اردو طنز و مزاح میں سماجی عناصر (کرناٹک کے حوالے سے) - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-18

اردو طنز و مزاح میں سماجی عناصر (کرناٹک کے حوالے سے)


ادب انسانی زندگی کے ظاہری وباطنی پہلو کے سمجھنے کے لئے تاریخی اور تہذیبی مطالعے میں معاون سمجھا جا ہے۔ادب کا حقیقی مطالعہ تہذیبی سیاق و سباق ہی میں ممکن ہے کسی بھی زبان کا ادب صرف ادب ہی نہیں ہوتا بلکہ تہذیبی دستاویز کا درجہ رکھتا ہے۔سماج اور سماجی طبقات کی بہترین عکاسی ادب میں صاف نظر آتی ہے۔بلکہ یہ ادب پارے، بقول لوونؔ تھال
"حقیقت سے زیادہ حقیقت ہوتے ہیں"۔
حقیقتاً اگر دیکھا جائے تواردو ادب میں سماج کے معائب و محاسن،نشیب و فرازاور مسائل و مظاہرتقریباً موجود ہیں۔ان میں نہ صر ف مسائل کے تذاکر ہوتے ہیں بلکہ ان کے حل بھی تلاش کئے جاتے ہیں۔ان کا تعلق انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے ہو تا ہے۔چونکہ ادب اور سماج کا تعلق بہت گہرا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر محمد حسن ادبی سماجیات کے حوالے یوں کہتے ہیں۔
"کوئی تخلیقی فن پارہ اپنی آوازِ باز گشت سے خالی نہیں ہوتا۔ مختلف صورتوں سے وہ عوام تک پہنچتا ہے۔ قبولِ عام حاصل کرتاہے اور اس کی مقبولیت کبھی کبھی اس حد تک بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے دور کی آواز ہی نہیں بنتابلکہ اس آواز کو تبدیل کرنے میں معاون ہوجا تا ہے۔ادیبوں اور شاعروں کا ذاتی اثر یوں بھی ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے ان کی نقل کرنے لگتے ہیں۔ نشست و برخاست، رہن و سہن، طرزِ گفتگو،لباس اور پوشاک ہی نہیں،چلنے پھرنے کے طریقے اور تفریحات و مشاغل میں بھی ان کی تقلید ہوتی ہے۔"

بیسویں صدی کے بیسوں مسائل، اکیسویں صدی کے نئے نئے مسائل، اردو کا دامن نہایت وسیع ہے۔عالمی ادب کے نئے نئے رجحانات،نئے نئے زاویے،جدید طرز و اسلوب لئے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔چاہے وہ سماجی مسائل قومی ہوں یا بین الاقوامی،ملکی ہوں یا ریاستی، اپنی گلی سے ہوں یا دلّی سے،مردانی ہوں یا نسوانی،بچکانی ہوں یا جوانی، تعلیمی ہوں یا تہذیبی،مسلکی ہو یا مذہبی،تفکری ہو یا تخیلی،تناظری ہو یا تعصبی،ثقافتی ہو یا تمدنی،انفرادی ہوں یا اجتماعی،سیاسی ہوں یا ملی،ادبی ہوں یا لسانی،تفاخری ہوں یا تنازلی،تجاہلی ہوں یا تساہلی،اندرونی ہوں یا بیرونی،مشرقی ہوں یا مغربی،ان تما م مسائل کا حل باالعموم اردو ادب میں اور بطورِ خاص اردو طنز ومزاح اپنے طنّاز بھرے تیر ونشتر اور مزاح سے لبالب میٹھے و شیرین گد گداتیں لہریں،سماجی مسائل کے آئینہ دار ہی نہیں ہوتیں بلکہ ان مسائل کے تحلیل ہونے کے ساتھ ساتھ حلاوت دار بھی ہوتے ہیں۔جس سے سماج کا نقشہ بدلہ جاسکتا ہے اور بے جا مسائل کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔

عالمی مفکرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ جانور ہنسنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں لیکن انسان کی ہنسی کا باعث ضرور ہوتے ہیں کیونکہ جانوروں کی بعض بے ساختہ حرکتیں اور اُن کی حِس مزاح کو مہمیز کرتے ہیں۔ چونکہ انسان ایک سماجی جانورہے جس میں قدرت نے ہنسنے ہنسانے کی صلاحیت سمودی ہے۔ ہنسی انسان کی طبعی ضرورت ہے،جودائمی نہ ہوتے ہوئے بھی بہت مشکل ہے۔رونا تو بہت آسان ہے۔اگر انسان نہ بھی روئے تو سماجی مسائل اسے غم زدہ ضرور کرتے ہیں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ معاشرہ کی ہنسی ہو یا خوشی تہذیب کے ارتقاء کی علامت ہوتی ہے۔خوش حال و صحت مند سماج کا منظر پیش کرتی ہے۔ طنز ومزاح صرف ہنسی کا نام نہیں بلکہ سماج کے لامنتہا تصورات کوبڑی ہی گہرائی و گیرائی سے پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

بطورِ نمونہ فرموداتِ مجتبیٰ حسین بر طنزیہ و مزاحیہ ادب سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو
"انسان کی تہذیب کا سفر دراصل ہنسی کے ارتقا کا سفر ہے کسی معاشرہ کی ہنسی ہی اس کی تہذیب کے ارتقا کی علامت ہوتی ہے۔رونے کے لئے اتنا شعور درکار نہیں جتناہنسنے کے لئے ضروری ہو تا ہے۔ایک اچھا طنزو مزاح نگار یہ طے کرلے کہ کس پر ہنسایا جائے۔کتنا ہنسایا جائے اور کب ہنسایا جائے تو بظاہر اس کی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جتنا دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ عمل گہرے سماجی تصور کا متقاضی ہو تا ہے۔"

بیسویں صدی کے وسط سے اکیسویں صدی کے اس دوسرے دہے تک جنوبی ہندمیں اردو طنز مزاح کی آبیاری جس طرح ہوئی ہے وہ فقیدالمثال ہے۔ہندوستان میں جس طرح طنز و مزاح کا نام لیتے ہی حیدرآباد کا تصور ابھرتا ہے اسی طرح جنوبی ہند میں ایک اور نام بھی ابھرتا ہے اور وہ ہے شہر بنگلور اور ریاست کرناٹک۔جس طرح حیدر آباد میں "انجمن خوش دلان"حیدرآباد موجود ہے وہیں بنگلور میں "انجمن خوش دلان" کرناٹک قائم ہے۔ اور جس طرح حیدآباد سے "شگوفہ"اور یہاں سے طنز و مزاح پر مبنی ایک رسالہ دو ماہی"ظرافت" شائع ہوتا رہا ہے۔اور اب سہ ماہی ظریفانہ رنگ کا اظہاریہ"طنزو مزاح" پابندی سے نکل رہا ہے۔کرناٹک میں یوں تو بہت سارے ادیب ہیں۔جو طنزو ظرافت کے شہ سوار ہیں۔جن میں قابل ذکر مجتبیٰ حسین،عظیم الدین عظیم،رؤف خوشتر،شکیل رضا،ڈاکٹر حلیمہ فردوس،ڈاکٹر زبیدہ بیگم،ڈاکٹر فرزانہ محتشم جن کے طنز و مزاح میں سماجی عناصر قابل قدر ہیں۔ان کے علاوہ ابراہیم جلیس،عبدالقادر ادیب،لئیق صلاح،محمد فاروق نشتر،امجد علی فیض،فوزیہ چودھری،مختار احمد منو،منظوروقاراور رزاق افسر وغیرہ قابل ِ ذکر ہیں۔

مجتبیٰ حسین کی مزاح نگاری کا ایک مقصد یہ بھی ہی کہ لوگوں کو ہنسایا جائے تاکہ وہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی تلخی حیات کو بھول جائیں۔ مجتبیٰ حسین کا مشاہدہ بہت تیز ہے۔ وہ صاحبِ بصیرت ہو نے کے ساتھ ساتھ کھلی آنکھوں سے سماج اور معاشرے کو دیکھتے ہیں۔ موجودہ حالات نے انسان سے اس کی خوشیاں چھین لی ہیں۔ ایسے دور میں ہنسنا ہنسانا دل گردے کا کام ہے مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں:
"سچ پو چھیے تو موجودہ حالات میں ہنسنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ جب بھی دنیا کے کسی حصے میں قتل و غارت گری کی خبریں پڑھتا ہوں۔ نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر سنتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے صدیوں کا ذہنی سفر طے کرنے کے باوجود انسان ابھی تک ہنسنے کا اہل نہیں بن سکا۔اگر وہ ہنستا بھی ہے تو اس کی ہنسی بڑی پر آشوب ہے بڑی بھیانک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود میں ہنسنے کا قائل ہوں"
(قطع کلام۔۔۔۔مجتبیٰ حسین)

مجتبیٰ حسین کی تحریروں پر اگر عمیق نگاہ ڈالی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ صر ہنسنا ہنسانا ہی ان کا مقصد نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے اصلاح کا مقصد بھی پوشیدہ نظر آتا ہے۔وہ اپنی تحریروں میں سماج کے سُلگتے مسائل پر آواز بلند کرتے ہیں ان کی تحریروں میں صرف مزاح ہی نہیں بلکہ طنزیہ نِشتر بھی موجود ہیں۔جس سے وہ سماجی و تہذیبی مسائل کا حل چاہتے ہیں اور بطو ر خاص مختلف سیاسی وہ سماجی حالات میں سدھار مقصد ہو تا ہے۔ ان کے یہاں گہرا سماجی شعور پایا جاتا ہے جو صرف کتا بی علم کامرہونِ مِنت نہیں بلکہ مصنف حالات کی چکی میں پیسنے کے بعد حاصل شدہ تجربات کا نچوڑ قاری کے سامنے پیش کرتا ہے جویقیناً گہرے مشاہدے سے ہی حاصل ہو تا ہے۔ادب کو سماج کے رشتوں سے اور سماج کو ادب کے وسیلے سے جوڑنا،نہ صرف جوڑنا بلکہ ادب کے آئینے میں عصری مسائل،زندگی کے اقدار،بدلتے ہوئے ذوقِ فطرت و ذوقِ سلیم اور ان کے حسّاس محرکات کو جاننا،پہچاننا اور پرکھنا کامیاب ادبی تحریر کی علامت ہے اور اس سے آگے بڑھ کر وہ تخلیق کے ساتھ ساتھ تخلیق کارکابھی مسائل تلاش کرنا،اندازِ بیان اورتکنیک کے بدلتے ہوئے تصوّرات کو برتنا اعلیٰ ادبی اقدار کا پاس و لحاظ رکھنا کامیاب تخلیق کار کی علامت ہے اور یہ تمام باتیں مجتبیٰ حسین اور ان کی ظریفانہ تحریروں میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

پانی ہمارے سماج کی بنیادی ضرورت ہے۔ اب تو اس پر کئی اجلاس و سیمینار مُنعقِد ہو رہے ہیں۔ پانی کا مسئلہ قومی بھی ہے اور بین الاقوامی بھی۔بلکہ یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ آئندہ عالمی جنگ پانی کے مسئلہ پر ہوگی۔پانی کے موضوع پر مجتبیٰ حسین نے ایک مکالمہ قائم کیا ہے۔وہ اپنے مضمون"پانی 2050 میں" کے زیر عنوان سن 2050ء کی صورت حال کی پیشن گوئی دیتے ہیں۔جو ابھی ہم سے صرف 30 سال کے فاصلہ پر ہمارا انتظار کر رہا ہے۔لیکن یہ صورتِ حال آج ہی سے اپنا رنگ دکھانا شروع کردی ہے۔پانی ملک کا سنگین اور ریاستِ کرناٹک کا غمگین مسئلہ بناہوا ہے۔کاویری ندی کو لے کرریاست تمل ناڈو اور کرناٹک الجھے ہوئے ہیں۔جبکہ کاویری میں پانی ہی نہیں ہی۔اقتباس ملاحظہ ہو:
"دنیا نے ترقی کی دوڑ میں جب تیل کے پیچھے بھاگنا شروع کردیا اور پانی کو پوچھنے والا کوئی نہیں رہا تو پانی اپنی اس بے عزتی پر خود شرم سے پانی پانی ہوگیا۔نل تو خیر پہلے ہی سے سوکھ گئے تھے۔دریا بھی سوکھ گئے۔یہی نہیں زیر زمین پانی کی سطح کچھ اتنی نیچے چلی گئی کہ لاکھ کھودنے پر تیل تو نکل آتا تھا لیکن پانی نہیں نکلتا تھا۔ماہرین ارضیات کو یہ اندیشہ بھی یہ ستانے لگا کہ زیر زمین پانی کی تلاش مین اگر قطبِ شمالی سے کرہ ارض کے اندر بورویل کے ذریعہ سوراخ کرتے چلے جاؤ تو یہ سوراخ کہیں ایک دن قطبِ جنوبی سے باہر نہ نکل آئے۔اس طرح زمین کے محور اور اس کی گردش میں فرق پڑجانے کا اندیشہ تھا۔ انسان نے پانی پینے کے جو برتن جیسے گلاس،لوٹے، صُراحی اور جگ وغیرہ بنائے تھے وہ سب بے کار ہوگئے۔غریب لوگ ڈراپروں اور امیر لوگ چمچوں سے پانی پینے لگے۔"
- ڈاکٹر زبیدہ بیگم

آج ہر بڑے شہر میں فلائی اورس ہونے کے باوجود’ٹرافک جام’ ہر جگہ لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے آفس پہنچنے میں دیری،اسکول و کالج تاخیرسے پہونچنے پرC۔L۔ کی انٹری، اور یونیورسٹی تو تقریباً شہر کے باہر ہی ہوتے ہیں۔تاخیر پر تاخیر،اور تو اور آج کلایمرجنسی حالات میں امبولنس کو ھسپتال پہنچے میں دقّت،جس سے مریض کی تو جان نکل ہی جاتی ہے ساتھ ہی ساتھ مریض کے ساتھ امبولنس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی پورا نہیں تو آدھا دم نکل ہی جاتا ہے۔ اور گاڑیوں کی کثرت سے کی وجہ سے پالوشن کی برکت تو ہے ہی۔

ڈاکٹر زبیدہ بیگم کا مضمون یہ مسائل ِٹریفک میں دولھے کے شادی سے مکر جانے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو:
"ہندوستان کے ہر عروس البلاد کی طرح ہر سطح پر پیاراڈاکس کا شکار ہے۔ اس کے وہ پس ماندہ و در ماندہ علاقے اپنے اندر عظمت گذشتہ کی بڑی ہی عبرت انگیز داستانیں رکھتے ہیں۔نئے ہزاریے نے آپ کو بھی ہر شئے کے نئے معنی سے آشنا کیا ہوگا، اب ہمارے شہر بنگلور ہی کو لیجئے۔یہ جو کبھی باغوں،پھولوں اور سہانے موسموں کا مسکن ہوا کرتا تھا اور جسے شہریان بنگلور بڑے ہی ناز و ادا کے ساتھ شہر گلستان کہتے اب اس شہر کو سیاسی گرگوں نے نجستان بنا دیا ہے گویا اس پر انہوں نے اپنے اعمال و افعال کا سارہ برادہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔اور اس پر مستزاد یہ کہ شہر کی ٹریفک نے اپنے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کبھی شاہجہاں نے کشمیر کے حسن کو دیکھ کر کہا تھا کہ روئے زمین پر اگر کہیں جنت ہوتی تو وہ یہیں ہوتی یہیں ہوتی اور یہیں ہوتی اب اگر جنت مکانی شاہجہاں کو کسی دن بنگلور کی سڑکوں پر ٹریفک کے اذدحام میں لا کر چھوڑ دیا جائے تو وہ کہ اٹھیں کہ اگر دوزخ بر روئے زمیں استو،یہیں استو، یہیں استو،یہیں استو، سودا کا بد بخت گھوڑا اپنی نا توانائی کی بدولت جوان دولھا کو بوڑھا کر لے گیا،اور آج کا دولھا ٹریفک کے جنجال میں پھنس کر شادی کے ارادے سے بحسن و خوبی پھر سکتا ہے۔"
(ڈاکٹر زبیدہ بیگم،یہ مسائل ٹریفک)

ہم نے جن طنزو مزاح نگاروں سے بحث کی ہے اُن کے طنزومزاح میں سماجی عناصروجراثیم بطور خاص پائے جاتے ہیں۔ان کے مطالعہ و مشاہدے کا میدان نہایت وسیع عریض ہے ان میں گہرائی و گیرئی پائی جاتی ہے۔ایسا نہیں کہ جن کو یہاں پیش کیا گیا ہے وہی آج کے سماج پر لکھتے ہیں اور بھی بہت سی معتبر آوازیں ہیں لیکن مقالہ کے طوالت کے اندیشہ نے اختصار پر مجبور کردیا ہے۔

(20/ستمبر 2014 کو شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد [تلنگانہ] کے ایک روزہ قومی سمینار بعنوان "اردو ادب تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل" میں یہ مقالہ پیش کیا گیا۔)

Social elements in Urdu Humour & Satire. Essay: Dr. Tayyab Kharadi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں