اپنے زمانے کے مشاعروں کے سب سے مقبول اور سجیلی غزلوں کے شاعر تھے جنہوں نے 13/سال کی عمر سے اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے نشور واحدی کے فنی اسلوب کے متعلق کہا ہے کہ وہ زبان کے لحنی امکانات پر ایسی ہی گرفت رکھتے ہیں جیسا کہ انگریزی کا شاعر سوئن برن [Swin Borne]۔ ان کی 15 سے زائد تصنیفات طبع ہو چکی ہیں جن میں تین نثری تصانیف بھی شامل ہیں۔
نشور واحدی کی 38 ویں برسی پر ان کی مشہور اور غیرمطبوعہ غزلوں کا مجموعہ بعنوان "اشک چکاں سے عصر رواں تک" (سن اشاعت: نومبر 1999ء) شعر و شاعری سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کی خدمت میں تعمیرنیوز کی جانب سے بطور خراج عقیدت پیش ہے۔
تقریباً دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 7 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
نشور واحدی کی شخصیت اور فن پر تحریرکردہ درج ذیل اہل قلم کے مضامین اس کتاب میں شامل ہیں:
مولانا محمد رابع حسنی ندوی، شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر عبدالقوی دسنوی، ڈاکٹر سید عبدالباری، سید ابوالحسنات حقی، محمد امیر شرر، شمس تبریز خاں، پیام فتح پوری، نامی انصاری، شمیم عثمانی، کوثر جائسی اور انیس چشتی۔
حکیم فخر عالم (علی گڑھ)، نشور واحدی کے تعارف میں لکھتے ہیں ۔۔۔نشور واحدی نے ایک علمی، ادبی اور مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے والد جمیل احمد بھی شاعر تھے اور یکتا تخلص رکھتے تھے۔ نشور واحدی کے اسلاف صاحبِ طریقت اور صاحبِ سلسلہ رہے ہیں۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد درس و تدریس کو انہوں نے کسبِ معاش کا وسیلہ بنایا۔ ابتداً مدرسہ مصباح العلوم اور مدرسہ سبحانیہ میں مدرس رہے۔ 1930میں مدرسہ ضیاء العلوم کان پور کے منیجر کی دعوت پر کان پور آگئے اور 1940 میں گرو نارائن کھتری کالج کانپور میں اردو اور فارسی کے استاذ مقرر ہوئے، پھر 1947 میں حلیم مسلم کالج کا نپور منتقل ہوئے جہاں سے 30جون 1972 کو سبکدوش ہوئے۔
انہوں نے یونانی طب کے ساتھ ہومیو پیتھ بھی سیکھی تھی۔ اکثر غریبوں کو وہ ہومیو پیتھ کی دوائیں بھی دیتے تھے۔ مطب و معالجہ سے خاص شغف رکھنے کے باوجود تدریسی مشاغل اور شعری و ادبی مصروفیات کے باعث وہ اسے عملی طور پر زیادہ برت نہیں سکے۔
کانپور نشور واحدی کا وطنِ ثانی بن گیا تھا۔ 4جنوری 1983 کو اسی شہر میں انہوں نے آخری سانس لی اور اِسی کی مٹی کا حصہ بن گئے۔
نشور واحدی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر احمر لاری لکھتے ہیںنشور واحدی نے جس وقت شاعری کے میدان میں قدم رکھا اس وقت اقبال کی شہرت اپنے نقطۂ عروج پر تھی۔ نشور واحدی اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں اقبال سے بے حد متاثر تھے۔ "صہبائے ہند "اور "شورِ نشور" کی نظمیں طرزِ فکر ،طرزِ احساس، طرزِ اداہر لحاظ سے اقبال کی نظموں کی یاد دلاتی ہیں ،لیکن یہ نظمیں صرف اقبال کی نظموں کی باز گشت نہیں، ان میں میں نشور کی آواز کی کھنک بھی شامل ہے۔ "صہبائے ہند" کی غزلوں میں بیشتر عارفانہ رنگ نمایاں ہے، نظموں میں اگر وہ اقبال سے متاثر تھے تو غزلوں میں جگر سے، اپنی ایک فارسی رباعی میں میں انہوں نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔
ان کا تیسرا مجموعہ "آتش و نم" 1946 میں منظرِعام پر آیا۔ یہ مجموعہ ان کے پچھلے مجموعوں سے یکسر مختلف ہے، اِس میں وہ اقبال کے سحر سے آزاد ہو چکے ہیں اور اُن کی انفرادیت پورے طور پر نمایاں ہو گئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ "آتش و نم" میں نشور نے مفکر شاعر کا لبادہ اتار دیا ہے اور وہ ایک نیم رومانی اور نیم حقیقت پسند شاعر کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ زبان اور اسلوب کے لحاظ سے یہ مجموعہ پچھلے مجموعوں سے مختلف ہے، اِس کی زبان میں ہندوستانی رنگ نمایاں ہے اور لہجہ نرم و شیریں ہے۔ "آتش و نم" میں خاصی تعداد میں نظمیں بھی ہیں، لیکن بعد میں نشور نے غزل ہی کو اپنی شخصیت کے اظہار کا وسیلہ بنایا، ان کے بعد کے مجموعے "فروغِ جام" 1959 ، "سوادِ منزل" 1968، "گل افشانئ گفتار" 1977 بیشتر غزلوں ہی پر مشتمل ہیں۔ چنانچہ غزل گو ہی کی حیثیت سے نشور کو اردو شاعری میں ایک امتیازی اور منفرد مقام حاصل ہے۔
***
نام کتاب: اشک چکاں سے عصر رواں تک (غزل مجموعہ)
مصنف: نشور واحدی
تعداد صفحات: 204
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 7 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Nushur Wahidi Ghazal Collection.pdf
Ashk-e-chakaaN se Asr-e-rawaaN tak, A Ghazal collection, by: Nushur Wahidi, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں