امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی کا انتقال - ایک عہد کا خاتمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-04

امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی کا انتقال - ایک عہد کا خاتمہ

wali-rahmani
اہم مذہبی، ملی اور سیاسی شخصیات کا اظہار تعزیت
فون پر وزیراعلیٰ کی اہل خانہ سے گفتگو، ملت اسلامیہ سوگوار
فرزند مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کا پیغام، مشکل وقت میں شعائر اسلام اور صبر کا دامن تھامنا اسلام کا مطالبہ
سرکاری اعزاز کے ساتھ آج جامعہ رحمانی میں تدفین
معروف عالمی شخصیت ، مشہور عالم دین ، بے باک قائد، نڈر و بے خوف رہنما ، مفکر اسلام امیر شریعت سابع (بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ) مولانا سید محمد ولی رحمانی، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر بروز جمعہ 3/اپریل پٹنہ کے پارس اسپتال میں مالک حقیقی سے جا ملے۔

ان کے انتقال کے ساتھ ہی ایک اہم علمی، ادبی ، سماجی، سیاسی اور تحریکی باب بند ہو گیا۔ آپ کے انتقال پر پورے ملک و بیرون ملک میں غم کی لہر چھا گئی ہے۔
جنازہ کی نماز بروز ہفتہ 4/اپریل کو خانقاہ رحمانی کے احاطہ میں گیارہ بجے دن ادا کی جائے گی اور اپنے والد امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانیؒ اور اور قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ کے ساتھ ابدی آرام فرمائیں گے۔

اس موقع پر متعدد مذہبی ،سیاسی اور سماجی شخصیات نے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا رابع حسنی ندوی، صدرجمعیۃ علما ہند مولانا ارشدمدنی ، مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا ابوالقاسم بنارسی، مولانا الیاس گھمن، مولانا عمر ین محفوظ رحمانی،ڈاکٹرقاسم رسول الیاس، مولاناخالد رشید فرنگی محلی، مولاناعبدالعلیم فاروقی، سید سعادت اللہ حسینی، اصغر علی امام مہدی سلفی سمیت اہم شخصیات کے تعزیتی پیغام جاری ہوئے۔
وزیراعلیٰ بہارنتیش کمار نے ان کے فرزند سے فون پربات کرکے اظہارتعزیت کیا۔ اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو، میسا بھارتی،راجد سربراہ لالو یادو، پرینکا گاندھی، اسدالدین اویسی، بھاکپامالے ، اخترالایمان سمیت متعدد اہم سیاسی شخصیات نے اپنے تعزیتی پیغام میں افسوس کا اظہارکرتے ہوئے ناقابل تلافی نقصان بتایاہے۔

آپؒ کے فرزند مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سخت وقت میں شعائراسلام پر کاربند ہونا اورصبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رہناہی ایمان کاتقاضہ ہے۔

مولانا محترم متعدداداروں کے سربراہ رہے اورکئی پلیٹ فارم سے اہم خدمات انجام دیں، کئی تحریکوں کے روح رواں رہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ، امارت شرعیہ، خانقاہ رحمانی کے پلیٹ فارم سے متعد خدمات انجام دیں۔
رحمانی فاؤنڈیشن اوررحمانی تھرٹی آپ کی سماجی اورعملی خدمات روشن مثال ہیں۔ آپ کی جرات ضرب المثل تھی،جرات وعزیمت والد بزرگوارؒ سے ورثہ میں ملی تھی۔ ان کی اولوالعزمی سے ملت کو نئی توانائی اور نیاحوصلہ ملتا۔ رحمانی تھرٹی کے ذریعے آپ نے نئی تعلیمی بیداری پیداکی اوراس کے نتائج ملک بھرمیں محسوس کیے جارہے ہیں۔
متعددکتابوں کے مصنف ،صحافی ،سیاسی اورقانونی امورپردرک رکھنے والے تھے۔ ساڑھے پندرہ لاکھ افرادآپ کے ہاتھ پربیعت ہوئے ۔ امیرشریعتؒ ایک ہفتہ پہلے بیمارہوئے۔سانس میں تکلیف کی وجہ سے پٹنہ کے پارس اسپتال میں داخل کرایاگیا جہاں وہ جانبرنہ ہو سکے۔ پہلے آئی سی یومیں رہے۔جمعہ کی صبح طبیعت زیادہ بگڑنے پر وینٹیلیٹرپر لے جایا گیا ہے۔ ڈھائی بجے ملت اسلام نے یہ افسوس ناک اطلاع کو سنا جس کے بعدپورے ملک میں انتہائی رنج کی لہردوڑگئی اورجوق درجوق لوگ مونگیر اور پٹنہ کارخ کرنے لگے۔ لاکھوں کی تعدادمونگیرکی طرف رواں دواں رہے ۔
اس سے پہلے آپ دوماہ سے مونگیرسے باہرمسلسل سرگرم عمل تھے۔دہلی ،پٹنہ اورجھارکھنڈمیں مسلسل آپ کے اسفارہوئے۔امارت شرعیہ کی تعلیمی بیداری مہم کامیابی سے جاری تھی۔اسی درمیان آپ بیمارہوئے اورپھرجانبرنہ ہوسکے۔

امیرشریعت ؒکے دو فرزند ہیں۔ مولانااحمدولی فیصل رحمانی اور مولانا فہدرحمانی۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بڑے فرزندمولانااحمدولی رحمانی کی سجادہ نشینی کااعلان کر دیا تھا اور یہ بھی لکھ دیاتھاکہ چھوٹے فرزندرحمانی تھرٹی اوررحمانی فاؤنڈیشن دیکھیں گے اور بڑے بھائی کی معاونت کریں گے۔ علالت سے عین قبل آپ نے نائب امیرشریعت نوجوان عالم دین مولانا شمشاد رحمانی استاذدارالعلوم وقف کونامزدکردیاتھا۔

واضح رہے کہ مولانا ولی رحمانی کی پیدائش 5، جون1943میں مونگیر میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی تعلیم رحمانیہ اردو اسکول خانقاہ رحمانی ، جامعہ رحمانی مونگیر، ندوۃ العلما، دارالعلوم دیوبند اور تلکا مانجھی یونیورسٹی بھاگلپور سے حاصل کی۔ آپ جیلانی سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا سلسلہ نسب شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ سے 25/واسطوں سے جا ملتا ہے۔ ان کے آباء میں سے ابوبکر چرم پوش تقریباً ساڑھے تین سو سال قبل ملتان سے مظفر نگر یوپی کے کھتولی میں آکر قیام پذیر ہوئے اور یہیں سکونت اختیار کرلی۔ پھر ان کے جد امجد سید شاہ غوث علی مظفر نگر سے کانپور منتقل ہوگئے اور وہاں بودو باش اختیار کی۔ کانپور میں ہی شاہ سید عبدالعلی علیہ الرحمہ کے یہاں 3/ شعبان المعظم 1224 مطابق 28/جولائی 1825 کو بانی ندوۃ العلماء سید محمد علی مونگیری ؒکی پیدائش ہوئی۔ بعد میں انہوں نے اپنے مرشدحضرت شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادیؒ کے حکم پربہار کے ضلع مونگیرتشریف لے گئے اور اس وقت فتنہ قادیانی کی سرکوبی کےلیے اپنی زندگی وقف کردی۔

مولانا سید محمد ولی رحمانی 1967 میں امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کی ادارت کے ساتھ ساتھ انہوں نے جامعہ رحمانی میں تدریس اور فتوی نویسی کا کام بھی شروع کیا ، 1969ء میں جامعہ رحمانی کی نظامت کے عہدہ پر فائز ہوئے ، 1970ء میں ایم اے کیا ، 1974ء میں ودھان پریشد کے رکن منتخب ہوئے ، اسی سال جامعہ رحمانی کے ترجمان صحیفہ کی ادارت سنبھالی ، حج وعمرہ کا پہلا سفر 1975ء میں ہوا ، اسی سال کویت بھی تشریف لے گئے ، 1979ء کا سال روس کے سفر 1984ء روزنامہ ایثار پٹنہ کی اشاعت ، 1985ء بہار ودهان پریشد کے ڈپٹی چیر مین ، 1991ء خانقاہ رحمانی کی سجادہ نشینی ، 2005ء نائب امیر شریعت کی حیثیت سے نامزدگی اور 1996کورحمانی فاؤنڈیشن کے قیام کی وجہ سے مولانا کی حیاتی تقویم میں خاص اہمیت حاصل ہے ، جبکہ 1989ء جان لیوا حملہ ، 1991ء والد امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت الله رحمانی اور 1995 والدہ کی وفات ، 1996ء بیٹے خالد رحمانی کی حادثاتی موت اور 2008 بھائی محمد وصی کی موت کی وجہ سے غم والم کا سال رہا۔
2010ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے ممبر منتخب ہوئے ، آپ کی تالیفات وتصنیفات میں مدارس میں صنعت وحرفت کی تعلیم ، خیر مقدم ، شہنشاہ کونین کے دربار میں حضرت سجاد ۔ مفکر اسلام یادوں کا کارواں ، آپ کی منزل یہ ہے ، بیت عہد نبوی میں تصوف اور حضرت شاہ ولی اللہ کے علاوہ ایک درجن سے زائد رسائل موجود ہیں ، جو آپ کی فکری بصیرت تحریری انفرادیت ، سیاسی درک اور در ملت کی شاہد ہیں۔ ان کے علاوہ بے شمار مضامین و مقالات جومختلف اخبارات اور رسائل میں طبع ہوئے ، ابھی جمع نہیں کیے جا سکے ہیں۔

All India Muslim Personal Law Board [AIMPLB] Gen Sec Maulana Wali Rahmani passes away.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں