حبیب جالب - عوام کا محبوب شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-04-26

حبیب جالب - عوام کا محبوب شاعر

habib-jalib
موجودہ صدی میں ہمیں اقبال، جوش، فراق، فیض، حفیظ، احسان دانش ایسے کئی عظیم المرتبت شاعر نصیب ہوئے جن پرہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ لیکن اسی صدی کے وسط میں دنیائے شاعری میں ایک ایسا ممتاز و منفرد شاعر نمودار ہوا جس نے اپنی شاعری ہی نہیں بلکہ زندگی بھی عوام کے لئے وقف کردی تھی۔ اور جو مرتے مرتے مر گیا لیکن نہ تو قید و بند سے اس کے ارادے متزلزل ہوئے اور نہ ہی آمرانہ جبرواستبداد ہی اسے اپنی راہ سے ہٹا سکے۔

اس ہر دل عزیز اور عوام کے محبوب شاعر کا نام تھا حبیب جالب۔ جو برسوں اپنے ملک کے عوام کی بہتری و خوشحالی اور درخشندہ مستقبل کی خاطر صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد آخر 1993ء کی 12 اور 13/ مارچ کی درمیان شب کو لاہور کے ایک ہسپتال میں دم توڑ گیا اور اردو ادب ایک ایسے شاعر سے محروم ہوگیا ، جس کی شخصیت اور شاعری میں کوئی تضاد نہیں ملتا تھا اور جو گفتار کا ہی نہیں کردار کا بھی غازی تھا۔

جالب 28/فروری 1928ء میانی افغاناں ضلع ہوشیار پور پنجاب میں پیدا ہوئے اور بر صغیر کی تقسیم کے بعد ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے لیکن وہاں جاکرانہیں بڑی مایوسی ہوئی کیونکہ ملک پے بہ پے سیاسی بحرانوں کا شکار ہورہا تھا اور اقتدار کی جنگ میں رہنما عوام کو بالکل فراموش کر بیٹھے تھے۔ ایسے حالات میں ان کی شاعری میں شدت پیدا ہوگئی جس میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا جیسا کہ انہوں نے اپنے شعری مجموعے "حرفِ سرِ دار" کے دیباچے میں تحریر کیا ہے۔

"برگِ آوارہ دھیمے لہجے کی شاعری ہے جس میں چھوڑے ہوئے دیاروں بچھڑے ہوئے یاروں کی یادیں بکھری پڑی ہیں، جگہ جگہ عدم تحفظ کا احساس شدت سے پایاجاتا ہے بعد میں آنے والی کتابوں میں دھیما لہجہ بلند آہنگ ہوگیا ہے۔ کیوں نہ ہوتا کہ ایک منظم منصوبے کے تحت وطن عزیز کو خوفناک آمریت کے شکنجے میں جکڑا جارہا تھا۔ جتنا حبس بڑھتا گیا لہجہ اتنا ہی تیز و تند ہوتا گیا۔ اس لہجے کی وجہ سے کئی بار پس دیوار زنداں بھی گیا اور زنداں سے ایک شعری مجموعہ لے آیا۔"

ملک کی ڈانواں ڈول اور غیر یقینی سیاسی صورت حال میں جب جنرل ایوب خاں نے عوام پر فوجی حکومت مسلط کردی تو انہوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی حتی ان کی انقلابی شاعری جنزل ایوب خان کے خلاف مس فاطمہ جناح کی مہم میں ایک طرح سے مینہ فیسٹو کی حیثیت اختیار کر گئی اور پھر جب فوجی دور حکومت میں ملک پر عوام دشمن دستور نافذ کیا گیا تو انہوں نے اپنی معرکۃ الآراء نظم لکھی جس نے تہلکہ مچا دیا اور ساتھ ہی ان پر صعوبتوں اور اذیتوں کے پہاڑ ٹوڑ پڑے۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ یہ نظم ہر کہ و مہ کی زبان پر تھی اور ہر طرف یہ آواز گونج رہی تھی۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

جالب کو جنرل ایوب ،یحیٰی خان اور ضیاء الحق کے دور حکومت میں ہی نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹوکے عہد میں بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ ان پر بھی حیدرآباد سازش کیس کے تحت مقدمہ چلا یا گیا ، مگر اس کے باوجود ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ وہ ہمیشہ جابر و آمر سے ٹکراتے رہے اور سیاسی بازی گروں اور صاحبانِ اقتدار کے جھوٹ کی قلعی کھولنے سے انہیں دارورسن بھی باز نہ رکھ سکے بقول ان کے

رستہ کہاں سورج کا کوئی روک سکا ہے
ہوتی ہے کہاں رات کے زنداں میں سحر بند

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حبیب جالب کی شاعری اس دور کی پیداوار ہے جب کہ حصولِ آزادی کے بعد بر صغیر سیاسی بحران کا شکار تھا اور سیاسی رہنما تمام اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔ اور ہر شے بکاؤ بن چکی تھی۔ قلم ،ضمیر، ظرف، ہر ایک کی قیمت تھی مگر ایسے دور میں یہ شاعر حساس دلیری و جرات سچائی و بے باکی کی استقلال و ثابت قدمی کی علامت بن کر عوام کے سامنے نمودار ہوا اور اس نے سہمے اور خوفزدہ عوام میں اپنی شاعری سے نئی روح پھونکنے کی کوشش کی حتی کہ جب فوج مشرقی پاکستان میں نہتے اور بے قصور انسانوں پر مظالم ڈھارہی تھی اور اکثر نے مصلحتاً خاموشی اختیار کرلی تھی اس وقت بھی اس عوامی شاعر کو فوجی جبرواستبداد خاموش نہ کرسکا اور انہوں نے ببانگِ دہل کہا ؎
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھورہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

اس میں شک نہیں کہ جالب کی شاعری پاکستانی پس منظر میں پروان چڑھی اور انہوں نے اپنے ملک کے غریب و لاچار اور مظلوم عوام کے رنج و الم اور تکالیف کی آئینہ داری کی مگر حقیقی شاعر کی طرح ان کی شاعری کسی ملک، خطے اور ذات ، قوم یا نسل تک محدود نہیں۔ ان کی شاعری آفاقی ہے۔ اور وہ دنیا کے تمام مظلوم افراد کی ترجمانی کرتی ہے۔ اور وہ پاکستان کے ہی نہیں تمام دنیا کے مظلوم اور ستائے ہوئے عوام کو ظلم و جبر کے خلاف نبرآزما ہونے کے لئے ہمت بندھاتے ہیں اور کہتے ہیں ؎
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے چاک گریباں کا
چاروں جانب خاموشی ہے دیوانے یاد آتے ہیں

حصول آزادی کے بعد جب اکثر ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور دانشوروں نے اپنی آرزوؤں اور خواہشوں کی تکمیل کے لئے ایمانداری اور غیر جانب داری کو تلانجلی دے دی تھی اور اپنے معمولی سے آرام و آرائش کی خاطر اپنے ظرف، ضمیر، اور قلم تک کو گروی رکھ دیا تھا۔ اور عوام کا ساتھ چھوڑ کر بر سر اقتدار طبقہ کے ساتھ ہوگئے تھے ، جالب اپنے منتہائے مقصود کی جانب ثابت قدمی سے رواں دواں رہے اور کچھ انعامات اور اعزازات اور آرام و آسائش کے حصول کے لئے اپنے اصولوں کو خیرباد کہہ کر بک جانے والے بے ضمیر ادیبوں اور صحافیوں کو مخاطب کرکے بڑے دکھ سے کہتے رہے۔
قوم کی بہتری کا خیال چھوڑ
فکر تعمیر ملک دل سے نکال

ترا پرچم ہے تیرا دست سوال
بے ضمیر کا اور کیا ہو مآل
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال

اسی طرح سرمایہ داروں، مل مالکوں، افسروں اور جاگیر داروں کی دھاندلیوں اور جبروستم پر بھی وہ خاموش نہیں رہے اور انہیں للکار للکار کر تنبیہ کرتے رہے۔
ملوں کے مالکو اے افسرو زمیندارو
ہماری راہ ترقی میں کالی دیوارو
ہو چند روز ہی تم سیم و زر کے بیمارو
نشاں یزید کا باقی ہے اور نہ زار کا ہے
یہ دور اصل میں انسان کے وقار کا ہے

در حقیقت جالب کی شاعری ان کے عشق بشر اور ایماندارانہ احتجاجی رویے پر مبنی ہے۔ گو احتجاجی ادب لگ بھگ ہر زبان میں پایاجاتا ہے اور اردو ادب میں بھی اس کی کمی نہیں لیکن احتجاج جالب کی شاعری میں پایا جاتا ہے اتنا اردو کے کسی اور شاعر میں نہیں پایاجاتا۔ ان کی ابتدائی شاعری کا لہجہ دھیما ضرور تھا لیکن جوں جوں آمریت کا قہروجبر بڑھتا گیا اور بے اصول سمجھوتوں کا دور دورہ شروع ہوگیا ان کا احتجاج شدید سے شدید تر ہوتا گیا۔ اسی طرح انسان سے ان کا عشق اس معراج تک پہنچ گیا تھا جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ ساری خدائی کا درد ان کے دل میں سما گیا تھا اور وہ ساری عمر انسانی کرب میں تڑپتے رہے۔ مجبور محکوم لاچار اور درماندہ افراد کے حق میں آواز بلند کرنا ان کا شیوۂ زندگی بن گیا اور اس سے انہیں کوئی قہر و جبر بھی نہ روک سکا اور نہ قید و بند کی صعوبتیں اور اذیتیں ، انہیں اس بات کا بھی پورا احساس تھا کہ عشق ہر فرد کے بس کی بات نہیں اسے اختیار کرنا آگ کے دریا میں کودنا ہے اسی لئے وہ اپنے ساتھیوں اور عوام کو خبردار کرتے ہیں کہ ؎
غم کے ڈھانچے میں ڈھل سکو تو چلو
تم میرے ساتھ چل سکو تو چلو
دور تک تیرگی میں چلنا ہے
صورت شمع جل سکو تو چلو

جالب کی غزلوں کو ان کی نظموں کے مقابلے میں کم اہمیت دی گئی ہے حالانکہ ان کی غزلوں کو غنائیت اور سلاست میں احتجاج اور تلخ کلامی کی آمیزش نے پر کشش اور پرتاثیر بنادینا ہے جیسا کہ احمد ندیم قاسمی نے ان کے پہلے شعری مجموعے "برگ آوارہ" کے دیباچے میں لکھا ہے۔

"حبیب جالب کی نظموں اور بعض غزلوں کے اکا دکا اشعار میں تلخی اور طیز کی جھلک بھی دکھائی دے جاتی ہے ، لیکن یہ ان کے فن کا نقص نہیں اس کے فنی خلوص کا احتجاج ہے اور جس فنکار کو احتجاج کا حوصلہ نہیں ہوتا، وہ خود فن کی بے حرمتی پر صرف آنکھیں جھپک کر رہ جاتا ہے۔"

جالب کی غزلوں میں کلاسیکیت بھی ہے اور جدیدیت بھی اور وہ اس امتزاج سے ایسے ایسے شعار کی تخلیق کرتے ہیں جو ہم پر بے پناہ اور امٹ تاثر چھوڑتے ہیں اور جنہیں ہم بار بار دہراتے ہیں جیسے ؎

کسے خبر تھی ہمیں راہبرہی لوٹیں گے
بڑے خلوص سے ہم کارواں کے ساتھ رہے

نگاہ دہر میں ذرے سہی ہم لوگ
ضیا کی بھیک نہیں مانگتے سیاروں سے

تعجب ہے ستم کی آندھیوں میں
چراغ دل ابھی تک جل رہا ہے

ان بستیوں میں رسم وفا ختم ہوچکی
اے چشم نم کسی سے نہ کر عرض غم یہاں

ہم سے پوچھو چمن پہ کیا گزری
ہم گزر کر خزاں سے آئے ہیں

کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

حیرت سی برستی ہے دروبام پر ہر سو
روتی ہوئی گلیاں ہیں سسکتے ہوئے گھر میں

بک جائیں جو ہر شخص کے ہاتھوں سر بازار
ہم یوسف کنعاں ہیں نہ ہم لعل و گوہر ہیں

اس میں شک نہیں کہ اردو ادب نے ماضی میں ہمیں کئی عظیم المرتبت شاعر عطا کئے ہیں اور آئندہ بھی کئی بڑے شاعر ہمیں نصیب ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ حبیب جالب جیسے بے باک و دلیر شاعر صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور اس میں تو کبھی دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ حصول آزادی کے بعد بر صغیر کی کسی زبان میں بھی ان جیسا نڈر اور باضمیر شاعر پیدا نہیں ہوا۔ جس نے مظلوم اور مجبور عوام کے لئے ارباب اقتدار سے ٹکر لی ہو اور پانی زندگی کا طویل عرصہ قید و بند کی اذیتیں برداشت کرنے میں گزاراہو۔ بلا شبہ وہ بر صغیر کے واحد شاعر تھے جنہوں نے اپنا قلم ہی نہیں اپنی زندگی بھی عوام کے لئے وقف کردی تھی اور جو گفتار کے ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے اور جنہیں آمروں، اور جابروں کا قہروستم بھی اپنی منزل مقصود سے نہ ہٹا سکا۔ جو اپنی مجبوریوں اور لاچاریوں کے باوجود سچائی کے پرچم کو بلند کئے رہے ، جنہوں نے کسی قیمت پر قلم اور ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ اور ہمیشہ یہی نعرہ حق بلند کیا کہ ؎
میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امن عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا

(شائع شدہ: ماہنامہ راشٹریہ سہارا نئی دہلی، جنوری 1994ء)

ماخوذ از رسالہ:
حبیب جالب نمبر، رسالہ عالمی اردو ادب (نئی دہلی) - 1994۔

Habib Jalib - beloved poet of the people. Essay by: Nand Kishore Vikram

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں