انھوں نے ایک ایسے دور میں آنکھیں موندی ہیں جب تعزیت کے الفاظ بے معنی ہوچکے ہیں۔ کورونا کی زد میں آکر جان ہارنے والوں کا ایسا لامتناہی سلسلہ ہے کہ اب دل بیٹھنے لگا ہے اور خدا سے یہی دعا کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اب بس کردے میرے مولا۔
پچھلے ہفتہ جب ایک دوست نے شمیم صاحب کے کورونا کی زد میں آنے اور اسپتال میں داخل ہونے کی خبر دی تو مجھے تشویش ضرور ہوئی تھی، لیکن میں نے جان بوجھ کر انھیں فون نہیں کیا کہ جب صحت یاب ہوکر گھر آجائیں گے تو ہمیشہ کی طرح ان سے ڈھیروں باتیں کروں گا۔اسپتال سے ان کی بعافیت واپسی کا یقین مجھے اس لیے زیادہ تھا کہ وہ پچھلے کئی برس سے مختلف اور خطرناک بیماریوں سے پوری جرات اور ہمت کے ساتھ لڑرہے تھے۔اب ان کا نیا گھر دیکھنے کا بھی شوق تھا کہ وہ حال ہی میں ذاکر باغ سے اپنی بیٹی کے پڑوس میں جسولا منتقل ہوئے تھے۔مگر میری تمنا پوری نہیں ہوئی ۔اب ان کی تعزیت میں یہ چند جملے لکھنے بیٹھا ہوں تو الفاظ ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔میں انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے الفاظ کہاں سے لاؤں؟
شمیم صاحب میں بلا کی قوت ارادی تھی اور اتنا ہی زندہ رہنے کا شوق بھی۔وہ زندگی سے بھرپور اور حوصلہ مندانہ گفتگو کرتے تھے اور میں جب کبھی ذاکر باغ میں تیسری منزل میں واقع ان کے دولت کدے پر حاضر ہوتا تو دیر تک گفتگو ہوتی تھی اور علم ودانش کے بہت سے موتی اپنی جھولی میں بھر کر لاتا تھا۔انھوں نے 1996 میں شائع ہوئے میرے لئے ہوئے ادبی انٹرویوز پر مشتمل کتاب " بالمشافہ " کا دیباچہ لکھا تھا۔ ان سے میرے مراسم کا دورانیہ کوئی تین دہائیوں پر محیط ہے، لیکن اب سے کوئی بیس برس پہلے جب انھوں نے میرے اخبار "خبردار" کے آخری صفحے کے لیے کالم لکھنا شروع کیا تواسے ایسی ہی مقبولیت حاصل ہوئی جیسی کہ کسی زمانے میں "بلٹز" میں خواجہ احمدعباس کے آخری صفحہ کو ہوئی تھی۔
ان سے قربت بڑھی اور ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ میں ہرماہ ان سے کالم لینے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔انھوں نے ستمبر 2002 سے مئی 2004 تک میرے اخبارکے لیے چالیس کالم لکھے اور وہ اتنے مقبول ہوئے کہ لوگ اگلے کالم کا انتظار کرتے تھے۔ایک دن انھوں نے مجھ سے کہا کہ ”بھئی کوئی ادبی مضمون کتنی ہی تحقیق و جستجو سے لکھو مگر اس کا وہ رسپانس نہیں ملتاجو آپ کے اخبار میں شائع ہونے والے کالم کا ملتا ہے۔“ دراصل میرا اخبار اپنی سنجیدہ صحافت کے سبب ملک کے علمی و ادبی حلقوں میں بہت مقبول تھا اور تمام قابل ذکر اہل قلم اس کے قاری تھے۔
ان کے انتقال پرخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بیشتر لوگوں نے انھیں نقاد، شاعراور ڈرامہ نگار کے طورپر یاد کیا ہے۔ بلاشبہ ان میدانوں میں ان کی خدمات بہت وسیع ہیں، لیکن کسی نے انھیں کالم نگار کے طورپر یاد نہیں کیا، جبکہ انھوں نے 100سے زیادہ کالم لکھے اوراس کا سلسلہ 1980 سے 2004 تک جاری رہا۔ یعنی لگ بھگ ایک چوتھائی صدی۔ ان کے یہ مقبول عام کالم اردو کے علاوہ ہندی میں بھی شائع ہوئے۔2014 میں پروفیسر خالد جاوید نے ان کالموں کا انتخاب "یہ کس کا خواب تماشا ہے" کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ 400 سے زائد صفحات کی اس کتاب میں شمیم حنفی صاحب کے مختلف اور متنوع موضوعات پر لکھے گئے کالم شامل ہیں۔
ان کالموں کا سب سے بڑا حسن ان کی زبان اور موضوعات پر گرفت ہے۔وہ اتنی ستھری اور دل میں اترجانے والی زبان لکھتے تھے کہ شاید ہی اب کوئی دوسرا لکھ سکے۔
شمیم حنفی صاحب کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ادب میں گروہ بندی کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی کسی قسم کی پی آر شپ کرتے تھے۔ وہ ایک اوریجنل دانشور اور مفکر تھے۔نہ ہی زندگی میں کبھی انھوں نے انعام واکرام کا تعاقب کیا۔ پچھلے دنوں جب انھیں دوحہ (قطر)کی مجلس فروغ اردوکا ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا تو میں نے انھیں مبارکباد کا فون کیا۔ انھیں میرے فون سے ہی اس ایوارڈ کی خبر ملی تھی۔ کہنے لگے:
"معصوم تم سے بہتر میرے مزاج کو کو ن سمجھ سکتا ہے۔ میں نے زندگی میں کبھی ان چیزوں کی پروا نہیں کی۔ جو کچھ بن مانگے مل گیا وہ لے لیا، جو نہیں ملا اس کا کبھی کوئی افسوس نہیں کیا۔"
پروفیسر شمیم حنفی برصغیر میں اردو کی ادبی اور تہذیبی روایت کا ایک روشن ستارہ تھے۔اب اس قبیل کے لوگ اس دنیا میں خال خال ہی باقی ہیں۔ مشہور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے انھیں ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
"دانش وآگہی کی دنیا میں اندھیرا باقی رہ جائے گا۔ اب نہ پیدا ہونے کے ایسے ہیرے جیسے لوگ۔ علم سے دل لگاتے لگاتے شمیم حنفی بھی سدھارے۔ جن جن کو تھا عشق کا آزار مر گئے۔"
معصوم مرادآبادی |
Veteran Urdu Critic, Professor Shamim Hanfi passes away at 82 - Column: Masoom Moradabadi.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں