ابو ایمل آزاد رپورٹر - سوشل میڈیا پر حیدرآباد کا مقبول صحافی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-12-17

ابو ایمل آزاد رپورٹر - سوشل میڈیا پر حیدرآباد کا مقبول صحافی

قبرستانوں پر قبضہ کی رپورٹ، ویران مساجد کی آبادی، سیلابی صورتحال سے دنیا کو واقف کروانے کی تگ و دو، متاثرین کی فلاح و بہبود ۔۔۔ ان سب کے پسِ پشت شخصیت: ابو ایمل؟ آخر یہ ہے کون؟
سوشل میڈیا پر جس طرح سے ابوایمل کی مقبولیت ہے، وہ بہت کم صحافیوں کے حصے میں آئی ہے۔ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے اپنے ہفت روزہ "گواہ" کے تازہ شمارہ (25/دسمبر/2020ء) میں ابوایمل کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے۔ جو "گواہ" کے شکریے کے ساتھ یہاں بھی پیش خدمت ہے۔
*کیا پریس کانفرنس میں ابو ایمل بھی آئیں گے؟
* قبرستانوں پر قبضہ کی رپورٹ ابو ایمل نے کیا زبردست پیش کی ہے۔
* جی ہاں۔۔۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، مسلم آبادی برائے نام ہے، ایک مسجد برسوں سے ویران ہے، ابوایمل آ جائیں تو آباد ہو جائے گی۔
* اچھا۔۔۔ ابوایمل آکسیجن سلینڈرس بھی دے رہے ہیں اور وہ بھی فری۔۔۔؟
* بھائی مان گئے۔۔۔ شہر سیلاب میں بہہ رہا ہے۔۔۔ لوگ اپنی جان بچانے کی فکر میں ہیں اور آزاد رپورٹر سینے برابر پانی میں ایک ایسی خدمت انجام دے رہا ہے، جو اس کا فریضہ نہیں۔ ہم سب سوشل میڈیا پر تباہی کی ویڈیو کلپس دیکھ رہے ہیں اور ہمارا آزاد رپورٹر حقیقی صورتحال سے واقف کروانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالے ہوئے ہے۔ ان کی وجہ سے پولیس، بلدیہ، سیاستداں، این جی اوز، سب ہی کی رہنمائی ہو رہی ہے۔ واہ بھائی واہ۔
* اور تھلیسیمیا کے مریضوں کو فری لنچ فراہم کرنے کی تحریک کی تو جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ آخر یہ ابوایمل ہے کون۔۔۔؟

بارہ پندرہ برس پہلے کی بات ہے، شاہ علی بنڈہ چوراہا سے فتح دروازہ جانے والے راستے کے درمیان ایک مزار ہے جس پر ہر روز ایک نیا بیانر نظر آتا تھا، جس پر سلگتے مسائل پر بہت اچھے اقوال لکھے ہوتے۔ ہر گزرنے والا چند لمحوں کے لئے رک کر بیانر دیکھتا اور دل ہی دل میں بیانر لگانے والے کو دعا دیتا ہوا گزر جاتا۔
ایک عجیب سا واقعہ پیش آیا۔ ایک شخصیت بہت ہی پابندی سے یہ بیانر پڑھتے تھے، اتفاق سے ان کے بھانجے نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا، چند دن بعد وہ اس حملے میں جاں بحق ہو گئے مگر آخری سانس لینے سے پہلے اس شخصیت نے اپنے ایک عزیز کو بلا کر وصیت کی کہ ان کی لائبریری میں جتنی کتابیں ہیں، اس شخص کو دے دی جائیں جو ہر روز ایک بیانر لگاتا ہے۔ وہ صاحب ڈھونڈتے ہوئے آئے، بیانر لگانے والے کا پتہ لگایا، اس سے ملاقات کی اور اس سے مرحوم کے گھر آنے کی درخواست کی۔ اور جب وہ گھر پہنچے تو 600 سے زائد قیمتی کتابیں ان کے حوالے کر دیں۔ ان میں سے کوئی 50 سے زائد کتابیں صرف حیدرآباد کی تاریخ پر تھیں۔
یہ بیانر لگانے والے نوجوان محمد اکرم علی تھے جن کی شاہ علی بنڈہ پر ہیرو سیکل کی ڈیلرشپ تھی۔ پبلک گارڈن کے سوپروائزر جناب محمد شریف علی کے وہ چوتھے فرزند ہیں۔ ان کے دیگر بھائیوں کے نام خورشید علی، خواجہ بابر علی، محمد مسعود علی ہیں۔
محمد اکرم علی کی ابتداء ہی سے کچھ اس طرح سے ذہنی اور فکری تربیت ہوئی تھی کہ ہر وقت وہ اپنی قوم کی اصلاح کے بارے میں سوچا کرتے۔ ان کی فکر ان کے بیانرس میں جھلکتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک بیانر میں کچھ اس طرح لکھا ہوا تھا:
"بہنو! پولیوشن سے بچنے کے لئے صحیح نوس پیس لگائیں۔"
احادیث اور بزرگان دین کے اقوال جیسے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کا قول کہ :
"بے نمازی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔"
کبھی خود اپنے خیالات کو پیش کرتے :
"بے نمازی کو مسلم قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔"

محمد اکرم علی نے جو اب ابوایمل کے نام سے ملک و بیرون ملک میں پہچانے جاتے ہیں، بتایا کہ انہوں نے 1400 سے زائد بیانر 8 سال کے عرصہ میں استعمال کئے۔ ایمل ان کے فرزند کا نام ہے اور اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔ ایمل دراصل اس فلسطینی مجاہد کا نام تھا جسے اسرائیلیوں نے زہر کا نجکشن دے کر شہید کر دیا تھا۔
ابو ایمل اکرم نے بتایا کہ وہ سیکل ڈیلر شپ سے ریئل اسٹیٹ کے میدان میں اترے، اللہ رب العزت نے اس میں غیر معمولی کامیابی دی اور انہوں نے توقع سے زیادہ پیسہ کمایا۔ اس دوران روزنامہ "منصف" کے چیف ایڈیٹر جناب خان لطیف خان مرحوم سے ان کے فارم ہاوز کی فروخت کے سلسلہ میں ملاقات ہوئی۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ خان صاحب مرحوم ان کی حیدرآباد سے متعلق معلومات سے متاثر ہوئے اور منصف سے وابستہ ہونے کا مشورہ دیا۔ جناب غضنفر علی خان اور سید ریاض احمد کی زیر تربیت وہ ایک سال تک رہے۔ ایک سال تک وہ بلا معاوضہ منصف کے لئے کام کرتے رہے۔
"ہجوم میں چہرہ" کالم میں 175 سے زائد شخصیات پر خاکے لکھے۔ ان کی مرتب کردہ کئی خصوصی رپورٹس منصف کے صفحات کی زینت بنیں۔ کسی وجہ سے وہ منصف کی خدمات سے سبکدوش ہو گئے۔ ڈاکٹرحسن الدین مرحوم نے جناب زاہد علی خان سے ان کا تعارف کروایا اور چار سال تک وہ سیاست میں نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے قبرستان پر ناجائز قبضوں، ویران مساجد اور ان کی حالت زار پر تحقیقاتی رپورٹس دیتے رہے اور پھر انہوں نے پرنٹ میڈیا چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
آج کی تاریخ میں وہ اس پر غور کرتے ہیں تو اس فیصلہ کو اپنی زندگی کا ایک بہترین فیصلہ تسلیم کرتے ہیں۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر جو آزادی ہے جو مواقع ہیں وہ پرنٹ یا خود الکٹرانک میڈیا میں اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا ایک بحر بیکراں ہے۔ اب یہ تیراک کے اسٹیمنا پر منحصر ہے کہ وہ کتنا فاصلہ طے کر سکتا ہے، کتنی گہرائی تک جا کر گوہر نایاب کا پتہ چلا سکتا ہے؟ آج فیس بک و انسٹاگرام پر ان کے لاکھوں فالوورز ہیں۔

ابوایمل نے بتایا کہ ان کے پاس تلنگانہ کی مساجد پر جتنا ریکارڈ موجود ہے، وہ نہ تو وقف بورڈ کے پاس ہے نہ ہی کسی اور کے پاس۔ اللہ رب العزت نے ان کے ذریعہ 34 غیر آباد مساجد کو آباد کرنے کی توفیق اور طاقت عطا کی۔ مزید 102 مساجد ابھی غیر آباد ہیں۔ آج تلنگانہ میں جہاں کہیں مساجد غیر آباد ہیں وہاں کے مسلمان انہیں وہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ یقین ہے کہ ابو ایمل آجائیں تو ان شاء اللہ ویران مساجد آباد ہو جائیں گی۔
نلگنڈہ، چیوڑلہ، میدک، ناگر کرنول، نادرگل کے علاوہ فلک نما پیالس کی 35 سال سے بند مسجد کو آباد کرنے پر جو قلبی طمانیت روحانی مسرت ہوئی ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
ابو ایل نے بتایا کہ چیوڑلہ سے 8 کلومیٹر کے فاصلہ پر سیتارام پور موضع میں ایک ویران مسجد تھی، وہاں کے مسلمانوں نے انہیں وہاں آنے کی دعوت دی جہاں جا کر انہوں نے حالات کا جائزہ لیا۔ گاؤں کے سرپنچ پانڈو رنگاریڈی سے اس سلسلہ میں بات کی تو سرپنچ نے کہا:
"صاحب جی، جب سے ہمارے گاؤں میں اذان کی آواز بند ہوئی تب سے ہمارے گاؤں سے برکت اٹھ گئی ہے"۔
ڈپٹی سرپنچ نے مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آج الحمدللہ یہ مسجد آباد ہے۔ وہاں کے مسلمانوں نے درخواست کی کہ ان کے بچوں کو عربی پڑھانے والا کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ وہاں عربی پڑھانے والے استاذ کا انتظام کیا۔ بچے اب عربی پڑھ رہے ہیں۔ ابو ایمل نے گاؤں والوں کے تعاون سے میڈیکل کیمپ کا اہتمام کیا۔ ہر گھر کو دو دو کمبل فراہم کئے، 170 اسکولی بچوں کو اسکول بیاگس فراہم کئے ۔ مسجد میں 100 کرسیاں رکھوائیں تاکہ کہیں کوئی تقریب ہو تو اسے استعال کیا جا سکے۔ ابو ایمل کا کہنا ہے کہ نیت اچھی ہو، ارادے مضبوط ہوں تو مدد الہی خود بخود آ جاتی ہے۔

ابو ایمل جو آزاد رپورٹر کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں اپنے "آزاد فاؤنڈیشن" کی جانب سے انہوں نے کئی رفاہی فلاحی کام کئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ COVID-19 لاک ڈاؤن کے دوران راشن کٹس تقسیم کئے گئے اور کئی دن تک سینکڑوں ہزاروں میل دور اپنے وطن پیدل واپس ہونے والے کم از کم 500 مزدوروں اور ان کے ارکان خاندان کو نیشنل ہائی وے پر ڈبل روٹی، پانی کی بوتلیں، اچار، جام اور موز تقسیم کئے گئے۔ کرونا متاثرین کے لئے فری آکسیجن سلینڈرس بلا لحاظ قوم و مذہب فراہم کئے گئے۔ لاک ڈاؤن کے دوران بنڈلہ گوڑہ کے علاقہ غوث نگر کے عوام نے انہیں بتایا کہ پیٹ بھرنے کے لئے خوراک تو مل رہی ہے مگر ان کے بچے عربی تعلیم سے محروم ہیں۔ چنانچہ غوث نگر میں پہلے ایک ملگی کرایہ پر لے کر عربی پڑھانے کا انتظام کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد دو ملگیاں ہو گئیں اور اب ایک مکان کرایہ پر لے کر وہاں عربی تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے جس میں 90 بچے پڑھ رہے ہیں۔

حالیہ بارش اور سیلاب کے دوران ایو ایمل یا آزاد رپورٹر کی خدمات ابھر کر سامنے آئیں۔ وہ علاقے جو پانی سے محصور تھے اور اب بھی ہیں، ان کی پردہ پوشی کی جا رہی تھی۔ ابو ایمل نے وہاں تک پہنچ کر اسے منظر عام پر لایا، احساس کو جگایا۔ بلدی عہدیداروں، سیاستدانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی اور آج عثمان نگر سے پانی کے اخراج کے لئے ہائی کورٹ کے احکام بھی جاری ہو چکے ہیں۔
مختلف مسلم جماعتیں جن میں تبلیغی جماعت، جمعیۃ علماء، جماعت اسلامی، ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن، ایکسس فاؤنڈیشن، ریڈ روز ٹرسٹ، سہایتہ ٹرسٹ کے کارکن انسانیت کی خدمات انجام دے رہے تھے تو ابو ایمل کا کیمرہ ان خدمات کو محفوظ کر رہا تھا اور ساری دنیا میں ہندو مسلم اتحاد اور مسلمانوں کی انسانیت نوازی کے پیغام کو عام کر رہا تھا۔
abu-aimal-azad-reporter
ایک ایسے وقت جب مفاد پرست سیاستداں ماحول کو زہرآلود کر رہے ہیں ابو ایمل کی رپورٹ ان کے منہ پر گویا طمانچہ کے مماثل تھی۔ 15/دسمبر کو تھلیسیمیا کے مریضوں کو شیورام پلی میں واقع تھلیسیمیا ہاسپٹل اینڈ سکل سیل سوسائٹی میں فری لنچ کا انہوں نے اپنے عزیز و اقارب کے باہمی تعاون سے آغاز کیا ہے۔
ابو ایمل نے اپنے کیریئر کے دوران کئی معرکے انجام دیئے۔ برسوں پہلے انہوں نے مائیکرو فنانس اسکیم شروع کی تھی اور غریب رکشا و ٹھیلہ بنڈی والوں، فٹ پاتھ پر کاروبار کرنے والوں کو پانچ پانچ دس دس ہزار روپے بلاسودی قرض فراہم کیا اور ان سے کہا تھا کہ وہ آسان اقساط میں یہ قرض واپس کر دیں۔ ان کی اس کوشش کو جناب جے۔ایس۔افتخار نے انگریزی روزنامہ "دی ہندو" میں "حیدرآباد کے محمد یونس" کی سرخی کے ساتھ پیش کیا تھا۔ افسوس کہ یہ تجربہ ناکام اور تلخ رہا کیونکہ کسی نے اپنا قرض واپس نہیں دیا۔
بالا پور کی مسجد کو شہید کیا گیا، اس مسجد کی تصویر ان کے پاس محفوظ ہے۔ یکخانہ مسجد عنبر پیٹ ہو یا سکریٹریٹ کی مساجد کی شہادت کے سانحے۔۔۔ اس جواں سال صحافی نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بڑی بےباکی کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ آئے دن تعریف بھی ہوتی ہے، دھمکیاں بھی ملتی ہیں، مگر ابو ایمل اکرم علی ایک مجاہد ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنی موت کا سوچتے رہتے ہیں۔

2007ء میں مکہ مسجد بم دھماکے کے بعد سنگباری کے واقعات میں وہ بھی زخمی ہوئے تھے۔ مختلف گوشوں سے اغوا و قتل کی دھمکیاں دی جا چکی ہیں مگر وہ ایو ایمل ہی کیا جو ان دھمکیوں سے گھبرا جائے جس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ مولانا نصیر الدین مرحوم کے ساتھ گزرا ہو، وہ کب اس کی پرواہ کرتے ہیں؟

ابو ایمل کی خدمات پر قومی اخبارات کئی بار خصومی مضامین لکھ چکے ہیں۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ایک طالب علم صدیق نے پروفیسر مصطفی علی سروری کی نگرانی میں ابو ایمل کی روزنامہ 'منصف' میں خصوصی تحقیقات پر 110 صفحات پر مشتمل مقالہ لکھا ہے۔

ابو ایمل کے صاجزادی دارین اکرم ولا میری کالج سے ایم۔سی۔جے کی تکمیل کر رہی ہیں اور فرزند اکرم سینٹ میری سے بی۔اے جرنلزم کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ ایک مکمل صحافی خاندان ہو چکا ہے اور ان کے بچوں کو اپنے والد سے ورثہ میں بے باکی، اپنی قوم کے لئے تڑپ ملے گی جس کی آج کے بیشتر صحافیوں میں کمی محسوس ہوتی ہے۔

یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہم اپنی توہین کرنے والے چینلس کے اینکرس کا تو احترام کرتے ہیں مگر اپنی قوم سے تعلق رکھنے والے بے باک حق پسند صحافیوں کی قدردانی کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ شاید ہمارے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ایو ایمل اس دور سے گزر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے اپنے آپ کو منوایا، یہ ثابت کیا کہ صلاحیت ہو تو کسی ادارے کے بغیر بھی خود اپنی ذات ایک ادارہ، انجمن اور تحریک بن سکتی ہے۔

بشکریہ : گواہ اردو ویکلی (25/ تا 31/ دسمبر 2020)
***
gawahurduweekly[@]gmail.com
فون : 040-24741243
سید فاضل حسین پرویز

Abu Aimal Azad Reporter, a dynamic and popular journalist from Hyderabad. Column by: Syed Fazil Hussain Parvez

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں