انڈین یا ہندوستانی ؟ مضمون از آنند شنکر رے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-18

انڈین یا ہندوستانی ؟ مضمون از آنند شنکر رے

indian-or-hindustani
آنند شنکر رے [Annada Shankar Ray] (پیدائش: 15/مارچ 1904 ، وفات: 28/اکتوبر 2002)
مشہور بنگالی مصنف ہیں جو سن 1951ء میں آئی۔سی۔ایس سے ریٹائر ہوئے۔ تقریباً ساٹھ (60) کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ انہیں ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ بھی حاصل ہو چکا ہے۔ ان کا یہ مضمون مشہور انگریزی ہفت روزہ "السٹریٹڈ ویکلی" کے شمارہ 22/نومبر/1970 میں شائع ہوا تھا۔
چند سال پہلے لندن میں میرے ایک دوست کی یہودی بیوی نے مجھ سے کہا تھا کہ یورپ کی سر زمین میں سامیت دشمنی رچ بس گئی ہے۔ مجھے ان کے چہرے کی اتھاہ افسردگی آج تک یاد ہے۔ کچھ اس طرح کی افسردگی کا احساس مجھے ہوتا ہے جب میں یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہوں کہ مسلم دشمنی ہندوستان کی مٹی میں رچ بس گئی ہے۔ لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں رہا ہے کہ گاندھی وادی ان کی حفاظت کے لئے موثر تدابیر اختیار کر سکیں گے۔ پولیس بھی قابل اعتماد نہیں سمجھی جاتی۔ ہر فرقہ وارانہ فساد کے موقع پر فوجی مداخلت کا ایک شور بلند کیاجاتا ہے۔

اب یہاں انگریز نہیں ہیں جن کو ہم اپنی تمام تر مشکلات کے لئے موردِ الزام ٹھہرا سکیں۔ اس مشکل مسئلہ سے ہم چشم پوشی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کی ذمہ داری کسی اور کے سر تھوپ سکتے ہیں۔ چند برسوں سے پاکستان میں بھی ہندوؤں کو ان کی زندگیوں سے محروم نہیں کیا جارہا ہے۔ اس لئے اس ملک کے سر پر بھی یہ الزام نہیں تھوپا جا سکتا۔ اس کے باوجود معمولی سی بات پر ہندوؤں اور مسلمانوں میں فساد ہو جاتے ہیں اور یہ فساد ہندوستان کی سر زمین پر ہی ہوتے ہیں۔

کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پہل ہمیشہ مسلمانوں ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اس میں ہاتھ ہے ، ان میں سے کوئی دعویٰ نہ تو آج تک ثابت ہوا ہے اور نہ کیا جا سکتا ہے ، اس لئے اس کو رد کردینا چاہئے۔ جو لوگ اس طرح کا بیان دیتے ہیں وہ نہ تو واقعات کی چھان بین کرتے ہیں اور نہ تفصیل میں جاتے ہیں اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے ہندوستان میں مسلم دشمنی کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔

دستور ہند نے مذہبی بنیادوں پر علیحدہ رائے دہندگی اور ملازمتوں میں متعین کوٹے کے اصول کو موقوف کر دیا ہے ، اس لئے ہندوستان میں مسلمان گھاٹے میں ہیں۔ تعلیم میں ان کی پسماندگی بھی کسی رعایت کی مستحق نہیں سمجھی جاتی۔ مسلم نوجوان اپنی مرضی سے پاکستان چلے جاتے ہیں، جو اپنا گھر بار چھوڑنے پر رضامند نہیں ہوتے اور اپنے وطن سے جدا ہونا پسند نہیں کرتے وہ بیٹھے بیٹھے آنسو بہاتے رہتے ہیں۔ میں بھی ان کے لئے روتا ہوں۔ لیکن میرے پاس ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ میرے انداز فکر کے مطابق فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریزرویشن کا برطانوی حل غلط ہے کیونکہ اس طرح صلاحیتوں کا لحاظ نہیں کیا جا سکتا۔ میں خود اپنی نوجوانی میں اسی قسم کی تفریق کا شکار ہو چکا ہوں۔

دوسرے ملکوں میں بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں ایسی صورتحال رونما ہو چکی ہے۔ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب یہودیوں، کیتھولک مذہب کے ماننے والوں اور غیر مقلدوں کا انگلستان میں ملازمتیں حاصل کرنا یا پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہونا ممکن نہ تھا لیکن اس وجہ سے نہ تو وہ مایوسی کا شکار ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اپنی کوششیں موقوف کیں۔ انہوں نے زراعت، بنک کاری ، تجارت، صنعت اور دستکاری کو فروغ دیا۔ کوئی ان کو انگلستان سے نکال نہ سکا ، اور ساری ناکامیاں اور موانع ان کے لئے نعمت بن گئیں۔

مذہبی بنیادوں پر علیحدہ رائے دہندگی اور ملازمتوں کا تعین تو اب ہونے سے رہا۔ کچھ مسلمان اس کا خواب ضرور دیکھتے ہیں کہ شاید ایسا ہوجائے۔ لیکن بہر حال یہ ایک ایسا خواب ہے جو شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ان کے لئے تمام دروازے کھول دئے جائیں اور یقین دلا دیا جائے کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔

ہندوستان میں ہولی کے رنگ، گائے اور مسجد کے سامنے باجا بجانے کی وجہ سے بہت سے فرقہ وارانہ فساد ہوتے ہیں ، اور ابھی حال میں اردو زبان بھی جھگڑے کا باعث بنی ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر اس زبان کو فروغ دیا ہے۔ یہ ان میں سے کسی ایک کی زبان نہیں ہے۔ پنجاب اور اتر پردیش میں بہت سے ہندوؤں کی اردو مادری زبان ہے۔ آخر اردو کو ہندی پر کیوں قربان کر دینا چاہئے؟ بیس بائیس سال سے اس زبان کو جس طرح سے نظر انداز کیا جا رہا ہے اس سے یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ زبان ختم ہوجائے گی۔ اس میں مبالغہ ہو سکتا ہے لیکن صورت حال کچھ اسی طرح کی ہے۔

پاکستان سے جو ہمارے رشتے ہیں ان میں سے ایک بنگالی اور دوسرا اردو کا رشتہ بہت ہی اہم ہے۔ اگر یہ رشتے بھی ٹوٹ گئے تو ہندوستان اور پاکستان ہر لحاظ سے ایک دوسرے کے لئے اجنبی ملک بن کر رہ جائیں گے۔

کیا عام ہندو کو یہ بات بار بار بتلانے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اپنے ملک کا نام "انڈیا" رکھا ہے، "ہندوستان" نہیں۔ ہم نے ہر عقیدے کے ماننے والوں کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں اور اسی وجہ سے ہماری ریاست سیکولر کہلاتی ہے ، ہم نے ملک کے ہر شہری کو دعوت دے رکھی ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر ملک کا مستقبل سنوارنے کے لئے جدو جہد کرے ، ہماری تہذیب ایک رنگا رنگ کلچر کا نتیجہ ہے جس میں مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کا بہت اہم حصہ ہے ، ہماری معیشت ایک رشتۂ باہمی کا نتیجہ ہے جس میں مسلمانوں کو ایک اہم رول ادا کرنا ہے۔

ہم مسلمان (اور بشمول سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی) کے بغیر "انڈین" نہیں ہو سکتے۔ ہماری Indianness ان کے اس ملک میں باقی رہنے پر منحصر ہے۔ اگر وہ چلے گئے تو ہم "ہندوستانی" ہو جائیں گے۔ ہمارے ملک کا نام "ہندوستان" ہو جائے گا اور یہی پاکستان چاہتا ہے۔

یہ ایک خاص ذہنیت ہے جو انڈین قومیت کی قسم کھاتی ہے لیکن جب وہ اس ملک کو انڈیا کہتی ہے تو وہ اسے صرف ہندوؤں کی سرزمین سمجھتی ہے اور مسلمانوں کو غیر انڈین ، کیونکہ وہ غیر ہندو ہیں۔ ان کے نزدیک صرف ہندو ہی سچے انڈین ہیں۔ ذہنی انتشار صرف اس وجہ سے ہے کہ اس لفظ کو مختلف اور متضاد معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ لفظ "ہندو" ایک طرح کی تخصیص کا اظہار کرتا ہے جب کہ لفظ "انڈین" میں عمومیت اور وسعت ہے۔ اسی اعتبار سے "ہندو ازم" ایک مخصوص مذہب ہے جس کے اپنے حدود ہیں جب کہ "انڈیا" ایسا ملک ہے جس میں تنوع، رنگا رنگی اور وسعت ہے۔

اس بات کو ایک بارپھر واضح کردینے کا وقت آگیا ہے کہ یہ ملک جس کو ہم انڈیا کہتے ہیں وہ سارے عقائد کی سر زمین ہے ، یہ ضرور ہے کہ اس کا ایک جزو کل سے علیحدہ ہوگیا ہے لیکن انڈیا کے عوام انڈین ہیں ، صدیوں سے انڈین رہے ہیں اور محض اس بنا پر کہ ایک ٹکڑے نے علیحدہ ہوکر اپنا نام پاکستان رکھ لیا ہے ان کو پھر سے Indianise کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ماخوذ از رسالہ: جامعہ (نئی دہلی) ، شمارہ: جنوری-1971
مضمون: آنند سنکررے ، تلخیص و ترجمہ: ڈاکٹر جعفر رضا بلگرامی
Indian or Hindustani? Article by: Annada Shankar Ray

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں