معروف مزاح نگار پرویز یداللہ مہدی سے ایک ملاقات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-11-05

معروف مزاح نگار پرویز یداللہ مہدی سے ایک ملاقات

interview-with-urdu-humorist-pervez-yadullah-mehdi
سید ید اللہ مہدی حسینی جو ادبی حلقوں میں "پرویز ید اللہ مہدی" کے اسم سے معروف تھے 21/جون 1943 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور 20/اگست 2018 کو بعمر 75 سال شکاگو (امریکہ) میں انتقال کر گئے۔ حیدرآباد میں تعلیم کے بعد انہوں نے ممبئی منتقل ہو کر ریڈیو کے ذریعے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا کی تھی اور ملک بھر کے ادبی رسائل میں لکھا کرتے تھے۔
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد) نے اپنا ایک خصوصی نمبر (فروری/مارچ 2009) بطور "پرویز ید اللہ مہدی نمبر" شائع کیا تھا۔ جس میں درج ذیل انٹرویو بھی موجود ہے۔

اردو ادب میں طنز و مزاح کی صنف کو جاوداں رکھنے میں جن قلمکاروں نے قابل ذکر کاوشیں کی ہیں ان میں پرویز یداللہ مہدی بھی ہیں۔ پرویز یداللہ مہدی کا تعلق حیدرآباد دکن کی مقبول عام مزاح کی تہذیبی روایتی تنظیم زندہ دلان سے ہے۔ آپ کئی سالوں سے برصغیر کے واحد طنز و مزاح کے اردو رسالے " شگوفہ " کے لیے بھی لکھ رہے ہیں۔
زندہ دلان حیدرآباد ، ماہنامہ شگوفہ کے ایڈیٹر مصطفیٰ کمال اور پرویز یداللہ مہدی گویا طنز و مزاح کی ایک ایسی زنگ آلود زنجیر کی کڑیاں ہیں جو ایک دوسرے پر لگی زنگ کو خود ہی کھرچ کھرچ کر مزاح کے ماحول کو غذا فراہم کرنے میں برسرپیکار ہیں۔
پرویز نہ صرف مزاح نگار ہیں بلکہ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے ڈرامے ، ٹی وی سیریل ، فلم کے مکالمے اور ادبی خاکے بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کی تحریروں میں از حد تنوع ہے۔ ذاتی قابلیت کے اعتبارسے ریفریجریشن انجینئر ہیں لیکن انہوں نے کبھی اپنے قلم کو ریفریجریٹر کی زینت نہیں بنایا اور 1970ء سے مسلسل مزاح نگاری کے میدان میں اپنے کمال کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ اب تک ان کی پانچ تصانیف شائع ہو چکی ہیں جن سے ان کے ایک معتبر مزاح نگار ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ حال ہی میں ان کی چھٹی کتاب " ترکی بہ ترکی " کی رسم اجرا کی تقریب روایتی انداز میں منعقد کی گئی تھی۔
پرویزیداللہ مہدی آج کل کی زندگی کے موضوعات کو اپنی تخلیقات میں جگہ دیتے ہیں ، جیسے ٹی وی یا کرکٹ کا جنون ، ساتھ ہی ساتھ وہ سماج اور زندگی کے ناخوشگوار پہلوؤں کو بھی نہیں چھوڑتے اور اس طرح اپنے طنز کے ذریعے وہ معاشرہ میں اصلاح کے نشتر چھوڑتے ہیں۔ پرویز یداللہ اب شکاگو میں مقیم ہیں اردو ٹائمز کے نمائندے سے ایک مختصر انٹرویو کا اقتباس ذیل میں پیش ہے۔


سوال : کیا موجودہ دور میں طنز و مزاح باقی ہے ؟
جواب : اب وہ معیار باقی نہیں رہا پڑھنے والے اب باقی نہیں رہے۔ اردو سے واقفیت ضروری ہے ، پرانے لوگوں میں جو ادبی ذوق شوق تھا ، انہیں سننے کے بعد ہم نے لکھنا شروع کیا۔ زندہ دلان نے ہمیں وہ پلیٹ فارم فراہم کیا۔ 1966 ء سے لکھنا شروع کیا۔ 1969 میں " شگوفہ " شروع ہوا۔ "شگوفہ " کے ساتھ مجتبیٰ حسین اور نئی نسل کے قلمکاروں کو موقع ملا۔ طنز و مزاح پر جن کا اثر حاوی تھا ان میں شوکت تھانوی ، فکرتونسوی ، کنہیالاکپور ، آزادی سے قبل کے لکھنے والے تھے۔ اردو زبان سارے ہندوستان میں بولی جاتی تھی۔ تقسیم کے بعد زبان تھوڑی سی ادھر ادھر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں طنز و مزاح کے معیار کا تعین کرنا مشکل ہے۔


سوال : انگریزی ادب میں مزاح کو کچھ ایسا مقام نہیں ملا ؟
جواب : شروع سے لوگ اسے دوسرے درجے کا ادب بولتے رہے۔ مزاحیہ افسانہ یا مزاحیہ ڈرامہ کی صورت میں اسے لیا گیا لیکن جب زندہ دلان پنجاب سے ایک تحریک چلی تو اردو ادب میں بھی طنز و مزاح کی صنف کا مقام پیدا ہوا۔ اس تحریک کے روح رواں پطرس بخاری ، زیڈ اے بخاری اور پرانے لکھنے والوں میں شوکت تھانوی ہیں۔ ان حضرات نے طنز و مزاح کو پہلے ریڈیو کے ذریعہ تحریک بخشی۔ پھر ڈرامے لکھے گئے۔ اس طرح دھیرے دھیرے اردو میں طنز و مزاح کا رواج چلا۔ یہ تحریک زندہ دلان حیدرآباد تک پہنچی۔ اس کو صنف کی جو شکل ملی اس کے لیے رسالہ " شگوفہ " نے اہم ترین رول ادا کیا ہے۔ یہ رسالہ ہندوستان میں 35 سالوں سے مسلسل شائع ہورہا ہے اور طنز میں مزاح کی صنف میں برصغیر کا یہ واحد اردو رسالہ ہے جسے عنقریب ہی گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی منتخب کیا جائے گا۔ "شگوفہ " کے مدیر مصطفیٰ کمال اس رسالے کی باقاعدہ اشاعت کے لیے تعریف کے مستحق ہیں۔


سوال : طنز زیادہ اثر کرتا ہے یا مزاح ؟
جواب : ہر ایک کی تحریر کا اپنا اثر ہوتا ہے۔ کسی کی تحریر میں طنز حاوی ہوتا ہے تو کسی کی تحریر میں مزاح حاوی ہوتا ہے۔ تونسوی کی تحریر میں معاشرتی طنز کے نشتر زیادہ تھے۔ شوکت تھانوی کی تحریر میں مزاح حاوی تھا۔ لیکن طنز کو مزاح سے الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مزاح کے انداز میں بھی طنز کارفرما ہوتا ہے۔ اور پھر خالص مزاح تو لطیفے ہیں کیونکہ طنزیا مزاح لکھنے والا بھی سماج سے متاثر ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ کہیں کسی نہ کسی چٹکی آپ کے آس پاس کچھ ہورہا ہے یا چل رہا ہے یہی اثر ہے۔ جب طنز و مزاح میں شامل ہوتا ہے تو اس میں اور بھی مزہ آجاتا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال غالب ہیں۔ ان کی شاعری میں اور خطوط غالب میں طنز کی جو آمیزش ہے وہی ان کے کلام کی ہردلعزیزی کا باعث بھی ہے۔ طنز و مزاح کے مقبول عام امتزاج کی وجہ سے ان کی شاعری اور ان کے خطوط زندہ ہیں۔ یہ پہلے طنز نگار ہیں۔ ہمارے دور کے ایک اور شاعر ہیں مضطر مجاز صاحب ان کی شاعری بھی طنز کی وجہ سے مقبول ہورہی ہے۔ شاعری میں طنز کی شمولیت اسے اور بھی مقبول کرتی ہے۔


سوال : ظرافت نگار کسے کہتے ہیں ؟
جواب : ظرافت نگار وہ ہوتا ہے جو طنز و مزاح دونوں کو لے کر چلتا ہے۔ شوکت تھانوی کا ایک ناول ہے جو انہوں نے بٹوارے کے موضوع پر طنزیہ اندازمیں لکھا تھا جس میں ہندوستان سے ہجرت کرنے والے ایک حجام پاکستان پہنچ کر نواب بن گئے۔ اس مزاحیہ ناول پر ایک فلم بھی بنی تھی " نیند ہماری خواب تمہارے "۔ شوکت تھانوی اپنے مزاح میں طنز کی جو آمیزش کرتے تھے وہی ان کی تحریر کا جادو ہے۔ وہ ایک مقبول ظرافت نگار گزرے ہیں۔ مزاح میں شوکت تھانوی کے بعد ناول لکھے ہی نہیں گئے۔ میرے اپنے دو ناول "شگوفہ " میں قسط وار شائع ہوئے ہیں۔۔


سوال : کیا وجہ ہے کہ طنز و مزاح میں لکھنے والے بے حد کم ہیں ؟
جواب : طنز و مزاح لکھنا بے حد مشکل ہے۔ اسے لکھنے کے لیے سنجیدگی کے کئی دریا پار کرنے پڑتے ہیں۔ لطیفے کہہ کر ہنسانا آسان ہے لیکن طنز ومزاح کے ذریعہ ہنسانا بے حد مشکل ہے۔ ہم خود خاکے لکھتے ہیں اور ایک دوسرے پر طنز کرتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین پر میں نے لکھا۔ یوسف ناظم نے خاکے لکھے۔ یہ خاکے بے حد مقبول ہوئے اور انہیں پسند بھی کیا گیا۔ دراصل طنز و مزاح کے لیے گہرے مطالعے کی ضرورت ہے۔ غالبؔ کو گھول کر پی جایئے۔ اقبال کی شاعری میں بھی طنز ہے۔


سوال : کیا وجہ ہے کہ اب ادب کی جانب لوگوں کا رجحان کم ہورہا ہے ؟
جواب : ٹی وی کے آجانے کی وجہ سے لوگ اب پڑھنے سے زیادہ دیکھنے کے عادی ہورہے ہیں۔ لوگ اب اخبارات بھی سرسری طور پر پڑھنے لگے ہیں۔


سوال: زندہ دلان حیدرآباد کے متعلق کچھ بتایئے ؟
جواب : زندہ دلان حیدرآباد دراصل صرف طنز و مزاح کے فروغ کے لیے قائم کی گئی ایک ادبی نوعیت کی تنظیم ہے۔ مزاحیہ مشاعرے ، مزاحیہ محفلیں ، ادبی اجلاس اور لطیفہ گوئی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ ان کا اپنا خاص انداز ہے۔ یہ طنز و مزاح کے فروغ کی منفرد ادبی تنظیم ہے۔ ایک زمانے میں یہ فائن آرٹس اکیڈمی کا ذیلی شعبہ ہواکرتی تھی۔ اب اسی کی روایت پر بمبئی اور دیگر مقامات پر بھی ان کی طرز کی تنظیمیں بن رہی ہیں۔ طنز و مزاح کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ اخبارات میں کالم بھی وہی مقبول ہوتے ہیں جن میں کالم نویس طنز و مزاح کا انداز اپناتے ہیں۔


ماخوذ:
"شگوفہ" (حیدرآباد، انڈیا)۔
مدیر و ناشر: مصطفیٰ کمال۔ سن اشاعت: مارچ 2009ء۔

An interview with Pervez Yadullah Mehdi, by: A.Q. Siddiqui, Urdu Times, Chicago.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں