علاقہ بمبئی میں اردو تعلیم اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ کی تاریک اور تصنیف و تالیف کی تحریک کا آغاز اسی وقت سے ہوتا ہے جب یوپی، پنجاب، وغیرہ مختلف اطراف ہند میں علوم و فنون اور اردو زبان و ادب کی ترقی کی تحریک شروع ہوئی۔ اس سلسلے میں مختلف اوقات میں متعدد انجمنیں قائم ہوئیں جنہوں نے مسلمانان بمبئی میں تعلیم کے فروغ ، اردو زبان کی ترقی و اشاعت ، ادبی ذوق کی تربیت اور تصنیف و تالیف کا شوق پیدا کرنے میں حصہ لیا۔
دی اردو لٹریچر پروموٹنگ سوسائٹی
1894ء میں اردو ادب کے فروغ کی غرض سے ایک انجمن " دی اردو لٹریچر پروموٹنگ سوسائٹی" کے نام سے قائم کی گئی۔ اس کے منیجر محمد علی شوق دلوی تھے۔ مقاصد کی تکمیل کے لئے انجمن نے یہ طریقہ کار اختیار کیا کہ وقتاً فوقتاً انعامی مضامین لکھوائے جاتے تھے۔ منتخب مضمون پر دس روپے دئے جاتے تھے اور پھر اسے چھاپ دیا جاتا تھا۔
اس سوسائٹی کی طرف سے محمد علی شوق کی کتابیں"فوائد علم" 1894ء میں اور"فردوسی اور اس کا شاہنامہ 1896ء میں شائع ہوئیں۔ 1896ء ہی میں عبدالقادر شیدا کی کتاب "عمارت الاسلام" کے نام سے دنیائے اسلام کی مشہور عمارات کی تاریخ اور ان کی فن کارانہ اہمیت و خصوصیات کے تذکرے میں شائع ہوئی۔ سوسایٹی نے جن عنوانات پر انعامی مضامین لکھوائے ان میں سے چند یہ ہیں : اردو لٹریچر کی ترقی، تاریخ اور ناول نویسی، اردو کی تصنیفات اور ان پر سنجیدہ ریویو، حالات خواجہ حافظ بلبل شیراز، سلطان محمود غزنوی کی مختصر لائف۔
کوکنی کلب اور انجمن تحریر و تقریر
ان دونوں انجمنوں نے بھی اردو زبان و ادب کی بہت خدمات انجام دیں۔ کوکنی کلب شروع میں محض ایک تفریحی کلب تھا۔ لیکن پھر اس میں ادبی جلسے ، مشاعریے اور تحریروتقریر کی اصلاح و ترقی کے لئے بھی کام شروع کردیا گیا۔ انجمن تحریر و تقریر کا شروع ہی سے یہ مقصد تھا کہ مسلمان طالب علموں اور نوجوانوں میں تحریر و تقریر کا ذوق پیدا کیاجائے اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارا جائے اور انہیں ترقی دی جائے۔
چند دیگر ادارے
انجمن ضیاء الاسلام اور اسلام کلب بھی اسی غرض سے قائم کئے گئے تھے کہ مسلمونوں کو ایک جگہ جمع ہونے اور علمی، ادبی اور سیاسی مسائل پر بحث کا موقع مل سکے۔ 1913ء میں"انجمن ترقی سخن" کے نام سے ایک سو سائٹی وجود میں آئی۔ اس کے سر پرست احسن مقبہ اور سکریٹری راوی اجمیری تھے۔ اس کے تحت ہر ماہ مشاعرہ ہوتا تھا اور ترقی سخن کے نام سے ایک گلدستہ بھی نکلتا تھا۔ اس کے مقاصد میں"بمبئی میں اردو کی ترقی، علمی مجالس کا اہتمام، ادب و شاعری کے ذوق کی تربیت اور مجلسی اور عام زندگی کے آداب و تہذیب کی تعلیم دینا شامل تھا۔
انجمن اسلام
لیکن مسلمانوں میں علمی، تعلیمی، سماجی، سیاسی بیداری پیدا کرنے میں جو عظیم الشان خدامت انجمن اسلام نے انجام دی ہیں ان کامقابلہ بمبئی پریسیڈنسی کا کوئی دوسرا ادارہ نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر میمونہ دلوی لکھتی ہیں:
"انجمن اسلام نے بمبئی میں وہی کام کیا جو علی گڑھ تحریک چلانے والوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے کیا تھا۔ بمبئی کے مسلمانوں میں تعلیمی بیدار ی پیدا کرنے کا سہرا انجمن اسلام ہی کے سر ہے۔ یہی وہ پہلا ادارہ ہے جس نے نہ صرف تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی پشت پناہی کی، بلکہ اس نے مسلمانان بمبئی اور حکومت بمبئی کے درمیان رشتہ و تعلق کو بھی استوار کیا۔"
انجمن کا قیام
انجمن اسلام بمبئی 18؍اپریل 1876ء کو قائم ہوئی، اس کے بانیوں میں ناخدا محمد علی روگھے، بدر الدین طیب جی ، قمر الدین طیب جی ، منشی غلام محمد، منشی ہدایت اللہ اور منشی غلام محی الدین کے نام خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے پہلے صدر بدر الدین طیب جی اور پہلے سکریٹری عبداللہ دھرمسی اور فتح علی شیخ احمد تھے۔
مسلمانوں کی تعلیمی حالت
جس زمانے میں انجمن کا قیام عمل میں آیا۔ اس زمانے میں پارسیوں، ہندوؤں اور عیسائیوں کے بہت سے اور اعلی درجے کے اسکول تھے۔ لیکن مسلمانوں کے چند مدرسے تھے جو بعض مدرسین نے بطور خود کاروبار اور ذریعہ معاش پیدا کرنے کے خیال سے قائم کررکھے تھے۔ ان مدرسوں کی حالت نہایت خراب اور خستہ تھی ، مسلمان امراء اپنے بچوں کو پارسیوں، اور عیسائیوں کے اسکولوں میں بھیجتے تھے ، لیکن ان مدرسوں میں وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلانا گوارا نہ کرتے تھے۔ ان مدرسوں کی نہ عمارتیں تھیں ، نہ ان میں فرنیچر ہوتا تھا، ان میں کوئی مقررہ نصاب تعلیم بھی نہ تھا۔ ان میں پڑھانے والے اساتذہ کی تعلیمی سطح بھی برائے نام ہی وہتی تھی۔ مسلمانوں میں اردو اور اسلامی تعلیم و تربیت کی کوئی تحریک موجود نہ تھی ، انجمن اسلام کے بانیان کرام مسلمانوں کے وہ محسن ہیں جنہوں نے عام مسلمانوں کے بچوں کی اردو اور اسلامی تعلیم و تربیت کی ضرورت کو محسوس کیا۔ اس کے لئے ایک تحریک چلائی۔مدارس قائم کئے اور نظم و ضبط او رتعلیم ہر لحاظ سیے ان کا معیار اتنا بلند کردیا کہ امرا بھی اپنے بچوں کو ان میں تعلیم دلانے میں فخر محسوس کرنے لگے۔
انجمن اسلام اسکول
ابتدا میں چونکہ انجمن کے وسائل محدود تھے اس لئے پہلے گوکل داس تیج پال اسکول میں ایک کمرہ لے کر اردو کی ایک جماعت کا اجرا کیا گیا۔ لیکن مدرسہ در مدرسہ اک یہ تجربہ ناکام رہا۔ انجمن اس اہم کام کی طرف مسلمانوں کو برابر متوجہ کرتی رہی۔ اس کی انہیں کوششوں کا نتیجہ تھا کہ 20؍ستمبر 1880ء کو انجمن نے اپنے انتظام میں ایک اسکول کھولا یہ اسکول درحقیقت پہلے سے قائم شدہ کئی چھوٹے چھوٹے مدرسوں کو ایک دوسرے میں مدغم کردینے سے وجود میں آیا تھا۔ پہلے کئی سال تک مسلمانوں کے انفرادی چندے پر یہ اسکول چلتا رہا۔
بعد میں حکومت بمبئی نے بھی ایک معقول رقم اسکول کے لئے بطور امدا کے منظور کی۔ 20؍مارچ 1890ء کو مدرسہ کی اپنی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ تین سال کے بعد 27؍ فروری 1893ء کو انجمن اسلام کا یہ اسکول اپنی شان دار عمارت میں منتقل ہوگیا۔ اسکول کی عمارت کی تعمیر کے بعد مسلمان طلبہ کے لئے ایک ہوسٹل کی ضرورت بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ انجمن نے اس مسئلے کو بھی جلد ہی حل کرلیا۔ ہوسٹل کھل جانے سے بمبئی کے دوردراز گوشوں اور بیرون بمبئی کے مسلمان طلبہ کے لئے انجمن کے اسکول میں تعلیم پانہ بہت آسان ہوگیا اور انجمن کا فیض بمبئی سے بیرون بمبئی تک پھیل گیا۔
کتب خانہ
انجمن کے پیش نظر شروع ہی سے ایک لائبریری کا قیام بھی تھا اور ابتدا ہی میں ایک چھوٹیی سی لائبریری قائئم بھی کردی گئی تھی۔ جوں جوں انجمن کی شہرت پھیلی، لوگوں کی توجہ اس کی طرف ہوئی، لائبریری بھی ترقی کرتی گئی اور مختلف حضرات کے عطیات اور توجہ کی بدولت انجمن کی ایک بلند پایہ لائبریری قائم ہوگئی۔
مراۃ الاخبار
انجمن اسلام نے مسلمانوں کی اصلاح اور علوم و فنون کی ترقی اور تعلیم کے فروغ کے لئے اخبارات بھی جاری کئے۔ چنانچہ انگریزی اور گجراتی میں مانیٹر کے نام سے دو ہفت روزہ اخبار جاری کئے اور اردو میں مراۃ الاخبار کے نام سے 1895ء سے ایک ہفت روزہ نکالنا شروع کیا۔ جس کے ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر منشی خورشید حسن عیش اور محمد امین زبیری تھے۔
اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ
1947ء میں انجمن اسلام نے خدمات علمی کے میدان میں ایک قدم اور بڑھایا اور پروفیسر سید نجیب اشرف ندوی کے زیر نگرانی ایک اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا کارنامہ انجام دیا۔ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے مقاصد یہ قرار پائے۔ ایم۔ اے کی تعلیم کا انتظام، پی۔ ایچ ڈی اور دوسرے تحقیقی کام کرنے والوں کی اعانت ،علمی و تحقیقی اداروں میں تعاون، کتب خانے کا قیام، مختلف کتب خانوںں کے اردو مخطوطات کی فہرست کی ترتیب، نایاب مخطوطات و مطبوعات کی اشاعت اور ایک علمی و تحقیقاتی رسالے کا اجرا۔
ہندوستان پاکستان میں اس قسم کا کوئی ادارہ نہیں جو تحقیق کرنے والوں کو ان کے مفید مطالب مواد کی تلاش و فراہمی میں اس طرح مدد کرتا ہو۔ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جامع مسجد بمبئی کے اردو مخطوطات کی فہرست شائع ہوچکی ہے۔ جسے مولوی حامد اللہ ندوی نے مرتب کیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے متعدد معیاری اور تحقیقی کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر سید ظہیر الدین مدنی کی کتاب"ولی گجراتی" ہے، جس میں انہوں نے بڑی محنت سے ولی کے سوانح حیات ، ولی کی وطنیت اور ولی کی علمی قابلیت اور شاعرانہ مقام پر نہایت مفید مواد جمع کردیا ہے۔ دوسری کتاب عبدالرزاق قریشی کی"میرزا مظہر جان جاناں اور ان کا اردو کلام" ہے۔ اس میں میرزا صاحب کے حالات زندگی اور ان کے اخلاق و عادات سے متعلق بڑی تلاش و جستجو سے مفید معلومات جمع کردی ہیں۔ اور ان کے شاعرانہ مقام اور اردو ادب و شاعری کی تاریخ میں ان کی خدمات پر نہایت فکر انگیز روشنی ڈالی ہے۔ سید صباح الدین عبدالرحمن کے بقول: "یہ اردو کی اچھی تحقیقی کتابوں میں برابر شمار ہوتی رہے گی۔"
نوائے ادب
اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے 1949ء میں ایک علمی و تحقیقی سہ ماہی رسالہ نوائے ادب کے نام سے جاری کیا گیا۔ نوائے ادب کا شمار ہندوستان پاکستان کے چند موقر علمی رسالوں میں ہوتا ہے۔ اس رسالے کے پہلے ایڈیٹر ڈاکٹر سید ظہیر الدین مدنی تھے۔ پھر سید نجیب اشرف ندوی کی ادارت میں نکلا۔ 1968ء میں ان کے انتقال کے بعد انسٹی ٹیوٹ کے سرگرم رکن اور علمی شخصیت عبدالرزاق قریشی اس کے مدیر مقرر ہوئے ، اور ہنوز انہیں کی ادارت میں نکل رہا ہے۔
نوائے ادب کے اجرا سے اردو زبان سے متعلق پہلوؤں پر بحث و تحقیق کی راہیں کھلیں، گجرات و دکن کی غیر مطبوعہ تصانیف کی اشاعت میں مدد ملی ، قدیم اردو یا دکنی زبان کے بہت سے نمونے علمی دنیا کے سامنے آئے اور اس کی بدولت پورے بر صغیر میں علمی اداروں میں تصنیفی و تحقیقی سر گرمیوں سے واقفیت اور ایک دوسرے سے تعاون بڑھا اور سب سے بڑھ کر جو فائدہ اس رسالے کے اجرا سے علمی دنیا کو پہنچا وہ یہ تھا کہ نوائے ادب میں اردو کے علمی و ادبی رسائل کے مضامین کا ایک اشاریہ مضامین کی تلخیص کے ساتھ چھپنا شروع ہوا اور ہر صاحب علم و ذوق کے لئے گھر بیٹھے محض اس ایک رسالے کے مطالعے سے علمی، ادبی ، تحقیقی کاموں کی رفتار کا اندازہ لگا لینا ممکن ہوگیا۔ نوائے ادب کی اس خدمت کو تمام اہل علم نے سراہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اس اشاریہ وہ تلخیص مضامین کے سلسلے کو نوائے ادب کا امتیاز قرار دیا۔ پاکستان میں علم و تحقیق کی یہی خدمت انجمن ترقی اردو کا ماہنامہ قومی زبان انجام دے رہا ہے۔
انجمن اسلام کے قیام کو اس وقت تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزرا ہے۔ اس مدت میں انجمن نے مسلمانوں کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں اور ایک تعلیمی علمی ، ادبی اور تہذیبی مرکز کی حیثیت سے مسلمانوں کی علمی و تہذیبی تاریخ میں اپنا ایک مستقل مقام پیدا کرلیا ہے۔
ماخوذ از مجلہ: علم و آگہی (خصوصی شمارہ "برصغیر پاک و ہند کے علمی ادبی و تعلیمی ادارے")
گورنمنٹ نیشنل کالج کراچی میگزین (1973-74) (مرتبہ: ابوسلمان شاہجہاں پوری)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں