اردو ادب پر فلم کے اثرات - از ڈاکٹر قیصر شمیم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-11-06

اردو ادب پر فلم کے اثرات - از ڈاکٹر قیصر شمیم

effects-of-movies-on-urdu-literature

فلم، سائنسی اور تکنیکی تجربات کی پیداوار ہے ، لیکن اس کا چلن تجارتی اغراض سے ہوا۔ ابتدا میں جو لوگ اس سے وابستہ ہوئے وہ اس میڈیم کے فنی امکانات سے بے خبر اپنی دانست میں محض تجارت کر رہے تھے۔ مگر جیسے ہی اس ذریعہ اظہار کی صلاحیتوں کا انکشاف ہوا ، اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ دنیائے ادب و فن میں اس کے وقار کو تسلیم کرایا جائے۔
یہ کام پرانے شہ پاروں کو استعمال کر کے زیادہ آسانی سے حاصل کیا جا سکتا تھا۔ تجارتی اعتبار سے یہ بات یوں قابل قبول تھی کہ جن ادبی کارناموں کو فلمایا جانا تھا وہ قبول عام کی سند پہلے ہی پاچکے تھے اور ان پر مبنی فلموں کے چل نکلنے کے زیادہ امکانات تھے چنانچہ ایسا ہی ہوا ، مشہور ڈرامے اور ناول فلمائے جانے لگے۔


ڈرامے کی کہانی مختلف ہم آہنگ ڈرامائی سین میں منقسم ہوتی ہیے۔ ان میں سے ہر ایک میں کسی خاص جذبے یا موڈ کا اظہار ہوتا ہے۔ اس میں سارا زور 'واحد منضبط موٹف' (Single integral motif) پر ہوتا ہے۔ اس لیے کہانی کو لامحدود ٹکڑوں میں توڑنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسی حالت میں اگر کسی سین کے منجمد ڈرامائی اعمال کو مختلف شاٹ یا سیٹ میں بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے اس سین کے مسلسل بہاؤ پر برا اثر پڑتا ہے۔ بیچ بیچ میں کھانچے رہ جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے گویا فلم کی کہانی پھدک پھدک کر آگے بڑھ رہی ہو۔
اکثر ڈراموں کو فلماتے وقت یہی دشواری پیش آئی۔ جب اس سے بچنے کے لئے محض اس کہانی پر انحصار کرنے کی کوشش کی گئی جس پر ڈراما مبنی ہے تو فلم، کہانی پر بنی، نہ کہ ڈرامے پر۔ جیسا کہ اکراکرو ساوا نے شیکسپیر کے ڈرامے میکبیتھ پر مبنی اپنی فلم "دی تھرون آف دی بلڈ" بناتے وقت کیا۔ اس کے لئے بھی انتہائی ذہانت اور فنی چابکدستی کی ضرورت ہے اور یہ ہر کہانی کار، ہدایت کار کے بس کی بات نہیں۔
اس لئے کہ ڈراما حقیقت کا ایک Illusive substitute ہوتا ہے اور زمان و مکان کے لحاظ سے محدود۔ اس طرح ڈرامے کے بڑے حصے کو مکالمے کی شکل میں پیش کرنے کے علاوہ اکثر کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔


اس کے بر عکس فلم زمان و مکان کے اعتبار سے نسبتاً لامحدود ہوتی ہے۔ فلم کی انوکھی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے شاٹس میں انتہائی لچک ہوتی ہے۔ سین اور پس منظر میں لگاتار تبدیلی آتی رہتی ہے۔اس کی زبان بنیادی طور پر "بصری" ہوتی ہے اور موسیقی و مکالمے وغیرہ اس کے ساتھ محض معاونت کرتے ہیں۔ اس لئے مکالمے کی چستی اور ادائیگی، جس کا کسی ڈرامے کی کامیابی میں بڑا ہاتھ ہوتا ہے، ڈرامے پر مبنی فلم میں اکثر مجہول معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً جب برنارڈ شاہ کے Pygmalion کو جو متوسط طبقے کی اخلاقیات پر ایک عمدہ طنز ہے، اسکرین پر پیش کیا گیا تو اس کے معنی خیز مکالموں اور فلسفیانہ گفتگو کا لطف و اثر بڑی حد تک جاتا رہا۔


اسٹیج ڈرامے کے مقابلے میں ناول، زمان و مکان کے لحاظ سے لامحدود ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے اور اپنے واقعیاتی بیان کی وجہ سے فلم کے لئے زیادہ موزوں پایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ فکشن اور خاص طور سے ناول کو دیگر اصناف ادب کے مقابلے میں زیادہ فلمایا گیا اور نہ صرف ناولوں پر مبنی فلموں نے مختلف ایوارڈ حاصل کئے (مثلاً: برتھ آف دی نیشن، گون وتھ دی ونڈ وغیرہ ) بلکہ ان ناولوں نے بھی از سر نو مقبولیت حاصل کرلی جنہیں پردے پر پیش کیا گیا۔
جارج بلو اسٹون نے اپنی کتاب "ناولس انٹو فلم" میں لکھا ہے ؛

Margaret Farrand Throp reports that when David Copperfield appeared on local screens, the demand for the book was so great that the Clevel and Public Library ordered 132 new copies; that the film premier of the Good Earth boosted sales of the book to 3,000 per week; and the more copies of Wuthering Heights have been sold since the novel was screened than all the previous ninety-two years of its existence. Jerrywald confirmed this pattern by pointing out, more precisely , that after the film's appearance, the pocket book edition of Wuthering Heights sold 700,000 copies, varous editions of Pride and Prejudice reached a third of a million copies, and sales for Lost Horizon reached 1,400,000. (With reference to Wald, Jerry, "Screen Adaptation", Films in Review, vol. Feb 1954, p.66). The appearance in 1956, of such films, as Moby Dick and War and Peace, accompanied by special Lie-in sale, has continued this pattern.


ہندوستان میں صورت حال ذرا مختلف رہی۔ یہاں کی مخصوص صورت حال میں ابتدائی فلم سازوں نے زیادہ تر اساطیری ادب کا سہارا لیا، یا پارسی اسٹیج کے ڈراموں کا، جو ہندوستانی فلم سازی کے ابتدائی زمانے میں انتہائی مقبول تھے۔ فلم کے مقابلے میں پارسی تھیٹر اپنی موت آپ مر گئے اور بدلتے ہوئے حالات نے اساطیری داستانوں کو فلمانے کی زیادہ گنجائش نہیں چھوڑی۔


نئے حالات میں بازاری یا مقبول عام فکشن نے فلم کی کہانی کے طرز کو اپنانا شروع کیا اور فلم نے بھی ضرورت پڑنے پر بازاری ناولوں پر ہی انحصار کیا۔ اس طرح بازاری فکشن اور فلم کے درمیان اقدار کا اشتراک نمایاں ہوکر سامنے آیا۔ مثلاً ہماری سوشل فلموں اور بازاری ناول کا مقبول ترین موضوع "مشترکہ خاندان" رہا ہے۔ ہندوستانی فلموں اور بازاری ناول دونوں نے اکثر ان معاشی قوتوں کو نظر انداز کرکے جو مشترکہ خاندان کو توڑ رہی ہیں ، کسی ویلن کو ذمہ دار بنا کر پیش کیا۔ کبھی خاندان ٹوٹنے کی وجہ بڑے بھائی کی آوارہ مزاجی ہوتی ہے اور کبھی چھوٹے بھائی کی بغاوت۔ بالآخر غلط فہمی دور ہو جاتی ہے یا ویلن اچانک اپنی غلطیوں پر نادم ہو جاتا ہے اور مشترکہ خاندان ایک بار پھر سلامتی کے صراط مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے۔
تماشائی کے اس عدم تحفظ کے احساس کو جو افراد کی سلامتی کی گارنٹی دینے والے نظام کے قائم نہ ہونے کی وجہ سے شدید طور پر پایا جاتا ہے۔ تسکین ملتی ہے کہ آخر میں سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس طرح شہر کا وہ آدمی جس کے شعور کی جڑیں گاؤں اور قصبوں میں ہی موجود ہیں، مشترکہ خاندان کو راہ نجات سمجھتا رہتا ہے۔


کچھ یہی حال جنس (سیکس) کے تصور کا ہے۔ چہار دیواری میں قید، شوہر پرست عورت کی شکل میں ہندوستانی ذہن نے جذبات تحفظ، وراثت میں پائی۔ اب محبت اور جنسی آزادی کے نئے تصوارت اسے چیلنج کر رہے ہیں۔ جنسی آزادی کا یہ تصور اس ماڈرن عورت سے وابستہ ہے جو کسی حد تک حقیقی ہے لیکن جسے ذرائع ترسیل عامہ اور اس کے اشتہاراتی نظام نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ یہ تضاد ہندوستان کی شہری زندگی میں جنسی تناؤ کی خاص وجہ ہے۔
ہندوستانی فلموں میں جو ٹائپ ہیروئن پیش کی جاتی ہے وہ شہر میں بسنے والے مرد کی ان ہی متضاد خواہشات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ وہ بیک وقت جدید بھی ہوتی ہے اور روایتی بھی۔ یعنی جہاں تک مغربی تعلیم، آزادانہ اظہار محبت، عاشق کے ساتھ ایک حد تک جسمانی قربت، لباس، فیشن وغیرہ کا تعلق ہے وہ انتہائی جدید ہوتی ہے۔ لیکن کہانی ایک خاص موڑ پر پہنچتی ہے اور بحران پیدا ہوتا ہے تو وہ اچانک چھلانگ لگا کر ایک روایتی قسم کی بیٹی ، بہن اور شوہر پرست بیوی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ ٹاائپ کردار تماشہ بین مردوں کے اندر موجود جنسی عدم تحفظ کے احساس کو فوری طور پر کم کر دیتا ہے۔ اور سماج میں عورتوں کی روایتی حیثیت کو بھی تقویت دیتا ہے ، جو نفسیاتی اعتبار سے دونوں کی تسکین کا باعث ہوتا ہے۔


حسین ترین اداکار، اداکارائیں، قیمتی ملبوسات سے پر الماری، داخلی طور پر آراستہ گھر، ہوٹل اور نائٹ کلب ، ہوائی سفر اور بیرون ملکی تفریحی مقامات کے مناظر، اور ان سب کے ساتھ ایڈونچر۔۔۔ ان سب کو دیکھ کر تماشہ بین اس ارتفاعی تناؤ سے نجات پاتا ہے جو موجودہ ہندوستانی نظام نے اس کے اندر پیدا کر دیا ہے۔ دقت یہ ہے کہ محض فلم سے کام نہیں چل سکتا، لہٰذا فلم کے ذریعے ابھارے ہوئے اس قسم کے جذبے کی تسکین بازاری ادب سے ہوتی ہے جس نے ان اقدار کو اپنا کر اپنے لئے بہتر مارکیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔


انیسویں صدی میں بازاری فکشن اور سنجیدہ فکشن کے دائرے آج کی طرح جدا جدا نہیں تھے۔ بیسویں صدی میں یہ عمل بہت دیر سے شروع ہوا۔ فلم نے اس عمل کو تیز تر کر دیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بازاری ادب لاکھوں افراد کی غذا ہے ، اور سنجیدہ ادب ایک خفیف اقلیت کی ضرورت ، دن بدن ان کے درمیان تہذیبی سطح پر مشترکہ علاقے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔


فلم اور فکشن کی ساخت

فکشن، خواندہ طبقے کے لئے لکھا گیا ایک انفرادی کارنامہ ہوتا ہے، جب کہ فلم خواندہ اور ناخواندہ دونوں ہی کے لئے تیار کی جاتی ہے اور ایک اجتماعی کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسی لئے اس کی کہانی کی منصوبہ بندی بھی دوسرے قسم کی ہوتی ہے جو زیادہ لوگوں کا اشتراک چاہتی ہے۔ اس کا کل اور اس کل کے تمام اجزاء پہلے سے ہی طے شدہ ہوتے ہیں اور اس لئے اس کی کہانی عام کہانیوں کے مقابلے مٰں زیادہ گرافک ڈھانچہ والی ہوتی ہے۔ ستیہ جیت رے نے بنگلہ کہانیوں کے بارے میں کہا تھا:


Many of our novels have not got the type of structure you can analyse. The novel 'Pather Panchali' is for instance discursive, episodic. It is almost too life-like in its rythm and pace. There have been some remarkably structured novels made by men like Bankin Chandra, Manik Banerjee and Taigor, occasionally. But the general tendency is a kind of episodic, discursive approach to story telling and this has never worked out in the case of films.


لیکن اب فلم کے اثر سے نہ صرف پاپولر کہانیاں زیادہ گرافک ہو گئی ہیں اور ان میں فلمی سچوئیشن کی بھرمار ہے بلکہ سنجیدہ فکشنن بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا ہے۔ پروفیسر ستیش بہادر نے لکھا ہے:


The structure of fiction in popular magazines is based on straight film-like situations; they are stories ready for filming.


سنجیدہ فکشن میں یہ عناصر کس طرح در آئے ہیں اس کی مثال کے لئے محض ایک کہانی کا تجزیہ پیش کرنا کافی ہوگا۔


قرۃ العین حیدر کی "ہاؤسنگ سوسائٹی" فلم کے اس اثر کی بہت اچھی مثال ہے۔ پوری کہانی ابواب میں منقسم ہونے کے بجائے با قاعدہ طور پر تین حصوں میں منقسم ہے۔ ان حصوں کو فلم کی کہانی کی طرح الگ الگ عنوانات دیے جا سکتے ہیں۔ اس کا پس منظر اور ناول جیسا پھیلاؤ اسے افسانہ کی صف سے باہر نکال لاتا ہے جب کہ افسانہ جیسی وحدت تاثر اسے ناول یا ناولٹ بننے سے روکتی ہے۔ ایسا اس لئے ہوا ہے کہ یہ کہانی فلم جیسی کہانیوں کا ڈھانچہ رکھتی ہے ، ہر حصے میں تمام مرکزی کردار۔۔۔ یعنی جمشید اور اس سے متعلق کردار سلمی، بسنتی بیگم یا ثریا۔۔ کی کہانی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ ہر حصہ الگ الگ سلسلوں (Sequences) پر مبنی ہے جنہیں شارپ کٹ کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ کیا جاتا ہے۔ پوری کہانی کے کسی بھی حصے سے ایسی مثالیں بغیر تگ و دو کے نکالی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اقتباس دیکھئے :


"عالیہ گاہے گاہے سید مظہر علی کو یہاں کی خیر خبر سے مطلع کرتی رہتی۔۔۔
آج بھیا نے نئی کار خریدی ہے۔ ماشا اللہ سے چالیس ہزار کی آئی ہے۔ کل بھیا کاروبار کے سلسلے میں یورپ روانہ ہو گئے۔ یہ بھیا کا یورپ کا چوتھا سفر تھا۔
میں اگلے مہینے نیویارک جارہی ہوں ( یہ امریکہ میں ایک بہت بڑا شہر ہے) فیری بیٹا اسکول کی لڑکیوں کے ساتھ مری گئی ہیں ( یہ مغربی پاکستان میں ایک پہاڑی مقام ہے۔)
میں یہ سطریں پرسکون اور ہرے بھرے سلہٹ میں ریسٹ ہاؤس سے لکھ رہی ہوں۔۔۔"


یہ آخری جملہ عالیہ کے خط کا نہیں ، بلکہ بسنتی بیگم عرف ثریا حسین کے خط کا ہے ، قاری کو کئی جملوں کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے۔ مصنفہ نے بغیر کسی تمہید کے اچانک عالیہ کے خط سے ثریا حسین کے خط کی طرف جست لگائی ہے۔ گویا کیمرہ ، عالیہ کے خط سے ایک شارپ کٹ کے بعد ثریا کے خط پر آ گیا ہے۔ یہاں مصنفہ نے ایک لفظ کہے بغیر ثریا کی لکھنؤ سے ڈھاکہ تک کی کہانی خط کے ذریعے سنا ڈالی ہے۔ مگر جیسے ہی خط ختم ہوتا ہے اچانک جمشید کی کہانی شروع ہو جاتی ہے :


"جمشید اپنے ڈرائنگ روم میں چند مہمانوں کے لئے کاک ٹیل تیار کر رہا تھا، جب نوکر نے آکر اطلاع دی۔"
"صاحب کوئی بڑے میاں آئے ہیں کہتے ہیں کہ آپ کے والد ہیں۔"


اور یہ سلسلہ چند جملوں میں ختم ہو جاتا ہے :
"۔۔۔انہوں نے آنکھیں اٹھا کر جمشید کو دیکھا اور مسکرائے، ہمیں بشارت ہوئی تھی کہ پاکستان چلے آئیں، انہوں نے اطمینان سے کہا"


اور یہاں سے پھر ثریا کا دوسرا خط شروع ہو جاتا ہے۔
"میں یہ اہم اطلاع تمہیں بھجوا رہی ہوں کہ میں عنقریب کراچی پہنچنے والی ہوں۔۔"
یہ خط مشکل سے پانچ جملوں کا ہے جس کے ختم ہوتے ہی کیمرہ سلمی عرف چھوٹی بٹیا پر پہنچ جاتا ہے۔ اور اس طرح فلمی، ترتیب و تدوین کی متوازی کٹنگ (پیرالل کٹنگ) کی تکنیک کے ذریعہ کہانی آگے بڑھتی رہتی ہے۔


خارجی عناصر کی مدد سے قاری تک اطلاعات پہنچانے کی یہ تکنیک پوری کہانی میں موجود ہے۔ ابتدا میں بسنتی بیگم کا تعارف عدالتی مسل کے کاغذات کے ذریعہ کرایا جاتا ہے۔ بعد میں خطوط کے ذریعہ ان کی زندگی کی بقیہ کہانی سنائی جاتی ہے۔ اور پھر کہانی کے دوسرے حصہ میں ہی منظور احمد کو ثریا حسین کی نمائش کے لئے رائیٹ اپ لکھتے وقت اچانک کچھ خیال آتا ہے اور وہ بھارت کے اخبار کا جائزہ لینے لگتا ہے۔
اس نے اتر پردیش کا ایک غیر معروف اخبار اٹھا لیا جس میں دیگر خبروں کے علاوہ اضلاع کی خبروں کے کالم میں ایک چھوٹی سی سرخی تھی۔
"شاہ منور علی کا انتقال"


ابھی منظور اخبار پڑھ ہی رہا ہے کہ آواز آتی ہے۔
"ہیلو۔۔۔ کیا ہو رہا ہے ؟ ثریا نے پیچھے سے آکر آواز دی۔"
اور یہاں قاری تک شاہ منور علی کے انتقال کی خبر پہنچ جاتی ہے۔


ہر واقعہ اس طرح بر وقت ہوتا ہے کہ جیسے فلمی کہانی کی طرح واقعات کی منصوبہ بندی پہلے سے کر لی گئی ہو۔


٭ عین بچی کے عقیقہ کے وقت سمبھو دادا کا جو گاؤں کے ڈاکئے بھی تھے، رجسٹری خط لے کر آنا۔۔ واضح ہو کہ یہ طلاق نامہ تھا۔


٭ کہانی کے تیسرے حصہ میں 'ہاؤس وارمنگ' کے موقع پر جب کہ جمشید پر ہر طرح کے انکشافات ہو رہے ہیں، جانسن صاحب کا ذکر آنا۔۔ واضح ہو کہ یہ ہی وہ جانسن صاحب ہیں جنہیں جمشید نے کہانی کے پہلے حصہ میں کلکٹر صاحب کے کیمپ میں چھوٹی بٹیا کے ساتھ کھانا کھاتے دیکھا تھا ، جب وہ چھوٹی بٹیا کی چھتری واپس کرنے گیا تھا۔ اب اسی ریٹائرڈ آئی۔سی۔ایس افسر کو جمشید نے برطانیہ میں اپنا کاروباری نمائندہ بنایا ہے۔ اس طرح مصنفہ طبقاتی الٹ پھیر کو مکمل طور پر اجاگر کرتی ہیں۔


کہانی کے تیسرے حصہ میں چھوٹی بٹیا کا یہ کہنا۔۔۔
"ثریا باجی۔۔۔۔ ثریا باجی۔۔۔ مسٹر گھاسلیٹ والا نے چور پکڑا ہے۔"


اور کہانی کے پہلے حصہ میں بھی ان کا یہ کہنا:
"ماما۔۔۔۔۔۔۔۔ماما۔۔۔۔۔۔۔ماما۔۔۔ دوارکا پرشاد نے چور پکڑا ہے۔"


دونوں دفعہ روئے سخن جمشید کی طرف ہے جب کہ کہانی کے پہلے حصہ میں جمشید واقعتا چور نہیں ہے ، تیسرے حصہ میں وہ چور بن چکا ہے۔


عین عقیقہ کے موقع پر طلاق نامہ موصول ہونا اور جمشید ہاؤس کی وارمنگ کی رات میں ہی منظور النسا کی موت کی خبر آنا، اس قسم کی جذباتیت پیدا کرنے کی کوشش ہے جو اتفاق سے ہندوستانی فلموں اور پاپولر کہانیوں کا حصہ ہے۔ اتنی منصوبہ بندی کے ساتھ گرافک ڈھانچے والی کہانیاں فلم کے اثرات کا ہی نتیجہ ہیں۔


ماخوذ از کتاب: اردو ادب پر ذرائع ترسیل عامہ کے اثرات
مصنف و ناشر: ڈاکٹر قیصر شمیم۔ (سن اشاعت: مارچ 1989ء)

The effects of movies on Urdu literature. Article: Dr. Qaiser Shameem

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں