عاتق شاہ (اصل نام: شیر محمد شاہ خان) (پ: 7/نومبر 1933 - م: 20/مئی 1999)
حیدرآباد (دکن) کے ممتاز طنز و مزاح نگار رہے ہیں۔ ان کے ایک درجن نثری مجموعے شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ مئی 1945 کو بحیثیت لکچرر اور صدر شعبہ اردو ، ملازمت میں داخل ہوئے اور 30/ نومبر 1991 کو سردار پٹیل کالج سکندرآباد سے وظیفۂ حسن خدمات پر سبکدوش ہوئے۔
ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال (مدیر ماہنامہ 'شگوفہ') کہتے ہیں کہ:
عاتق شاہ نے اپنی تخلیقی زندگی کی بنیاد ذاتی تجربہ پر رکھی ہے۔ ان کی تحریریں جامِ جم کی سی ہیں جن میں سماج اور اور اس کی ساری بوالعجبیوں کا عکس نظر آتا ہے۔ محرومیوں اور ناانصافیوں نے ان کے لہجے میں عجب کاٹ پیدا کر دی ہے۔ وہ بڑے سادہ انداز میں ، کسی غیرضروری طمطراق کے بغیر زندگی کی تلخ اور عریاں حقیقتوں کو ان کے اصل رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ عاتق شاہ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں لیکن بیان کی وسعت کے لیے مختلف ہئیتوں کا سہارا لیتے رہے ہیں۔
پیش نظر کتاب "خالی ہاتھ" عاتق شاہ کا رپورتاژ ہے جو انہوں نے دسمبر 1969ء کے آخری ہفتے میں آل انڈیا اردو کنونشن میں شرکت کرنے کے بعد اپنے تاثرات کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں قلمبند کیا۔ کل ہند اردو کانفرنس میں شرکت کی دعوت انہیں اردو کے مقبول عام ادیب اور متذکرہ کنونشن کے صدر کرشن چندر نے دی تھی۔
تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کا یہ مختصر مگر تاریخی یادگار رپورتاژ ان باذوق قارئین کی نذر ہے جو ملک میں اردو کی صورتحال سے فکرمند رہتے ہیں۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
واضح رہے کہ اکتوبر 1945ء میں کل ہند ترقی پسند مصنفین کانفرنس حیدرآباد میں منعقد ہوئی تھی، جس کا رپورتاژ کرشن چندر نے "پودے" کے عنوان سے کتابی شکل میں تحریر کیا تھا۔ یہ مکمل کتاب بھی 11 اقساط میں تعمیرنیوز پر یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے:
نام کتاب: پودے (رپورتاژ) - مصنف: کرشن چندر - سن اشاعت: 1947
عاتق شاہ اس رپورتاژ کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں ۔۔۔
اردو کا مسئلہ ایک زبان کا مسئلہ ہے اور زبان کا مسئلہ کلچر اور تہذیب کا مسئلہ ہوتا ہے۔ لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کا مسئلہ ہوتا ہے۔ اور جب کوئی سیاست داں زبان کے مسئلے کو سیاسی، مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دیتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ ہٹلریت کے اس دور کو واپس لانا چاہتا ہے جس میں انسان ذات پات، نسل رنگ اور قومیت کے مختلف خآنوں میں بٹ گیا تھا۔
"میرے سامنے جب بھی کوئی کسی کتاب کی، شعر کی اور نغمہ کی بات کرتا ہے تو میرا ہاتھ خود بخود ریوالور کی طرف چلا جاتا ہے۔"
مجھے یاد نہیں یہ فقرہ ہٹلر نے کہا تھا یا مسولینی نے یا کسی اور نے۔ لیکن یہ اس ذہن کو پیش کرتا ہے جو سماج میں ڈکٹیٹرشپ کو جنم دینا چاہتا ہے اور جو کسی جمہوری قدر کا قائل نہیں ہوتا۔
ہٹلر ختم ہو گیا۔ مسولینی ختم ہو گیا۔ لیکن آج بھی اس کی معنوی اولاد دنیا کے مختلف حصوں میں ان ہی نظریوں اور اصولوں کی تشہیر کر رہی ہے۔ کیونکہ یہ جانتی ہے کہ اگر سماج میں نراج پیدا کرنا ہے اور ایک طبقے کو دوسرے سے الگ کرنا ہے تو دونوں کے درمیان نفرت کی، تعصب کی، مذہب کی اور زبان کی اونچی اونچی دیواریں کھڑی کر دو۔ یہی نہیں بلکہ اگر کسی طبقے کو ختم کرنا ہے تو اس سے اس کی زبان چھین لو۔ اس طبقے کی سیاسی، معاشی، تہذیبی، مذہبی اور اخلاقی موت واقع ہو جائے گی۔ وہ زندہ رہ کر بھی مردوں کی طرح بےحس رہے گا۔ کیونکہ زبان نہ رہنے کی صورت میں وہ کچھ نہ بول سکے گا۔ اور نہ آس پاس کی آوازوں کو سمجھ سکے گا۔
اس طرح وقت واحد میں وہ گونگا اور بہرہ ہو جائے گا۔ کیونکہ زبان جہاں بولنے والوں کو طاقت بخشتی ہے وہیں کسی بات کو سننے اور سمجھنے کی توفیق عطا کرتی ہے۔
زبان ایک ہتھیار ہے جو انسان اپنے وجود اور اپنی انفرادیت کی سلامتی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایک میڈیم ہے جس کے توسط سے دو انسان ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ ایک آواز ہے جو دوسرے انسان کو اپنی طرف بلاتی ہے۔ ایک ہاتھ ہے دوستی کا جو مصافحہ کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ ایک پل ہے جس پر چل کر دو قومیں اور دو ملک ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ ایک آنسو ہے جو آنکھوں میں چھلک کر دل کی کہانی سناتا ہے۔
اور ایک مسکراہٹ ہے جو روح کی ساری خوبصورتیوں کو پیش کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے یا ڈاؤن لوڈ کیجیے ۔۔۔
میں کتھا سناتا ہوں (مکمل کتاب) ۔ عاتق شاہ
دو منٹ کی خاموشی - عاتق شاہ - افسانوی مجموعہ - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
راستے کی کہانی - افسانہ از عاتق شاہ
***
نام کتاب: خالی ہاتھ (رپورتاژ)
مصنف: عاتق شاہ
ناشر: حمیرہ پبلیکیشنز، حیدرآباد (سن اشاعت: مئی 1972ء)
تعداد صفحات: 146
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Khali Hath by Aatiq Shah.pdf
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں