کملیشور - ہندی صحافت اور کہانی کا ٹھوس ستون - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-23

کملیشور - ہندی صحافت اور کہانی کا ٹھوس ستون

Kamleshwar
واقعہ ماضی بعید کا نہیں، ماضی قریب کا ہے۔ یعنی گذری بیسویں صدی۔ وہ صدی جب ممبئی کنکریٹ کا جنگل نہیں بنا تھا۔ سڑکیں آدمی کی بھیڑ سے محفوظ بے حد پرسکون ہوا کرتی تھیں۔ فلموں میں چند گنے چنے چہرے، زندگی کے سماجی مسائل، پیار محبت اور رقص و نغمے سے سنیما کے رو پہلے پردے پر ایک نہایت متوازن تفریح طبع تماش بین کو لذتِ خوش طراز احساس کی طمانیت دیتے تھے اور تماش بین کچھ پا کر ہی سنیما ہال سے باہر آتا تھا۔ ممبئی سیاست کے خون آلود ہاتھ کی گرفت میں نہیں آئی تھی اور ہر چہرہ خوشنما اور خوش رنگ تھا۔ سیاست کی مسندوں پر وہ رہنما متمکن تھے جو واقعی سیاست کو سماج سے الگ کرنے کی سیاست کا کھیل نہیں کھیلتے تھے۔

اسی زمانے میں صحافت اپنی تمام طلسمی محرکات سے سرشار تھی۔ دہلی سے خوشتر گرامی کا اردو ماہنامہ "بیسویں صدی" افسانوی ادب کا نمائندہ رسالہ تھا تو اسی دہلی کے آصف علی روڈ پر واقع دفتر سے یوسف دہلوی نے اپنی ادبی اور فلمی صحافت کا آغاز کیا تھا اور ان کے ماہنامہ "شمع" نے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک تک شمع کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ "شمع"، بانو"، "سشما"، "کھلونا"، آئینہ"، "شبستان" اور "مجرم" الگ الگ موضوعات کو اپنے صفحات میں سمیٹے ادب، فلم، تہذیب نسواں، جرم و جزا، مغربی کہانیوں کو ڈائجسٹ کرنے اور اردو شعر و ادب کے معماروں کی سوانح اور ان کے حالات زندگی سے مزین ہر ماہ خریداروں کو دوکانوں پر قطار بند رکھتے تھے۔

ممبئی میں وی ٹی اسٹیشن (اب شواجی ٹرمینل) کے سامنے مغربی سمت میں انگریزوں کی تعمیر کردہ ایک عمارت 'ٹائمز آف انڈیا' کے نام سے آج بھی واقع ہے لیکن گزشتہ صدی کے اس عہد میں یہ عمارت صحافت کا ایک ایسا قصرِ عافیت تھی جس کے ہر فلور پر مختلف دفاتر قائم تھے اور ان دفاتر کے سر برآوردہ وہ ہستیاں تھیں جو آج قصۂ پارینہ بن چکی ہیں، لیکن ہمارا ادب، ساہتیہ اور لٹریچر ان ہستیوں کی صحافتی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر پایا۔
وہ تمام ہستیاں صحافت کی تاریخ کا وہ درخشاں باب ہیں جنہیں وقت کی کوئی برہم مزاج آندھی صحافت کی لوح سے مٹانے کی جرات نہیں کر سکتی۔ "ٹائمز آف انڈیا" روزنامے کے علاوہ اسی بلڈنگ سے ہندی ہفت روزہ "دھرم یگ" (ایڈیٹر دھرم ویر بھارتی)، انگریزی ہفت روزہ "السٹریڈ ویکلی" (ایڈیٹر خوشونت سنگھ ) ہفتہ وار "بلٹز" (ہندی انگریزی و اردو) چیف ایڈیٹر کرنجیا، ہفتہ روزہ "فلم فیئر" اور "اسکرین"۔۔۔ یہ ایسے اخبارات اور ہفتہ روزہ تھے جنہوں نے تقریباً نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک تینوں زبانوں کی شفاف صحافت سے اپنا وقار، توقیر اور غیر نظریہ سازی کے معطر مضامین سے ہر طبقے کے ہر فرد کے ذہن کو صحافت کے اجالوں سے معمور رکھا۔

اسی عمارت کے ایک فلور پر ہندی اردو "ساریکا" کا دفتر واقع تھا۔ اس دفتر کے سربراہ کملیشور جی تھے۔ ان کی صحافت میں ہفت روزہ "ساریکا" جاری ہوا اور ایک طویل عرصہ تک یہ ہفت روزہ بھی "بیسویں صدی" اور "شمع" کی مانند ہر دلعزیز رہا۔ کملیشور جی ایک دیدہ ور قلمکار تھے۔ طبقہ واریت ان کے وجود پر کبھی اثر انداز نہیں ہو سکی۔ وہ ہمیشہ سیکولر نظریات کے حامی رہے۔ ان کی صحافت میں جہاں بےباکی تھی وہیں ایک فنکارانہ تزئین بھی تھی۔ سیاست کے وہ حامی ضرور تھے لیکن خود مختار سیاست کے وہ قائل نہیں تھے۔ یعنی ایسی سیاست جو انسان کے بنیادی حقوق کو بھی اپنے مفاد کی ترازو میں رکھ کر اس کا پلٹرا اپنی جانب جھکا لیتی ہو ، جو استحصال کی پیروکار ہو اور اس کا ہر ظاہری عمل اس کے باطنی عمل کو اجاگر کرتا ہو۔
کملیشور جی ترقی پسند تحریک میں ضرور شامل رہے چونکہ یہ تحریک کئی معنوں میں زندگی کے اوراق پر انسان کے کئی حسین خواب رقم کررہی تھی۔ ادب کو مغلوبیت سے نکال کر اسے لسانی فنون کا انقلابی فرض انجام دے رہی تھی لیکن جب وہ خود اپنے ہی صفات کے دائرے سے نکل کر لذت جمال میں آ گئی اور نظریہ سازی سے مغلوب ہو گئی تو انہوں نے بہت خاموشی کے ساتھ خود کو اس تحریک سے اس طرح الگ کر لیا کہ ان پر کوئی حرف ملامت نہ آ سکا۔ یوں بھی اس تحریک سے بالواسطہ ہی وہ وابستہ رہے تھے۔
"ساریکا" آج بھی نکلتا ہے اور پابندی سے جاری ہے لیکن اگر آپ کملیشور جی کے زیر ادارت "ساریکا" کے شماروں کا مطالعہ کریں گے تو موجودہ "ساریکا" کا فرق واضح ہو جائے گا۔

ہندی میں کہا گیا ہے کہ:
کملیشور جی نئی کہانی اتھوا سمپادیکا کے جیوتی اسمتھ تھے
یعنی صحافت اور کہانی کے وہ ستون تھے جس پر آئندہ صحافت اور کہانی کی عمارت کھڑی ہے۔ ان کی فکر میں کمال کی کشادگی تھی۔ راست اظہار ان کا مزاج تھا۔ کھری بات کہنا ان کی شخصی فنکاری کا آزادانہ اسلوب تھا۔ وہ اپنی گفتگو میں کسی قسم کی لفظی آرائش کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ بہت صاف الفاظ میں سادگی کے ساتھ اپنی بات کہتے تھے کہ سننے والا بآسانی اس کے معنی کو سمجھ لے۔ لب و لہجے کی تخلیقیت ان کی تقریر اور تحریر دونوں میں اس لئے یکساں ہے کہ وہ ادب اور گفتگو کو زندگی کی مصوری مانتے تھے۔

کملیشور 6/جنوری 1932ء کو مین پوری (اترپردیش) میں پیدا ہوئے تھے۔ اور 27جنوری 2007ء کو 75 سال کی عمر پا کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اپنے آخری ایام کملیشور جی نے ہریانہ میں بسر کئے۔ 26/جنوری ہندوستان کی جمہوریت کا دن تھا اور تمام ہندوستان اس جشن کو انتہائی جوش و خروش سے منانے میں مگن تھا۔ خاص طور سے یہ دن تو دہلی کے لئے ایک ایسا دن ہوتا ہے جب دہلی اپنا سنگار کرتی ہے اور اس کے در و دیوار ، سڑکیں اور گلیارے گل رنگ ہو جاتے ہیں۔ موسم سرما کا یہ دن سرد ترین اور کہر آلود ہونے کے باوجود آدمی کو آرام طلب احساس سے نکال کر دہلی کے راج پتھ پر لے آتا ہے۔
یہ اس جشن کی ایک رات تھی جب کملیشور جی زندگی کو الوداع کہہ رہے تھے۔ 28/ جنوری کو لودھی روڈ دہلی میں واقع شمشان میں انہیں نذر آتش کر دیا گیا۔ ایک وجود جس کی سانسوں میں ہندوستان بستا تھا، جس کی رگوں میں ہندوستان خون بن کر جسم کو حرارت دیتا اور جس شخص نے اپنی تمام عمر ادب، صحافت، فلم اور ہندوستان کے درخشاں مستقبل کی نذر کی ، پل بھر میں وہ راکھ ہو گیا اور تمام ہندی اور اردو ادب کو ناقابل فراموش کربناکی دے گیا۔

میں ان سے ذاتی طور پر واقف تھا۔ میری ان سے پہلی ملاقات بمبئی میں ہی ہوئی تھی۔ مارچ 1979ء میں ، میں نے اپنا میوزیکل پلے "نا ادھر کے نا ادھر کے" بمبئی کے برلا ماتوشری ہال میں اسٹیج کیا تھا۔ یہ پہلا ڈراما تھا جس نے بمبئی میں پہلی بار بھوپال کو نمائندگی دی تھی۔ کملیشور جی اس وقت ممبئی دوردرشن کے ڈائریکٹر جنرل تھے ، اور ان کا ایک پروگرام "پریکرما" دوردرشن سے ٹیلی کاسٹ ہوا کرتا تھا۔ انہیں جب میرے ڈرامے کا علم ہوا تو وہ بذات خود برلا ماتوشری آئے، ریہرسل دیکھی، مجھ سے انٹرویو کیا اور اشتیاق خان (فلم امراؤ جان میں فاروق شیخ کے والد) کے ذریعہ اسکرپٹ کی ایک کاپی منگوائی تاکہ اس ڈرامے کے کچھ اہم مناظر اپنے پروگرام "پری کرما" کے لئے فلم بند کر سکیں۔ انہیں دنوں جے پرکاش نارائن موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا جسلوک ہسپتال میں داخل تھے۔ وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کی دفتری غلط فہمی کی وجہ سے جے پرکاش نارائن کی موت کی اطلاع دے دی گئی اور ممبئی کا دور درشن جسلوک ہسپتال میں اس خبر کی کوریج میں مصروف ہوگیا جو بعد ازاں غلط ثابت ہوئی۔

کملیشور جی سے یہ ملاقات دیرپا ثابت ہوئی اور میں کیڈل روڈ پر واقع بشپ اپارٹمنٹ کے سیکنڈ فلور پر واقع ان کے فلیٹ پر ملنے جاتا رہا۔ 1979ء میں ہی مقامی میڈیکل کالج نے اپنی سالانہ تقریب میں انہیں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا تھا۔ میں اس وقت مقامی کیپٹل ہوٹل میں بطور سپروائزر ملازم تھا۔ ان کا قیام ڈاکٹر منوج ماتھر (نزد نقار خانہ بھوپال) کی رہائش گاہ پر تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کے استقبال کا پروگرام ترتیب دیا اور ایک ٹیکسی کرائے پر لے کر ڈاکٹر منوج ماتھر کی رہائش گاہ پر پہونچا اور انہیں کیپٹل ہوٹل پر آنے کی استدعا کی۔ ڈاکٹر منوج ماتھر ان کا پروگرام پہلے سے طے کرچکے تھے لیکن کملیشور جی نے اس پروگرام کو فوقیت دی اور ہمارے ساتھ کیپٹل ہوٹل آ گئے جہاں ہم نے ان کا استقبال کیا۔ آج سوچتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ اسی ہندوستان میں کملیشور جی جیسے لوگ بھی تھے جنہیں نام و نمود، بھیڑ بھاڑ، کیمرہ، فلیش اور میڈیا کی خواہش نہیں رہی، تو میں اپنے آنسو نہیں روک پاتا ہوں۔ اس وقت وہ "ساریکا" چھوڑ چکے تھے۔ "کتھا ساگر" بھی بند ہو چکا تھا اور ایک ہفت روزہ "گنگا" کی اشاعت کر رہے تھے۔
2006ء میں وہ پھر سے بھوپال آئے۔ موقع تھا ساہتیہ اکیڈیمی نئی دہلی کے سہ روزہ سیمنار کا۔ وہ مجھ سے ملے، گلے لگایا۔ اس وقت کی تصویر میری البم میں موجود ہے۔ اس کے بعد ہی ان کی وفات ہو گئی۔

"ساریکا" ٹائمز آف انڈیا کا ایک بے حد مقبول ہفت روزہ تھا۔ جو کملیشور جی کی زیر ادارت شائع ہوا کرتا تھا۔ ٹائمز آف انڈیا کے منافع خور مالکان مارواڑی تھے۔ جن کا نظریہ محض تجارت تھا اور اس تجارت میں اگر ذرہ بھر بھی نقصان ہو تو وہ اپنے مفاد پر ہر شے قربان کر دیتے تھے۔ یہی کملیشور جی اور خوشونت سنگھ کے ساتھ بھی ہوا۔ جب ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو گئی اور بعد میں اندرا گاندھی کو شکست ہوئی اور ہندوستان تیرہ سیاسی پارٹیوں کے ملغوبے کے زیرا قتدار آ گیا تو صاف گو اور حقیقت پسند صحافیوں کا وجود ناقابل برداشت ہو گیا۔ اس کا سب سے پہلا نشانہ خوشونت سنگھ بنے اور پھر کملیشور۔ خوشونت سنگھ خاموشی سے ٹائمز آف انڈیا بلڈنگ کی سیڑھیوں سے اتر کر دہلی جا بسے لیکن کملیشور جی نے آسانی سے شکست قبول نہیں کی۔ وہ مارواڑیوں کی رگ و پے سے واقف تھے ، مالکان نے پین سی روڈ پر انہیں ایک شاندار فلیٹ دے رکھا تھا۔ کملیشور جی نے جب تک اس کا بھرپور معاوضہ وصول نہیں کر لیا، فلیٹ نہیں چھوڑا۔

شاید2005ء کی بات ہے۔ ڈاکٹر اصغر علی انجینئر نے بھوپال کے گاندھی بھون میں بوہرہ سماج (اینٹی سیدنا) کی انٹرنیشنل دوروزہ کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں کئی ملکوں کے مندوبین شریک ہوئے تھے۔ کملیشور جی بھی آئے تھے ، مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ وہاں میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اب ہریانہ کے سندر بن میں رہتے ہیں۔ ان کی بیٹی کی شادی بھوپال میں مقیم شاعر دشینت کمار کے بیٹے انل تیاگی سے ہوئی تھی۔

ساجد رشید نے اپنے ماہنامہ "نیا ورق" شمارہ نمبر 26، اپریل تا جون 2007ء میں کملیشور کا گوشہ شائع کیا تھا اور ساجد رشید نے ایک خاکہ نما مضمون کملیشور جی پر لکھا تھا۔

کملیشور ٹائمز آف انڈیا گروپ اور ساریکا کی ایڈیٹر شپ سے علیحدگی کے بعد تقریباً تہی دست ہو گئے تھے ، مگر چونکہ جرات مند انسان تھے اور ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق انہوں نے زمین کو اپنے قدموں کے تابع رکھا۔ "ساریکا" چھوڑتے وقت وہ ضروری تخلیقات کی فائلیں اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ اب ان کے سامنے دو محاذ تھے۔ ذہنی طور پر وہ تخلیق کار اور مدیر تھے۔ جو ان کی اسی حد تک کفالت کر سکتا تھا کہ مقبولیت زیادہ اور پیسہ کم ان کے دامن میں سما سکتا تھا۔ دوسرا محاذ زیادہ وقیع تھا اور وہ محاذ تھا سنیما اور فلم جس میں مقبولیت بھی تھی اور دولت بھی۔ انہوں نے دونوں محاذوں پر خود کو آزمایا اور کامیاب رہے۔

"ساریکا" چھوڑتے وقت جو غیر مطبوعہ تخلیقات کی فائلیں اپنے ہمراہ لیتے آئے تھے وہ ان کے کام آئیں۔ اب انہیں صحافت کی آزادانہ راہ متعین کرنا تھی۔ انہوں نے "کتھا یاترا" کی اشاعت کا منصوبہ تیار کیا اور جوہو پر واقع جانکی کٹیر میں واقع اپنے فلیٹ پر "یاترا" کا دفتر شروع کر دیا۔ چونکہ ان کے پاس اتنا سرمایہ نہ تھا کہ "کتھا یاترا" کی اشاعت کرنے میں کافی ہوتا۔ انہوں نے باہمی اشتراک Cooperative Bases پر عمل کیا اور قارئین سے اپیل کی کہ وہ حسب مقدور اس کے حصص میں حصہ لیں۔ تین سو روپے سے ایک ہزار روپے تک کے حصص مخصوص کئے گئے۔ چونکہ ان کے قارئین کی تعداد خاصی تھی اور یہ رقم کچھ اتنی زیادہ بھی نہیں تھی ، اس لئے حصص لینے میں کسی کو کوئی قباحت نہیں ہوئی اور "کتھا یاترا" منظر عام پر آ گیا۔ اس کے ناظم ہندی کے معروف ادیب راجندر بھاٹیہ تھے۔ جانکی کٹیر میں مینا کماری بھی رہی تھیں اور اسی جانکی کٹیر میں کفیی اعظمی بھی رہائش پذیر تھے۔

کملیشور جی کے ہمراہ صحافت کا ایک وسیع تجربہ تھا اور وہ بذات خود بھی ایک دیدہ ور فنکار، قلم کار اور تصنیف کار تھے، اس لئے "کتھا یاترا" کی پہلی اشاعت ہی ملک کے ہر ہندی قاری کو متاثر کر گئی۔ اس کے پہلے شمارہ کا سرورق مشہور پینٹر مکن مکھ پادھیائے نے تیار کیا تھا۔ لیکن شومی قسمت کہ "کتھا یاترا" اپنی یاترا مکمل نہیں کر پایا اور چندحاسدوں کی مخالفانہ سرگرمیوں کی وجہ سے چوتھے شمارے کے بعد "کتھا یاترا" بند ہو گیا۔ 1980-81ء میں ایک پبلیشر نے ہندی ہفت روزہ نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ پبلشر مراٹھی اور گجراتی زبانوں میں بےحد مقبول ہفت روزہ نکالتا تھا۔ ہندی ہفت روزہ کی ایڈیٹر شپ کے لئے کملیشور کا انتخاب کیا گیا اور ہندی ہفت روزہ "شری ورشا" کملیشور کی زیر ادارت شائع ہو گیا۔
ساجد رشید سے چونکہ کملیشور جی کے مراسم تھے اور ساجد رشید ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اس وقت ساجد رشید کی کہانیاں شائع ہونے لگی تھیں۔ ساجد رشید کی خواہش پر کملیشور جی نے انہیں "شری ورشا" میں بطور مدیر معاون جگہ دے دی لیکن ساجد رشید نے جب اردو کادمی مہاراشٹر کے سکریٹری خواجہ عبدالغفور کی انانیت اور علاقائی پرستی کی خود نمائی کے خلاف ایک تنقیدی رپورٹ "شری ورشا" میں شائع کردی تو مخالفوں کے منہ میں زبان آ گئی۔ چونکہ کملیشور جی اپنی فلموں کے اسکرپٹ کی تکمیل میں زیادہ مصروف رہنے لگے تھے اور "شری ورشا" کی ذمہ داریاں اپنے معاونین پر ڈال رکھی تھیں، لہٰذا مخالفوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور مراٹھی ہفت روزہ کے ایڈیٹر نے گجراتی مالک کو کملیشور جی کے خلاف کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندی ہفت روزہ "شری ورشا" کی ادارت سے کملیشور جی کو بے دخل کر دیا گیا۔ یہ ہفت روزہ صرف ایک سال جاری رہ سکا تھا۔

کملیشور جی کے ہم عصر راجندر یادو، موہن راکیش جیسے ہندی کہانی کار اور ناٹک کار تھے۔ انہوں نے 1955ء میں ہندی کہانی کی تحریک شروع کی تھی جو بحث کا موضوع بنی تھی۔ اسی تحریک کے دوران 1957ء میں جب انہوں نے "راجہ نرسمہا" کہانی لکھی اور اس کہانی کی اشاعت ہوئی تو اچانک کملیشور جی ہندی کہانی کے نمایاں کہانی کار بن گئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب بھی ادب کو تضحیک کا نشانہ بنتے دیکھتے تو ان سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ اس کے خلاف ایک محاذ قائم کر لیتے تھے۔
1960ء میں جب جدیدیت کو پھر سے زندہ کیا گیا اور ہندی ساہتیہ کو آدھونک کرن سے جوڑا گیا تو انہوں نے اسے نام نہاد ساہتیہ کاروں کی بے معنویت راگنی سے نسبت دے کر بے حد تلخ مضمون لکھا جو "دھرم یگ" میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت دھرم یگ کے مدیر یدھ ویر بھارتی تھے جو بذات خود جدیدیت کے حامی شاعر تھے مگر انہوں نے یہ مضمون بہت ایمانداری سے دھرم یگ میں شائع کیا تھا۔ شاید وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ دیکھیں ہندی کے ان ساہتیہ کاروں پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے جنہوں نے ہندی کہانی میں جدیدیت کی تحریک اٹھائی ہے۔
مضمون کا شائع ہونا تھا کہ ایک ہنگامہ بپا ہو گیا جس نے ہندی ادب کی جدیدیت کی بنیاد ہلا دیں۔ کملیشور جی جدیدیت کے ایک حد تک قائل تھے۔ بے معنی اور لا یعنی کہانیوں کو جنہیں جدیدیت سے جوڑ کر بے حد ترقی پسند ہونے کا ڈھونگ رچایا جا رہا تھا وہ اس کے نہ تو حامی تھے اور نہ اس کے قائل۔ وہ کہانی میں توازن چاہتے تھے اور یہی توازن ان کی کہانیوں کو قاری سے نزدیک تر لاتا ہے۔ روایت اور جدیدیت ان کی کہانیوں کی ترازو کے دو پلڑے ہیں جن کا پاسنگ برابر ہے۔ وہ کئی رسائل کے مدیر رہے۔ ان کی کہانیوں کے دس سے زیادہ مجموعے شائع ہوئے اور کئی ناولیں بھی۔

ساریکا سے دستبردار ہونے اور کتھا یاترا شروع کرنے سے قبل انہیں دور درشن ممبئی میں بطور ڈائریکٹر ملازمت دے دی گئی اور دور درشن پر انہوں نے اپنا مقبول عام پروگرام "پری کرما" جب شروع کیا تو اس کی شہرت اتنی ہوئی کہ لوگ اسے دیکھنے کے منتظر رہنے لگے۔

ان کا سب سے مقبول عام ناول "اور کتنے پاکستان " ہے۔
جس نے ان کی مقبولیت میں نہ صرف بے پناہ اضافہ کیا بلکہ اس ناول سے ان کی فکر، سوچ اور تخلیقی احساس ایک جمال کی تربیت کی مانند پیش ہوا ہے۔ اس ناول میں کہیں بھی انسان چوٹ محسوس نہیں کرتا۔ فکر کی تازہ کاری کے ساتھ گمبھیر مسائل حقیقتوں کا گمان بنتے ہیں۔ لہجہ اونچا ہوا ہے تو احتجاج میں ترسیل کی آسانیاں بھی اجاگر ہوئی ہیں۔ اس ناول نے ہندی ناولوں میں سب سے زیادہ فروخت ہونے کا ریکارڈ بھی قائم کیا تھا۔ 2003ء میں اس ناول پر ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ بھی انہیں دیا گیا تھا۔ حکومت ہند نے 2006ء میں انہیں پدم بھوشن کے سرکاری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

کملیشور جی جب ساریکا سے وابستہ تھے تبھی بمبئی سنیما ان کی تخلیقی صلاحیتوں سے آگاہ ہو چکا تھا ، اور انہیں فلمیں ملنے لگی تھیں۔ انہوں نے کئی فلمیں لکھیں جو کامیاب بھی رہیں۔ ان فلموں کی کامیابی نے ان کے لئے مزید فلمی شاہراہیں ہموار کر دیں۔
فلمی اسکرپٹ اور مکالمہ نویسی سے جو پیسہ ملا اسی سے انہوں نے "کتھا یاترا" نکالی تھی مگر زیادہ دیر وہ قائم نہ رہ سکی۔
1980ء میں جب بمبئی دور درشن نے انہیں اپنی سرکاری ملازمت میں لیا تو انہوں نے سکون کی سانس لی کیونکہ بمبئی سنیما کے ایسے فلمساز ان سے اپنی فلمیں لکھوانے کے خواہش مند تھے جو موضوع، کہانی اور کاسٹ ہر لحاظ سے بے معنی اور فضول تھیں اور کملیشور جی مروت اور مزاج کے اعتبار سے انہیں قبول کرنے پر مجبور ہو رہے تھے۔ دور درشن نے انھیں اس بھنور سے نکال لیا اور ملازمت کی مصروفیات کا ایک بہانہ انہیں مل گیا اور وہ نام نہاد فلمسازوں سے نجات پا گئے۔ کچھ فلمیں ایسی تھیں جنہیں ہر حال میں انہیں مکمل کرنا تھا۔ ان فلموں کی تعداد تقریباً پانچ تھی۔ انہوں نے انہیں مکمل کیا اور پھر انہوں نے دور درشن جوائن کرلیا۔
اپنی ملازمت سے وہ بے حد خوش تھے اور ایک سکون کا احساس ان کے اندر جاگزیں تھا۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:
"دل میں کچھ آدرش تھے۔ سامنے کچھ اصول بھی تھے، زیادہ کار گر طریقے سے جینے اور کام کرنے کے مواقع تھے اور میں دور درشن میں یہی طے کر کے گیا تھا کہ ہندوستانی دور درشن کو سماجک اور ثقافتی تبدیلیوں کا ایک طاقتور میڈیم بناؤں اور اس کا گہرا رشتہ اور رابطہ ہندوستانی ادب، اسٹیج اور عوامی ثقافت سے جوڑوں گا تاکہ دور درشن فلمی اور تجارتی روابط میں خود کفیل ہو سکے۔ اطمینان بخش بات یہ تھی کہ اس غیر معمولی اور ناقابل عمل عزم کو صورت گری دینے میں، مجھے ہمارے محکمہ اطلاعات و نشریات کے وزیر شری وسنت ساٹھے اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کا مکمل تعاون اور پوری طرح کام کرنے کی آزادی تھی۔"
(ماخوذ: اتنے اچھے دن۔ کہانی کا مجموعہ صفحہ 102)

کملیشور ایسے کہانی کار تھے جنہیں اپنی تخلیق کے اندر اور تخلیق کے باہر دونوں طرح سے جینا پڑتا تھا۔ دونوں ہی گمبھیر حالات ہوتے ہیں، ایک تخلیق کار کے لئے۔ ایک کہانی تو تخلیقی سطح پر لکھی جاتی ہے اور دوسری گہرے اور عمیق فکر و فہم سے لکھی جاتی ہے۔

کملیشور جی کا تعلق کائستھ گھرانے سے تھا۔ اعلیٰ تعلیم پانے کے بعد انہوں نے طویل جدوجہد میں زندگی گزاری اور بالآخر انہیں اس جدوجہد کا بہترین صلہ ملا۔ وہ ہندی اور اردو میں یکساں طور پر بطور ناول نگار و کہانی کار مقبول ہوئے۔ انہوں نے کئی فلموں کے اسکرپٹ ، منظر نامے اور مکالمے لکھے اور ان کی لکھی ہوئی فلمیں نہ صرف پسند کی گئیں بلکہ کچھ فلموں کو کلاسک میں بھی شمار کیا گیا۔
گلزار نے اپنا فلمی کیریر فلم گیت کار سے شروع کیا تھا پھر انہوں نے فلمسازی میں فلم "میرے اپنے" (1971ء) سے اپنا مقدر آزمایا اور خلاف امید کامیاب رہے۔ اس کامیابی نے ان کے لئے فلسمازی کا میدان ہموار کر دیا۔ انہوں نے کملیشور جی کے دو ناولوں کا انتخاب کیا اور ان پر پوری تکنیکی صلاحیتوں کو برائے کار لاکر کامیاب فلمیں بنائیں۔ گلزار کی وہ دو فلمیں "آندھی" اور "موسم" ایسی فلمیں ہیں جو گلزار کی فلمسازی اور ہدایت کاری کی اہم ترین فلمیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ یہ دونوں فلمیں کملیشور جی کی ناول پر مبنی تھیں۔

مجھے یاد ہے، فلم آندھی 1974ء میں کملیشور جی نے بھوپال ہی میں لکھی تھی۔ اور فلم کا منظر نامہ اور مکالمے بھی کملیشور جی نے ہی لکھے تھے۔ اس طرح موسم بھی کملیشور جی نے ہی لکھی تھی لیکن ان دنوں فلموں کی کاسٹ میں بطور مکالمہ نویس اور اسکرپٹ رائٹر گلزار کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ہماری فلموں کا وہ چلن ہے جسے عرف عام میں آنکھ سے کاجل چرا لینا کہتے ہیں۔ کملیشور جی ایک دیدہ ور فنکار تھے۔ انہوں نے کبھی صلے کی پرواہ نہیں کی لیکن بہرحال پیسہ تو کمزوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ آدمی کو اس کی خاطر سمجھوتا کرنا ہی پڑتا ہے۔ کملیشور جی کی فلموں کی تعداد تو کافی ہے لیکن میں یہاں چند قابل دید فلموں کا ہی ذکر کیا جا رہا ہے۔

** 1969ء "سارا آکاش" سنے آئی فلمز ممبئی۔ ہدایت:باسو چٹرجی (یہ فلم راجندر یادو کی ناول"سارا آکاش" پر مبنی تھی۔ ( منظر نامہ۔ مکالمہ)
** 1971ء "پھر بھی"۔ چھبی بھارتی بمبئی۔ ہدایت: شویندر سنہا۔ (کہانی)
** 1975ء "آندھی" فلم یگ ممبئی۔ ہدایت: گلزار
** 1975 "امانش" شکتی فلمز ممبئی۔ ہدایت: شکتی سامنت۔ (مکالمے)
** 1975ء "موسم"۔ فلم یگ ممبئی۔ ہدایت: گلزار
** 1978ء "تمہاری قسم"۔ ایسوسی ایٹ فلمز اینڈ فائنانس کارپوریشن ممبئی۔ ہدایت: روی چوپڑہ ( منظر نامے، مکالمے)
** 1978ء "ساجن بنا سہاگن" مرکری پروڈکشن ممبئی۔ ہدایت: ساون کمار۔ (منظر نامہ، مکالمے)
** 1979ء "ہم تیرے عاشق ہیں"۔ پریم ساگر فلمز ممبئی۔ ہدایت: پریم ساگر (منظر نامہ، مکالمے)
** 1980ء"ساجن کی سہیلی"۔ مرکری پروڈکشن ممبئی۔ ہدایت: ساون کمار۔(منظر نامہ، مکالمے)
** 1980ء "رام بلرام" ، نوجیون فلمز ممبئی۔ ہدایت: وجے آنند (مکالمے)
** 1980ء "دی برننگ ٹرین"۔ بی آر فلمز ممبئی۔ ہدایت: روی چوپڑہ (مکالمے)
** 1981ء "برسات کی ایک رات"۔ شکتی فلمز ممبئی۔ ہدایت: شکتی سامنت (مکالمے)
** 1982ء "ڈاٹورس" (طلاق) میواڑ فلمز ممبئی۔ ہدایت: این ڈی کوٹھاری (منظر نامہ، مکالمے)
** 1983ء "سوتن"۔ مرکری ہروڈکشن ممبئی۔ ہدایت: ساون کمار (مکالمے)
** 1983ء "رنگ برنگی"۔ راجوی پکچرس ممبئی۔ ہدایت: رشی کیش مکر جی۔ (منظر نامہ ، مکالمے)
** 1984ء "لیلیٰ"۔ ساون کمار فلمز ممبئی۔ ہدایت: ساون کمار (مکالمے)
** 1984ء "یہ دیش" بھارتی انٹر نیشنل مدراس،ہدایت: ٹی راما راؤ ( مکالمے)
** 1989ء "سوتن کی بیٹی"۔ ساون کمار فلمز ممبئی۔ ہدایت:ساون کمار (مکالمے)
** 1993ء "کھلنائیکہ"۔ ساون کمار فلمز بمبئی۔ ہدایت: ساون کمار (مکالمے)

***
ماخوذ از کتاب: ادب سے فلم تک (سن اشاعت: 2017)
مصنف: رشید انجم

Kamleshwar, a solid pillar of Hindi journalism and short story.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں