ناروے میں افسانوی ادب کی صورتحال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-11-23

ناروے میں افسانوی ادب کی صورتحال

fiction-situation-in-norway

ناروے میں افسانوی ادب کے ہر پہلو سے ہم آج واقف ہیں اس کی تاریخ کوئی زیادہ پرانی نہیں ہے۔ ادب کی اس صنف کو سنجیدگی سے لئے کوئی ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ پچھلی صدی کے وسط میں جب جدید قومی ادب کسی قدر ہمارے سامنے آیا تبھی کچھ افسانوی مجموعے بھی شائع ہوئے لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔ ویسے بھی ناولوں کی نسبت افسانوی مجموعوں کی تعداد کم ہی رہی ہے۔ ابھی پچھلی دو دہائیوں سے کچھ افسانوی مجموعے ہر سال ناروے کے کتب فروشوں کے ہاں نظر آنے لگے ہیں۔


دوسرے ملکوں کی طرح ناروے میں بھی کہانی کہنے کا فن پرانے زمانے سے جڑا ہوا ہے۔جو قصے کہانیوں کے ذریعے ہمارے سامنے آیا ہے۔ زبانی طور پر کہانی کہنے کے اس رواج نے فن افسانہ کو صدیوں تک زندہ رکھا ہے جس میں اساطیری، تاریخی اورپری کہانیوں نے ایک خاص رول ادا کیا ہے۔ کہانی کہنے کی یہ روایت آج کے افسانوی ادب کا پس منظر ہے۔ پانی بہت سی کہانیوں کا موا دچا ہے اب نایاب ہے پھر بھی پچھلی صدی کی میسر اساطیری اور لوک کہانیوں کو جمع کر کے مجموعوں کی صورت شائع کر دیاگیا ہے اور کہانیوں کا یہی مواد نار ویحئین ادب کے لئے اہم ثابت ہوا ہے۔


آج نارویجئن کہانی دو طرح سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ ایک سنجیدہ اور گہرے ادب کے روپ میں، جس کا انتخاب اس مجموعے میں کیا گیا ہے۔ ایسی کہانیاں کتابی صورت میں چھپی اور دکانوں پربیچی جاتی ہیں۔ اخبارات اور رسائل ان پر تنقید اور ریویو لکھتے ہیں اور یہ لائبریری کے ذریعے عام قاری تک پہنچی ہیں جبکہ دوسری قسم کا ادب ہلکا پھلکا اور عوام پسند ہوتا ہے جو ہفتہ وار اور دوسرے ہلکے پھلکے رسالوں میں کافی تعدادمیں شائع ہوتا رہتا ہے۔ اس دوسری قسم کے قارئین کی تعداد کافی زیادہ تو ہے مگر یہ گہرے ادبی اوصاف سے محروم ہوتا ہے۔ ایسے ادب کی کہانیوں میں ماحول اور کرداروں کی تصویرکشی ہوتی ہے اور یہ صرف تفریح طبع کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ ان رومانی کہانیوں کو بڑے دلچسپ انداز سے پیش کیا جاتا ہے چونکہ ایسی کہانیاں اکثر دوسری زبانوں سے ترجمہ کی جاتی ہیں اس لئے ان کا انداز رواں اور تفریحی ہوتا ہے۔


اگر چہ تفریحی اور سنجیدہ کہانی کے اپنے اپنے قارئین ہوتے ہیں اور وہ اپنے اپنے اوصاف کی بنیاد پر اپنے اپنے انداز کے رسالوں میں ہی جگہ پاتی ہیں مگر پھر بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرح سے دونوں اقسام افسانہ نگاری کی ایک ایسی مشترکہ روایت سے عبارت ہیں جن میں ذہن انسانی کو چھو جانے والے عناصر موجود ہیں۔ تھور برگ نیدریوس جن کی کہانی اس مجموعہ (ناروے کے بہترین افسانے، مرتب و مترجم: ہرچرن چاولہ۔ سن اشاعت: 1989ء) میں شامل ہے، اپنی افسانہ نگاری کے آغاز میں ایک تفریحی کہانی کار کے طور پر ہمارے سامنے آئی تھیں جو بعد میں نہ صرف اپنے معاصرین کے سنجیدہ ادب کی ہی پیش رو ثابت ہوئیں بلکہ افسانے کے تانے بانے کو کبھی ایک مخصوص شکل دینے میں پیش پیش ہیں۔ اس مجموعے میں شامل ایک اور ادیب نیلزیو ہان رود موجو دہ صدی کی تیسری دہائی میں ایک مزدور رسالے کے مدیر بنے تو انھوں نے جان بوجھ کرا دبی اوصاف سے بھر پور مگرآسانی سے سمجھ میں آجانے والی کہانیوں اور ایسی ہی دوسری اصناف ادب کو اپنے رسالے میں جگہ دی۔ یہ رسالہ کئی دہائیوں تک سنجیدہ اور عوام پندادب کا مرکز رہا۔ آج کے کئی مشہور اور قابل ذکر ادبا کی شروع شروع کی تخلیقات اسی رسالے میں شائع ہوئیں۔ دکھ کی بات ہے کہ ایسا رسالہ اب کئی سالوں سے بند پڑا ہے۔


نارویجئین ادیبوں میں ایسے بہت کم ہیں جنہوں نے صرف کہانی کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا اور وہ دوسری ادبی اصناف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مستند ادیب بیورنسن کا نام لیا جاسکتا ہے جس نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ناٹک اور ناول لکھے اور شاعری بھی کی ہے۔ اسی طرح آرنلف ادورلد اس صدی کے پہلے پچاس سالوں میں بطور شاعر جانے جاتے رہے۔ تھو راوبرستادنے زیادہ تر نظمیں اور ناول لکھے ہیں اور تھور اوگے برنگس ویرنے خاص طور پر ناول اور ناٹک۔


ناروے میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی ایک ادیب نے خاص طور پر صرف افسانہ نگاری پر ہی اکتفا کیا ہو سوائے چند ایک کے جن میں بیورگ ویک ایک ایسی مثال ہے پچھلی اور موجودہ دہائی میں مشہور اور جانی پہچانی کہانی کار مانی گئی ہیں جنھوںنے نہ صرف ناروے بلکہ بیرونی ممالک میں بھی شہرت حاصل کی ہے۔ دوسرے ادباجنہیں کہانی کے ارتقا کے شروع شروع کے سالوں کا استاد تسلیم کیا جاتاہے۔ ان میں الیگژندر شیل لاند اپنے مختصر افسانوں ،یوہان برگن اپنے خوبصورت فنکارانہ انداز اور تھیر یا وےسس اپنی شاعری نما کہانیوں کی وجہ سے مشہور ہیں مگر ان تینوں قلم کاروں نے افسانہ نگاری کے علاوہ دوسری اضاف أدب میں بھی قابل قدر تخلیقی کام کیا ہے۔


ادب میں جہاں تک گہرے اور سنجیدہ موضوعات کا سوال ہے۔ یہ انسانوں کے آپسی میل جول کی تصویرکشی کی روانی اور ان کی نفسیات اور ذہنی ادھیڑ بن کو حقیقت بیانی سے پیش کرنے پر منحصر کرتا ہے۔ اسی طرح کہانی کا طویل اور منحصر ہونا ، کہانی کے پلاٹ پر انحصار کرتا ہے لیکن کئی بار کہانی ان حدوں کو پھلانگ بھی جاتی ہے۔ کئی ایک مثالوں میں ایک موضوع محدود ہوتے ہوئے بھی تخیلات کا بہت بڑا کینوس لئے ہوئے ہوتا ہے۔
ویسے کہانی ایک طرح سے عام لوگوںکے کردار کی تصویرکشی کا دوسرا روپ مانی جاتی ہے جیسے کہ بیورنسن کی کہانی باپ ہے یا تھورا وبرستاد کی قبضہ۔ ان میں سیاست اور سماج پر بالواسطہ طنز کیا گیا ہے۔ اسی طرح تھور اوگے برنگس دیر کی کہانی سائنس فکشن انداز اپنا لتی ہے۔ اور تھیر یا وے سس کی کہانی تشبیہانہ انداز اختیار لیتی ہے۔


ناروے میں سنجیدہ افسانوی ادب کے لئے اب زیادہ جگہ نہیں ہے اور ناول کو افسانوی مجموعوں سےکہیں زیادہ اشاعت کے مواقع حاصل ہیں پھر بھی کہانی نارویجیئن ادب کا ایک اہم حصہ ہے اور اچھا ادب اگر کہیں نظر آتا تو وہ کہانیوں کی شکل میں ہی۔


***
ماخوذ از کتاب: ناروے کے بہترین افسانے
مرتب و مترجم: ہرچرن چاولہ
طباعت: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی (سن اشاعت: 1989ء)

The state of fiction in Norway. Article by: Oskar Stein Bjorlykke

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں