مندر ہزار ستون اور قلعہ ورنگل - سابق ریاست حیدرآباد میں بہتر نگہداشت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-02

مندر ہزار ستون اور قلعہ ورنگل - سابق ریاست حیدرآباد میں بہتر نگہداشت

warangal-fort-1000-pillars-temple
سابق ریاست حیدرآباد میں آصف جاہی حکمرانوں نے مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی صحت مند روایات کو کچھ اس طرح پروان چڑھایا تھا کہ سارے بر صغیر میں اس ریاست کی ہندو مسلم رعایا کے میل جول اور بھائی چارہ کی مثال دی جاتی تھی۔
یہاں عیدین، تیوہار اور خوشی کے مواقع سب مل کر منایا کرتے تھے۔ مسلمانوں کی عیدوں کی تقاریب بڑے پیمانے پر ہندو امرا کی کوٹھیوں پر بھی اور ہندو تیوہاروں کی تقاریب مسلمان امرا کی دیوڑھیوں پر منعقد ہوا کرتی تھیں۔
یوں تو سب ہی آصف جاہی حکمران اپنی رعایا کو بے حد عزیز رکھتے تھے لیکن آصف سادس نواب میر محبوب علی خاں اپنے مشفقانہ رویہ، وسیع القلبی اور مذہبی رواداری کے باعث اس سلسلہ میں خصوصی امتیاز رکھتے تھے۔ رعایا میں ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ رعایا انہیں ولی اور اوتار کا درجہ دیتی تھی۔
ان کی شخصیت اور ان کے ذاتی اوصاف نے اس دور کے ماحول اور حکومت کی مشنری کو متاثر کیا تھا۔ اس ہر دل عزیز والی ریاست کے اس کردار کو نمایاں کرنے والے متعدد واقعات قصہ کہانیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ جن کی صدائے بازگشت اب تک بھی حیدرآباد کے کتنے ہی گھرانوں کے بزرگوں کے توسط سے سنی جا سکتی ہے لیکن۔۔۔ اس مختصر مضمون میں آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز کی ایک مثل سے ایسا مواد پیش کیا جا رہا ہے جس سے آصف سادس کے زیر تبصرہ کردار پر روشنی پڑتی ہے۔
یہ مواد کچھ اس طرح ہے کہ رزیڈنسی کی جانب سے ریاست حیدرآباد کے آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات بالخصوص کاکتیہ دور کے آثار یعنی ہنمکنڈہ کے مندر ہزار ستون اور قلعہ ورنگل کی نگہداشت اور مرمت کے لئے حکومت ریاست حیدرآباد کی توجہ مبذول کروائی گئی تھی تو ریاست کے فرمان روا نواب میرمحبوب علی خاں نے بلاتامل حتی کہ کوئی استفسار کئے بغیر اس سلسلہ میں ضروری بندوبست کرنے کے احکام صادر کر دئے تھے۔
اس مثل کے تمام کاغذات کا بغور مطالعہ کرنے سے دو باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ انگریزوں نے آثار قدیمہ کی نگہداشت اور حفاظت کا ہمیشہ خیال رکھا اور ایک مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ آصف سادس نے ضروری کاروائی کے لئے جہان فرمان صادر کیا ریاست کے مدار المہام مہاراجہ سرکشن پرشاد کے پرائیوٹ سکریٹری فریدوں جی نے اس کارروائی میں دلچسپی لے کر بلا تاخیر کام کی تکمیل کے لئے متعلقہ عہدیداروں کو خصوصی ہدایات روانہ کیں جن پر عمل کرتے ہوئے ان عہدیداروں نے ضروری اقدامات کئے۔
حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے مندر ہزار ستون کی بہتر نگہداشت کے لئے پانچ ہزار روپے منظور کئے گئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عہدہ داروں کو اس سلسلہ میں اپنے حکمران کے مزاج، خیالات اور ان کی فکر مندی کا پورا پورا احساس تھا اور وہ ان کی مرضی اور منشا کے مطابق عمل کرنے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔
آرکائیوز کی مثل سے اس سلسلہ میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ سلسلہ وار پیش کی جارہی ہیں۔

رزیڈنسی سے میجر ڈبلیو ہیگ نے ایک مراسلہ مورخہ 29/سپٹمبر 1902ء فریدوں جی، پرائیوٹ سکریٹری، مدارالمہام مہاراجہ سر کشن پرشاد کے نام تحریر کیا تھا اس مراسلہ کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔

مسٹر ہور نے جو دکن میں گھومتے رہے ہیں اس علاقہ کے آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کا معائنہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے وائسرائے کے پرائیوٹ سکریٹری کے نام ایک مکتوب روانہ کیا ہے جس کے ذریعہ انہوں نے اس تاریخی ورثہ کی بہتر نگہداشت اور اسے محفوظ کروانے کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ انہوں نے خصوصیت کے ساتھ ہنمکنڈہ کے مندر ہزار ستون اور قلعہ ورنگل کا تذکرہ کیا ہے۔
ہنمکنڈہ کے مندر کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ جس جگہ یہ مندر واقع ہے اس جگہ سے مٹی کھود کھود کر لے جائی جا رہی ہے۔ اور تعمیری کاموں میں اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس طرح مٹی کھودنے کی وجہ سے مورتیوں کے ایک مجموعہ کی بنیاد متاثر ہوگئی ہے اور وہ قدرے جھک گئی ہیں تاہم وہ ابھی تک ایک مجموعہ کی شکل میں موجود ہے۔
مسٹر ہور نے لکھا ہے کہ فوری اور مناسب توجہ اس کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مورتیوں کا سب سے عمدہ مجموعہ بہتر حالت میں ہے لیکن کمتر درجہ کا مجموعہ بھی محفوظ رکھے جانے کے قابل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس مقام کو صاف ستھرا رکھاجانا چاہئے۔ اور اس کی احاطہ بندی کی جانی چاہئے۔
قلعہ ورنگل کے تعلق سے مسٹر ہور لکھتے ہیں کہ کوئی شوقین یا مہم پسند شخص تراشیدہ پتھر کے ٹکڑوں کو جو بکھرے پڑے ہیں متعدد بنڈیوں میں بھر کر آسانی سے لے جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے اس مکتوب میں تجویز کیا کہ قلعہ کے اندر کے مکانات کو منہدم کر دیا جائے اور پتھروں کو اکٹھا کرکے ان کی اصل جگہ پر رکھ دیا جائے۔

رزیڈنسی سے میجر ہیگ کے مراسلہ کی وصولی پر مدارالمہام مہاراجہ سرکشن پرشاد نے ایک عرضداشت میجر ہیگ کے مراسلہ کی نقل کے ساتھ آصف سادس کی خدمت میں پیش کی۔مہاراجہ اس عرضداشت مورخہ6/اکٹوبر 1902ء میں لکھتے ہیں:
"خانہ زاد کو بھی اس امر سے اتفاق ہے کہ ممالک محروسہ سرکارعالی میں جو آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات ہیں ان کی بطور وافی نگہداشت اور حفاظت کی جائے اور ایسے قدیم نادرۂ روزگار یادگاروں کو جن کے دیکھنے کے لئے دور دراز ملکوں سے سیاح لوگ آتے ہیں، ایسی مبتدل اورخراب حالت میں نہ رکھا جائے۔ انگریزی علاقہ جات میں جہاں ایسی آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات ہیں گورنمنٹ آف انڈیا انہیں بصرف کثیر محفوظ حالت میں رکھتی ہے۔ اگر ہمارے یہاں کے آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کی حفاظت اور نگہداشت کے لئے حکم قضا شیم نافذ ہو تو اس کے لئے ضروری بندوبست کیا جائے گا۔"

مہاراجہ نے مندرجہ بالا عرضداشت میں جس رائے کا اظہار کیا تھا آصف سابع نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے حسب ذیل فرمان مورخہ16/رجب 1220ھ م 8/اکتوبر 1902ء جاری کیا۔
"آپ کی رائے مورخہ 14/رجب المرجب 1320ھ سے مجھے پورا اتفاق ہے کہ ہمارے ممالک محروسہ کے آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کی بطور وافی نگہداشت و حفاظت کرنی ضروری ہے لہٰذا اس کے لئے ضروری بندوبست کیا جائے۔"

اس فرمان کے صادر ہونے پر فریدوں جی (پرائیویٹ سکریٹری مدار المہام مہاراجہ کشن پرشاد) نے ایک مراسلہ مورخہ 25/اکٹوبر 1902ء کے ذریعہ میجر ہیگ کو اطلاع دی کہ ہنمکنڈہ میں واقع مندر ہزار ستون اور قلعہ و رنگل کی حالت کے بارے میں انہوں نے جو مراسلہ روانہ کیا تھا اسے آصف سادس کے ملاحظہ کے لئے پیش کیا گیاتھا جس پر آصف سادس کے احکام وصول ہو چکے ہیں۔
آصف سادس نے مندر اور قلعہ کے بارے میں ضروری انتظامات کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ چناں چہ وہ حسب ہدایت ایک مراسلہ محکمہ تعمیرات کے نام روانہ کررہے ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ جلد ہی اس کی تعمیل ہوگی۔ فریدوں جی نے اسی دن ایک مراسلہ معتمد تعمیرات کے نام تحریر کردیا۔ انہوں نے اس مراسلہ کے ساتھ میجر ہیگ کے مراسلہ، مہاراجہ سرکشن پرشاد کی عرضداشت اور آصف سادس کے فرمان کی نقلیں بھی منسلک کردیں۔ فریدوں جی نے معتمد تعمیرات سے درخواست کی کہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات سے انہیں مطلع کیاجائے۔
فریدوں جی نے اپنے اس مراسلہ میں یہ بات بھی واضح کردی کہ صرف ضلع انجینئر کے نام احکام جاری کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس بات کا کیا یقین ہے کہ فی الواقعی کام ہو رہا ہے۔ اس قسم کی مثالیں ایک سے زیادہ بار سامنے آ چکی ہیں۔ اس لئے وہ خاص طور پر درخواست کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں نہ صرف تفصیلی احکام جاری کئے جائیں بلکہ وہ خود (معتمد تعمیرات) ذاتی طور پر اس بات کا اطمینان کرلیں کہ کام کا آغاز جلد ہو اور کام توجہ اور احتیاط سے کیا جائے۔

فریدوں جی کے متذکرہ بالا مراسلہ کے جواب میں معتمد تعمیرات نے اپنے مراسلہ مورخہ 2/نومبر 1902ء کے ذریعہ یہ اطلاع دی کہ آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کی نگہداشت کے لئے عمومی نوعیت کی ایک تجویز زیر غور ہے۔ اس کے بعد جب تقریباً تین ماہ کی مدت گزر گئی اور محکمہ تعمیرات کی جانب سے اس کاروائی کے سلسلے میں فریدوں جی کو کوئی اطلاع نہیں ملی تو انہوں نے اس بارے میں 31,جنوری کو 1903ء کو ایک اور مراسلہ تعمیرات کے نام روانہ کیا جس میں انہوں نے تحریر کیا کہ انہیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے کہ مجوزہ اسکیم کس مرحلہ تک پہنچی ہے اور آیا ہنمکنڈہ کے مندر اور قلعہ ورنگل کی نگہداشت کے لئے کوئی عملی اقدامات کئے گئے ہیں یا نہیں۔
اگر اس سلسلے میں ضروری احکام جاری کیے جا چکے ہیں تو آیا ان پر موثر عمل آوری ہوئی ہے؟
اس سلسلہ میں اطلاع دی جائے تاکہ رزیڈنٹ کو مطلع کیا جا سکے۔
اس کے جوا ب میں معتمد تعمیرات نے اپنے مراسلہ 26/ فروری 1903ء کے ذریعہ فریدوں جی کو اطلاع دی کہ آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کی نگہداشت کے سلسلہ میں چند تجاویز معین المہام تعمیرات کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں اور اس بارے میں قطعی احکام کی منظوری پر انہیں اطلاع دی جائے گی۔ مندر ہزار ستون اور قلعہ ورنگل کے بارے میں سپرنٹنڈنٹگ انجینئر سے خواہش کی گئی ہے کہ وہ تخمینہ تیارکر کے پیش کریں۔ معتمد تعمیرات کے ایک اور مراسلہ مورخہ یکم اپریل 1903ء کے ذریعہ سپرنٹنڈنگ انجینئر کو یہ اطلاع دی گئی کہ آصف سابع نے ریاست کے تمام آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کی نگہداشت کے لئے بہتر انتظامات کرنے کے احکام صادر کردئے ہیں۔
اس مراسلہ میں دیگر تمام مقامات کے بارے میں ہدایات دیتے ہوئے لکھا گیا کہ مندر ہزار ستون اور قلعہ ورنگل بڑی اہمیت کے حامل ہیں اس لئے اس جانب فوری توجہ دی جائے۔ اس مراسلہ کی ایک نقل فریدوں جی کو بھیجی گئی۔ فریدوں جی نے ایک مراسلہ کے ذریعہ میجر بیگ کو اطلاع دی کہ معتمدتعمیرات نے سپرنٹنڈنگ انجینئر کو آصف سابع کے احکام پہنچا دئے ہیں۔

فریدوں جی نے اس کارروائی کے سلسلے میں کیسن واکر ،معتمد فینانس سے بھی گفتگو کی تھی۔ اسی گفتگو کے حوالہ سے انہوں نے اس کاروائی کی مثل بغرض مطالعہ کیسن واکر کے پاس روانہ کی۔ جس کے جواب میں معتمدی فینانس کی جانب سے فریدوں جی کو بذریعہ مراسلہ مورخہ 28/اگست 1903ء یہ اطلاع دی گئی کہ حکومت نے آنے والے فصلی سال میں ہنمکنڈہ مندر کے لئے پانچ ہزار روپے منظور کئے ہیں۔

اس مثل میں مندرج حقائق سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ سابق ریاست حیدرآباد کے اس حکمران نے انگریزوں کے دباؤ میں آکر کام کیاہو بلکہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مندر ہزار ستون اور قلعہ ورنگل کی بہتر نگہداشت اور صیانت کے تعلق سے توجہ دہانی کیوں کہ معقول تھی اس لئے اس پر فوری قدامات کئے گئے۔ اس میں یقیناً والی ریاست کی وسیع النظری ، کشادہ قلبی اور ان کے سیکولر رویہ کو بھی دخل تھا۔ سابق ریاست اس کے حکمران اور عہدیداروں کی یہ عالی قدر روایات خطہ دکن کی اگلی نسلوں کو عظیم ورثہ کے طور پر ملی ہیں جس پر جتنا بھی فخر کیاجائے کم ہے۔

ماخوذ از کتاب:
حاصلِ تحقیق
تصنیف: ڈاکٹر سید داؤد اشرف، سن اشاعت: 1992
ناشر : شگوفہ پبلی کیشنز

Hyderabad State generous care to 1000 pillars Temple and Qilla of Warangal. Research Article by: Dr. Dawood Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں