آداب تلنگانہ - کیا اردو صحافت کے گرتے معیار کو سہارا دے سکے گا؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-02-25

آداب تلنگانہ - کیا اردو صحافت کے گرتے معیار کو سہارا دے سکے گا؟

aadaab-telangana
حیدرآباد سے ایک اور اردو روزنامہ "آداب تلنگانہ" 2/مارچ 2021ء سے منظر عام پر آ رہا ہے۔
ایک ایسے وقت جبکہ پرنٹ میڈیا بالخصوص اردو اخبارات آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں۔ کووڈ19 نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ یوں تو حالات معمول پر آ رہے ہیں مگر پرنٹ میڈیا کے حالات فی الحال سنبھلنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ کیوں کہ کرونا بحران میں عوام کو "گھر بیٹھے کام" آن لائن شاپنگ اور آن لائن نیوز سوشیل میڈیا پر ویڈیو کلیپنگس کے علاوہ مختلف واٹس اَیپ گروپس میں ہندوستان کے تقریباً سبھی اخبارات کی پی ڈی ایف فائلس، سماجی خدمات کے طور پر پیش کئے جا رہے ہیں۔ عوام اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اخبارات ان کے لئے پہلے جیسی اہمیت کے حامل نہیں رہے۔ ان حالات میں آداب تلنگانہ کی اجرائی ایک جرأت مندانہ فیصلہ ہے۔
اس اخبار کے ایڈیٹر محمد اعظم علی خرم ہیں جو تلنگانہ کے وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی کے فرزند ہیں۔ بظاہر اس نئے اردو اخبار کے ساتھ ٹی آر ایس کا "ٹیاگ" لگا ہوگا، یہ اور بات ہے کہ جواں سال ایڈیٹر نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ عوام کا اخبار ہوگا۔ جس کی غیر جانبدار پالیسی ہوگی۔ تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہوگی۔ آداب تلنگانہ کے منظر عام پر آنے کے چرچے کووڈ19 کے پہلے سے تھے۔ جانے کن مصلحتوں کی بناء پر اسے منظر عام پر لانے میں تاخیر کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ کووڈ کا انتظار تھا کہ کب مختلف اخبارات سے صحافتی و غیر صحافتی عملے میں تخفیف کی جائے گی اور انہیں نئے اخبارا میں جگہ ملے گی۔

حیدرآباد کی اردو صحافت چند برس پہلے تک باوقار اور معیاری تسلیم کی جاتی تھی۔ شمالی ہند کے اخبارات اس کی مثال بھی دیتے تھے اور اس کی تقلید بھی کی جاتی تھی۔ تاہم گذشتہ چند برس کے دوران حیدرآباد کی اردو صحافت کا معیار کسی قدر متاثر ہوا ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ مالکین کی اخبار کے معیار پر سے ہٹتی ہوئی توجہ اور ذاتی اَنا، بغض اور سیاسی و نظریاتی اختلافات ہیں، جسے مالکین کے درباری صحافی چاہے وہ سب ایڈیٹرس ہوں یا رپورٹرس ہوا دیتے ہیں۔ الکٹرانک میڈیا میں اِن دنوں "گودی میڈیا" یا "چاٹو کار پترکار" کی اصطلاحات کا استعمال ہو رہا ہے۔ یہ کڑوا سچ ہے کہ اردو اخبارات میں بعض ایسے صحافی بھی آگئے ہیں جو اپنی صلاحیت کی بناء پر اپنے آپ کو نہیں منواسکتے۔ ان کا کام صرف مالکین کے لئے دوسروں کی جاسوسی کرنا یا ان کے کان دوسروں کے خلاف بھرتے رہنا ہے جس سے اخبارات کو ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔ ہمارے بیشتر اردو اخبارات کے صفحات اس کی گواہی دیتے ہیں کہ کس طرح سے ہمارے اخبارات اپنے اصل مقصد سے دور ہورہے ہیں۔

اردو اخبارات یا اردو صحافت کے بارے میں ہم بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، یقینا یہ دعوے اپنی جگہ سچ ہیں، کہ ہمارا ماضی بہت شاندار رہا۔ ہم نے آزاد ہندوستان کی تاریخ لکھی۔ ہم نے مسلمانوں کا مذہب سے رشتہ جوڑے رکھا۔ ملی اتحاد میں کلیدی رول ادا کیا۔ رائے عامہ ہموار کی۔ ارباب اقتدار کو گھٹنوں کے بل لایا۔ مگر یہ سب ماضی کی حسین داستانیں ہوگئی ہیں۔ آ ج حالات اس کے برعکس ہیں۔ جس کی تفصیلات سے یقینا ہر کسی کی اَنا کو ٹھیس پہنچے گی اور دل شکنی ہوگی۔ البتہ اگر ہم اپنے اخبارات کا دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیں تو خبروں کے معاملے میں کڑھن ہوتی ہے۔ انگریزی یا تلگو اخبارات سے ہم تقابل نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کے وسائل وسیع ہیں۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہم جدید ٹکنالوجی رکھتے ہوئے بھی اس کا استعمال نہیں کرتے۔
بعض اخبارات تو اب بھی پتھر کے دور میں ہیں۔ وہ ای میل نہیں دیکھتے۔ یا جس کسی کو ای میل چیک کرنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے، اس کا تعلق پتھر کے دور سے ہوتا ہے یا اس کی عقل پر پتھر پڑے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بعض اخبارات اہم ترین خبروں سے محروم ہوجاتے ہیں یا پھر دوسرے اخبارات سے 48گھنٹے پیچھے ہوجاتے ہیں۔ایک ایسے دور میں جب دنیا بھر سے پل پل کی خبریں موبائل اسکرین پر مل رہی ہیں، تصاویر اور ویڈیو کلپس کی کمی نہیں ہے، اس کے باوجود ہم بعض مخصوص نیوز ایجنسیوں کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔ اور انگریزی اخبارات سے اہم ترین خبریں 24گھنٹے بعد ترجمہ کرکے اردو قارئین کو پیش کی جاتی ہیں۔
اردو قاری سوشیل میڈیا کے ذریعہ اپنے آ پ کو حالات حاضرہ سے اَپڈیٹ رکھنے کا عادی ہوچکا ہے۔ اس کے لئے باسی خبریں اردو اخبارات سے بیزاری کاسبب بنی ہوئی ہیں، عوامی مفادات کی خبروں کے مقابلہ میں چند شخصیات کو غیر ضروری اہمیت دیجاتی ہے انہیں ہیرو بنایا جاتا ہے۔ چوں کہ اردو قاری ان شخصیات کی حقیقت سے واقف ہوتاہے، اس لئے ان شخصیات سے کراہیت اور انہیں اہمیت دینے والے اخبارات سے اُکتاہٹ ہونے لگی ہے۔تعلیم، روزگار، سائنس، ٹکنالوجی، شیئر مارکٹ، سے متعلق روایتی قسم کے کالم عموماً انٹرنیٹ سے نقل کرلئے جاتے ہیں۔ کیوں کہ کئی بار اِن مضامین کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ مضامین دراصل پڑوسی ملک کے اخبارات کے لئے لکھے گئے تھے، نقل کے لئے عقل ضروری ہے۔ بچپن میں اس بات کو ذہن نشین کروایا گیا تھا مگر اکثر کے ذہنوں سے یہ بات نکل چکی ہے۔

اردو اخبارات پرنٹنگ ٹکنالوجی کے لحاظ سے یقینا اچھے معیار کے ہیں، اگر ان میں چھپنے والا مواد بھی معیاری ہو تو کیا کہنے! اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مخصوص موقعوں پر شائع ہونے والے خصوصی ایڈیشنس میں 20-20برس سے ایک ہی مضمون نقل کیا جارہا ہے۔ ادبی ایڈیشنس کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کیوں کہ یہ ایڈیشنس اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ کسی بے ادب نے اسے ترتیب دے ہوگا۔ مخصوص گروہ کے شعراء اور ادیبوں کو باربار موقع دیا جاتاہے جو واقعی مستحق ہیں، انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ادبی ڈائری ہو یا کلچرل راؤنڈ اَپ، ہمارے اخبارات اگر اِن پر توجہ دے، دلچسپی لیں تو قارئین کی دلچسپی بحال ہوسکتی ہے۔ بعض اردو اخبارات کا سب سے بڑا رونا یہ ہے کہ پہلے تو بعض اہم خبریں وقت پر شائع نہیں ہوتیں، دو تین دن کے وقفہ سے متن تو چھاپ دیا جاتا ہے، فوٹو غائب کردی جاتی ہے۔ ذمہ دار سب ایڈیٹرس یا نیوز ایڈیٹرس کو سمجھنی چاہئے کہ ایک تصویر سو خبروں پر بھاری ہوتی۔ خبر نہ بھی چھاپی جائے، تصویر کیپشن کے ساتھ شائع کردی جائے تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ بعض نیوز ایڈیٹرس، سب ایڈیٹرس کسی کی دل شکنی ہتک اور اپنی اَنا کی تسکین کیلئے تصاویر سے بعض شخصیات کو غائب کردیتے ہیں اور خبروں سے بھی بعض کے نام حذف کردیتے ہیں۔ اور جو ان کے قلم کا شکار ہوا وہ ایڈیٹرکو کوستا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ حیدرآباد کے بیشتر اخبارات برسوں عوامی خدمات بھی انجام دیتے رہے۔جس کی وجہ سے یہ اخبارات حیدرآبادی تہذیب کا ایک لازمی جز سمجھے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ حیدرآباد کی تہذیبی قدریں مٹتی جارہی ہیں۔ اور اس کا اثر اخبارات پر ہونے لگا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی اخبارات ایک فرد کی دشمنی یا اس سے اختلاف کی سزااس کی پوری قوم کو دیتے ہیں جو غیر اخلاقی اور انسانی اقدار کے خلاف ہے۔ مگر صحافت اوراعلیٰ انسانی اقدار کا اب آپس میں بہت ہی کمزور رشتہ رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خبر کے نام پر ہم اکثر کردارکشی پر اُتر آتے ہیں۔ اور کردار کشی کرنے والے صحافی صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں۔ معمولی سے فائدے کے لئے کسی کو خوش کرنے کے لئے کسی کے دامن پر کیچڑ اُچھالتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے خود ان کے ہاتھ کیچڑ آلود ہوجاتے ہیں۔
حیدرآبادی عوام بالخصوص اردو داں طبقہ کو اب ایسی اردو صحافت سے کراہیت ہونے لگی ہے۔ اردو اخبارات کے مالکین اور ذمہ داروں کو اگر اس خاکسار کی کوئی بات ناگوار گزری ہو تو ناراض ہونے سے پہلے ایمانداری کے ساتھ جائزہ لیں کہ جو لکھا گیا اس میں سچائی ہے یا نہیں۔ اپنے اسٹاف کو ہدایت دیں کہ وہ معیار کو گرنے نہ دیں۔ اخبار کے معیار کے ساتھ ساتھ اس کے ذمہ دار بھی نظروں سے گرنے لگتے ہیں۔ اردو اخبار کا دامن وسیع ہونا چاہئے۔جس میں ہر کوئی سما سکے۔ ہر کوئی اُسے اپنا سمجھے۔ دشمن بھی ہو تو وہ فراخ دلی کے اعتراف کے لئے مجبور ہوجائے۔

جب بھی کوئی نیا اردو اخبارمنظر عام پر آنے لگتا ہے، دوسرے اخبارات کے انتظامیہ میں ہلچل ہوتی ہے۔ کچھ اصلاحات کی جاتی ہیں، مگر کچھ د ن بعد گاڑی دوبارہ اُسی پٹری پر آجاتی ہے۔ آداب تلنگانہ، میں تجربہ کار صحافی ہیں، جن کا تعلق کسی نہ کسی پرانے اخبار سے رہا ہے۔ نئے اخبار میں یہ صحافی ایک نئی ذہنیت کے ساتھ کام کریں۔ اس جذبہ کے ساتھ کہ نیا اخبار اردو صحافت کو ایک نئے دور میں لے جائے۔ حیدرآباد کو ایسے ہی اخبار کی ضرورت ہے جن کے صفحات پر سب کی خبریں ہوں۔ جہاں نیوز ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر کا قلم کسی کے نام پر جلاد کی تلوار کی طرح نہ چلے۔ ایک ایسا اخبار جومعلومات کا خزانہ ہو، جو ہر شعبے میں رہنمائی کرے۔ جو اڈلی دوسا باندھنے کے لئے استعمال نہ کئے جائیں بلکہ ہر شمارہ ایک دستاویز کے طور پر محفوظ رکھا جائے۔ جو قوم اور ملت کے انتشار کا نہیں اتحاد کا ذریعہ بنے، عوام اور ایوان اقتدار کے درمیان رابطہ کا ذریعہ بنے۔مظلوم کا حمایتی اور وکیل ہو جس میں ظالم سے مقابلہ کی ہمت ہو۔

بشکریہ : گواہ اردو ویکلی (5/ تا 11/ مارچ 2021)
***
gawahurduweekly[@]gmail.com
فون : 040-24741243
سید فاضل حسین پرویز

Aadab Telangana, does it stops the declining quality of Urdu journalism? Column by: Syed Fazil Hussain Parvez

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں