زبانوں کی تہذیب اور اردو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-05

زبانوں کی تہذیب اور اردو

civilization-of-languages-and-urdu
زبان سماجی اور معاشرتی ضرورت کے لئے بے حد ناگزیر ہے۔ اور یہ فطری جبلتی اظہار ہے۔ زبان مواصلات کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسی بنیاد پر انسان کائنات میں اشرف و افضل مانا جاتا ہے۔ تمام مخلوقات میں انسان کو زبان کی اساس پر فضیلت حاصل ہے۔ زبان کے بغیر زندگی اور تہذیب کا تصور محال ہے۔ انسانیت کی ترقی کے لئے زبان کی اہمیت سے انکار و مفر نہیں ۔انسانی قدروں کے فروغ اور تہذیب و تمدن کی بقاء کے لئے زبان ضروری ہے۔اس سے معاشرتی رشتے اور مشترکہ قدریں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر زبان کے تعلق سے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ زبان نہیں تو ذہن نہیں۔ اور ذہن نہیں تو زندگی نہیں۔ اس لئے انسانی وجود و شناخت اور اس کی بقا کے لئے زبان ضروری ہے۔

علاقائی و جغرافیائی حد بندیوں کی وجہہ سے زبانیں مختلف علاقوں میں محدود ہوگئی ہیں۔ ہر ملک کی تہذیت اور سماجی قدرں کی بقا و تقویت کے لئے زبان اہم رول ادا کر سکتی ہیں۔ یہ زبان ہی تھی جس کے ذریعے سے انگریزوں کی تہذیب پورے عالم پر مسلط ہوتی گئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی تہذیب کے نقوش مختلف علاقوں پر انگریزی زبان کے ذریعے مسلط و مروج ہوگئے۔ انگریزی لباس، وضع قطع اور انگریزی تہذیب و تمدن مغرب و مشرق میں ایسے رچ بس گئے کہ لوگ اپنی مقامی تہذیب و روایت کو بھولتے جارہے ہیں۔ جب کہ مقامی تہذیب اور قومی کلچر ملک کی زبانوں سے فروغ پاتے ہیں۔ مختلف ریاستوں میں مختلف زبانیں مروج ہیں۔ اور ہر ریاست کی اپنی علٰحیدہ لسانی و تہذیبی شناخت ہے۔ تامل، ملیالم، کنڑ، تلگو، مراٹھی، راجستھانی ، گجراتی، برج بھاشا ، ہندی، پنجابی اور ہریانوی وغیرہ اپنے اپنے علاقوں میں مروج ہیں۔ یہ زبانی بولی ، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔
ان زبانوں میں مخصوص کلچر کسی نہ کسی علاقے میں پروان چڑ ھ رہا ہے۔ ہندوستان اور اب ساری دنیا میں مشہور و مقبول اردو زبان بھی دہلی کے دو آبہ علاقے میں پیدا ہوئی ۔ اس زبان کا ادبی سرمایہ بے مثال ہے۔ اور بتدریج اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عصر ی دور میں تخلیقی معرکے جاری ہیں۔ اور رہیں گے ۔ گیسوئے اردو کو سنوارنے میں تمام طبقات مشغول ومنہمک ہیں۔ اس لئے کہ یہ مشترکہ و قومی یکجہتی کی زبان تصور کی جاتی ہے۔ اردو کو ہر فرقہ اور ہر طبقہ کے لوگ بولتے ہیں۔ معاشی ، سماجی اور تمدنی ضرورتوں کے لئے اردو کا استعمال ہوتا ہے۔ لیکن آزادی کے بعد اردو کی سا لمیت ختم ہوگئی۔
ہر ریاست لسانی تعصبیت میں بٹ گئی۔ اور اب بعض ریاستوں میں اردو بولنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔اگر آج بھی ہندو مسلم سکھ عیسائی اردو سیکھنے لگیں اور اسی کام میں لگ جائیں تو اردو کا سنہرا ماضی لوٹ آسکتاہے۔ ابھی سے اردو جاننے والے دیگر ابنائے وطن کو اردو سکھانے کا عمل شروع کردیں تو تو اردو کو فروغ حاصل ہوگا۔ زبان کو کسی قوم اور فرقہ سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ اور مخصوص طبقے سے معنون کرنا بھی غیر انسانی عمل ہے۔ زبانیں کسی کی ذاتی میراث نہیں ہوتیں۔ البتہ زبانوں میں کسی بھی قوم کی تہذیب و کلچر کی عکاسی ہوتی ہے۔ ملکی تہذیب ۔ثقافت ۔کلچر۔ رواداری اور مشترکہ تہذیب کی بقا و ترقی کے لئے اردو زبان کی ترقی اور بقا ضروری ہے۔ کسی بھی زبان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا رشتہ کاروبار سے اور روزگار سے مربوط رہے۔ وہی طبقہ ایسا تصور رکھتا ہے جو ناآسودہ اورمعاشی بحران کا شکار ہے۔
ورنہ ٹامل ۔ملیالم۔ کنڑ اور تلگو میں تعلیم و تربیت کے فارغ روزگار کے علاوہ تجارت کا خواب بھی دیکھتے ہیں۔ ہر زبان کے فارغ کو ملازمت ملنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ دیگر شعبوں اور محکموں میں قسمت آزمائی کر سکتے ہیں۔
زبانیں تہذیبی۔علاقائی روحانی اور سماجی شعور عطا کرتی ہیں۔ نہ کہ معاشی آسودگی کے لئے دیگر شعبہ جات موجود ہیں۔ تجارت، صنعت و حرفت ، دستکاری، صحافت، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا۔ ترجمہ وغیرہ کو عصری دور میں معیشت و معاشی تقاضوں اور روزگار سے مربوط کرنے کا عمل رائج ہوگیا ہے۔ اردو کے لئے بھی یہی عمل رواں دواں ہوناچاہئے۔ کئی خاندان روزگار کی عدم دستیابی کی وجہہ سے اردو سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اور بعض لوگ تواردوپر انگریزی میڈیم کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان کا یہ تصور کہ انگریزی سے روزگار ملنے میں آسانی ہوگی ، انگریزی میں عصری ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اسے کے برعکس علاقائی اور مادری زبانوں میں عصری علوم و فنون بہت کم دستیا ہیں۔ اس لئے سب انگریزی جیسی عالمی زبان کو فوقیت دیتے ہیں۔
لیکن اردو کے لئے یہ ضروری ہوجاتاہے کہ اس کو ہم عصری ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ اور مربوط کریں۔ اور نئے ذرائع اور وسائل پیدا کریں۔ اس کو نہ صرف مسلمان بلکہ تمام طبقوں میں عام کریں۔ اردو کو عوامی اور لسانی ٹیکنالوجی سے مربوط کرنا ہوگا۔ اس کی ترقی کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہوگا۔نسل نو میں اردو لکھنے پڑھنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔وہی زبان فروغ پاتی ہے جو عوامی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ اردو میں بھی بتدریج عوامی تبدیلیاں لانا ہوگا۔ تعلیمی اداروں اور جامعات میں اردو کے عوامی طریقہ تدریس کو اپنایا جا سکتا ہے۔
زبان کے تحفظ کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ اردو دانشوروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کو عام کرنے کی کوشش جاری رکھیں۔ اردو زبان سیکھنے کی ترغیب دینا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ روحانی ودینی قدروں کی ترویج اردو سیکھنے سے ہوسکتی ہے کیونکہ اردوزبان میں ہی دینی سرمایہ بہت زیادہ محفوظ ہے۔ جو لوگ اردو کی روٹی کھاتے ہیں ان کے بچے انگریزی میڈیم میں پڑھتے ہیں۔ ان کی اردو سے بے رخی لسانی و اخلاقی جرم ہے۔
اردو کی روٹی کھانے والے دانشوروں سے گذارش ہے کہ اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں۔ اسکول میں نہیں تو خانگی طور پر ہی سہی۔ حیدرآباد میں ادارہ سیاست کے تحت سال میں دو مرتبہ اردو دانی وزبان دانی و اردو انشاء کے امتحانات خانگی طور پر ہوتے ہیں۔ جس کے گذشتہ دس سال سے اچھے اثرات رونما ہوئے ہیں اور اردو پڑھنے والوں کی ایک نئی نسل تیار ہوئی ہے۔ اسی جذبے کے تحت دیگر اردووالوں کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔ NCPUL ادارہ بھی اردو میں عصری علوم کے فروغ کے لئے نمایاں خدمات انجام دے رہاہے۔
عربی مدارس اور صباحی مدرسوں کے ذریعے بھی اردو سکھائی جارہی ہے۔حکومت نے جی او جاری کرتے ہوئے تلگو زبان کو اول تا دہم سیکھنا لازمی کردیا ہے۔ اسی طرح کیا ہی اچھا ہوتا کہ اردو کو بھی تمام میڈیم کے طلباء کے لئے سیکھنا لازمی کردیا جاتا۔اس سے تلگو والے بھی اردو سیکھ لیتے۔

زبان کے ساتھ رسم الخط کا تحفظ بھی لازمی ہے۔ زبان اگر جسم ہے تو رسم الخط زبان کی روح ہے۔ ہر زبان کا اس کا اپنا رسم الخط ہوتا ہے۔ اس کو بدلنے کی کوشش زبان کی ہلاکت کا باعث ہوگی۔ جو لوگ رسم الخط بدلنے کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ اس کی اہمیت سے ناواقف و نا بلد ہوتے ہیں۔ زبان اور رسم الخط لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ روح اور جسم کا رشتہ ہوتا ہے۔ رسم الخط سے زبان کی شناخت ہوتی ہے۔ جب ہندوستان میں اردو کی داغ بیل پڑی تو اس دیوناگری میں لکھا جاتاتھا۔ لیکن جب اس نے زبان کی حیثیت اختیار کر لی تو فارسی داں اس کو فارسی خط میں لکھنے لگے۔ انگریزی دور حکومت میں یہی اردو رومن انداز میں لکھی جانے لگی۔ اردو کا رسم الخط فارسی رسم الخط کی توسیع شدہ شکل ہے۔ اس رسم الخط میں بعض ترمیمات و اضافے کے بعد اسیاردو زبان کے لئے اختیار کیا گیا۔ لیکن بنیادی طور پر اردو کے رسم الخط کا ڈھانچہ وہی رہا جو عربی رسم الخط کا تھا۔ اردو کا طرز تحریر نستعلیق کہلاتا ہے۔ جو اردو کو فارسی کی دین ہے۔ اردو رسم الخط کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ لوگ اپنی مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دیں۔ حکومت اردو زبان کی سرپرستی کرے۔ اردو میں درخواستیں لکھنے اور قبول کرنے کا نظام شروع کرے۔ ملک بھر میں جہاں بھی اردو بولنے والے ہوں وہاں سرکاری دفاتر، بس اور ریل اسٹیشن اور دیگر عمارتوں کے سائن بورڈ اردو میں بھی تحریر ہوں۔ اردواخبارات کا چلن عام ہو۔ اردو رسم الخط کے تحفظ کے لئے کمپیوٹر کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان پیج کے ذریعے گھروں میں موجود کمپیوٹر پر بچوں کو اردو سکھائی جاسکتی ہے۔ اردو زبان اور رسم الخط کے تحفظ کے لئے حکومت اور عوام کی اجتماعی کوشش ضروری ہے۔صرف نعرے لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

(6/5/فروری 2013 کو شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد [تلنگانہ] کے دو روزہ قومی سمینار بعنوان "اکیسویں صدی اردو ادب چیلنجز اور ان کا حل" میں یہ مقالہ پیش کیا گیا۔)

Civilization of languages and Urdu. Essay: Dr. Mohammad Nazim Ali.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں