لب و لہجہ اور مؤثر انداز تخاطب کے لئے زبان کا صاف اور سادہ ہونا بھی اتنا ہی ضروری تھا۔ لہذا جب ہم اس دور کے اردو ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کی زبان میں سادگی، صفائی اور بے تکلفی نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے۔ ابتداء سے اب تک کے چند علماء کرام کی تحریروں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا اردو زبان کی ترقی اور اشاعت میں ان کی خدمات کس قدر قابل فخر ہیں۔
شاہ عبد القادر محدث دہلوی مشہور عالم ، محدث اور مفسر تھے آپ نے اردو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ "موضع القرآن" کے نام سے کیا۔ یہ ترجمہ کسی قدر بامحاورہ ہے اور زبان و بیان کے لحاظ سے اتنا اچھا ہے کہ ہر زمانے میں متداول و مقبول رہا اور بڑے سے بڑے مترجمین بطور نمونہ اس کا استعمال کرتے رہے۔
شاہ عبد القادر کا ترجمہ نہایت سلیس سادہ زبان میں ہے۔ ترجمے کی تمہید میں وہ لکھتے ہیں:
الہی، شکر تیرے احسان کا ادا کروں کس زبان سے کہ ہماری زبان کو پاکی اپنے نام کی اور دل کی روشنی دی اپنے کلام کی ، اور امت میں کیا اپنے رسول مقبول کی، جو اشرف الانبیاء اور نبی الرحمۃ جس کی شفاعت سے امیدوار ہیں ہم کو پاویں در جہاں کی نعمت، الہی اوس نبی امت پرور کی اپنی رحمت کامل سے درجات اعلی نصیب کر جو حد نہ ہو کسی مخلوق کی اور اپنی عنایت اوس پر ہمیشہ افزوں رکھ کر دنیا و آخرت میں، اور اوس کی آل اطہار پر اور اصحاب کبار پر اور اس کی امت کے علمائے مقتدا اور اولیائے باصفا پر اور غربا اور ضعفا پر سب پر آمین یا الہ العالمین۔
آگے لکھتے ہیں:
اس واسطے اس بنده عاجز عبدالقادر کو خیال آیا کہ جس طرح ہمارے والد بزرگوار حضرت شیخ ولی اللہ بن عبدالرحیم محدث دہلوی ترجمہ فارسی کر گئے ہیں۔ سہل و آسان اب ہندی زبان میں قرآن شریف کو ترجمہ کرے۔ الحمد للہ کہ 1205ھ بارہ سو پانچ ہجری میں میسر ہوا۔
اس ترجمے کے تمہیدی باب کی تحریر کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مولانا بنیادی طور پر سادہ سلیس زبان کا استعمال کرتے تھے جو عوام کو اچھی طرح سمجھ میں آ سکے۔
مولانا نے قرآن مجید کا جو ترجمہ کیا ہے اس کو آیت بہ آیت لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا ہے، جس سے عبارت میں ربط و تسلسل ختم ہو گیا۔ مثلاً مولانا کے ترجمہ کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
سورة الحمد کا تر جمہ:
سب تعریف اللہ کو ہے جو صاحب سارے جہان کا، بہت مہربان نہایت رحم والا، مالک انصاف کے دن کا، تجھی کو ہم بندگی کریں اور تجھی سے مدد چاہیں، چلا ہم کو راہ سیدھی، راہ اون کی جن پر تو نے فضل کیا، نہ جن پر غصہ ہوا اور نہ بہکنے والے۔
سورۃ البقرہ کے پہلے رکوع کا ترجمہ:
اس کتاب میں کچھ شک نہیں ، راہ بتاتی ہے ڈر والوں کو، جو یقین کرتے ہیں بن دیکھے اور درست کرتے ہیں نماز کو، اور ہمارا دیا کچھ خرچ کرتے ہیں، اور جو یقین کرتے ہیں، جو کچھ اترا تجھ پر اور جو کچھ اترا تجھ سے پہلے اور آخرت کو وہ یقین جانتے ہیں۔ انہوں نے پائی ہے راہ اپنے رب کی اور وہی مراد کو پہنچے۔ وہ جو منکر ہوئے برابر ہے اون کو تو ڈراوے یا نہ ڈراوے، وہ نہ مانیں گے۔ مہر کر دی اللہ نے ان کے دل پر، اون کے کان پر اور اون آنکھوں پر پردہ ہے، اور ان کو بڑی مار ہے۔
ان ترجموں سے معلوم ہوا مولانا کا مقصد قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا چاہے زبان میں سلاست روانی نہ ہو۔ ڈاکٹر حامد حسن قادری لکھتے ہیں:
ترجمہ اس قدر لفظی اور بےمحاورہ اور دشوار فہم ہے کہ ہمارے زمانے میں کیا، اس زمانے میں بھی زبان ایسی نہیں تھی۔ لیکن اصل یہ ہے کہ عربی زبان کی وسعت و بلاغت اور قرآن مجید کی معجزہ نما عبارت ترجمہ کی گرفت میں نہیں آ سکتی۔ اور شاہ صاحب جیسے محتاط بزرگ کو آیت آیت لفظ لفظ پر خیال تھا کہ ہماری طرف سے کوئی ایسی کمی بیشی نہ ہو جائے جس سے مطلب کچھ سے کچھ ہو جائے۔ اس لئے ان کے نزدیک بہترین صورت یہ ہے کہ ہر لفظ اور ہر حرف کا ترجمہ عربی ترتیب کے مطابق اس موقع پر لکھ دیا جائے۔ خواہ اردو عبارت محاورہ کے خلاف ہو جائے۔
شاہ عبدالقادر نے اپنے ترجمہ "موضع القرآن" کے تمہیدی باب میں جو طرز تحریر اختیار کی ہے وہ سادگی اور سلاست لیے ہوئے ہے مگر ترجمہ لفظ بہ لفظ کرنے سے عبارت میں شگفتگی اور روانی باقی نہیں رہی۔ مگر عام الفاظ بڑے اچھے انداز میں استعمال کیے گئے ہیں۔ مولوی عبد الحق شاہ عبدالقادر کے ترجمے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ ترجمہ ٹھیٹ اردو میں ہے، اس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ عربی الفاظ کے لئے ہندی یا اردو سے ایسے برجستہ اور برمحل الفاظ ڈھونڈ کے نکالے ہیں کہ ان سے بہتر ملنا مکن نہیں۔
مولوی عبدالحق اس ترجمے کا مقابلہ شاہ رفیع الدین کے ترجمے سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
شاہ عبد القادر کے ترجمے میں اس قدر لفظی پابندی نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ وہ مفہوم کی صحت اور اصل لفظ کے حسن کو برقرار رکھنے کے علاوہ اردو زبان کے روز مرے اور محاورے کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ دوسری خوبی ان کے ترجمے میں ایجاز کی ہے لیکن ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو کم سے کم الفاظ میں پورا مفہوم صحت کے ساتھ ادا ہو جائے۔
الغرض شاہ عبدالقادر کے اسلوب میں سادگی، لفظوں کا برمحل استعمال، بامحاورہ زبان نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ اردو کی ابتدائی نشو و نما میں آپ کی خدمات قابل فخر ہیں۔ جنہیں تاریخ زبان اردو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
ماخوذ از مقالہ: اردو ادب کے فروغ میں مذہبی علماء کا کردار
پی۔ایچ۔ڈی مقالہ از: زبیر احمد (زیر نگرانی: ڈاکٹر سید صادق علی)
مہرشی دیانند سرسوتی یونیورسٹی، اجمیر، راجستھان۔ (فیکلٹی آف آرٹس، 2017)
شاہ عبد القادر دہلوی کے ترجمے کا تاریخی نام " موضح قرآن" ہے نہ کہ موضح القرآن
جواب دیںحذف کریں