امیر علی ٹھگ - عکسانہ از منجو قمر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-29

امیر علی ٹھگ - عکسانہ از منجو قمر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

ameer-ali-thug-manju-qamar
منجو قمر (اصل نام: سید نجی اللہ یداللہی) (پیدائش: 7/نومبر 1908، چن پٹن، میسور - وفات: 8/اگست 1983 ، حیدرآباد)
حیدرآباد دکن کے ہمہ جہت شہسوار تھے، شاعر، ڈراما نگار، مصنف، ہدایتکار اور موسیقار۔ موسیقی میں انہوں نے نت نئی دھنیں ایجاد کی تھیں۔ منجو قمر میں بچپن ہی سے فنی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں اور انہوں نے کم عمری سے ہی فنون لطیفہ میں اپنی مہارت کے مظاہرہ کا آغاز کر دیا تھا۔
انہوں نے اردو ادب میں ایک نئی صنف "عکسانہ" کو متعارف کروایا تھا جو انہی کے مطابق Photoplay (انگریزی مرکب لفظ) کا اردو ترجمہ ہے۔ اس صنف میں انہوں نے سات کتب لکھی ہیں جن میں سے آخری کتاب "امیر علی ٹھگ" تعمیر نیوز کے ذریعے پیش خدمت ہے۔ تقریباً سوا دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم 9 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

پروفیسر رحمت یوسف زئی لکھتے ہیں کہ:
منجو قمر کو ادبی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا سہرا نواب بہادر یار جنگ کے سر جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ محمد علی جناح نے نواب بہادر یار جنگ سے کہا کہ مجھے ایک اچھا پرسنل اسسٹنٹ (پی۔اے) چاہئے، تو نواب صاحب نے منجو قمر کو جناح کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ 'حیدرآباد کا کوہ نور' ہے۔

ڈاکٹر حبیب نثار سابق شعبۂ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی، منجو قمر کے تعارف میں لکھتے ہیں:
سید منجو قمر کے فن کی مختلف ابعاد پر روشنی ڈالنے کے بعد رنگ منچ کے اس حیدرآبادی پرستار کی صلاحیتوں کے اعتراف میں مومن پر ایمان لا کر کہنا پڑتا ہے۔
اس غیرت ناپید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

منجو قمر نے اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ 1932 میں پڑھا جس کی صدارت علامہ نظم طباطبائی نے کی تھی۔ یہ مشاعرہ نظام کالج کے سالانہ جلسہ کا ایک جز تھا۔ غزل کا مطلع پڑھا اور منجو قمر نے سارا مشاعرہ لوٹ لیا۔
کعبہ جانا نہ تیرے گھر کو کلیسا جانا
پھر ترے جاننے والے نے تجھے کیا جانا
منجو قمر کے طبع شدہ سبھی ڈرامے، تجلیات قمر اور "رنگ و رباب" کا شعری مجموعہ اس بات کے غماز ہیں کہ منجو قمر کی شاعری میں شاعرانہ کمال بہت ہی نکھار کے ساتھ ملتا ہے۔ شاعر نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ حمد نعت، منقبت، غزل، گیت، مخمس، ٹھمری، بھجن یا رقص کے بول (Notation) سبھی اصناف سخن آپ کے کلام میں موجود ہیں۔ روانی، سلاست آپ کے کلام کا خاصہ ہے۔

منجو قمر کے فرزند ڈاکٹر سید ممتاز مہدی یداللہی اپنے تحقیقی مقالے "اردو ڈرامے کے فروغ میں منجو قمر کا حصہ" میں لکھتے ہیں:
"عکسانہ" منجو قمر کی ایجاد کردہ صنف ہے جو انہی کے مطابق Photoplay (انگریزی مرکب لفظ) کا اردو ترجمہ ہے، جو اسٹیج کی ضرورت کے بجائے فلم اور ٹیلی ویژن کی ضرورت کے مطابق ڈرامائی عناصر کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھا جائے۔
منجو قمر نے سات (7) عکسانے تحریر کیے۔ نیل کی ناگن، جلتی جوانی، ڈھلتا سورج، بڑھتا سایہ، کچی کلی تیز کرن، ایک دھماکہ دھیمی آگ، سستا جوبن مہنگا ساز اور امیر علی ٹھگ۔
سب سے پہلے عکسانے "نیل کی ناگن" میں منجو قمر نے صنف "عکسانہ" کو متعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے:
'نیل کی ناگن' اردو ڈراما ہے لیکن اس کی ہئیت قدرے بدلی ہوئی ہے۔ یعنی افسانہ اور ڈراما کے بین بین (قرات کے اعتبار سے) بلکہ مروجہ جمیع اصنافِ ادب سے الگ۔ ممکن ہے اردو لفظ "عکسانہ" پر چونک جائیں۔ یہ تراشیدہ منفرد لفظ انگریزی کے مرکب لفظ Photoplay کے مترادف ہے۔ اس لفظ کو اس صنف ادب کے لیے استعمال کر رہا ہوں، جس کو میں مکتوب، مقالہ، انشائیہ، خاکہ، سوانح، ناول، ڈراما اور افسانہ کے علاوہ صنف تصور کرتا ہوں۔ جس میں زماں و مکاں کا اظہار دیگر اصنافِ ادب کی طرح ضروری تو ہے لیکن مکاں کی حد تک ڈرامے سے بالکل جداگانہ، کیونکہ "اسٹیج" کی تنگی عکسانے کی "وسعتِ مکاں" کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لہذا عکسانے کی "وسعت مکاں" کائنات ہے۔ یعنی کہانی کسی بھی مقام سے یا منظر سے شروع کی جا سکتی ہے۔ جس مقام پر عروج پاتی اور جہاں چاہے تنزل پذیر ہو سکتی ہے لیکن طرز تحریر ڈرامائی ہی ہوگی۔

عکسانہ "امیر علی ٹھگ" کو تحریر کرنے میں منجو قمر نے گہرے مطالعہ اور تحقیق سے کام لیا تھا۔ یہ عکسانہ ایک ایسا مرقع ہے جو آنکھوں میں کھپ جاتا ہے۔ ایک بار پڑھنا شروع کیجیے تو بس اختتام تک پڑھتے رہنے کو جی چاہتا ہے۔ مرکزی کردار "امیر علی ٹھگ" ذہن میں نقش ہو جاتا ہے۔ دلیپ کمار کو مرکزی رول میں لے کر اس عکسانے کو فلم کی شکل میں پیش کرنے کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ مگر اس فلمی تحریک کے روح رواں اسد ممتاز انتقال کر گئے جس کی بنا پر یہ فلم بن نہیں پائی۔

زیرنظر کتاب میں امیر علی ٹھگ کا تعارف کرواتے ہوئے صاحبِ کتاب لکھتے ہیں ۔۔۔
انگریزی زبان میں امیرعلی ٹھگ کی ایک سوانح عمری "Confessions of a thug" کے عنوان سے کرنل میڈیوز ٹیلر نے تحریر کی ہے جس میں افراط تفریط اور غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ مملکت آصفیہ میں جب اسی کتاب کا اردو ترجمہ محکمہ کوتوالی سے تعلق رکھنے والے محب حسن نے کیا تو انہوں نے بھی ان غلط بیانات پر گرفت کرنے یا ان کی تصحیح کرنے کے بجائے یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا کہ کہیں کہیں واقعات کو ملانے اور داستان کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کچھ کچھ جھوٹ کا ٹانکا بھی دیا گیا ہے تاکہ امیر علی کی خونخوار سرگذشت کسی دلچسپ ناول کا مزہ بخشے۔

ہندوستان میں 1779ء سے 1815ء تک ٹھگوں کی غارت گری عروج پر تھی۔ یہ دور یورپ اور ہندوستان میں ایک بھیانک انقلابی دور تھا، دنیا بھر میں بدامنی پھیل چکی تھی اور فرانس میں جمہوری انقلاب آ گیا تھا۔ اسی دور میں ٹھگوں کی جماعت نے ایک منظم تنظیم کی صورت اختیار کی اور اسماعیل ٹھگ کی سرکردگی میں یہ جماعت ایسے وقت پروان چڑھی جب کہ پورے ہندوستان میں تقریباً چار ہزار ٹھگ مصروف عمل تھے۔ 1789ء میں امیر علی کو بھی، جبکہ وہ 22 سال کا تھا، اسماعیل ٹھگ کی جماعت میں شامل کر لیا گیا۔ اسماعیل ٹھگ کی یہ تنظیم 1789ء سے 1810ء تک بام عروج کو پہنچی اور انگریزوں کے کئی ادارے لوٹ لیے گئے ونیز انگریزوں کی پلٹنوں کی پلٹنیں قتل کر کے دفنا دی گئیں۔
1805ء میں جب سکندر جاہ سریر آرائے سلطنت تھے، امیر علی ٹھگ نے دکن کی راہ لی اور جھالون میں قیام کرتے ہوئے رعایا کو خوب لوٹا، مگر 1815ء میں جب وہ لکھنؤ پہنچا تو اسے گرفتار کر لیا گیا اور عمر قید کی اس نے سزا پائی۔ لیکن بارہ (12) سال بعد سلطان ناصر الدین حیدر کی تخت نشینی کی خوشی میں 1827ء میں وہ رہا ہوا مگر انگریزوں کے ہاتھوں 1832ء میں جب گرفتار ہوا تو کرنل سلیمن نے اسے گواہ معافی قرار دیا تاکہ ہندوستان میں موجود تمام ٹھگوں کا حال معلوم کر کے انہیں ختم کر دیا جائے۔ یہ بات امیر علی ٹھگ کے لیے خوش آئند تھی لہذا اس نے اپنی چالوں اور ترکیبوں کے ذریعے ہندوستان کے بچے کھچے ٹھگوں کو کرنل سلیمن کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا۔ اس واقعہ سے یہ امر واضح ہے کہ ہندوستان کے سرغنہ ٹھگوں (جن کا سردار گنیشا نامی ٹھگ تھا) کا خاتمہ خود امیر علی ٹھگ نے کیا تھا۔

***
نام کتاب: امیر علی ٹھگ (عکسانہ)
مصنف: منجو قمر ، سن اشاعت: 1971ء
تعداد صفحات: 226
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 9 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Ameer Ali Thug By Manju Qamar.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

Ameer Ali Thug (A Photoplay), By Manju Qamar, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں