میرے محترم دوست گپتا جی - کالی داس گپتا رضا پر یوسف ناظم کا خاکہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-08-12

میرے محترم دوست گپتا جی - کالی داس گپتا رضا پر یوسف ناظم کا خاکہ

sketch-of-kalidas-gupta-riza-by-yousuf-nazim

شہر ممبئی کی علمی سطح پر جو سطح سمندر سے خاصی اونچی تھی حال حال تک ایک مثلث صرف اس بر صغیر کے ادب دوستوں کی توجہ کا مرکز نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی اردو بولی پڑھی، اردو رسم الخط میں لکھی اور پسند کی جاتی ہے وہاں کے اہل ذوق باشندوں میں بھی مقبول تھا۔ اتفاق سے اردو مثلث مفرس بھی تھا۔
میری مراد مجروح سلطانپوری ، علی سردار جعفری اور کالی داس گپتا رضا سے ہے۔ ان تینوں میں کئی اقدار مشترک تھیں حتی کہ دنیا کو خیرباد کہنے کے سلسلے میں بھی ان تینوں بزرگوں نے اپنی دیرینہ رفاقت کی پاسداری کی۔ مجروح صاحب 24؍مئی 2000ء کو رخصت ہوئے، جعفری صاحب نے طویل بیماری کے بعد پہلی اگست 2000ء کو رخت سفر باندھا اور اس سال (2001ء) مارچ کو گپتا جی نے عین اس دن دنیا چھوڑی جس دن انہیں دلی پر پدم شری ہونا تھا۔ ایک چھوٹے سے سفر پر بمبئی سے دلی گئے اور یہی ان کا سفر آخرت تھا۔ کہا کرتے تھے دل کا مریض ہوں، لیکن اتنے مریض نہیں کہ اچانک منہ پھیر لیں گے کسی کو اس کا شبہ تک نہیں تھا۔


ان سے اپنی ملاقات کا ذکر بعد میں کروں گا آخری ملاقات عید الفطر کے مشاعرے میں ہوئی، انجمن ترقی اردو مہاراشٹر تقریبا ہر سال عید ملاپ کے عنوان سے ایک مشاعرہ لگی ہوٹل باندرہ کے ٹیریس پر پابندی سے منعقد کرتی ہے اور ان مشاعروں میں جہاں تک مجھے یاد ہے گپتا جی نے کم سے کم تین مشاعروں میں شرکت اور صدارت کی اور اس کے علاوہ بھی وہ انجمن کی ہر نشست میں، ہر محفل میں (حالانکہ فاصلہ زیادہ تھا) بخوشی شریک ہوتے تھے اور بحسن و خوبی صدارت کے فرائض انجام دیتے تھے۔
ان کی موجودگی کئی ایسے شاعروں اور احباب کی شرکت کا باعث ہوتی تھی جو یا تو ان کے شاگرد ہوتے تھے یا مداح۔ یہ جنوری کی کوئی تاریخ تھی، حسب معمول بہت خوش تھے، اس سے پہلے پونے میں علی سردار جعفری سیمنار میں ستمبر 2000ء میں ملاقاتیں ہی ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ لندن کے جشن سے لوٹ کر آئے تھے۔ اس وقت تو وہ اتنے سرسبز و شاداب تھے کہ معلوم ہوتا تھا از سر نو مائل بہ شباب ہیں۔ اسی کیفیت میں وہ جنوری کے مشاعرے میں شریک ہوئے اور اس کے بعد مجھے ان سے ملنے کا موقع نہیں مل سکا۔


گپتا جی سے میری غائبانہ ملاقات ان کے پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت کی بنا پر ہوئی۔ 1968ء میں جب گپتا جی کینیا میں تھے، ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا۔ بمبئی کے اس وقت کے مقبول اور مشہور ماہنامے ، 'صبح امید' کے ایڈیٹر مرحوم عبدالحمید بوبیر ے نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں اس کتاب پر تبصرہ کروں۔ اس وقت تو نہیں لیکن اب مجھے خیال آیا کہ گپتا جی کو آج کی لفظیات کے مطابق ہندوستان کا پہلا اردو این آر آئی کا لقب بھی دیا جا سکتا ہے۔
بہر حال میرا لکھا ہوا تبصرہ سنا، انہیں بہت پسند آیا اور اس خبر کی توثیق اس وقت ہوئی جب گپتا جی کینیا سے واپس ہوکر دلی سے ہوتے ہوئے مستقل قیام کے لئے بمبئی پہنچے اور جب میں ان سے پہلی مرتبہ ملا تو اتنی انسیت اور محبت سے ملے کہ مجھے شبہ ہوا کہ یہ کوئی "ہمدم دیرینہ" ہیں جو میرے ساتھ اسکول یا کالج میں پڑھتے تھے۔
شعلہ خاموش، شعری خوبیوں کے علاوہ مجھے اس لئے بھی پسند آیا تھا کہ افریقہ میں اردو زبان اور اردو اشعری کا چراغ روشن کرنے والے پہلے صاحب کتاب شخص گپتا جی تھی اور اس مجموعہ میں جیسا کہ غیر مسلم اردو شاعروں کی روایت رہی ہے، شاعر نے حمد، نعت اور سلام اور ان سے جڑے ہوئے اسلامی موضوعات پر طرح طرح کی نظمیں کہیں اور شامل اشاعت کیں۔
حافظہ میرا کمزور ہے لیکن اب بھی مجھے یاد ہے کہ اس مجموعے میں ایک نظم ہندوؤں اور مسلمانوں کی دوستی کے تعلق سے شامل تھی اور شاعر نے کہا تھا کہ یہ دوستی ان دنوں کی یادگار ہے جب مذہب کے محافظ پیدا نہیں ہوئے تھے۔ شاعر کا آخر تک یہی ایمان اور رویہ تھا۔
کھانے کے معاملہ میں بھی وہ سخت گیر تھے اتنے مسلمان دوست تھے کہ ذرا اشارہ کرتے تو گھر کے باہر کم سے کم منہ کا ذائقہ بدل جاتا لیکن کیا مجال جو انہوں نے کبھی زندہ بھیڑوں، بکریوں، مرغیوں پر بھی کوئی بری نظر ڈالی ہو۔ ان کی نظر بھی ویجیٹیرین تھی۔ ہاں شاعری میں انہیں بولنے کی حد تک کوئی پرہیز نہیں تھا، مثلاً:
مے کدہ چھٹنے سے سب جھڑے نپٹ جاتے نہیں
تم تصور میں مرے آگے سے ہٹ جاتے نہیں


جانتے تھے کہ تصور تمام قواعد و ضوابط سے آزاد رہنے والا پرندہ ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے عقاب تصور کو بھی عروض کا پابند رکھتے تھے۔ عروض ان کی کمزوری تھی اور وہ اس صنف سخن میں کسی دوسرے کے مشکل سے قائل ہوتے تھے۔ علم عروض ایسا معلوم ہوتا ہے ان کے مزاج کا حصہ تھا۔
ویسے ان کے مزاج میں جہاں تک ملنساری کا تعلق ہے نرمی، ملائمت اور بردباری بہت تھی لیکن اردو کی زبوں حالی کا وہ بڑی دلسوزی اور مایوسی کا اظہار کرتے تھے اور کہا کرتے تھے اردو داں تو بہت ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔ لیکن آئندہ چند دنوں بعد الفاظ کا مزاج داں شاید ہی کہیں ملے۔ اردو کے تعلق سے ان کا نظریہ یہ تھا کہ اردو اپنی انفرادیت کھورہی ہے۔ ممکن ہے ان کے دل کے کسی گوشے میں بہتیرے لوگوں کا یہ نظریہ بھی ایک رمق کی طرح جاگزیں رہا ہو کہ اردو ہندی کا ایک روپ ہے لیکن وہ اردو رسم الخط کے موئد اور مبلغ بھی تھے۔


کالی داس گپتا رضا، جوش ملسیانی کے حقیقی معنوں میں شاگرد رشید تھے۔ مشرقی تہذیب کے پروردہ ہی نہیں اس کے علمبردار بھی تھے۔ روایتوں کے اتنے شیدائی کہ اگر کوئی ان کے شجرہ شاعری کے کسی استاد کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات کہہ دیتا تو انہیں اپنا وطن پنجاب یاد آ جاتا۔ اساتذہ کا نام بھی لیتے تو اتنے احترام کے ساتھ کہ سننے والا خفیف بلکہ خائف ہوکر رہ جاتا۔ اسی انداز سخن نے انہیں محترم بنایا تھا اور ان کے شاگردوں نے ان سے اسی رویے کا اکتساب کیا تھا۔ میں اسے ان کی فتحمندی سمجھتا ہوں۔
گپتا جی اپنے اساتذہ سے اپنی عقیدت کے اظہار میں کبھی نہیں کسمسائے اور جب موصوف نے ان سب کے بارے میں فرداً فرداً نام بنام مضامین لکھے تو مشرقی تہذیب اور اخلاق و آداب کا صحیح معنوں میں ایک فانوس روشن کر دیا۔ ان کی تصنیف "یگانے بیگانے" کتاب کہاں ہے اچھا خاصا عقیدت نامہ ہے۔اس کتاب میں مابعد تقسیم کی دکھ بھری روداد یں بھی ہیں اور اس تحریر کی روشنائی گو خشک ہو چکی ہے لیکن اس میں آنسوؤں کی نمی اب تک برقرار ہے۔ زہر آلود موسم میں ایسی تحریریں دوراز کار ضرور معلوم ہوتی ہیں لیکن الفاظ ہمیشہ بے زبان یا گونگے نہیں ہوتے، گپتا جی نے جو کچھ لکھا اس کے بین السطور کو اپنا وطیرہ بنایا۔
ان کے چہیتے اور پسندیدہ نوجوانوں میں (جواب عمر کے حساب سے نوجوان نہیں رہے) ایسے فرخندہ فال بھی رہے ہیں جنہیں گپتا جی ہر عید بقرعید پر عیدی دیاکرتے تھے (مجھے اس عمل کا ذکر سن کر حیدرآباد کے نواب بہادر یار جنگ یاد آگئے جو اپنے دستور کے مطابق نظر حیدرآبادی کو پابندی کے ساتھ عیدی دینے کے عادی اور شائق تھے) اس رواداری کو آج کون روا رکھتا ہے۔


ادب یعنی اچھے ادب کی انہیں زبردست پہچان تھی۔ ادب عالیہ تو خیر ان کے دل کی دھڑکن تھی لیکن وہ آج بھی ہر تازہ تصنیف ضرور پڑھتے تھے۔ معائب اور محاسن پر ان کی نظر تھی اور گہری۔ محقق حضرات، عام طور پر رفتہ رفتہ خشک مزاج بلکہ تنک مزاج ہوجاتے ہیں۔ لیکن گپتا جی کو شاید ان کی شعر گوئی اور سخنوری نے اس وحشت سے بچائے رکھا۔ ان کی حس مزاح تیز بھی تھی اور تند بھی۔ ادب کے معاملے میں مروت، رعایت اور چشم پوشی ان سے شاید ہی سرزد ہوتی ہوگی وہ ٹھوک بجا کے پرکھنے کی عادی تھے۔ کسی کی دل شکنی کرنی ہوتی تو ہو اس کے لئے لب کشائی کی زحمت نہیں برداشت کرتے تھے۔
جہاں تک ادب کے اوصاف حمیدہ کا تعلق ہے وہ اعراب کو بھی فراموش نہیں کرتے تھے بلکہ اصرار سے آگے بڑھ کر ضد کرتے کہ کوئی انہیں رَضا نہ کہے بلکہ رِضا کہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ اردو کے تنہا ادیب و شاعر تھے جن کا نام ہمیشہ اعراب کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔ اپنے تخلص کی اس حرکتِ زیر کے استعمال میں وہ جبر کی حد تک جانے میں تکلف نہیں کرتے تھے۔
ان سے پہلی ملاقات میں جب میں نے انہیں رَضا صاحب کہہ کر مخاطب کیا تھا تو انہوں نے بلا جھجھک مجھے ٹوک دیا تھا کہ وہ رَضا نہیں رِضا ہیں۔ اس کے بعد میں نے ہمیشہ انہیں گپتا جی ہی کہہ کر مخاطب کرنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ وہ صرف ماہر غالبیات نہیں الفاظ کی حد تک ماہر اعراب بھی تھے۔


ان کے ہاں کتابوں کا یعنی اعلا درجے کی کتابوں کا اتنا ذخیرہ تھا ( اور ہے) کہ ان سے سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا (اس ذخیرے میں خود ان کی 60 سے زیادہ تصنیفات شامل تھیں) غالب کی زندگی کے ہر گوشے پر ان کی گہری ہی نہیں کڑی نظر تھی۔ وہ کسی مشاعرے میں کہاں اور کس سواری پر گئے سب انہیں معلوم تھا۔
مشاعرے کی تفصیلات کے ساتھ وہ غالب کے مشاہرے کی تفصیلات کے بھی حافظ تھے۔ اپنے پیشے کے اعتبار سے چوں کہ وہ بزنس مین تھے اس لئے غالب کے قرضہ جات کی بھی خبر انہیں تھی۔ غالب کو تو انہوں نے اتنا دیکھا اتنا دیکھا کہ ان سے پہلے کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے والے انگشت بدنداں ہوکر رہ گئے۔ جو اپنی کسی معذوری کی وجہ سے انگشت بدنداں نہ ہوسکے تو حیران و پریشان ہونے سے بچ نہیں سکے۔


اصل میں قصہ یہ ہے کہ گپتا جی تحقیق میں دور کی نہیں بہت دور سے بھی زیادہ دور کی کوڑی لانے میں اتنی محنت کرتے تھے کہ ان کی صحت تاب نہیں لا سکتی تھی اور یہ کوڑی زمرد و الماس سے قدر و قیمت میں کسی بھی طرح کم نہیں ہوتی تھی۔ ان کی ساری تحقیقی کارروائیاں، ہیروں کا نولکھا ہار ہیں۔
ایک مرتبہ مجھے مشفق خواجہ کی ہمراہی میں ان کے گھر جانے کا موقع ملا۔ اس دن شاعر کے مدیر افتخار امام بھی وہاں موجود تھے۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب دونوں محققین میدان تحقیق میں مکالماتی طور پر یوں کہئے نبرد آزما ہوئے تو وہ گھمسان کا رن پڑا کہ میں نے اپنے بچنے کی جھٹ پٹ فکر کی اور گپتا جی کی بالکونی میں پناہ لی اور تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا، اور ہر دو حضرات کو شاداں و فرحاں حالت میں پاکر اطمینان کی سانس لی۔(گپتا جی بھی سانس کو مونث ہی کا درجہ دیتے تھے۔)


اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ گپتا جی کا طویل عرصے تک ہندوستان سے باہر رہنے کی وجہ سے شاید اردو سے ان کا رشتہ یا تو ٹوٹ جائے گا یا اس دور میں جو ریشم کے نرم و سبک دھاگوں سے بنی ہوئی تھی، کچھ گانٹھیں پڑجائیں گی لیکن گپتا جی جب کینیا سے لوٹ کر اپنے وطن آئے تو اپنے ساتھ جو بھی زر و مال لائے ہوں گے وہ تو ان کی محنت اور تجارتی سوجھ بوجھ کی کمائی ہوگی لیکن اصل میں وہ اردو کے لئے ایک آہنی عزم بھی اپنے ساتھ لیتے آئے تھے اور اسی آہنی عزم نے انہیں ان کے آخری لمحے تک اردو کا دیوانہ اور فدائی بنائے رکھا۔
درمیان میں یعنی کوئی دو تین سال پہلے غالب کے چراغ دیر کے نثری ترجمے کے باعث ایک ناگوار صورت پیدا ہو گئی تھی جب مرحوم علی سردار جعفری کو ایک نہایت دیندار اور شیریں قلم کے ناقد نے اپنی تنقیدی بصیرت کانشانہ بنایا تھا تو گپتا جی کی طرف سے بھی لوگ بدگماں ہوگئے تھے۔ ان دنوں ایک آدھ مرتبہ میں ان سے ملا تھا لیکن میری زبان پر اس 'دافعہ فاجعہ' کا ذکر نہ آنے کی وجہ سے انہیں احساس ہوگیا کہ معاملہ دگرگوں ہے اور چند ہی دنوں بعد گپتا جی نے اس ضمن میں ایک مسکت جواب لکھ کر اور چھپوا کر معاملے کو رفع دفع کردیا تھا، یہ ان کی تہذیب کی دین تھی۔


ایسے معاملوں میں ہوتا یہ ہے کہ زخم تو بھرجاتا ہے لیکن داغ مٹتا نہیں ہے۔ انہی دنوں بمبئی میں ایک بہت بڑا عظیم الشان جلوس نکالا گیا تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں اردو زبان سے محبت کرنے والے لوگوں نے میلوں پیدل چل کر سچیوالیہ میں ایک محضر ریاست کے وزیر اعلی کو پیش کیا تھا۔ اس جلوس کی قیادت علی سردار جعفری اور کالی داس گپتا رضا کر رہے تھے اور دونوں معتبر اور معمر حضرات ایک ہی جیپ میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔ سڑکوں پر د و رویہ کھڑے ہوئے لوگ یا تو انہیں سلام کررہے تھے یا یہ دونوں ایستادہ لوگوں کو سلام کر رہے تھے۔ یہاں میں نے اس واقعے کا ذکر اس لئے کیا کہ یہ تاریخی واقعہ تھا اور اب دستاویزی ہے۔


کالی داس گپتا رضا محقق ، شاعر، ادیب، سوانح نگار ، خاکہ نویس اور چشم دید واقعات کے راوی تھے۔ انہیں ابھی اور جینا تھا لیکن قدرت کی طرف سے انہیں جو میعاد ملی تھی اس میں کیا کبھی توسیع ہوتی ہے۔ انہیں سرکاری اعزاز پدم شری ملا بھی اور نہیں بھی۔ پتا نہیں انہوں نے کس رو میں یہ شعر کہہ دیا تھا:
کوئی تمغا کوئی میڈل مجھے درکار نہیں
عمر اب ایسی کہاں بننے سنورنے والی


انہیں معلوم نہیں تھا کہ جس وقت انہوں نے یہ شعر کہا وہ قبولیت کی گھڑی تھی، ان کی عمر نے عین اسی دن جس دن یہ اعزاز نہیں پیش کیاجانے والا تھا ، فرشتہ اجل کو ان کے سرہانے بھیج دیا اور لوگ کہتے ہی رہ گئے:
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے


لیکن ذرا ٹھہرئے، اس سانحے پر سودا کا شعر زیادہ بر محل اور موزوں معلوم ہوتا ہے، اس کے مصرع ثانی میں خدام ادب کا ذکر ہے اور میں سمجھتا ہوں یہاں ادب سے مراد اردو ادب ہے۔ اسی ادب کا اعزاز آنجہانی گپتا جی کو پیش کیا جانے وال تھا ، دیکھئے:
سودا کی جو بالیں پہ گیا شور قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے


غالب پر بہت لکھا جا چکا ہے ، جو لکھا جا چکا ہے اس کے علاوہ بھی لکھا جائے گا لیکن میزان عدل کا وہی پلڑا بھاری ہے گا جس میں دیوان غالب کامل اور دیوان غالب متداول ( مرتبہ گپتا جی) رکھے ہوں گے۔


پچھلے سال لندن میں ان کا جشن منایا گیا۔ اس سے فارغ ہوکر جب وہ ہندوستان واپس آئے تو ستمبر 2000ء میں ان سے پونے میں ملاقات ہوئی۔ شاندار سوٹ میں ملبوس تھے اور بے حد خوش و خرم۔ ان کا قد آور ہونا اس وقت سب نے محسوس کیا اور میں تو آج بھی اسی منظر کی گرفت میں ہوں۔ ان سے کسی غیبی طاقت نے یہ کہلوایا تھا:
آخری عمر ہے اب ناؤ ہے بھرنے والی


وہ زود گو تھے، پر گو تھے لیکن اتنے تیز رَو تھے اس کی خبر کسی کو بھی نہیں تھی۔


پدم شری کالی داس گپتا رضا کو میرا آخری سلام جو اپنی "میں" کے ساتھ ہم سب سے جدا ہوئے:


میری 'میں' زندہ ہے ہرگز نہیں مرنے والی
گزری کل کا کبھی ماتم نہیں کرنے والی


اس کج کلاہی کا کوئی جواب ہے!!

***
ماخوذ از کتاب: محققِ غالب کالی داس گپتا رضا (مرتبین: محمد عارف خاں، ثاقب صدیقی)
ناشر: انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی (سن اشاعت: 2001ء)۔

A literary sketch of Kalidas Gupta Riza. Article: Yousuf Nazim.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں