سابق ریاست حیدرآباد دکن میں گائے کی قربانی کس حد تک جائز تھی؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-01

سابق ریاست حیدرآباد دکن میں گائے کی قربانی کس حد تک جائز تھی؟

cow-sacrifice-hyderabad-state

سابق ریاست حیدرآباد دکن میں ہندو آبادی اکثریت میں تھی اور اسی کا خیال کرتے ہوئے گائے کی قربانی سے متعلق فرمانروائے دکن میر عثمان علی خان کے جو احساسات تھے اور انہوں نے اس ضمن میں جو احکام جاری کیے تھے اس کا تذکرہ دکن کے وزیر اعظم سر کشن پرشاد شاد نے اپنے ایک کتابچہ بعنوان "قربانی" میں کیا ہے۔
گو کہ محض 12 صفحات کا یہ مختصر سا کتابچہ ہے مگر یہ سابق ریاست کے حکمران کی اعلیٰ ظرفی اور رواداری کو واضح طور سے بیان کرتا ہے۔
اسی کتابچہ کا مختصر خلاصہ (زبان و بیان کی کچھ تبدیلی کے ساتھ) ذیل میں پیش ہے۔ اصل تحریر منسلکہ کتابچہ (پی۔ڈی۔ایف فائل، 12 صفحات) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

مجھے اس امر کے اظہار کی ضرورت ہے کہ ہمارے اعلحضرت خلد اللہ ملکہ نے جس حکیمانہ اور دانشمندانہ طریقے سے قربانی گاؤ و شتر کے متعلق فرمان جاری فرمایا ہے، یہ ہندوؤں کے صدائے احتجاج یا کسی فرمانروا کی پیش قدمی کے بعد تقلیداً جاری نہیں ہوا ہے بلکہ اعلحضرت نے کم سنی کے زمانہ سے فطرتاً گائے کے گوشت کو بطیب خاطر کبھی پسند نہیں فرمایا، صرف سنت ابراہیمی کی تکمیل بلحاظ ملت و مذہب کے، واجب سمجھتے رہے۔ اس لیے جہاں دنبوں کی قربانی زیادہ تعداد میں ہوتی تھی، اس کے بالمقابل گائے اور اویٹ کی تعداد قربانی میں عشر عشیر بھی نہیں ہوتی تھی۔
اس کے علاوہ ہمارے خسرو دکن مدظلہ اکثر و بیشتر جس طرح رعایائے ہنود کے دلی احساسات کو مطمح نظر رکھتے آ رہے ہیں، یہ اللہ پاک کی فطرتی نعمت ہے جو آپ کی طبع اقدس میں ودیعت فرمائی گئی ہے اور وارثاً بھی منتقل ہوتی آئی ہے۔

اس موقع پر مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے جو دراصل ایک سیاسی درس ہے اور جو میں نے اپنے جد امجد مہاراجہ نراندر بہادر مرحوم سے سنا تھا۔ فقیر کے یہ جد حضرت نواب ناصر الدولہ غفران مآب کے مورد الطاف شاہانہ تھے۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت نواب ناصر الدولہ خسرو دکن جو آئین ملک کے لیے طبعِ آئینہ رکھتے تھے، اپنی ہندو رعایا کے ساتھ ایسی محبت سے برتاؤ کرتے تھے جیسا کہ مسلم رعایا کے ساتھ۔ غرض دونوں مخصوص گروہ پر شاہی نوازشات تھیں۔ چنانچہ مرحوم و مغفور کو بھی گائے کے گوشت سے بالکل رغبت نہیں تھی اور جب کبھی عیدین کے موقع پر قربانی کی اجازت دیتے تو ان الفاظ میں کہ:
"سنت ابراہیمی اور حکم شرع محمدی ترک نہ ہونے پائے"
اور یہ فرماتے:
اس کے سوا اور کوئی غرض ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو یہی ہے کہ ہماری ہندو رعایا جو دوچند ہے، مسلم رعایا سے ان کی دلجوئی زیادہ تر ہم پر واجب ہے"۔

ہمارے محبوب دکن تاجدار رعیت پرور نے گائے کے گوشت کی جانب کبھی رغبت نہیں فرمائی۔ اس فقیر کی وزارت کے زمانے میں برہمنوں کے ایک گروہ نے، جن میں اکثر نجومی داخل تھے، اور جن کا خاص کام یہ تھا کہ سالانہ حصول انعام اور اپنے مقاصد کی غرض سے تمام سال کا زائچہ بنا کر پیش کیا کرتے تھے، آپس میں اتفاق کیا کہ حضرت محبوب دکن کی ان نوازشات کا جو قومِ ہنود کے شامل احوال تھیں، امتحان کریں۔
سو ایک عرضی پیش کی جس میں یہ عرض کیا گیا کہ اب کے سال چند نحس ستاروں کا اجماع ہوا ہے۔ اس کے رد میں جہاں صدقے کی اشیا کی فہرست مرتب کی تھی اس میں یہ بھی لکھ دیا کہ گیارہ یا اکیس گائیں خیرات کی جائیں۔
اس درخواست کو دیکھ کر حضور متبسم ہوئے۔ اس وقت اتفاق سے دربار میں فقیر بھی حاضر تھا اور اس وقت کے صدر محاسب راجہ مرلی منوہر آنجہانی بھی۔ ہم دونوں کی طرف مخاطب ہو کر حضور نے فرمایا:
"گائے کھانے والے کیا گائے کی خیرات کر سکتے ہیں؟!"

میں اس راز سے بالکل بےخبر تھا کہ کس بنا پر ایسا ارشاد ہوا ہے اس لیے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو ادباً سر جھکا لیا۔ جبکہ راجہ مرلی منوہر مراحم خسروانہ کے بھروسے پر بےدھڑک کچھ بھی عرض کر دیا کرتے تھے اور ان کی ناز برداری بھی ہوتی تھی۔ چونکہ وہ "گائے کی خیرات" والے برہمنوں کے مطالبے سے واقف تھے، لہذا انہوں نے دست بستہ عرض کیا:
"جراح جہاں جراحی کرتا ہے وہاں مرہم بھی لگاتا ہے"

حضور نے تبسم فرما کر برہمنوں کی اس درخواست کو راجہ موصوف کے حوالے فرما دیا۔ اور حسب درخواست یہ حکم دیا کہ مقررہ تاریخ پر گائیں حاضر رکھی جائیں۔
چنانچہ حسب الحکم گائیں حاضر رکھی گئیں۔ اور ہر ایک گائے ایک ایک برہمن کو نقد رقم مقررہ کے ساتھ مرحمت فرمانے کے لیے راجہ مرلی منوہر کو حکم ہوا۔ انہوں نے نیابتاً اس کام کو انجام دیا۔ یعنی حضور نظام کی جانب سے صدقہ دیا گیا۔

اس دن یہ ارشاد ہوا کہ آج ہماری رعایا نے ہمارا امتحان لیا۔ ہم کو بھی ان کی کیفیات قلبی کا احساس اور ان کے مقاصد کی مراقبت سیاسی نظر سے ضروری ہے۔ اگرچہ ہم رغبت سے گائے کا گوشت نہیں کھاتے، مگر آج سے رعایا کی خاطر اس کا کھانا بالکل ترک کر دیں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا کہ اس دلنواز تاجدار نے اُس تاریخ سے تا زندگی گائے کا گوشت تناول نہیں فرمایا۔

اس موقع پر بعض علمائے دکن کے خیالات کا حضور نظام کو علم ہوا کہ گائے کی خیرات کرنے پر علما کو اعتراض ہے۔
ارشاد ہوا کہ ان سے کہہ دو کہ میں گروہ اہل سنت اور جماعت سے اور حنفی المذہب ہوں۔ اور مجھ سے زیادہ کوئی اپنے مذہب کا فدائی نہ ہو سکے گا۔ میرا مذہب ہنود کا رشتۂ زنار نہیں ہے کہ ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جائے۔
اسلام سمندر ہے۔
میرے ہادی برحق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جبکہ اپنے پڑوسیوں کے دلی جذبات اور حسیات قلبی کو بلاتعین قوم و مذہب ہمیشہ مدنظر فرمایا ہے تو میں ان کا ایک ادنیٰ امتی اور خادم ہو کر اپنی کئی لاکھ ہندو رعایا کی دل شکنی کو کسی طرح روا نہیں رکھ سکتا۔ میرے لیے میرے نبی صاحبِ شریعت کی تعلیم کافی ہے اور سیاسی معاملات میں علماء کی توجیہ اور تاویل متعصبانہ و دور از مصلحت ہے۔

ہمارے حضور پرنور پورے طور سے
میراث پدر خواہی علم پدر آموز
کا مصداق ہیں۔ اور اپنے فدائیان ملک اور رعایا کے احساسات قلبی کو ہمیشہ بطیب خاطر محسوس فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرقۂ ہنود مسلمانوں سے زیادہ اظہار جاں نثاری اور فرمانبرداری کے لیے ہر وقت مستعد رہتا ہے، شاہی اور فرمانروائی کی شان بھی یہی ہے۔ الغرض نقلاً اور روایتاً اور بعض چشم دید خود۔ اس فقیر کا ذاتی تجربہ ہے جو کچھ کہ بیان کیا ہے۔

***
نام کتابچہ: قربانی
تالیف: مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد
تعداد صفحات: 12
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 0.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Qurbani by Kishen Prasad Shad.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

Cow sacrifice in erstwhile state of Hyderabad. by: Sir kishen prasad shad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں