برصغیر میں اردو صحافت کی تاریخ کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے صحافی تھے جن کی تصنیفات کو آج بھی بطور حوالہ استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومتِ ہند کے محکمہ پی۔آئی۔بی (پریس انفارمیشن بیورو) کے شعبہ اردو کے چیف کی حیثیت سے وہ سبکدوش ہوئے تھے۔ حیدرآباد کے مقبول روزنامہ "منصف" میں بھی عرصہ دراز تک نمائندہ دہلی کی حیثیت سے مختلف سیاسی و صحافتی مضامین تحریر کرتے رہے۔
جی۔ڈی۔چندن کی دسمبر 1992ء میں شائع شدہ ایک اہم اور یادگار کتاب "جامِ جہاں نما (اردو صحافت کی ابتدا)" نوجوان اردو صحافیوں اور محققین کی خدمت میں تعمیرنیوز کی جانب سے پیش ہے۔
ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 11 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اس کتاب کے تعارف میں صاحبِ کتاب لکھتے ہیں ۔۔۔اس کتاب میں اردو کے پہلے اخبار "جام جہاں نما" کے پس منظر اور اس کے اپنے زمانے کے صحافتی ماحول، بالخصوص قومی لسانی صحافت کے حالات بھی پیش کیے گئے ہیں تاکہ اس اخبار کی ہستی اور وقعت کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
یہ نئی معلومات ظاہر کرتی ہے کہ "جام جہاں نما" کے بارے میں مروجہ نظریات حقیقت سے دور ہیں اور اردو صحافت کی عمارت کی یہ پہلی اینٹ سیدھی نصب نہیں کی گئی۔ اس کے نتیجے میں اردو صحافت کے قاری اور طالب علم آج تک مسلسل گمراہی کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
یہ کتاب صرف "جام جہاں نما" کی روداد ہی نہیں بلکہ اس میں اردو صحافت کی ابتدا، اردو سماج کے ارتقا اور ان کے سیاق میں پیدا ہونے والے جدید ہندوستان کے کئی اہم مسائل کی مبادیات کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ ہم نے نئے ہندوستان کی تشکیل، ایک سامراج پسند برطانوی تجارتی کمپنی کے مغلیہ عہد کے زوال اور ملک کے اندرونی انتشار کے سبب حاصل کردہ اقتدار کی ستم رانیوں اور اٹکھیلیوں کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس اقتدار کی مخالفت کئی اولین فارسی اخباروں نے کی تھی۔ ان اخباروں کی پشت پر ایک بالغ قلمی صحافت تھی جس کی جانشین اردو صحافت بنی۔
جی۔ڈی۔چندن کا تعارف کرواتے ہوئے ممتاز صحافی سہیل انجم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔ان کا پورا نام گوربچن داس چندن تھا اور جی۔ ڈی۔ چندن کے نام سے مشہور تھے۔ ان کے دوست احباب اور بے تکلف ملاقاتی ان کو "چندن صاحب" کہا کرتے تھے۔ جس طرح چندن کی لکڑی بہت قیمتی ہوتی ہے اسی طرح چندن صاحب کی ذات بھی اردو صحافت کے تعلق سے بہت اہم تھی۔
انھوں نے اگرچہ کسی بڑے اخبار کے دفتر میں زیادہ کام نہیں کیا تھا تاہم اردو صحافت کی تاریخ کا جتنا علم ان کو تھا ہندوستان اور پاکستان میں شائد ہی کسی اور کو ہو۔ ان کی تصنیفات بے حد مقبول ہیں جنھیں حوالوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ 8 اکتوبر 1922 کو لاہور کے باغباں پورہ گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے تقسیم سے قبل لاہور کے انگریزی روزنامہ "سول اینڈ ملٹری گزٹ" میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے اور روزنامہ 'ساگر' لاہور میں "ایڈیٹر" کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔
انھوں نے اپنے آبائی وطن باغباں پورہ سے منسوب کرتے ہوئے "باغباں پورہ کی آواز" نامی ایک ہفت روزہ اخبار بھی جاری کیا تھا جو جلد ہی بند ہو گیا۔ ان اخباروں سے ان کی وابستگی زیادہ عرصے تک نہیں رہی۔ 1947ء میں وہ ہجرت کرکے ہندوستان آ گئے۔ اس وقت دہلی سے ایک ہفت روزہ اخبار "نیشنل کانگریس" نکلتا تھا۔ انھوں نے اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھال لی۔ لیکن کسی اچھی ملازمت کی تلاش جاری رکھی، جو بالآخر پوری ہوئی۔
انھیں 1948 میں حکومت ہند کے ایک باوقار ادارے پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) میں ملازمت مل گئی جہاں وہ اردو آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ اگست 1980 میں پی آئی بی کے شعبہ اردو کے چیف کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ ا س کے بعد ایک عرصے تک حیدرآباد کے معروف اخبار "منصف" کے دہلی میں نمائندے رہے۔
چونکہ وہ پی آئی بی میں اردو آفیسر تھے لہٰذا پورے ملک کے اردو اخباروں اور صحافیوں سے ان کا رابطہ تھا۔ دہلی و بیرون دہلی کے بہت سے ایڈیٹر اپنے کام اور اپنی ضرورتوں کے تحت ان کے دفتر میں ان سے ملتے تھے۔ جس کی وجہ سے ہندوستان بھر سے نکلنے والے اردو اخباروں کے بارے میں ان کی معلومات وسیع ہوتی گئیں۔ جو آگے چل کر ان کے بہت کام آئیں۔ پی آئی بی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے آر این آئی کی سالانہ رپورٹوں تک رسائی ان کے لیے بہت آسان تھی۔ وہ ہر سال کی رپورٹ کا مطالعہ کرتے اور اس کی روشنی میں رپورٹ اور مضامین تیار کرتے جو سند کا درجہ رکھتے تھے۔
***
نام کتاب: جامِ جہاں نما (اردو صحافت کی ابتدا)
مصنف: گربچن چندن (جی۔ڈی۔چندن)۔
تعداد صفحات: 250
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 11 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Jaam E Jahan Numa by Gurbachan Chandan.pdf
جامِ جہاں نما (اردو صحافت کی ابتدا) :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | تعارف | 9 |
1 | پہلا باب: اردو کا سب سے پہلا اخبار | 15 |
2 | دوسرا باب: پس منظر | 34 |
3 | تیسرا باب: ہری ہردت اور سدا سکھ لعل | 71 |
4 | چوتھا باب: جام جہاں نما پر چیف سکریٹری ڈبلیو۔بی۔بیلی کا تبصرہ | 108 |
5 | پانچواں باب: خبروں کے نمونے | 146 |
6 | چھٹا باب: حکومت سے تعلقات | 177 |
7 | ساتواں باب: اخبار کا نیا دور | 201 |
8 | آٹھواں باب: اردو صحافت کا نقشِ اول | 221 |
9 | کتابیات | 248 |
Jaam E Jahan Numa (the beginning or Urdu Journalism), by: Gurbachan Chandan, pdf download.
لاجواب تحقیقی کارنامہ
جواب دیںحذف کریں