حضرت ابوہریرہ - علم کا وہ ظرف جس کے بغیر حدیث کا ذکر نامکمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-10-09

حضرت ابوہریرہ - علم کا وہ ظرف جس کے بغیر حدیث کا ذکر نامکمل

hazrat-abu-hurairah
بازار میں بڑی رونق تھی!
دکانوں پر گاہکوں کی ریل پیل تھی۔ دکاندار گاہکوں کو مال کی خصوصیات سے آگاہ کرنے اور انہیں مال خریدنے پر رضا مند کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اچانک ایک بزرگ نمودار ہوئے جن کا رنگ گندمی تھا، شانے کشادہ اور دانت آبدار تھے۔ انہوں نے سادہ لباس زیب تن کررکھا تھا۔
بزرگ بازار میں خریدوفروخت کے ارادے سے نہیں آئے تھے ، وہ بازار میں پہنچ کر ٹھہر گئے اور زور سے پکارے۔
"تم لوگوں کو کس چیز نے مجبور کررکھا؟"
لوگ ، بزرگ کی جانب متوجہ ہوگئے اور پوچھنے لگے۔
"کس چیز سے؟"
بزرگ کے لبوں کو جنبش ہوئی، کہنے لگے
" وہاں رسول اللہ ﷺ کی میراث تقسیم ہو رہی ہے اور تم لوگ یہاں بیٹھے ہو؟"
"کہاں؟" لوگوں نے بے تاب ہوکر پوچھا۔
"مسجد میں!" بزرگ کا جواب تھا
یہ سننا تھا کہ بازار دیکھتے ہی دیکھتے خالی ہوگیا، لوگ کاروبار چھوڑ چھوڑ کر مسجد کی طرف دوڑے کہ رسول اللہ ﷺ کی جو میراث تقسیم ہو رہی ہے اس سے محروم نہ رہ جائیں، لیکن____یہ کیا؟ مسجد میں نہ کوئی تقسیم کرنے والا نظر آیا۔ نہ وصول کرنے والوں کی بھیڑ دکھائی دی، وہاں تو بس چند افراز نماز پڑھ رہے تھے، کچھ لوگ قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تھے، اور چند افراد حلال وحرام کے مسائل پر گفتگو کررہے تھے۔

مسجد میں کچھ نہ پاکر، تمام لوگ، کچھ حیران کچھ ناخوش، واپس بازار میں چلے آئے، بزرگ سے شکایت کی کہ مسجد میں تو کچھ نہیں ہے، آپ نے تو کہا تھا کہ میراث رسول ﷺ تقسیم ہورہی ہے ، وہاں تو بس کچھ لوگ نماز ادا کررہے ہیں ، کچھ کلام پاک کی تلاوت کررہے ہیں اور بعض افراد حلال و حرام پر گفتگو کررہے ہیں۔
بزرگ نے جواب دیا۔
"تم لوگوں پر افسوس ہے، یہی تو تمہارے نبی کریم ﷺ کی میراث ہے۔"
یہ بزرگ تھے عظیم المرتبت صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، علم حدیث میں جن کا مرتبہ نہایت بلند ہے۔
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آپ ؓ تمام صحابہ کرام ؓ میں سب سے بڑے حافظ حدیث ہیں۔ آپؓ نہ صرف خود علم حاصل کرنے کے لئے بے چین رہتے تھے بلکہ آب ؓ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ دوسرے بھی علم دین حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو علم کی دولت کے ساتھ ساتھ حکمت کی دولت سے بھی نوازا تھا۔ حکمت سے اپنی بات کہنے کا آپ کو جو سلیقہ تھا اس کا اظہار اس مضمون کی ابتداء میں بیان کئے گئے واقعہ سے بخوبی ہوجاتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ کا تعلق قبیلہ اوس سے ہے جو یمن میں آباد تھا۔ اسلام لانے سے قبل آپ کا نام عبد شمس تھا۔ لیکن لوگ آپ ؓ کو ابوہریرہ کہتے تھے۔ یہ نام یوں پڑا کہ کم عمری میں آب ؓ نے ایک بلی پال رکھی تھی۔ رات کو ایک درخت میں جگہ بناکر اسے سلا دیتے۔ صبح کو جب بکریاں چرانے کے لئے جاتے تو بلی ساتھ ہو لیتی۔ دن بھر بکریاں چرانے کے علاوہ ،کمسن عبد شمس، بلی کے ساتھ کھیلا کرتے۔ لوگوں نے یہ دیکھ کر انہیں ابوہریرہ کہنا شروع کردیا کیونکہ عربی زبان میں بلی کے لئے "برّہ" کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

عبد شمس ابھی چھوٹے ہی تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا۔ مالی حالات زیادہ اچھے نہ تھے، شروع سے ہی فقروفاقہ کی زندگی گزاری ذرا بڑے ہوئے تو ایک عورت برہ بنت گزوان کے پاس روٹی کپڑے پر ملازم ہوگئے۔ کام یہ تھا کہ جب مالکہ سواری پر ہو تو یہ ننگے پاؤں دوڑتے ہوئے سواری کو لے چلیں۔ اتفاق دیکھئے کہ بعد میں یہی عورت آپؓ کے نکاح میں آگئی۔
قبیلہ دوس سے تعلق رکھنے والے ایک اور صاحب طفیل بن عمر مکہ مکر مہ گئے۔ وہاں جانے سے پہلے ہی لوگوں نے انہیں خبردار کردیا تھا کہ مکہ مکرمہ میں ایک شخص نیا دین پیش کررہا ہے۔ اس کی باتوں میں بڑا سحر ہے وہ ایک کلام پیش کرتا ہے جس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ یہ اللہ کاکلام ہے۔ طفیل مکہ مکرمہ پہنچے تو تجسس ہوا کہ آخر سنیں تو سہی نیا دین کیسا اور وہ کلام کیسا ہے جسے اللہ کا کلام کہاجارہا ہے، آپ نے کلام پاک کی آیات سنیں تو سحر زدہ ہوکررہ گئے۔ اور ایمان لے آئے۔ واپس قبیلے میں پہنچے تو وہاں اسلام کی دعوت کو عام کرنے میں مصروف ہوگئے۔ حضرت طفیل بن عمرؓ کی کوششوں سے ہی قبیلہ دوس میں اسلام پھیلا۔

7ھ میں غزوہ خبیر ہوئی۔ اسی زمانے میں حضرت طفیل ؓ یمن کے 80؍افراد کو لے کر رسول پاک ﷺ کی خدمت میں مدینہ پہنچے۔ حضورﷺ خیبر میں تھے اس لئے یہ قافلہ خیبر جا پہنچا۔ حضرت ابوہریرہؓ ساتھ تھے۔ اس وقت آپ کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی ، دوران سفر آپ کا ایک غلام کہیں بچھڑ گیا۔ خیبر پہنچ کر حضرت ابوہریرہؓ اسلام لے آئے، اسی وقت بچھڑا ہوا غلام دکھائی دیا۔ حضورﷺ نے فرمایا: "ابو ہریرہؓ تمہارا غلام آ گیا۔"
اسلام کی مسرت سے سرشار ابوہریرہؓ کا جواب تھا"اب وہ اللہ کی راہ میں آزاد ہے۔"
حضرت ابوہریرہؓ اسلام لے آئے تو اللہ کے رسول ؐ نے آپؓ کے خاندانی نام عبد شمس کو بدل کر آپؓ کا نام عمیر رکھ دیا۔ لیکن آپ ؓ ابوہریرہ کے نام ہی سے پکارے جاتے رہے۔ اور آج بھی اپنی اسی کنیت سے مشہور ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ اسلام لانے کے بعد رسول اللہ ؐ کے در کے ہو رہے، آپؓ کے دل میں علم دین حاصل کرنے کی جو خواہش تھی وہ بڑھ کر حرص کی صورت اختیار کرچکی تھی چنانچہ مسجد نبویؐ کے ایک گوشے میں رہائش اختیار کرلی جہاں چند اور صحابہ بھی رہ رہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی زندگیوں کا مرکز و محور اللہ کے دین کے علم کا حصول تھا، ان کے لئے مسجد میں ایک چبوترہ بنادیا گیاتھا۔ جس پر چھت ڈال دی گئی تھی۔ چونکہ عربی زبان میں چبوترے کے لئے"صفہ" کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، اس لئے چبوترے پر رہنے والے اصحاب رسول کو "اصحاب صفہ" کہاجاتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ خود تو ایمان کی روشنی سے اپنے قلب کو منور کرچکے تھے۔ اب آپؓ کی خواہش تھی کہ والدہ محترمہ بھی اسلام کی نعمت سے فیضیاب ہوں۔ آپؓ مختلف مواقع پر اپنی والدہ کو اسلام لانے کی دعوت دیتے رہے لیکن والدہ کی جانب سے انکار ہوتا رہا۔ ایک دن آپ ؓ نے والدہ کو پھر دعوت اسلام دی، والدہ نے رسول پاکؐ کی شان میں کچھ ایسے کلمات ادا کئے جن کو سن کر حضرت ابوہریرہؓ کو شدید رنج پہنچا، آنکھوں سے آنسو نکل آئے، روتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورﷺ سے واقعہ بیان کیا اور حضورؐ سے درخواست کی کہ والدہ کے لئے دعا فرمائیں تاکہ وہ ایمان لے آئیں۔
اللہ کے رسولؐ نے دعا فرمائی۔ کائنات کے خالق سے اس کے محبوب ترین بندے نے دعا کی تھی، کیوں نہ قبول ہوتی۔ حضرت ابوہریرہؓ واپس گھر پہنچے تو والدہ محترمہ غسل کرکے تیار ہورہی تھیں۔ بیٹا گھر میں داخل ہوا تو والدہ کی زبان پر کلمہ شہادت جاری تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ پھر روتے ہوئے حضورؐ کی خدمت میں حاضرہوئے، لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے،رسول پاکؐ کو والدہ کے اسلام لے آنے کی اطلاع دی اور درخواست کی کہ آپ ؐ دعا فرمائیں، اللہ میری اورمیری والدہ کی محبت تمام مسلمانوں کے دل میں ڈال دے۔

اللہ کی راہ کا یہ دیوانہؓ ، جو بے حد تنگدستی سے گزر بسر کررہا ہے، رسول پاک سے دعاؤں کی درخواست کرتا ہے تو دنیا وی مال و دولت کی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی محبت کی دولت پانے کی درخواست کرتا ہے۔
آنحضرتؐ نے دعا فرمائی۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ "اس کے بعد کوئی ایسا مسلمان نہ تھا جس نے مجھے دیکھا ہو، اور مجھ سے محبت نہ کی ہو۔"
رسول پاک ؐ نے حضرت ابوہریرہؓ کو اصحاب صفّہ کے منتظم کی حیثیت دے رکھی تھی۔ جب بھی آنحضرت ﷺ ، کھانے یا کسی دوسرے کام کے سلسلے میں اصحاب صفّہ کو جمع کرنے کا ارادہ فرماتے تو حضرت ابوہریرہؓ سے کہتے کہ اصحاب صفہ کو بلا لائیں، حضور اصحاب صفّہ کے ساتھ بے حد شفقت سے پیش آتے تھے جب بھی آپ ؐ کے پاس صدقہ کی کوئی چیز آتی توآپ اسے تمام کی تمام اہل صفّہ کو بھجوادیتے اور جب تحفۃً کوئی شے آتی تو خود بھی لیتے اور اصحاب صفّہ کو بھی عنایت فرماتے۔

رسول پاکؐ کا وصال ہوا، اور حضرت صدیق اکبر ؓ خلیفہ بنے، مختلف صحابہ کرام پر امور مملکت کے سلسلے میں مختلف ذمہ داریاں ڈالی گئیں لیکن حضرت ابوہریرہؓ ان امور سے لاتعلق ہوکر رسول اللہ کی احادیث کو عام کرنے میں مصروف رہے۔
حضرت عمر ؓ نے مسند خلافت سنبھالی تو آپؓ نے حضرت ابوہریرہؓ کو بحرین کا گورنر مقرر کردیا۔ ایک مدت کے بعد وہاں سے لوٹے تو کچھ رقم ان کے پاس تھی، حضرت عمر ؓ نے پوچھا:
" یہ رقم کہاں سے آئی؟" حضرت ابوہریرہؓ نے مناسب جواب دیا۔ تحقیق پر آپ ؓ کی بات درست نکلی۔ حضرت عمر ؓ نے دوبارہ بحرین کا گورنر بنانا چاہا تو آپ ؓ نے انکار کر دیا۔
حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں بھی آپ ؓ نے سیاسی امور میں کوئی مداخلت نہ کی، آپ ؓ نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ گمنامی کے گوشے میں گزارا، حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں مدینہ کے گورنر مروان کے قائم مقام رہے۔
57ھ میں بیمار پڑے۔ لوگ عیادت کے لئے آئے تو دیکھا کہ آپؓ رو رہے ہیں۔ لوگوں نے رونے کا سبب دریافت کیا تو فرمایا۔
"میں اس دنیا کی دلفریبیوں پر نہیں روتا بلکہ سفر کی طوالت اور زاد راہ کی قلمت پر آنسو بہاتا ہوں۔اس وقت میں دوزخ اور جنت کے نشیب و فراز کے درمیان ہوں، معلوم نہیں ان میں سے کس راستے پر جانا ہوگا۔"
ساری زندگی دین کی خدمت کرنے والے صحابی رسول کے خوف خدا کا یہ عالم ہے کہ وہ آخرت کے خیال سے لرزاں ہے کہ نہ جانے دوزخ یا جنت میں سے کون سی جگہ مقدر بنتی ہے۔

آپؓ کو حضورؐ سے اتنی محبت تھی کہ انتقال سے قبل وصیت کی:
"مجھے رسول اللہ کی طرح عمامہ اور قمیص پہنانا، میری قبر پر عرب کے دستور کے مطابق خیمہ نہ نصب کرنا، جنازے کے پیچھے آگ لے کر نہ چلنا، جنازہ لے جانے میں جلدی کرنا۔ اگر میں صالح ہوں گا تو جلد اپنے رب سے ملوں گا اور اگر بد قسمت ہوں گا تو ایک بوجھ تمہاری گردن سے دور ہوگا۔"
یہ وصیت کرنے کے بعد آپؓ سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ ،حضرت ابو سعید خدریؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام آپ کی نماز جنازہ اور تدفین میں شریک تھے۔ حضرت عثمانؓ کے صاحبزادوں نے کندھا دے کر جنت البقیع (مدینہ منورہ) پہنچایا اور آپؓ کو اس مبارک سر زمین میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپؓ نے 78؍ سال کی عمر پائی۔

حضرت ابوہریرہؓ کے بغیر حدیث کا ذکر نامکمل ہے۔ آپؓ وہ خوش قسمت صحابی ہیں جن کے بارے میں خود رسول اقدسؐ نے فرمایا۔"ابوہریرہؓ علم کا ظرف ہیں۔"
(بخاری)

جیساکہ ہم نے پہلے بیان کیا حضرت ابوہریرہؓ میں علم کے حصول کی خواہش اتنی شدید تھی کہ وہ خواہش سے بڑھ کر حرص کا روپ دھار چکی تھی۔ عام طور پر لوگ حضورؐ سے زیادہ سوالات کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتے تھے۔ لیکن حضرت ابوہریرہؓ پوچھنے میں کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیتے تھے۔ ایک بار آپؓ نے حضور سے پوچھا"قیامت کے دن کون خوش قسمت آپؐ کی شفاعت کا زیادہ مستحق ہوگا؟"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
"حدیث کے بارے میں تمہاری حرص دیکھتے ہوئے میرا پہلے سے خیال تھا کہ یہ سوال تم سے پہلے اور کوئی نہ کرے گا۔"
(مسند احمد بن حنبل ؒ)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ خلیفۂ ثانی حضر ت عمر کے صاحبزادے اور مشہور صحابی رسول ہیں، آپ فرماتے ہیں"ابوہریرہ ہم سب سے زیادہ حدیث جانتے تھے، اور امام شافعیؒ کا کہنا ہے کہ حضرت ابوہریرہ اپنے ہم عصر حفاظ میں سب سے بڑے حافظ تھے۔"
حضرت ابوہریرہؓ کی بیان کردہ روایات کی تعداد 5374ہے۔ ان میں سے 325 ؍ احادیث متفق علیہ ہیں ، گوکہ آپ ؓ نے رسول اللہ کی خدمت میں بہت طویل عرصہ نہیں گزارا۔ اس کی وجہ۔۔ آپؓ خود بیان کرتے ہیں۔آپ ؓ نے فرمایا:
"لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ابوہریرہؓ حدیثوں کو بیان کرتا ہے حالانکہ مہاجرین و انصار ان حدیثوں کو نہیں بیان کرتے، لیکن اعتراض کرنے والے اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ہمارے مہاجر بھائی اپنے کاروبار میں لگے رہتے ہیں، انصار اپنی زراعت کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ میں سارا وقت حضورؐ کی خڈمت میں گزارتا تھا، جن اوقات میں وہ لوگ موجود رہتے تھے میں ان اوقات میں بھی موجود رہتا تھا ، دوسرے یہ کہ جن باتوں کو وہ بھلا دیتے تھے میں ان کو یاد رکھتا تھا۔"

حضرت ابوہریرہؓ متعدد غزوات میں شریک ہوئے لیکن غزوات میں مسلمانوں کی فتح کے بعد جو مال غنیمت ہاتھ آتا تھا، آپؓ اس سے لاتعلق رہتے تھے حتی کہ ایک باررسول اکرم ؐ نے پوچھ لیا کہ:
"ابوہریرہ تم اس مال غنیمت کا سوال کیوں نہیں کرتے جس کا تمہارے دوسرے ساتھی سوال کرتے ہیں؟"
علم دین کے شیدائی نے عرض کی:
"میری درخواست تو یہ ہے کہ آپ مجھے وہ علم سکھائیں جو اللہ نے آپؐ کو سکھایا ہے۔" یہ سن کر رسول پاکؐ نے فرمای"چادر پھیلاؤ۔"
حضرت ابوہریرہؓ نے اپنی چادر پھیلادی، پھر حضورؐ احادیث بیان فرمانے لگے ، جب آپ نے اپنی بات ختم کی تو فرمایا:
"اس چادر کو اکٹھی کرکے اپنے جسم سے لگا لو۔" حضرت ابوہریرہؓ نے ایسا ہی کیا۔
آپؓ فرماتے ہیں" اس کے بعد میرے حافظے کا یہ حال تھاکہ جو کچھ حضورؐ ارشاد فرماتے، اس میں سے ایک حرف بھی نہیں بھولتا۔"

ایک بار مدینہ کے گورنر مروان نے آپؓ کا امتحان لیا۔ انہوں نے اپنے کاتب کو تخت کے نیچے بٹھادیا اور آپؓ سے احادیث پوچھنا شروع کیں۔ حضرت ابوہریرہؓ احادیث بیان فرماتے جاتے تھے اور تخت کے نیچے چھپا ہوا کاتب لکھتا جاتا تھا۔ ایک سال بعد مروان نے پھر اسی طرح سے حضرت ابوہریرہؓ کو بلوایا اور کاتب کو تخت کے نیچے بٹھادیا۔ احادیث پوچھنا شروع کیں ، حضرت ابوہریرہؓ نے وہی احادیث بیان فرمادیں حتی کہ ان کی ترتیب میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔

حضرت ابوہریرہؓ کے علم سے بڑے بڑے صحابہ کرام ؓ نے استفادہ کیا۔ ان میں حضرت زید ابن ثابت ؓ، حضرت ابوایوب انصاریؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت انس بن مالکؓ، حضرت ابو موسی اشعریؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت جابر بن عبداللہؓ، اور حضرت عائشہؓ شامل ہیں۔ آپؓ کے شاگردوں کی تعداد آٹھ سو سے زیادہ ہے، جن میں متعدد تابعین شامل ہیں۔ آپؓ کا شمار مدینہ کے فقہاء کرام میں ہوتا ہے۔ رسول پاک کے بعد مدینہ منورہ میں جس جماعت کو فتوی دینے کی ذمہ داری سونپی گئی اس کے ایک رکن آپؓ بھی تھے، عربی آپ کی مادری زبان تھی تاہم آپ فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ دیگر مذاہب پر بھی آپؓ کی نظر تھی اور توراۃ کے مسائل سے خاصی واقفیت تھی۔
آپؓ کو عبادت سے خصوصی لگاؤ تھا۔ آپؓ کا خاندان تین افراد پر مشتمل تھا، آپؓ، آپ کی اہلیہ اور خادم۔ آپؓ کا معمول تھا کہ رات کو جاگ کر عبادت کیاکرتے تھے اور اپنی اہلیہ اور خادم کو بھی عبادت کے لئے جگادیا کرتے تھے۔
ہر ماہ کے شروع میں تین روزے رکھا کرتے تھے۔ آپؓ فرماتے تھے کہ ایسا میں اس لئے کرتا ہوں کہ اگر مجھے کوئی حادثہ پیش آجائے تو کم از کو دو ماہ تو روزوں کے ثواب میں لکھاجائے۔
ذکر اللہ کا بطور خاص اہتمام کرتے تھے۔ آپ کے پاس ایک تھیلی میں کنکریاں اور گٹھلیاں بھری رہتی تھیں ان پر تسبیحات پڑھا کرتے تھے۔

ایک بار حضرت شقیا اصبحیؒ مدینہ منورہ آئے ، آپ نے دیکھا کہ ایک بزرگ کے گرد بھیڑ لگی ہوئی ہے اور بزرگ احادیث بیان فرمارہے ہیں۔ آپ ؒ نے پوچھا:"یہ کون ہیں؟"
لوگوں نے بتایا: یہ حضرت ابوہریرہ ؓ ہیں، آپ ان کے پاس بیٹھ گئے ، جب لوگ حدیثیں سن کر رخصت ہوگئے تو حضرت اصبحیؒ نے حضرت ابوہریرہؓ سے کہا:
"کوئی ایسی حدیث سنائے جسے آپ ؓ نے حضورؐ سے خود سنا ہو، سمجھا ہو، اور جانا ہو۔"
حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: "ایسی ہی حدیث بیان کروں گا"
یہ کہا اور چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے، تھوڑی دیر بعد پھر ہوش میں آئے اور فرمایا۔
"میں آپ سے ایسی حدیث بیان کروں گا جو حضورؐ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اس وقت میرے اور آپ کے سوا کوئی تیسرا آدمی نہ تھا۔" یہ کہا اور پھر چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے۔
تھوڑی دیر بعد ہوش میں آئے تو فرمایا:" میں آپ سے ایسی حدیث بیان کروں گا جو حضورؐ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھیں اور میرے اور آپ کے سوا کوئی یہاں نہ تھا۔ یہ کہا اور چیخ مار کر تیسری مرتبہ بے ہوش ہوگئے۔
حضرت اصبحیؒ نے آپؓ کو تھام لیا، دیر تک تھامے رہے ، حضرت ابوہریرہؓ کو ہوش آیا تو فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:
"قیامت کے دن سب سے پہلے تین آدمی طلب کئے جائیں گے ، عالم قرآن پاک، راہ خدا میں شہید ہونے والا اور دولت مند۔ اللہ تعالیٰ عالم دین سے پوچھیں گے :"کیا میں نے تجھ کو قرآن کی تعلیم نہیں دی ؟" وہ کہے گا۔"ہاں میرے خدا" اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا"تونے اس پر کیا عمل کیا؟" وہ جواب دے گا"رات دن اس کی تلاوت کرتا تھا ،"اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:"تو جھوٹا ہے تو اس لئے تلاوت کرتا تھا کہ لوگ تجھے قاری کا خطاب دیںِ چنانچہ خطاب دیاجاچکا۔ پھر دولت مند سے سوال کیاجائے گا"کیا میں نے تجھ کو مال و دولت نہیں دیا کہ توبنے نیاز ہوگیا؟" وہ کہے گا" ہاں اے خدا" اللہ تعالی پوچھیں گے "تونے اس دولت کا کیا کیا؟" میں صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا۔"اللہ تعالیٰ فرمائیں گے" تو جھوٹ بولتا ہے۔ تیرا مقصد تو یہ تھا کہ تو فیاض اور سخی کہلائے۔ سو لوگوں نے کہہ دیا۔ "پھر وہ شخص پیش ہوگا جسے اپنی جان راہ خدا میں دینے کا دعویٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ ا س سے سوال کریں گے"تو کیوں مار ڈالا گیا؟" وہ کہے گا۔" اے اللہ آپ نے اپنی راہ میں جہاد کا حکم دیا، میں آپ کی راہ میں لڑا اور مارا گیا۔ "اللہ تعالیٰ فرمائیں گے"تو جھوٹ کہتا ہے تو چاہتا تھا کہ تو دنیا میں جری اور بہادر کہلائے تو یہ کہاجاچکا۔"
یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا:
یہ حدیث بیان فرماکر رسول اللہ ﷺ نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر فرمایا۔
"ابوہریرہ سب سے پہلے انہی تینوں پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔"
اس حدیث رسولؐ کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہؓ کا تین مرتبہ بے ہوش ہو جانا، آپؓ کے خوف خدا کی بے پناہ شدت کو ظاہر کرتا ہے ، آپؓ اس حقیقت سے بخوبی باخبر تھے کہ انسان اگر ساری عمر نیک اعمال کرتا رہے لیکن اس کی نیت درست نہ ہو تو اس کے سارے اعمال اکارت جاتے ہیں۔

حوالہ کتب: سیرۃ الصحابہ، اسوہ صحابہ،حضرت ابوہریرہؓ، نقوش رسولؐ نمبر، دائرۃ معارف اسلامیہ

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ "رابطہ" (متحدہ عرب امارات)، (جلد:3 ، شمارہ:9 ، مارچ-1987)

Abd al-Rahman ibn Sakhr Ad-Dausi Al-Zahrani Abu Hurairah, the most prolific narrator of hadith. Article by: Kaleem Chughtai

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں