مغل سلطنت کا عروج و زوال - ہندوستانی ثقافت پر مغلوں کے اثرات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-04

مغل سلطنت کا عروج و زوال - ہندوستانی ثقافت پر مغلوں کے اثرات

mughal-dynasty-in-india
تیمور کی وفات کے بعد اس کی نسل میں کوئی ایسا با صلاحیت شخص پیدا نہیں ہوا جو تیمور کی عظیم الشان سلطنت کو بکھرنے سے بچا سکتا تھا۔ چنانچہ تیمور کے بعد وسط ایشیا میں تیموری شہزادے اور امرا نے چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کرلیں اور خانہ جنگی میں مبتلا ہو گئے۔ انہیں میں ایک ریاست فرغانہ تھی جس کا حکمران عمر شیخ مرزا تھا۔ ہندوستان کی مغل سلطنت کا بانی بابر مرزا اسی عمر شیخ مرزا کا لڑکا تھا۔ بابر کا سلسلہ حسب و نسب باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان سے ملتا ہے۔ لہٰذا بابر کی رگوں میں تیمور اور چنگیز دونوں کا خون تھا۔ 1494ء میں عمر شیخ مرزا کا انتقال ہوا۔ اس وقت بابر کی عمر صرف 12 سال تھی۔ شدید خانہ جنگی کے حالات میں نو عمر بابر کے لئے فرغانہ کی چھوٹی سی ریاست کی حفاظت کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔
چنانچہ 10 سال تک بابر خود کواور اپنی ریاست کو بچانے کے لئے ہمسایہ ریاستوں کے حکمرانوں سے جنگ و جدل میں الجھا رہا۔ وسط ایشیا کے حالات سے مایوس ہو کر بابر نے افغانستان کا رخ کیا اور 1504ء میں کابل فتح کر کے وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کرلی۔ اس وقت ہندوستان میں لودھی پٹھان حکومت کررہے تھے۔ پنجاب کی خود مختار مسلم ریاستوں اور لودھی حکمرانوں کے درمیان علاقائی تسلط کے لئے اکثر جھڑپیں ہوا کرتی تھیں۔ ملتان کے حاکم نے بابر مرزا کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ بابر ویسے بھی ہندوستان کے ان علاقوں پر جو تیمور فتح کرچکا تھا ، اپنا حق سمجھتا تھا اور ان کو حاصل کرنے کے لئے اس نے ہندوستان پر کئے حملے کئے تھے۔ ملتان کے حاکم کی دعوت پر بابر نے ہندوستان پر آخری حملہ کیا اور 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر آگرہ اور دہلی پر قبضہ کرلیا۔ پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کی شکست سے اقتدار پٹھانوں کے ہاتھ سے نکل کر تیموری مغل خاندان میں منتقل ہو گیا۔

اگرچہ کہ پٹھانوں نے راجپوتوں کو شکست دے کر ہندوستان کا اقتدار چھین لیا تھا۔ لیکن سلطنت دہلی کے دور میں راجپوتانہ عملاً مخٹلف راجپوت خاندانوں کے تسلط ہی میں رہا۔ لودھی حکومت کے دور میں سلطنت دہلی سکڑ کر ایک علاقائی حکومت بن گئی تھی اور راجپوت دوبارہ ہندوستان کا اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا بابر کے حملے کے وقت راجپوت ابراہیم لودھی کا ساتھ دے کر مشترکہ طاقت کے ساتھ بیرونی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہے۔ کیونکہ راجپوت سمجھتے تھے کہ بابر تیمور کی طرح لودھی حکومت کو تباہ و برباد کرکے واپس چلاجائے گااور لودھیوں سے لڑ کر حکومت حاصل کرنے کے بجائے لودھی حکومت کے تباہ شدہ کھنڈر پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن بابرہ نے دہلی سلطنت کو ختم کرکے مغل سلطنت کی بنیاد رکھی تب راجپوتوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ دہلی کی مرکزی حکومت کا اقتدار حاصل کرنے کے لئے حرکت میں آگئے۔
چتوڑ کے راجہ رانا سانگا کی قیادت میں راجپوتوں کی متحدہ فوج نے بابر کو ہندوستان سے نکال کر باہر کرنے کے لئے پیش قدم،ی کی۔ بہت سارے افغان سردار جو لودھی خاندان کی تباہی کے بعد بابر کے جانی دشمن ہوگئے تھے وہ بھی راجپوتوں سے م،ل گئے۔ 16/مارچ 1527ء کو بابر نے 12 ہزار کی فوج کے ساتھ کنواہہ کے مقام پر راجپوتوں اور افغانوں کی دو لاکھ متحدہ فوج کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست فاش دی۔ کنواہہ کی جنگ کے بعد بہت سارے شکست خوردہ افغان سردار بنگال کے حاکم نصرت شاہ کے پاس پہنچ گئے اور نصرت شاہ کی مدد سے انہوں نے بابر سے ایک بار پھر جنگ کی۔ 6/مئی 1529ء کو بابر نے نصرت شاہ اور شکست خوردہ افغان سرداروں کی متحدہ فوج کو دریائے گھاگرا کے کنارے شکست دی۔ کنواہہ اور گھاگرا کی جنگ کے بعد مغل اقتدار کو چیلنج کرنے والا اور دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی دعویٰ دار باقی نہ رہا۔

مغل سلطنت کا عروج و زوال:
ہندوستان میں مغل حکومت 315 سال تک رہی۔ پہلے 181 سال بابر کی تخت نشینی(1526ء) سے لے کر اورنگ زیب کی وفات (1707ء) تک مغل سلطنت کے عروج کا زمانہ ہے۔ اگر ان 181سالوں میں سے 15 سال جب اقتدار شیر شاہ سوری اور اس کے خاندان میں رہا(1540ء تا 1555ء) نکال دئے جائیں تو مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ 166 سال کا ہوتا ہے۔ اس دوران نہایت عظیم صلاحیتوں کے چھ بادشاہ مغلیہ سلطنت کو نصیب ہوئے:
بابر(1526ء تا 1530ء)
ہمایوں (1530ء تا 1556ء)
اکبر 1556ء تا 1605ء)
جہانگیر (1605ء تا 1627ء)
شاہجہاں (1627ء تا 1657ء)
اورنگ زیب(1657ء تا 1707ء)

1707ء سے 1799ء یعنی 82 سال کا دور مغلیہ سلطنت کا عہد زوال ہے۔ اس دور میں مغلوں کی فوجی قوت آپس کی خانہ جنگی میں تباہ ہوگئی۔ انگریزوں نے بنگال اور مدراس کی طرف سے ہندوستان کی سیاست میں دخل اندازی شروع کردی تھی۔ لیکن دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی حقیقی دعوی دار ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ 1799ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ہندوستان کے سیاسی افق پر صرف مرہٹہ طاقت باقی رہ گئی تھی۔ جسے مختلف محاذوں پر شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1803ء تک اقتدار سے بے دخل کردیا اور مرہٹہ سردار ایک ایک کرکے کمپنی بہادر کے حلقہ بگوش ہو گئے۔
مرہٹہ طاقت کو کچلنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی کی مرکزی حکومت کی دعوی دار بن کر ہندوستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئی۔ چنانچہ 1803ء میں جنرل لیک کی سرکردگی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں علی گڑھ اور آگرہ پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی میں داخؒ ہوئیں تو مغل شہنشاہ شاہ عالم بے بنسی کے عالم میں ایک پھٹے ہوئے شامیانے کے نیچے انگریزوں کے استقبال کے لئے کھڑا ہوا تھا۔ جنرل لیک نے مغل شہنشاہ کو اپنی حفاظت میں لے کر اس کا وظیفہ مقرر کردیا اور پھر بر عظیم کا اقتدار اعلیٰ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں چلا گیا۔1799ء سے 1857ء کی پہلی جنگ آزادی یعنی 58 سال تک مغل اقتدار برائے نام باقی رہا۔
اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نہایت حکمت سے ہندوستانی عوام کو باور کراتی رہی کہ خلقت خدا کی ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی۔یہ نعرہ انگریزوں نے اس لئے ایجاد کیا تھا کہ ہندوستانی عوام کیا ہندو، کیا مسلمان کی وفاداریاں مغل سلطنت سے اس درجہ مضبوطی سے وابستہ ہوچکی تھیں۔کہ وہ مغل حاکم کے علاوہ کسی اور کی بادشاہت کا تصور کر نہیں سکتے تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی می انگریزوں نے نہ صرف اپنی عکسری برتری کو منوالیا بلکہ سیاسی برتری بھی تسلیم کروالی اور تاج برطانیہ نے کمپنی کو بے دخل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور آخری مغل شہنشانہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے ان پر بغاوت کا الزام لگا کر جلاوطن کردیا۔ اب انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نعرہ کو بدل دیا اور کہنے لگے:
"ملک ملک معظم کا ور حکم انگریزوں کا۔"

ہندوستانی ثقافت پر مغلوں کے اثرات
بشمبھرناتھ پانڈے صاحب فرماتے ہیں:
ترکوں نے آکر ہندوستان کو اس کی جڑوں تک ہلادیا اور لوگوں کو جھنجھوڑ کر نئی امیدوں کے لئے جگاکر تیار کیا۔ اس تبدیلی نے بھارت کی سماجی بنیادوں کو ہی بدل دیا۔ آریوں کی آمد نے بھارت کی سماجی زندگی کو جس طرح جڑ سے ہلادیا تھا۔ ترکوں کا حملہ اس سے تھوڑا ہی کم تھا۔ لیکن طوفان کے بعد سکون لازمی ہے اور زلزلے کے بعد تعمیر ضروری ہے۔ جب دو ندیوں کا سنگم ہوتا ہے تو دونون ندیوں کی دھارائیں گرجتی ہوئی ٹکراتی ہیں۔ لیکن فوراً ہی مل جل کر ایک دھارے میں بہنے لگ جاتی ہیں۔ اسی طرح ہندومسلمان آپس میں ٹکراکر محبت کے ایک انسانی سنگم میں ملے۔
دونوں مذاہب الگ الگ تھے ، دونوں کے تہذیب و تمدن الگ الگ تھے۔ کلچر الگ الگ تھے لیکن آپس میں مل کر ان کے الگ الگ کلچروں نے متحدہ ہندوستانی کلچر کی شکل اختیار کرلی۔ کلچر کے اس نئے دھارے نے صنعت و حرفت ، کلا اور سائنس، ادب اور شاعری ، چتر کاری، مصوری اور بت گری کے چمن کو سرسبز کردیا۔"(فخر الدین علی احمد میموریل لکچر 1986ء سے اقتباس) ہندوستان میں بابر کا داخلہ ویسا ہی تھا جیسا کہ ہن قبائل کا یا افغانوں کا۔ ہن قبائل نے آریائی اقتدار( کشتری راج) کے کھنڈروں پر اپنے اقتدار کی بنیاد رکھی اور ہندوستانی بن کر ہندوستان کے چند محدود علاقوں پر حکومت کی۔ انہوں نے مذہبی یا سیاسی حوالے سے ہندو یا ہندوستانی قومیت کا کوئی تصور نہیں دیا۔
ان کے بعد مغل آئے، انہوں نے بھی افغان اقتدار کو ختم کر کے اپنی حکومت قائم کرلی۔
مغلوں نے بھی مذہبی یا سیاسی حوالے سے مسلم قومیت یا ہندوستانی قومیت کا کوئی تصور نہیں دیا۔ یہ اور بات ہے کہ مغل بادشاہ آہستہ آہستہ کر کے سارے ہندوستان کو ایک مرکز کے تحت لے آئے۔ سارے ہندوستان کا ایک مرکزی نظم و نسق کے تحت آجانا ہندوستانیوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں تھا۔ اس ملک میں جو کئی مذاہب، کئی زبانوں، کئی کلچر اور مختلف تہذیبی و تمدنی، روایات کا گہوارہ تھا۔ پہلی بار ایک متحدہ ہندوستانی قومیت کے ابھرنے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔ سارے ہندوستان کو ایک مرکز کے تحت لانے کے لئے اورنگ زیب نے دکن کی دو مسلم علاقائی حکومتوں کو ختم کیا اور مرہٹوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کو کمزور کرکے ان کے توسیعی عزائم کو محدود کر دیا تھا۔

سلاطین دہلی کے دور میں ہندوستان نے جو ترقی کی تھی ، وہ اس ذہن کی مرہون منت تھی جو باہر سے نئے خیالات اور علم و عمل کے نئے طرز لے کر ہندوستان میں داخل ہوا تھا۔ یہاں کے عوام میں بیداری پیدا کر کے ملک کیت رقی میں ان کا مددگار بن گیا تھا۔ عہد وسطی کے ہندوستان کا یہ امتیاز رہا ہے کہ مختلف مذاہب کا گہوارہ ہونے کے باوجود عوام کی اجتماعی زندگی مذہبی تعصب اور فرقہ وارانہ شورش اور رسہ کشی سے پاک رہی ہے۔ مغلوں کے آنے کے بعد صورت حال اور بہتر ہو گئی۔ کیونکہ مغلوں نے ہندوستان کو ایک مضبوط اور منصفانہ مرکزی نظم و نسق دیا اور قریب قریب تین صدیوں تک سیاسی استحکام برقرار رکھا۔ ڈاکٹر تارا چند صاحب لکھتے ہیں:
یہ وسیع مملکت اپنی شان اور چمک دمک، اپنی دولت اور کلچر کے لیے ایسی شہرت رکھتی تھی جس کی مثال اس زمانے میں نہ تھی۔ اس حکومت کا طرز اور نظم و نسق ایسا تھا جو ایک وسیع رقبہ پر امن اور قانون کا ضمانت دار تھا اور علم و فن کے نادر مواقع فراہم کرتا تھا۔ مغل تہذیب کی تاریخ میں اس کے کارنامے ایک درخشاں باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مغل حکومت کی ان خصوصیات کی بنا پر سلاطین دہلی کے زمانے میں ملکی ترقی کی جو بنیاد پڑ چکی تھی، مغل دور میں اس کی رفتار غیرمعمولی تیز ہو گئی اور مغل سلطنت کے قیام کے بعد پچاس سال کے اندر ہندوستان دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ یہ کبھی ممکن نہ ہوتا اگر ہندوستان کے دو بڑے مذہبی طبقے، یعنی ہندو اور مسلمان، ملکی مذہب اور بیرونی مذہب کے جھگڑے میں پڑ جاتے اور اس بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہوتے۔

ماخوذ از کتاب : ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا حصہ
تالیف : ڈاکٹر محمد مظفر الدین فاروقی

Muslim Ulema and India's freedom struggle.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں