زمین کے دکھ - افسانہ از سلطان جمیل نسیم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-07-31

زمین کے دکھ - افسانہ از سلطان جمیل نسیم

zameen-ke-dukh-sultan-jamil-naseem

سلطان جمیل نسیم (پیدائش: 14/اگست 1935، آگرہ - وفات: 30/جولائی 2020 ، کراچی)
ممتاز افسانہ نگار، ڈراما نگار اور شاعر تھے، جن کا اصل نام خواجہ سلطان جمیل تھا۔ ان کے والد خواجہ محمد امیر المعروف صبا اکبرآبادی تھے اور پاکستان ٹیلی ویژن کراچی کے سابق پروڈیوسر و جنرل مینجر تاجدار عادل، سلطان جمیل کے چھوٹے بھائی تھے۔
سلطان جمیل نسیم کی وفات پر انہیں خراج عقیدت کے بطور ان کا ایک یادگار افسانہ باذوق قارئین کے لیے پیش خدمت ہے، جو سنہ 1992 میں رسالہ "انشاء" (کولکاتا) کے "عالمی اردو افسانے نمبر" میں شائع ہوا تھا۔

بوسیدہ، ملگجا اور بھیگا ہوا کپڑے کا ٹکڑا، اپنے انجام سے بےخبر ایک لمحے کے لیے چٹکی کے سہارے لٹکتا رہا پھر دوسرے اور نسبتاً کھردرے ہاتھ میں منتقل ہوا جہاں پہنچ کر اسے آرام سے نچوڑا گیا، پھر اسی احتیاط کے ساتھ جھٹک کر سلوٹیں دور کی گئیں۔
باریک سوتی کپڑے کا یہ ٹکڑا، اپنے صاف ستھرے ماضی سے کٹ کر ایک ساڑی کی صورت میں یہاں پہنچا تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ سانولے سلونے نازک ہاتھوں نے بہت دیر تک بڑے پیار سے اسے سہلایا، تھپکا اور سینے سے لگا لیا۔ پھر دوسرے دن کومل سے بدن کی کنواری خوشبو اس میں بسی۔ چند گھنٹوں کے بعد رات آئی تو سہاگ کی مہکتی ہوئی سانسیں اس کی ایک ایک گرہ سے ٹکرائیں۔ پھر وہ اس بدن کا حصہ ہی بن گیا۔ دن رات اڑنے والی گرد نے اس کا اور اس میں لپٹے ہوئے بدن کا ۔۔۔ دونوں کا حال ایک کر دیا۔
ایک رات جب اس نے تڑپتے ہوئے بدن کا سارا درد اپنی سلوٹوں میں بھر لیا، تب ایک ننھے سے وجود کی نئی آواز نے جہاں اس بےکل بدن کو شانت کیا وہیں اس کی سلوٹوں کو بھی دور کرا کے اپنے اوپر پھیلوا دیا۔

ممتا کی مہک اپنے اندر جذب کر کے وہ بھی اتنا ہی مطمئن اور مسرور ہوا تھا جتنا اس میں لپٹا ہوا بدن۔
ایک دن اس نے یہ باتیں سنیں۔
"میری اور تمہاری عمر محمد پور کے اس کیمپ میں گزر جائے تو غم نہیں لیکن محمد کریم کے لیے تو کچھ سوچنا ہی پڑے گا۔"
"مگر ہم کیا کر سکتے ہیں؟"
"وہ ہمیں بلاتے کیوں نہیں؟"
"اللہ بڑا کریم ہے۔"
پھر ان باتوں کے تین دن بعد وہ پیروں میں الجھتا ہوا، ہاتھوں سے نکلتا ہوا اس آگ کی طرف بڑھنے لگا جو دلوں سے نکل کر کیمپ میں پھیل گئی تھی۔ جب بہت سارے ہاتھوں نے اس کو تھاما تب معلوم ہوا کہ جس طرح آگ زندگی اور زندگی کے لوازمات کو نگل رہی ہے اسی طرح وقت کی زبان نے اس کی طاقت چاٹ لی ہے۔ پھر وہ اجنبی ہاتھوں کے لمس برداشت نہیں کر سکا اور جگہ جگہ سے مسک گیا۔ آگ دن بھر بھڑکتی رہی اور وہ آنسو جذب کرتا رہا۔ جب آگ بجھی تو ننگے آسمان نے اچانک سیاہ بادلوں کی چادر اوڑھ کے زار و قطار آنسو بہانے شروع کر دئے۔ آگ کی تپش نے اس کو زخموں کی طرح خشک کر دیا تھا تو بارش کی نوکیلی بوندوں نے زخموں ہی کے مانند اس کو چھیل کر رکھ دیا۔
پھر اس کا وہ حصہ الگ کیا گیا جو بہت سے ہاتھوں کے لمس اور بارش کی خراشوں سے محفوظ تھا۔
بوسیدہ، ملگجا اور بھیگا ہوا کپڑا، اپنے انجام سے بےخبر ایک لمحے کے لیے چٹکی کے سہارے لٹکتا رہا۔ پھر دوسرے نسبتاً کھردرے ہاتھوں میں منتقل ہوا جہاں پہنچ کر اسے آرام سے نچوڑا گیا پھر اسی احتیاط کے ساتھ جھٹک کے سلوٹیں دور کی گئیں۔ اور ایک چھ مہینے کے بچے کی جھلسی ہوئی لاش کو اس میں لپیٹ کر ایک چھوٹے سے گڑھے میں دبا دیا گیا۔

وہ پہلا ورق پڑھنے کے بعد کمرے میں ٹہلتا رہا۔ پھر اس نے دوسرا صفحہ اٹھایا اور اونچی آواز سے پڑھنے لگا۔

دیدی۔ پرنام
آج آپ کا پتر ملا۔ کل بنسی کے ہاتھ بھیجے ہوئے سو روپے بھی مل گئے تھے۔ شام کو بمبئی گئی۔ پورے پانچ مہینے ہو گئے ہیں اور اب تک ان کی کوئی خبر نہیں ملی ہے۔ اسی کارن یہ چنتا بھی لگی رہتی ہے کہ اگر کام کاج نہیں ملا تو ان پر کیا بیت رہی ہوگی۔ پر یہ وشواس بھی ہے کہ جوں ہی ان کو کام ملا وہ ہم کو اپنے پاس بلوا لیں گے۔
بیس پچیس دن ہوئے ہیں کہ منو کو بخار آیا تھا۔ کسی نے کہا معمولی بخار ہے۔ پیٹ بھر کے کھلاؤ جاتا رہے گا اور کسی نے کہا کہ یہ ایسا بخار ہے جو ہاتھ پاؤں لیے بنا نہیں ٹلتا۔ پاس پیسہ نہ ہو تو روٹی بھی مہنگی لگتی ہے اور علاج بھی۔ اس لیے آپ کو لکھا تھا کہ کچھ پیسے بھیج دیں۔ مگر آپ کو چٹھی لکھنے کے دوسرے ہی دن منو پرلوک سدھار گیا۔ اس کی ننھی سی چتا میں جو آگ لگی تھی وہ تو بجھ گئی پر میری کوکھ ابھی تک جل رہی ہے۔
ابھاگن
- رادھا

پڑھنے کے بعد یہ صفحہ ہاتھ میں لیے وہ کمرے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک گیا۔ پھر اس نے تیسرا صفحہ پڑھنا شروع کیا۔

اس کا باپ پہلے حبشہ کے باغیوں میں شمار ہوتا تھا کہ اریٹیریا کے محاذ آزادی سے اس کا تعلق تھا۔ پھر جب ایتھوپیا کے جسم سے بادشاہت کے ناسور کو کاٹ دیا گیا اور اشتراکی انقلاب سے ملکی نظام کی مرہم پٹی کر دی گئی تو اس کا باپ انقلابیوں کا باغی قرار پایا۔ اور باغی کی سزا موت ہوتی ہے۔ اچھا ہوا گولی کھا کے مر گیا ورنہ موت تو اس کا مقدر تھی، بھوک نگل کے مر جاتا۔ باپ کے مرنے کے بعد وہ اپنی ماں کے ساتھ رہا۔ ماں چند روز تک اپنے ساتھ لیے لیے پھری، جو کچھ ملتا پہلے اسے کھلاتی۔ مگر ایک دن جب وہ سو کر اٹھا تو ماں موجود نہیں تھی۔ پہلے وہ بسورا۔ پھر رویا اور پھر چیخ چیخ کر ماں کو آوازیں دینے لگا۔ خدا معلوم ماں کو آسمان نگل گیا تھا یا زمین کھا گئی تھی۔ اب کوئی ہاتھ پکڑنے والا تو تھا نہیں، اس لیے جدھر سینگ سمائے چلتا گیا۔
سات برس کا بچہ ادھر ادھر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اس کیمپ میں پہنچ گیا جہاں ننگے بھوکے لوگ غذائی امداد کے انتظار میں آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تو اڑتی ہوئی چیلوں کو دیکھتے اور زمین کی جانب نگاہیں پھیرتے تو انسان کے قدم بہ قدم چلتے پھرتے گدھ نظر آتے۔
سات برس کے اس لڑکے کا نام ۔۔۔ مگر نام میں کیا رکھا ہے۔ نام تو شناخت ہے اور اس بےشناخت بھوکے لڑکے کا نام بتانے والا باپ انقلابیوں کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ ماں حبشہ کی گلی کوچوں میں گم ہو گئی۔ تو اپنی سہولت کی خاطر اس بےنام لڑکے کو "بھوکا" کہا جا سکتا ہے۔
بھوک حشرات الارض کے مانند پورے علاقے میں پھیل گئی ہے اور ایک ایک ذی روح کو ڈس رہی ہے۔ نوجوان اور عمر رسیدہ لوگوں میں اتنی قوت مدافعت ہے کہ وہ فوراً ہی اس کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔ دس پانچ روز تک مقابلہ کرتے ہیں لیکن چھوٹی عمر کے بچے بالے دس پانچ وقت کے فاقے کے بعد ہی دم دے دیتے ہیں۔
"بھوکا" کیونکہ سات برس کا لڑکا ہے اور بھوک کے حملے سے پہلے خاصا تندرست و توانا بھی تھا اس لیے ابھی تک زندہ ہے۔ اس کے جسم کا گوشت گھل رہا ہے۔ ہاتھ پیر ٹھٹھر رہے ہیں اور بھوک کا زہر پیٹ میں بھرتا جا رہا ہے۔
بھوکا اپنے لاغر جسم کے ساتھ اس وقت خاصا تیز دوڑتا ہے، جب غذائی اجناس لانے والے ٹرک کیمپ کے پاس آ کر رکتے ہیں۔ اس کو سب سے زیادہ دقت اس وقت ہوتی ہے جب دودھ تقسیم ہوتا ہے اس لیے کہ فی الوقت اس کے پاس کوئی برتن نہیں ہے، وہ اوک سے پینا چاہتا ہے مگر کوئی نہیں دیتا۔
زندہ رہنے کی خواہش بڑے بڑوں کو احمق بنا دیتی ہے اور چھوٹے چھوٹے معصوموں کو دانشمند۔ کیمپ میں چند روز گزارنے کے بعد "بھوکا" پیٹ بھرنے کا گر سیکھ گیا۔ اب وہ ان لوگوں کو جن کا رنگ سفید ہے اور جن کے گلے میں سیاہ قیمتی کیمرے پڑے ہوتے ہیں، اس وقت تک اپنی تصویر نہیں بنانے دیتا جب تک وہ ان سے بسکٹ کا ڈبہ حاصل نہ کر لے۔ ان ہی لوگوں سے اس نے ایک ایسا پیالہ بھی حاصل کر لیا ہے جس کو خوراک مانگتے وقت وہ کشکول کی طرح سامنے کر دیتا ہے۔
"بھوکا" تصویر اتروانے کا ڈھنگ بھی جان گیا ہے۔ جب خوراک اس کے ہاتھ لگ جاتی ہے تو وہ دونوں ٹانگیں پھیلا کے پیٹ میں بھوک کے ساتھ ہوا بھر کے، آنکھیں میچ کے دانت اس طرح نکوستا ہے جیسے بھوک کو چبا رہا ہو۔
اس کی بہت تصویریں اتر گئیں، ساری دنیا کے اخباروں میں چھپ گئیں۔ یہ تصویریں حکومت کے لیے کشکول ہیں۔ تصویریں دکھائی جاتی ہیں اور امداد مانگی جاتی ہے۔
لیکن اب۔۔۔ تین دن سے بھوکا انتظار میں ہے۔ امدادی ٹرک آتے ہیں اور نہ فوٹو گرافر۔ بھوک جو تڑخی ہوئی زبان میں چھپی بیٹھی ہے اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ بھوکا پہلے بیٹھا اور اب لیٹ گیا ہے۔ اس کی جدوجہد جاری ہے۔ وہ زمین کا رزق نہیں بننا چاہتا۔ مگر کب تک؟

"تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ ان بکھرے ہوئے واقعات کو ایک کہانی کیسے بناؤ گے؟"
اس نے تیسرا صفحہ پڑھنے کے بعد مجھ سے پوچھا۔ میں نے کوئی جواب دئیے بغیر آخری صفحہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے پہلے میری بات کو سمجھنے کے انداز میں کندھے اچکائے، پھر پڑھنے لگا:

یہ دو تصویریں ہیں۔
پہلی تصویر میری ہے۔ میں اس تصویر میں جھک کر زمین کو دیکھ رہا ہوں۔ میں جو ایک جیولوجسٹ ہوں۔ زمین کے سینے میں چھپے ہوئے خزانے تلاش کرتا ہوں۔
میری تصویر کو دیکھ کر میرے پانچ برس کے بیٹے نے پوچھا:
"ابو۔ آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟"
"تمہارا خوشحال مستقبل۔"
میرا جواب میرے بیٹے کی عمر سے بہت آگے کا ہے اس لیے وہ سمجھے بغیر میری تصویر کو ایک نظر اور دیکھتا ہے، کچھ اور پوچھنا چاہتا ہے مگر اس خیال سے خاموش رہتا ہے کہ اس مرتبہ بھی اس نے ایسا ہی سمجھ میں نہ آنے والا جواب پایا تو۔۔۔ تو وہ اپنے باپ کی تصویر دیکھ کر ایک بار پھر خوش ہوتا ہے لیکن کچھ بولتا نہیں۔
دوسری تصویر --- کسی اخبار میں چھپ چکی ہے اور اسی اخبار کا تراشا ہے۔ یہ تصویر دو بچوں کی ہے۔ یہ دونوں بچے فلسطینی ہیں اور صابرہ اور شتیلا کے کیمپوں پر اسرائیلی حملے کے بعد بکھرے ہوئے ملبے پر کھڑے ہیں۔ ان کی نظریں مہذب دنیا کی طرف نہیں ہیں بلکہ ملبے میں کچھ تلاش کر رہی ہیں۔
میرا بیٹا اس تصویر کو بھی بڑے غور سے دیکھ رہا ہے، پھر وہ پوچھتا ہے:
"ابو۔ یہ کون ہیں؟"
میں بہت دیر تک اس سوال کو دہراتا رہتا ہوں۔ پھر آہستہ سے کہتا ہوں:
"بےوطن"
یہ جواب بھی میرے بیٹے کی عمر سے بہت آگے کا ہے اس لیے وہ سمجھے بغیر ایک مرتبہ پھر اخبار سے تراشی ہوئی تصویر کو دیکھتا ہے، دیکھتا رہتا ہے، پھر بھولپن سے پوچھتا ہے:
"یہ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟"
"اپنا مستقبل۔"
میرا جواب سن کر میرا بیٹا حیرت بھری نظروں سے میری آنکھوں میں خود کو دیکھنے لگتا ہے۔

آخری صفحے کو پڑھنے کے بعد اس نے میز پر رکھا اور دھیرے سے کہا:
"ہاں۔ اس صفحے پر لکھے ہوئے جملوں سے ایک کہانی بن سکتی ہے۔"
"یہ تمام صفحے ایک ہی کہانی کے ہیں۔"
"ایک کہانی ۔۔۔!؟ مگر یہ مختلف واقعات ہیں۔ ان میں کوئی ربط نہیں ہے۔"
"ان میں ربط ہے۔ صرف ایک فقرہ ان کو مربوط کر دے گا۔"
"صرف ایک فقرہ ؟"
"ہاں۔ صرف ایک فقرہ۔ کہ ۔۔۔ اقوام متحدہ کے زیراہتمام بچوں کا عالمی سال منایا گیا۔"

یہ بھی پڑھیے:
سلطان جمیل نسیم بقلم خود - سوانحی کالم

ماخوذ:
ماہنامہ "انشاء" کولکاتا۔ عالمی اردو افسانے نمبر۔ (اکتوبر-1992)

Zameen ke Dukh. Short Story by: Sultan Jameel Naseem

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں