کورونا وبا سے غیرمقیم ہندوستانیوں کو مختلف پریشانیوں کا سامنا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-06-13

کورونا وبا سے غیرمقیم ہندوستانیوں کو مختلف پریشانیوں کا سامنا

corona-epidemic-nri-face-various-problems

شیخ ایوب اپنے دو بھائیوں کی شادی میں شرکت کے لئے جنوری میں کویت سے حیدرآباد آئے تھے۔ فروری میں ان کی چھٹی ختم ہونے سے پہلے ہی کوویت نے، جہاں وہ آپٹیکل ٹیکنیشن کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، ہندوستان سے پروازوں پر پابندی عائد کر دی۔ تب سے اب تک وہ کوویت نہیں جا سکے اور اب ان کی ملازمت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
شیخ ایوب ایسے اکیلے ہندوستانی نہیں ہیں جو کورونا وائرس کی وبا، ویکسینیشن پالیسی اور اس سے متعلق دوسرے مسائل کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ ایسی بے شمار کہانیاں ہیں جن میں وبا اور اس کے اثرات نے لوگوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لئے بدل دی ہیں۔ کسی کی ملازمت چلی گئی ہے تو کوئی اپنے کاروبار سے محروم ہو گیا ہے۔ ایسے بھی کئی افراد ہیں جو وبا کی وجہ سے دیوالیہ ہو چکے ہیں۔
شیخ ایوب کوویت حکومت کی ٹیکہ اندازی پالیسی کی وجہ سے ایک عجیب مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ کوویت کی ایک آپٹیکل کمپنی میں مستحکم ملازمت کرنے والے ایوب نے بتایا کہ حکومت کوویت نے بیرونی ممالک کے افراد کے کوویت میں داخل ہونے کے لئے ٹیکہ اندازی کی شرط رکھی ہے اور یہ بھی لزوم عائد کیا ہے کہ وہ صرف ماڈرنا ، جانسن اینڈ جانسن، قائزر یا ایسٹرازینکا ویکسین حاصل کریں۔ جب کہ ہندوستان میں یہ ویکسینز ابھی دستیاب نہیں ہیں۔
اگر کوویت کی حکومت ہندوستان سے پروازوں پر پابندی برخاست کرتی ہے تب بھی وہ فوری کوویت واپس جانے کے موقف میں نہیں ہیں۔ کیونکہ ابھی ملک میں ان ویکسینز کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ کووی شیلڈ اگرچہ تکنیکی اعتبار سے ایسٹرازینکا ہی ہے لیکن اس کے باوجود نام کی وجہ سے وہ کوویت میں قابل قبول نہیں ہے۔


دبئی میں طویل عرصہ سے مقیم ایک شخص عبدالسمیع نے بتایا کہ وہ وبا کے اثرات کی وجہ سے اپنی ملازمت سے محروم ہو گئے ہیں۔ وبا سے قبل ان کی ماہانہ آمدنی تیس (30) ہزار درہم تھی لیکن اب کوئی انہیں چھ یا سات ہزار درہم دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔
دبئی کے ہی ایک اور ساکن محمد فصیح اللہ نے بتایا کہ کئی افراد کم تنخواہوں پر کام کرنے کے لئے راضی اور مجبور ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وبا کے بعد رہائشی فلیٹس کے کرایوں میں بھاری کمی آئی ہے۔
شارجہ میں طویل عرصہ سے سیول انجینئر کی حیثیت سے کام کرنے والے یمین اللہ سہیل نے بتایا کہ بدلے ہوئے حالات میں کئی افراد ملازمتوں سے محروم ہو رہے ہیں اور کئی نے اپنے ارکان خاندان کو ملک واپس بھیج دیا ہے۔ یہی حال دوسرے ممالک کا ہے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بینکنگ سیکٹر سے وابستہ منہاج الدین نے بتایا کہ ہر وقت انھیں خوف لاحق ہے کہ ان کی ملازمت کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔
قطر میں کام کرنے والے انجینئر طارق رضوی کسی حد تک پرامید ہیں انھوں نے کہا کہ خلیجی ریاست میں معیشت آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے۔ عمان میں Soil Testing کا کام کرنے والے سمیع اللہ کووڈ کے خوف کے باعث چھٹی ملنے پر بھی وطن واپس نہیں آ رہے ہیں، انہیں خدشہ لاحق ہے کہ وطن واپسی پر ان کی ملازمت جوکھم میں پڑ سکتی ہے۔ عمان کے حالات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہاں کئی مہینوں سے مسجدیں بھی بند ہیں۔


آسٹریلیا میں نیٹ ورکنگ کے شعبہ سے وابستہ خواجہ محسن احمد نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ اب ستر (70) فیصد سے زائد ملازمین گھروں سے کام کر رہے ہیں اور "ورک فرام ہوم" کا یہ رجحان اور نیا نظام جلد ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
محسن کے ہی ایک ساتھی محمد عبدالمنیب نے کہا کہ وبا نے جہاں ہم سب کی زندگیاں بدل دی ہیں وہیں اس نے ہمیں کچھ اچھے سبق بھی سکھائے ہیں، جن میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ اچھی صحت سب سے بڑی نعمت ہے۔
کیلی فورنیا میں طویل عرصہ سے مقیم احمد شاہ نے بتایا کہ کوویڈ-19 اب وہاں ماضی کا حصہ بننے جا رہا ہے اور سب کچھ نارمل ہو رہا ہے۔ انہوں نے امریکی حکومت کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ان جیسے چھوٹے کاروباریوں کی مالی مدد کی گئی جس کی وجہ سے وہ کووڈ کی معاشی مار جھیل پائے ہیں۔ کورونا وائرس ڈارون کی تھیوری کے مطابق جہاں ہم سب کے لئے Survival of the fittest کا ایک پیغام تھا وہیں اس نے ہم سب کو یہ درس بھی دیا ہے کہ ہمیں کوویڈ اور مابعد کوویڈ حالات میں نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا لازمی ہے ورنہ ہم نئی دنیا کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔


Non-resident Indians face various problems due to Corona epidemic.
NRIs residing in various countries hit by coronavirus.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں