ہندوستان میں اردو صحافت کی ابتداء - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-30

ہندوستان میں اردو صحافت کی ابتداء

urdu-journalism-india-history
مغلیہ عہد میں فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان تھی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بھی فارسی زبان علمی اور ادبی حلقوں میں بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس بر عظیم کے وسیع خطوں میں عمل دخل حاصل ہوا تو اس نے اپنے"استحکام اور دوام" کے لئے ثقافت کے پرانے نشان آہستہ آہستہ نیست و نابود کرنے شروع کئے 1830ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے فارسی کی بجائے اردو کو سرکاری زبان قرار دیا۔ اس انقلابی قدم سے اگرچہ اردو کو بے حد ترقی ہوئی لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کو اردو سے کوئی عشق نہ تھا اس نے اردو کی حوصلہ افزائی صرف اس لئے کی کہ اس سے سامراجی مفاد کو تقویت حاصل ہوتی تھی۔
1835ء میں گورنرجنرل ہندوستان سر چارلس مٹکاف نے اخبارات کو مختلف پابندیوں سے آزاد کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دیسی زبانوں میں کئی اخبار نکل آئے اور ان زبانوں میں اردو زبان سر فہرست تھی کیونکہ اسے سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی۔ 18376ء میں لیتھو گرافی یعنی پتھر کی سستی چھپائی کا رواج شروع ہوا۔ اس طرح کتابت کے ذریعے سے بہت سی نقلیں چھاپنے کا ارزاں ذریعہ ہاتھ آگیا۔ خود جرمنی میں یہ فن اٹھارویں صدی کے خاتمے کے قریب ایجاد ہوا تھا اور ہندوستان میں چالیس سال کے اندر ہی اردو طباعت میں اس کا رواج عام ہوگیا۔ اردو اور فارسی چھاپہ خانوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ علامہ عبداللہ یوسف علی کا بیان ہے کہ ہندوستان میں لیتھو گرافی کا پہلا مطبع 1838ء کے قریب دہلی میں قائم ہوا پھر لکھنو نے بھی بہت جلد اس کی تقلید کی۔
یہ بات اہم ہے کہ مدراس میں لیتھو گرافی کا مطبع دہلی اور لکھنو سے پہلے قائم ہوا۔ "مدراس کے چھاپہ خانے" سے 1836ء میں اردو کی پہلی داستاں الف لیلیٰ،" حکایات الجلیلہ" کے نام سے فورٹ سینٹ جارج کالج کے طلباء کے لئے شائع ہوئی تھی۔ اس ضخیم کتاب کا مطبوعہ نسخہ راقم الحروف کے پاس بھی موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 1836ء سے پہلے ہی مدراس میں لیتھو گرافی کا مطبع قائم ہوچکا تھا۔ پرولکر نے اپنی تحقیقی کتاب"پرنٹنگ پریس ان انڈیا" میں جس کا اردو ترجمہ"ہندوستان میں چھاپہ خانہ" کے زیر عنوان ابھی حال میں ترقی اردو بورڈ نئی دہلی کی جانب سے شائع ہوا ہے، اس کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ 1863ء سے پیشتر ہی مدراس میں ایک درجن سے زیادہ چھاپہ خانہ قائم ہوچکے تھے اور جن کے مالک مقامی ہندوستانی باشندے تھے۔ ان چھاپہ خانوں کا تذکرہ آئندہ صفحات میں کیاگیا ہے۔
غرض لیتھو گرافی کے پریس قائم ہوجانے سے اخبارات ، رسالے ، سرکاری اطلاعات مجالس قانون ساز کے قوانین کا اردو ترجمہ اور اس کے علاوہ اہم ادبی کتابیں چھپنے لگیں ایک طرف تو طباعت کی سہولتوں میں اضافہ ہونے سے تعلیم کی اشاعت میں مدد ملی اور دوسری جانب تعلیم کے منظم ہوجانے سے طباعت کی مانگ بڑھ گئی۔ اس طرح اردو زبان کی ترقی اخبار نویس کی توسیع میں ممد و معاون ثابت ہوئی۔ اردو صحافت کی ترقی میں ایک اور بڑا عنصر یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی مغربی علوم کی نشرواشاعت چاہتی تھی اور اس کے لئے اس نے صحافت کا سہارا لیا اور بعض اخباروں کی مالی سر پرستی شروع کی۔ اس کی صورت یہ تھی کہ حکومت بعض اخباروں کی ایک خاص تعداد افسروں اور اسکولوں و کالجوں کے لئے خرید لیتی تھی اس طرح بعض اخباروں کو معاشی سہارا مل گیا اور وہ ترقی کرنے لگے۔

اردو اخباروں کے متعلق جو منتشر اور محدود مواد اب تک سامنے آیا ہے اس کی روشنی میں محققین کا بیان ہے کہ اردو کا پہلا اخبار"جامِ جہا نما" کلکتہ تھا، چنانچہ عتیق صدیقی صاحب اپنی کتاب"ہندوستانی اخبار نویسی" میں لکھتے ہیں کہ"جام جہاں نما" اردو کا پہلا اخبار تھا جس کا پہلی بار 1822ء میں اور دوسری بار 1823ء میں اجرا ہوا تھا۔
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے بھی "صحافت پاکستان و ہند میں" جام جہاں نما ہی کو اردو کا پہلا اخبار قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس اخبار کا پہلا شمارہ بدھ کے دن 27؍مارچ کو شائع ہوا تھا ، چند ہفتے کے بعد جب ناشرین نے محسوس کیا کہ اردو اخبار کی مانگ بہت کم ہے تو انہوں نے اسے فارسی زبان میں شائع کرنا شروع کیا جون1822ء کے اواخر تک "جام جہاں نما" کی زبان فارسی ہوچکی تھی۔ ایک سال بعد"جام جہاں نما" نے پھر اردو کی طرف رجوع کیا ، چنانچہ فارسی اخبار کو برقرار رکھتے ہوئے "جام جہاں نما" کا اردو ضمیمہ شائع ہونے لگا۔ اس اردو ضمیمے کے صفحہ اول پر پیشانی کی دونوں جانب ایسٹ انڈیا کمپنی کی مہر ثبت ہوتی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اخبار کو حکومت کی باقاعدہ سرپرستی حاصل تھی۔ منشی سدا سکھ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور چھاپنے کی ذمہ دار کلکتہ کی ولیم پیٹرس کاپ کنس اینڈ کمپنی تھی۔
"جام جہاں نما" کلکتہ کے اجرا (1822ء) کے بعد کم و بیش بارہ سال تک کسی اردو اخبار کا پتہ نہیں چلتا۔ 1834ء میں بمبئی کے فارسی اخبار"آئینہ سکندر" نے اردو ضمیمہ شائع کرنا شروع کیا اس اخبار کا ایک فائل مولوی نصیر الدین ہاشمی مرحوم کی نظر سے گزرا تھا ان کا بیان ہے:"آئینہ سکندر اگرچہ فارسی اخبار تھا مگر 1834ء میں اس کا ضمیمہ اردو میں شائع ہونے لگا۔ یہ اخبار 12x18 سائز کے بارہ صفحات پر ہر جمعرات کو بمبئی سے شائع ہوتا تھا اس کے ایڈیٹر فضل حق صاحب تھے اور مسٹر راس کے پریس میں طبع ہوا کرتا تھا۔
1836ء میں شاہ جہاں آباد دہلی سے "دہلی اردو اخبار" کا اجرا عمل میں آیا۔ اس کے ایڈٹر شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر تھے۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں کہ : اس اخبار میں بر عظیم کے گوشہ گوشہ سے خبریں اکٹھی کرکے چھاپی جاتی تھیں۔ مختلف درباروں ، ریاستوں اور شہروں سے آنے والے اخبارات کے اقتباس بالالتزام شائع ہوتے تھے۔ یہ اخبار تعلیمی اداروں کی خبریں بطور خاص شائع کرتا تھا۔ اس میں ادبی مضامین کے علاوہ ذوق، غالب اور مومن وغیرہ کی غزلیات بھی چھپتی تھیں۔ دہلی کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر اور ملکہ نواب زینت محل کا کلام بھی شائع ہوتا تھا۔ دہلی اردو اخبار 1857ء میں بند ہوگیا۔ اس کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر مجاہد آزادی گولی سے اڑا دئے گئے اور صحافتی تاریخ میں زندہ جاوید ہوگئے۔
1837ء میں دہلی ہی سے "سید الاخبار" اور مرزا پور سے عیسائی مشنری سوسائٹی کی جانب سے "خیر خواہ ہند" کا اجرا عمل میں آیا۔

سید الاخبار
سرسید احمد خاں کے بھائی سید محمد خان نے 1837ء میں دہلی سے "سید الاخبار" جاری کیا تھا۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔"صحافت پاکستان وہند میں " ڈاکٹر عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں کہ اس اخبار میں ایسے مضامین خاص اہتمام سے شائع ہوتے تھے جن میں قانونی مسائل پر روشنی ڈالی جاتی تھی اسی وجہ سے یہ اخبار وکیلوں میں ہر دلعزیز تھا۔ 1846ء میں سید محمد خان کی وفات کے بعد سرسید احمد خان نے اس اخبار کو ترقی دینی چاہی یہ اخبار غالباً 1850ء میں بند ہوگیا۔

خیر خواہ ہند
یہ اردو کا پہلا رسالہ تھا اور 1837ء میں مرزا پور سے پادری آر۔ سی۔ ماتھر کی ادارت میں نکلا تھا اس میں فارسی اور رومن رسم الخط میں مضامین چھاپے جاتے تھے لیکن زبان اردو ہوتی تھی ، چند سال بعد یہ رسالہ بند ہوگیا۔ اور 1861ء میں اس کا احیاء ہوا۔ اور یہ ناگری ہند اور فارسی رسم الخط میں شائع ہونے لگا۔ اردو خیر خواہ ہند کی 50۔1849ء کی فائلیں انڈیا آفس لائبریری لندن میں محفوظ ہیں۔ انڈیا آفس کی فہرست رسائل سے پتہ چلتا ہے کہ "خیر خواہ ہند" کے فارسی اور رومن رسم الخط کے رسالے الگ الگ شائع کئے جاتے تھے۔
1841ء میں مدراس سے ایک اردو ہفتہ وار اخبار"جامع الاخبار" کا اجرا ہوا۔ اس طرح ان اخباروں کے اجراء کے بعد ہندوستان کے گوشے گوشے سے اردو اخبارات جاری ہوئے۔

ہندوستان کے مختلف شہروں میں اردو صحافت کی ابتداء
شمالی اور مغربی ہند میں اردو اخباروں اور چھاپے خانوں کی کثرت کا دور 1845ء کے بعد شروع ہوتا ہے ، چنانچہ ذیل میں دہلی، آگرہ، بنارس، لکھنو ، لاہور ، سیالکوٹ ، ملتان ، بمبئی اور بنگلورومیسور کے اولین اردو اخباروں کا سنہ اشاعت درج کیاجاتا ہے۔جس سے ہمارے بیان کی تصدیق ہوگی۔

دہلی
دہلی اردو اخبار 1836ء کے بعد اکٹوبر 1843ء میں "مظہر حق" 1845ء میں"کریم الاخبار" کے علاوہ"صادق الاخبار" کے نام سے دو اخبار جنوری 1854ء اور جنوری 1856ء میں جاری ہوئے۔

آگرہ
1846ء میں "صدر الاخبار" 1847ء میں"اسعد الاخبار" 1848ء میں "معیار الشعراء"1849ء میں"قطب الاخبار" اور"اخبار النواح"جاری ہوئے۔ جنوری 1856ء میں منشی نول کشور نے"سفیر آگرہ" جاری کیا۔

بنارس
اردو میں 1854ء میں بنارس گزٹ اور باغ و بہار 1849ء میں "مراۃ العلوم" اور 1852ء میں "آفتابِ ہند" جاری ہوئے۔

لکھنؤ
پہلا اردو اخبار"لکھنو اخبار" کے نام سے 24؍اپریل 1847ء کو جاری ہوا۔ اس کے علاوہ جولائی 1856ء میں "طلسم لکھنو" اور نومبر 1856ء میں "سحر سامری" کا لکھنو سے اجرا ہوا۔

لاہور
"کوہِ نور" پنجاب کا پہلا اردو اخبار تھا جس کا 14؍جنوری 1850ء کو لاہور سے اجرا ہوا۔ اس کے ایڈیٹر منشی ہر سکھ رائے تھے۔ اس اخبار نے غیر معمولی ترقی کی۔ لاہور ہی سے 1852ء میں چشمہ فیض اور 1853ء میں "ہمارے بے بہا" جاری ہوئے۔

سیالکوٹ
1853ء میں وکٹوریہ پیپر نکلا۔

ملتان
1852ء میں "ریاض نور" جاری ہوا۔

بمبئی
جنوری 1855ء میں "کشف الاخبار" کا اجرا ہوا۔ "بمبئی میں اردو" میں ڈاکٹر میمونہ دلوی لکھتی ہیں:
"بمبئی کا سب سے قدیم اردو اخبار جو دستیاب ہوا ہے وہ کشف الاخبار ہے۔ کتب خانہ مدرسہ محمدیہ اور کریمی لائبریری میں اس اخبار کی کئی جلدیں موجود ہیں۔ یہ اخبار جنوری 1855ء میں جاری ہوا۔"

بنگلور
بنگلور و میسور کے پہلے اخبار کے متعلق ڈاکٹر حبیب النساء"ریاست میسور میں اردو کی نشوونما" میں لکھتی ہیں:
"1860ئء میں اردو کا پہلا اخبار "قاسم الاخبار" اسی شہر کے افق صحافت پر نمودار ہوا۔"
محمد سعید عبدالخالق صاحب نے مقالہ "میسور میں اردو" میں "قاسم الاخبار" کے اجراء کی تاریخ 1865ء بتائی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید بھی"صحافت پاکستان و ہند میں" "قاسم الاخبار " کا اجرا 1865ء ہی بتاتے ہیں۔

حیدرآباد دکن
اردو صحافت کی ابتداء میں ایک طبی سہ ماہی رسالہ"طبابت" سے ہوئی۔ اسے حکومت حیدرآباد کے میڈیکل کالج کے مہتمم جارج اسمتھ نے 1275ھ م 1858ء میں جاری کیا۔ اس رسالے میں مریضوں پر عمل جراحی کرنے اور ان کے صحت یاب ہونے کی رپورٹیں اور مفید طبی معلومات شائع ہوتی تھیں۔ رسالہ طبابت کی اجرائی کے بعد علمی ، ادبی اور معاشرتی رسائل و جرائد کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ رسالوں کے قطع نظر اخباروں کا آغاز ہفتہ وار اخبارات سے ہوا۔ "دکن میں اردو" میں مولوی نصیر الدین ہاشمی نے حیدرآباد دکن کا پہلا اردو ہفتہ وار اخبار"آصف الاخبار" کو قرار دیا ہے جو 1878ء میں جاری ہوا۔ اس کے ایڈیٹر نارائن راؤ تھے لیکن "صحافت پاکستان وہ ند میں " ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے لکھا ہے کہ"خورشید دکن" حیدرآباد کا پہلا اخبار تھا جو 1877ء میں جاری ہوا اور ایک سال بعد بند ہوگیا۔ اس کے ایڈیٹر مرزا کاظم غازی تھے۔ حیدرآباد کا پہلا روزانہ اردو اخبار"ہزار داستان" ہے جو 1858ء میں جاری ہوا۔ مولوی محمد سلطان عاقل شاگردِ غالب اس کے ایڈیٹر تھے۔
اس طرح مندرجہ بالا اخباروں کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مدراس میں اردو صحافت کا آغاز آگرہ، بنارس، لکھنو، لاہور، سیالکوٹ ، ملتان، بنگلور اور حیدرآباد وغیرہ سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔

***
ماخوذ از کتاب: جنوبی ہند کی اردو صحافت (1857ء سے پیشتر) (اشاعت: 1981، حیدرآباد)۔
تصنیف: ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال

The Beginning of Urdu Journalism in India, Article by: Dr. Mohd Afzaluddin Iqbal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں