چھبیس (26) جنوری 1950 - ہندوستان کا دستور - تشکیل اور مقصد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-01-24

چھبیس (26) جنوری 1950 - ہندوستان کا دستور - تشکیل اور مقصد

26-january Constitution of India
1922ء میں مہاتما گاندھی کے ذہن میں پہلی بار ایک ایسی دستور ساز اسمبلی کا خیال آیا جسے عوام نے منتخب کیا ہو۔ انہوں نے کہا:
"سوراج(آزادی) برطانوی پارلیامنٹ کا کوئی مفت تحفہ نہیں ہوگا بلکہ یہ ہندوستان کی مکمل خود مختاری کا اعلان ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ یہ آزادی برطانوی پارلیامنٹ کے قانون بنانے کے بعد ملے گی، لیکن یہ قانون ہندوستانی عوام کی خواہشوں کی محض اخلاقی توثیق ہوگی جیسا کہ جنوبی افریقہ کی یونین کے ساتھ ہوا ہے۔"

تاہم 1935ء سے پہلے انڈین نیشنل کانگریس نے اس مانگ کو باضابطہ اور زوردار طریقے سے پیش نہیں کیا۔ شری جواہر لال نہرو نے جنوری 1938ء میں لکھا:
"نیشنل کانگریس ملک کی آزادی اور جمہوری حکومت کا قیام چاہتی ہے ، اس کی تجویز ہے کہ آزاد ہندوستان کا دستور کسی بیرونی مداخلت کے بغیر ایک دستور ساز اسمبلی کے ذریعہ بنایا جائے جس کو بالغوں کی حق رائے دہندگی کے ذریعہ چنا گیا ہو۔ یہی جمہوری طریقہ ہے اور حسبِ خواہش نتائج حاصل کرنے کے لئے اس کے علاوہ سوائے انقلاب کے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ایسی منتخب کی ہوئی اسمبلی تمام لوگوں کی نمائندگی کرے گی اور عوام کے عام معاشی اور سیاسی مسائل میں چھوٹے فرقہ وارانہ مسائل کے بہ نسبت جو چھوٹے گروہوں کو متاثر کرتے ہیں، بہت زیادہ دلچسپی لے گی، اس طرح بغیر کسی خاص دقت کے یہ اسمبلی فرقہ وارانہ اور اسی طرح کے دوسرے مسائل کو حل کرسکے گی۔"

دوسری جنگ عظیم تک برطانوی حکومت نے دستور ساز اسمبلی کے قیام کے مطالبے کی مخالفت کی ، لیکن جنگ اور بین قومی حالات نے ایسی صورت پیدا کر دی جس نے چرچل حکومت کی بھی آنکھیں کھول دیں۔ کرپس پلان [ Cripps Mission] نے جنگ بندی کے فوراً بعد ملک کے لئے ایک نیا دستور بنانے کے لئے ایک انتخابی مجلس کو قائم کرنا چاہا، لیکن یہ پلان پایہ تکمیل تک نہ پہونچ سکا۔ 15/مارچ 1946ء کو مسٹر اٹیلی [Clement Attlee] لیبر پارٹی کے وزیر اعظم نے دارالعلوم (ہاؤس آف کامنز) میں اعلان کیا:
" اس میں تعجب کی کیا بات ہے ، اگر آج چالیس کروڑ افراد پر مشتمل قوم کی حیثیت سے ہندوستان جس نے اپنے سپوتوں کو دو بار آزادی کے لئے جان دینے کے لئے بھیجا ہے ، یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے آزاد ہونا چاہئے۔ موجودہ حکومت کی جگہ کس قسم کی حکومت لے گی اس کا فیصلہ ہندوستان کرے گا۔ لیکن یہ ہماری خواہش ہے کہ ایسی مشینری جو یہ فیصلہ کرے گی اس کے فوری قیام میں ہم اس کی مدد کریں۔"

بندشوں کے ساتھ وجود میں آنا
کیبنٹ مشن پلان کے مطابق 1946ء میں دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی۔ یہ خود مختار مجلس نہ تھی، بنیادی اصول اور طریقہ کار دونوں لحاظ سے یہ "بندشوں کے ساتھ وجود میں آئی"۔ اس کے ماسوا اس کے بنائے ہوئے آئین کی منظوری کا آخری اختیار برطانوی پارلیمنٹ کو تھا۔

ان نامناسب شرائط کے باوجود کانگریس نے دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونا منظور کر لیا۔ مسلم لیگ نے 6/دسمبر 1946ء کے اعلان کے باوجود اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا جس میں عملی طور پر تقریباً وہ تمام باتیں منظور کر لی گئی تھیں جن کا مطالبہ لیگ کرتی تھی۔ یہ (مسلم لیگ) اپنے ابتدائی مطالبے پر مصر ہوئی جس کے مطابق "مسلم قوم" ایک دستور بنانے والی کسی مجلس میں شریک نہ ہوگی۔ اس نے ہندوستان اور پاکستان کے لئے الگ الگ دو دستور بنانے والی مجلسوں کا مطالبہ کیا۔
حالات ایک جگہ پر رکے رہے حتی کہ 3/جون 1947ء کے پلان کے مطابق ملک تقسیم کر دیا گیا۔

خودمختار دستور ساز اسمبلی
انڈین انڈی پنڈنس ایکٹ 1947ء (ہندوستان کی آزادی کا قانون) نے کیبنٹ پلان مشن (وزارتی مشن) کی تجویز مسترد کر دی اور دستور ساز اسمبلی کو خود مختار شکل دے دی۔ 14/اگست 1947ء کو یہ اسمبلی حکومت ہند کی طرف سے اختیارات لینے کے لئے دوبارہ جمع ہوئی۔

دستور کی تشکیل
ہندوستان کی خود مختار دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اس کے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے ہندوستان کے لئے ایک غیر طبقہ واری سماج کا تذکرہ کیا اور کہا کہ یہ ایک ایسی دولت مشترکہ ہوگا جسے سبھوں کا تعان حاصل ہوگا اور اسمبلی کا سب سے اہم کام دستور بنانا ہوگا۔ اس کے دستوری ڈھانچے کی بنیاد اس وقت پڑی جب اس کے مقاصد کا ریزرویشن (قرا ر داد) شری جواہر لال نہرو نے پیش کیا، جس میں کہا گیا:
"خود مختار آزاد ہندوستان اس کے ملحقہ حصوں اور حکومت کے سارے اعضا کا اقتدار اور اختیار عوام سے مستنبط ہے۔ قانون اور عوامی اخلاق کا لحاظ رکھتے ہوئے ہندوستان کے سارے عوام کو سیاسی ، معاشی اور سماجی انصاف یکساں درجہ اور موقع اور قانون کی نظروں میں برابری، ہر آدمی کو خیالات، اظہار، یقین ، عقیدہ، عبادت، پیشہ، انجمن بنانے اور کام کرنے کی ضمانت دی جائے گی۔
اور
اقلیتوں، پس ماندہ اور قبائلی علاقوں اور دوسرے پس ماندہ طبقوں کا پورا تحفظ کیا جائے گا۔
اور
انصاف اور مہذب قوموں کے قانون کے مطابق جمہوریہ کے علاقوں کی سالمیت اور زمینی، سمندری اور ہوائی راستوں پر اس کے خود مختارانہ حقوق کی حفاظت کی جائے گی۔
اور
یہ قدیم ملک دنیا میں اپنی جائز اور باعزت جگہ حاصل کرتا ہے اور دنیا کے امن اور انسانیت کی بھلائی میں بہ رضا و رغبت پورا حصہ لینا چاہتا ہے"۔
مرکزی حکومت کے اختیارات کی کمیٹی ، مرکزی دستور کی کمیٹی، صوبوں کے دستور کی کمیٹی ، اقلیتوں اور بنیادی حقوق کی مشاورتی کمیٹی ، چیف کمشنروں کے صوبوں کی کمیٹی، مرکزی دستور میں مالیاتی تجویزوں کی کمیٹی اور قبائلی علاقوں کی کمیٹی کی رپورٹوں نے دستور کے لئے مسالہ اور اینٹ مہیا کیا لیکن آخری شکل و صورت ڈرافٹنگ کمیٹی (خاکہ تیار کرنے والی کمیٹی) نے دی جس کے صدر آنجہانی ڈاکٹر امبیڈکر تھے۔
دستور کا خاکہ آٹھ مہینوں کی محنت کے بعد تیار ہوا۔ اس کے ہر دفعہ کا دستور ساز اسمبلی نے جائزہ لیا اس پر جو تنقیدیں ہوئیں اس کی روشنی میں تبدیلیاں کی گئیں۔
26/نومبر 1949ء کو دستور ساز اسمبلی نے ہندوستانی عوام کے نام پر ہندوستانی عوام کے آزادی کے فرمان یعنی "دستورِ ہند" کو قانونی شکل دی اور منظور کیا۔
دستور دو برس گیارہ مہینے اور اٹھارہ دن کے بعد اپنی آخری شکل اختیار کر سکا۔ یہ 395 دفعات اور 8 شیڈول (فہرست بند) پر مشتمل ہے۔

دستور کا مقصد
  • سارے شہریوں کو
  • سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف حاصل ہو۔
  • خیال، اظہار، یقین ، عقیدہ اور عبادت کی آزادی حاصل ہو۔
  • یکساں درجے اور مواقع حاصل ہوں۔
  • اور ان کے درمیان ایسے برادرانہ تعلقات کو ترقی دی جائے جو فرد کے وقار اور قوم کی ایکتا قائم رکھنے کی ضمانت ہوں۔

بنیادی حقوق
(1) قانون کی نظروں میں برابری
(2) یکساں مواقع
(3) چھوت چھات کا خاتمہ
(4) آزادی کا حق جس میں آزادئ تقریر و اجتماع و پیشہ وغیرہ شامل ہے۔
(5) انفرادی آزادی اور زندگی کا تحفظ
(6) ناجائز، نفع گیری کے خلاف حق
(7) کسی بھی مذہب کو ماننے، اس پر عمل کرنے اور پرچار کرنے کی آزادی
(8) تعلیمی اور تہذیبی (کلچرل) حقوق
(9) جائداد رکھنے کا حق
(10) دستوری چارہ کار کا حق

***
ماخوذ از کتاب: ہندوستان کا دستور۔ (سن اشاعت: جولائی 1959)۔
طباعت زیر اہتمام: پبلی کیشنز ڈویژن۔ منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ، گورنمنٹ آف انڈیا۔

Constitution of India - Formation and Purpose.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں