ختم قرآن کی مدت کیا ہو؟ - از عبدالسلام بن صلاح الدین مدنی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-05-07

ختم قرآن کی مدت کیا ہو؟ - از عبدالسلام بن صلاح الدین مدنی

read-complete-quran-time-period
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کلام ربانی درحقیقت انتہائی عظیم نعمت ہے جس سے ہر شخص فیض یاب نہیں ہو پاتا، تاہم انتہائی افسوس و حیف اس امر پر ہوتا ہے کہ ختم قرآن کے تعلق سے محبان قرآن کے تین طبقہ جات ہیں:

پہلا طبقہ:
ان افراد کا ہے جو ختم قرآن کی طرف کوئی خاص توجہ مبذول نہیں کرتے، نہ ان کے یہاں کوئی ماہانہ حزب مقرر ہے نہ کوئی پارہ متعین (کہ ایک متعینہ مدت میں ختم کیا جائے) حد تو یہ ہے کہ بعض افراد قرات قرآن سے اس حد تک غافل ہیں کہ صرف ماہ رمضان میں ہی قرآن کو ختم کرنا باعث اجر و ثواب سمجھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر سال کے دیگر ماہ میں ان کے یہاں ختم و قرات قرآن کا کوئی تصور اور اہتمام نہیں ہوتا ہے، ایسے حضرات کے بارے میں کامل خدشہ ہے کہ وہ "ہجرِ قرآن" کے زمرے میں شامل ہو جائیں گے، اللہ محفوظ رکھے۔

دوسرا طبقہ:
ان متدین و مخیر حضرات کا ہے جو ضرورت سے زیادہ ختم قرآن کے حریص و شوقین ہیں، اور بعض ایک دن میں کئی کئی بار قرآن ختم کرتے ہیں یا ایک دن میں ایک بار یا دو بار یا تین بار وغیرہ وغیرہ۔ (اس طرح کے قصے اور کہانیاں کتابوں میں لکھی اور تحریر کی جاتی ہیں، جو یکسر افسانے معلوم ہوتے ہیں۔)

تیسرا طبقہ:
ان حضرات کا ہے جو سنت نبوی کی اتباع میں صرف اور صرف اسی حد میں رہ کر ختم قرآن کا اہتمام کرتے ہیں ، جو شریعت اسلامیہ نے خطِ حد کھینچ دی ہے ، (بلا شبہ یہ حضرات قابل ستائش ہیں) چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے اس بارے میں جو رہنمائی فرمائی ہے وہ یوں ہے:

٭ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، ایک بار خدمت اقدس میں تشریف لائے، اور فرمایا کہ: میں ایک مہینہ سے قبل قرآن ختم کرنے کی استطاعت رکھتا ہوں، اور آپ برابر نبی کریم ﷺ سے رجوع فرماتے رہے ، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم نہیں کرنا چاہئے۔
(بحوالہ: بخاری و مسلم)

٭ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی ہی ایک بار رسول اللہ ﷺ نے رہنمائی فرمائی، جب آپ نے دریافت فرمایا کہ: کتنے دن میں قرآن ختم کرنا چاہئے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا: چالیس دن میں۔ پھر فرمایا: ایک مہینہ میں۔ پھر فرمایا: بیس دن میں۔ پھر فرمایا: پندرہ دن میں۔ پھر فرمایا: دس دن میں۔ پھر فرمایا: سات دن میں۔
جب آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس سے قبل ختم کرنے کی استطاعت رکھتا ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے جواباً فرمایا: جو شخص تین دن سے کم مدت میں قرآن پڑھ کر ختم کر لیتا ہے، وہ قرآن نہیں سمجھ سکتا ہے۔
(ابو داؤد برقم:1390-1391 ، علامہ البانی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے )

ان روایات اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایات اس امر کی واضح دلیل و حجت ہیں کہ ختم قرآن کی کم از کم مدت تین دن ہے، اسی امر پر صحابۂ نبوت کا عمل تھا، اور اسی کی تعلیم و ترغیب خود نبئ امت ﷺ نے دی ہے، اور اس سے قبل جو ختم کرتا ہے، وہ قرآن نہیں بلکہ قصیدہ گوئی کی طرح بغیر فہم و تدبر پڑھتا ہے۔

ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ مکمل طور پر اسوہ اور نمونہ ہے۔ امام نوویؒ اور دیگر بعض علمائے امت نے بعض اسلاف سے نقل فرمایا ہے کہ بعض حضرات مہینہ میں دو بار، بعض ہر ماہ میں ایک بار، بعض ہر دس دن پر، بعض ہر آٹھویں دن میں، بعض ہر ساتویں دن میں، بعض ہر چھ دن میں، بعض ہر پانچ دن میں، بعض ہر چار دن میں، بعض ہر تین دن میں قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ اس حد تک تو صحابہ کرام کا بھی عمل تھا، تاہم ساتھ ہی یہ نقل فرمانا کہ:
بعض حضرات ہر دو دن میں ایک بار، ان میں بعض سے ہر ہر دن میں ایک بار ختم کرتے تھے، بعض ان میں ایسے تھے جو ہر دن میں دو ختم کرتے تھے، بعض ان میں ایسے بزرگ بھی تھے جو ہر دن تین بار ختم کرتے تھے۔
ان امور کی تصدیق و تکذیب سے قبل چند امور انتہائی سنجیدگی سے ملاحظہ فرمائیں:

(1)
کیا انہیں نبی اکرم ﷺ کے طریقۂ نبوی کا علم نہیں تھا؟ بلاشبہ انہیں اس امر کا بخوبی علم تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دن سے کم میں قرآن ختم نہ کرنے کی ہدایت دی تھی، لہذا ان قصوں کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

(2)
اندازہ فرمائیں کہ ایک دن میں کل چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں۔ اس چوبیس گھنٹے میں نماز کے اوقات، کھانے پینے کے اوقات، دنیاوی ضروری قضاء حاجات کے اوقات، پیشاب پاخانہ کے لئے کچھ اوقات، اگر بال بچے اور اہل و عیال والے تھے تو ان کی ضروریات کی تکمیل کے کچھ اوقات ، آرام و استراحت کے اوقات، رات دن میں نیند وغیرہ کے اوقات۔ اور بلا شبہ وہ قیام اللیل اور تہجد و نفلی نماز کا اہتمام کرنے والے ہوں گے، لہذا ان اوقات کو نکال دیا جائے تو ایک دن میں تین بار کجا، ایک بار بھی ختم قرآن کی بات شاید معمہ ہی بن کر رہ جائے گا۔
کیونکہ ایک جز (پارہ) ختم کرنے کے لئے کم از کم بیس، پچیس منٹ تک کا وقت لگتا ہے ، اگر پچیس کو ہم تیس سے ضرب دیتے ہیں تو سات سو پچاس لگتے ہیں، یعنی تقریباً آٹھ گھنٹے صرف ختم قرآن میں لگیں گے۔ نماز کے اوقات کو لے لیجئے، ایک فرض نماز کی ادائیگی میں تقریباً پندرہ منٹ لگتے ہیں، سنت موکدہ و غیرموکدہ وغیرہ کے اوقات کو اگر ملا لیا جائے تو ایک نماز میں صرف ہونے والا کل وقت کم از کم تیس منٹ کے حدود میں بنتے ہیں، اگر تیس کو ہم پانچ سے ضرب دیتے ہیں تو کل وقت 150 یعنی تقریباً دو گھنٹے ہو جاتے ہیں۔ سنن و نوافل کی تقسیم اگر کر دی جائے تو مزید اس سے زیادہ وقت بن جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سونے کے اوقات وغیرہ الگ اور اس سے مستثنیٰ ہیں۔ کل ملا کر میری سمجھ سے یہ امر بالاتر ہے کہ ایک دن میں وہ ایک یا ایک سے زیادہ بار کس طرح ختم کرتے تھے؟ یا یہ امر صرف ان کی طرف منسوب ہے اور حقیقتِ امر سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے؟ میرے نزدیک امر ثانی زیادہ وزنی ہے۔

(3)
کوئی شخص یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ راقم، امامانِ دین اور ان فقہاء کی توہین اور ان کے اعمال کی تحقیر کر رہا ہے۔ رب کعبہ کی قسم، راقم کو ان امامان دین کے زہد و تقشف ، ورع و تقوی شعاری اور دینداری و خیر داری کا مکمل طور پر یقین اور اعتقاد ہے مگر اس طرح کی معمہ سازی کا ان کی طرف انتساب مشکوک ہے۔ کیونکہ وہ زہد و تقویٰ سے سرشار تھے۔ صلاۃ الضحی، تحیۃ المسجد، صلاۃ الاوابین، صلاۃ قیام اللیل، مہمان نوازی، علم دوستی، کتاب خوانی، مطالعہ بینی، اہل و عیال نوازی اور سنت شناسی والے تھے۔ وہ کیونکر خلاف سنت کام کر سکتے تھے؟
جبکہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:
"لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا (سبق تخریجہ)
یعنی اس امت کے لوگ آخر میں انہیں امور سے اصلاح پا سکیں گے جن سے شروع میں اصلاح ہوئی تھی۔

***
ماخوذ از کتاب:
ماہ رمضان اور اس کے جدید فقہی مسائل (تصنیف: عبدالسلام بن صلاح الدین مدنی)۔
ناشر: یوسفیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، جھارکھنڈ۔ سن اشاعت: 2013ء۔

The minimum time period to read the complete Quran. Article: Abdus Salam bin Salahuddin Madani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں