والدین اور سرپرستوں سے نوجوانوں کی بغاوت - کس معاملے میں ضروری؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-11

والدین اور سرپرستوں سے نوجوانوں کی بغاوت - کس معاملے میں ضروری؟

youth-rebellion-against-parents-guardians

نوجوان نسل جتنی زیادہ بِگڑی ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ بگاڑ ماں باپ میں پیدا ہو چکا ہے۔ آج لاکھوں کی تعداد میں ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں، ذہین ہیں اور بہترین مستقبل بنانے کے صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی پہلی ضرورت شادی ہے۔ وہ سنت کے مطابق سادگی سے شادی کرکے ایک پاک زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ماں باپ اور باپ دادا سے چلا آ رہا وہ سسٹم ہے جو انہیں غلط راستوں پر جانے پر مجبور کر رہا ہے۔ لڑکی کے ماں باپ کو Well settled لڑکا چاہئے جس کا گھر ذاتی ہو، نوکری اچھی ہو اور NRI ہو تو لڑکے کے ماں باپ کو شادی لین دین والی اور معیاری چاہئے۔
معیار کس کا؟
معیار رسول اللہ ﷺ یا صحابہؓ کا نہیں بلکہ اُن جہلا کی شادی کا معیار چاہئے کہ جس معیار کے ساتھ ان کے خاندان، محلّے اور شہر میں لوگ کر رہے ہیں۔ نتیجہ۔۔۔؟؟؟

اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان تھا کہ پہلے نکاح بعد میں اعلیٰ تعلیم یا Career۔ لیکن ہر دو طرف کے ماں باپ نے کہا کہ نہیں پہلے Career بعد میں نکاح۔ اللہ کے نبیﷺ کا فرمان تھا کہ سب سے بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے کم خرچ اور آسان ہو، لیکن ہر دو طرف کے ماں باپ نے کہا کہ نہیں جب تک خوب خرچ نہ کیا جائے شادی کا ارمان پورا ہو ہی نہیں ہو سکتا۔ ماں باپ کے پاس دلیل یہ ہے کہ پوری سوسائٹی یہی کر رہی ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ کون سی بداخلاقی، بدکاری اور بد تہذیبی ایسی رہی جو ہمارے معاشرے میں داخل نہیں ہو چکی؟
اور نبی ﷺ کا فرمان رد کرنے کی سزا کے طور پر جو غربت و افلاس کا عذاب نازل ہوا ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس کے مکمل ذمہ دار ماں باپ ہیں۔ ماں باپ نے اپنے ماں باپ کو ایسا ہی کرتے ہوئے دیکھا تھا، اور یہ سلسلہ اوپر سے کئی نسلوں سے چلا آرہا ہے۔ اب اگر نوجوان نسل نے بغاوت نہیں کی تو سمجھ لیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں اخلاقی اور معاشی طور پر ایک آتش فشاں Vocano کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ لفظ بغاوت پر کئی لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

قرآن میں جہاں ایک طرف کہا گیا کہ "ماں باپ کو اُف بھی نہ کہو" وہیں اسی سورہ عنکبوت میں یہ بھی حکم دیا گیا کہ "اگر وہ تم کو شرک میں مبتلا کرنے کی کوشش کریں تم ان کی (ماں باپ کی) ہرگز اطاعت مت کرنا"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں حقوق العباد کے معاملے میں ماں باپ کا حکم ماننا فرض ہے وہیں شرک، بدعت، منکرات اور حرام کے معاملے میں ان کی ہرگز اطاعت نہ کرنا بھی فرض ہے۔ اور شادی کے معاملے میں شرک یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شادیوں کو معیار بنانے کے بجائے "لوگ کیا کہیں گے" کے خوف سے اپنا معیار سنّت سے الگ کر لیا جائے۔

چند سو سال پہلے تک ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش کے سارے باشندے مشرک تھے۔ سوائے دو چار فیصد لوگوں کے جو ترک، عرب یا افغانستان سے آگئے تھے۔ اللہ نے ان کروڑوں لوگوں کو کلمہ اور نماز وغیرہ تو عطا کردیا لیکن ان لوگوں کے عقائد، رسم و رواج اور طور طریق وہی رہے جو مشرک سماج کے تھے۔ مشرک سماج میں شادی ماں باپ کی مرضی سے کرنا فرض ہے۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے کہیں اور کر لیتے ہیں تو ان کو "بھگوڑے" کہتے ہیں۔ ان کی سماج میں کوئی عزت نہیں ہوتی، ان سے "زناکاروں" جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہی مشرکانہ عقیدہ یا طریقہ مسلمانوں میں بھی در آیا ہے اسی کی وجہ سے اولاد کی شادیوں کے معاملے میں والدین جیسا چاہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی یہی طریقہ چلا آ رہا ہے۔ شادی کے وقت عورت کو جتنا ذلیل کیا جاتا ہے سب جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے شادی کے بعد پھر عورت اس کا بدلہ بھی لیتی ہے۔ لیکن کس سے؟ وہ جنہوں نے جہیز کے لئے اس کو تنگ کیا ان سے بدلہ نہیں لیتی بلکہ بہو اور بہو کے ماں باپ سے لیتی ہے۔ اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے۔ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔

لوگ بالکل نہیں سمجھ رہے ہیں کہ شادیوں کے اس نظام نے معاشرے کو کتنا تباہ کر دیا ہے۔ اگر مسلمان یہ بات نہیں سمجھیں گے تو آئندہ بدترین نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ حیرت ان مولوی حضرات پر ہوتی ہے جو ان شادیوں میں ہونے والی منکرات کو "خوشی سے" کا جواز فراہم کرکے نہ صرف انہیں جائز کر رہے ہیں بلکہ ان مجرموں کو اسی طرح تحفظ دے رہے ہیں جس طرح کوئی برسراقتدار سیاسی جماعت اپنے فسادی غنڈوں کو پروٹیکشن دیتی ہے۔ جہیز بارات وغیرہ کے خلاف تقریریں اور وعظ تو خوب کرتے ہیں لیکن اسلام نے ان کو روکنے کے لئے جو حکم دیا ہے کہ بائیکاٹ کریں (جب تم میں سے کوئی برائی کو دیکھے تو پہلے ہاتھ سے، یا زبان سے روکے یا کم سے کم دل سے نفرت کرے، اس کے بعد ایمان کا کوئی درجہ باقی نہیں رہ جاتا)، کوئی اس کا بائیکاٹ کرنا نہیں چاہتا بلکہ ان کی شادیوں میں شریک ہوتے ہیں، خوب پیٹ بھر کر کھاتے ہیں اور لفافے یا کچھ اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کون سی وجہ ہے جس کے باعث یہ کھلے حرام کو حلال کر رہے ہیں؟

ہم نوجوان لڑکیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی خودداری اور غیرت کو جگائیں، اور بغاوت کریں۔ بغاوت کا مطلب یہ نہیں کہ گھر سے بھاگ جائیں اور ایک نئی بدکاری کی تہذیب کو رواج دیں۔ بلکہ یہ ہمت کریں کہ اعلان کر دیں کہ ہم کسی ایسے بھکاری سے ہرگز شادی نہیں کریں گے جو بیڈ تو دور کی بات ہے بیڈ شیٹ بھی قبول کرے گا۔ نہ خوشی سے دینے لینے کے نام پر، نہ ماں باپ کی خواہش پر اور نہ رسم و رواج کے نام پر۔
اگر آپ ہمت کرکے کے یہ کہہ دیں گی تو آپ کا یہ جملہ پورے خاندان پر ایک بجلی بن کر گرے گا۔ ہو سکتا ہے آپ کی شادی رک جائے، ہو سکتا ہے دو چار سال تک کوئی رشتہ لے کر آپ کے گھر نہ آئے، ہو سکتا ہے لوگ آپ کو بدزبان، گستاخ، باغی وغیرہ کہیں۔ ہو سکتا ہے اس سے بھی بڑے الزامات اور تہمتیں آپ کے سر باندھ دی جائیں۔ لیکن یاد رکھئے اگر آپ کی شادی دو چار سال رک گئی یا نہیں ہوئی تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ اگر آپ کے بچے دو چار سال بعد پیدا ہوں تو کوئی محشر بپا نہیں ہو جائے گا۔ لیکن آپ کا جملہ لوگوں کے دل، دماغ اور ضمیر کو زخمی کردے گا۔ لالچیوں کے منہ بند ہو جائیں گے۔ آپ کی وجہ سے نہ جانے کتنی لڑکیوں کی زندگی بچ جائے گی۔

بغاوت کس طرح کرنی ہے؟
شریعت نے جو آپ کو آزادی دی ہے، جو حقوق دیئے ہیں ان کے حصول لئے آواز اٹھا کر بغاوت کرنی ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے لڑکیوں کو رحمت قرار دیا لیکن والدین اور سرپرستوں نے آپ کو ایک بوجھ بنا دیا ہے۔ آپ کے لئے گھر بِکتا ہے، آپ کے لئے ماں باپ کو قرض، بھیک، یا ناجائز کمائی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ آپ کے لئے بھائیوں کو بجائے تجارت جیسے بابرکت کام کے، نوکری کی غلامی کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے شوہر اور سسرال کو خوش رکھنے کے لئے اپنی خودداری بیچنی پڑتی ہے۔ بتایئے آپ بوجھ ہیں یا رحمت؟

لڑکیاں تو غیرت اور خودداری کی نشانی ہوتی ہیں۔ لیکن ماں باپ نے آپ کو بے غیرت بننے پر مجبور کر دیا ہے۔ آپ کی شادی کا سودا ایسے کیا جاتا ہے جیسے آپ کوئی معذور ہوں، کوئی بدنام ہوں یا کوئی گناہگار ہوں۔ لڑکے کے ماں باپ آپ کی قابلیت، آپ کے کردار، آپ کی سیرت کی تو بات کرنا ہی نہیں چاہتے، وہ تو صرف جہیز، بارات اور نقد رقم کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اس کا صاف مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ آپ سے نہیں بلکہ ان چیزوں سے شادی کر رہے ہیں؟ آپ تو اس پوری ڈیلنگ میں سوپر مارکٹ کی محض ایک Complimentary کے طور پر جا رہی ہیں۔ اور اگر آپ کے والدین نے لڑکے کے ماں باپ کے تقاضوں کا انکار کر دیا، تو کیا وہ لوگ آپ سے شادی کریں گے؟ ہرگز نہیں۔
کیا یہ آپ کی غیرت اور خودداری کی توہین نہیں ہے؟ کیا اب بھی ایسے گھر میں آپ شادی کریں گی جہاں آپ کی نہیں بلکہ آپ کے لائے ہوئے جہیز اور ضیافتوں کی قدر کی جائے؟ آپ کو چاہئے کہ فون اٹھائیں اور جس سے بھی شادی ہو رہی ہو، اس کو فون کریں اور بتائیں کہ میں یہ قابلیت رکھتی ہوں، میری یہ سیرت ہے۔ اگر آپ کو مجھ جیسے کردار کی لڑکی چاہئے تو اس لین دین سے انکار کریں ورنہ میں شادی کے لئے تیار نہیں۔ اگر لڑکا سمجھدار ہوگا تو فوری ہاں کہے گا، بے وقوف ہوگا یا لالچی ماں باپ کی اولاد ہوگا تو کہے گا کہ "امی سے پوچھ کر بتاتا ہوں"۔

یاد رکھئے۔ جس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اس سے راست بات کرنے اور معاملہ طئے کرنے کا حق اسلام نے دیا ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ کی شادی ایک مثال ہے کہ آپ ؓ نے خود پیغام بھیجا اور بات چیت کی۔ لیکن ہمارے ہاں یہ معاملات بزرگوں نے اپنے ہاتھ میں لے کر لڑکے لڑکیوں کی خریدوفروخت کا سسٹم ایجاد کردیا ہے۔ کیا اس سسٹم کو توڑنا ضروری نہیں ہے؟

آج آپ کے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ اگر تعلیم اچھی ہوگی تو اچھے رشتہ آئیں گے۔ دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اگر تعلیم ہوگی تو مرد کے اوپر Depend ہونا نہیں پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی تعلیم مکمل ہونے تک عمریں تیس سال ہو رہی ہیں۔جب لڑکے والے دیکھنے آتے ہیں تو لڑکے کے ماں باپ کو بیس اکیس سال کی لڑکی چاہئے۔ کہاں جائیں گی تیس سال کی عمر کی یہ ساری لڑکیاں جو اعلی ڈگری رکھتے ہوئے بھی، اچھی نوکری کرتے ہوئے بھی، اس Ideal لڑکے سے محروم ہیں جو ان کے مزاج کے مطابق ہو۔ پھر آپ کے ماں باپ آپ کو سمجھوتا کرنا سکھائیں گے۔ پھر یا تو کافی عمر والے کا رشتہ آئے گا، یا کسی ایسے کا جس کی بیوی مر گئی ہے یا طلاق ہو چکی ہے۔ یا پھر غیر مسلموں کے علاوہ کوئی نہیں ملے گا کیونکہ مسلم سماج میں اب لڑکیوں کی تعلیم کے Matching لڑکے نہیں ملتے۔ بتایئے آپ کیا کریں گی؟ آپ کو مجبور اور بے بس کر دینے والے نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہوگی۔

نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق آپ کو گریجویشن کے دوران یا فوری بعد شادی کرنی چاہئے۔ کیونکہ شادی کے بعد، زندگی کا صحیح لطف اٹھانے کی جو عمر ہوتی ہے وہ اگر گزر جائے تو پھر شادی بے مزہ لگتی ہے۔ اس میں ایک سمجھوتے کی زندگی ہوتی ہے۔ اگر شادی سادگی سے ہو اور وہی پیسہ شادی کے بعد آپ کی تعلیم پر لگے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ شادی کے فوری بعد اگلے سال ہی بچہ ہو یہ کوئی ضروری نہیں۔ اسلام نے جہاں زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے وہیں بچوں کی پلاننگ کی بھی اجازت دی ہے۔ کوئی قیامت نہیں آ جائے گی اگر آپ کے بچے دو چار سال دیر سے ہوں گے۔ آپ کی اعلیٰ تعلیم اور کیرئیر کا خواب تو پورا ہو جائے گا۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہی ہیں کہ شادیوں میں تاخیر کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں غلط راستوں پر جانے پر مجبور ہیں۔ شادیاں ہو رہی ہیں لیکن سابقہ Affairs کی وجہ سے طلاقیں بھی ہو رہی ہیں۔

اب میں ان لاکھوں نوجوان لڑکوں سے بھی یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ پہلے مرد بنئے۔
قرآن نے سورہ نسا آیت 34 میں مرد اسے قرار دیا ہے جو عورت پر خرچ کرتا ہے، لڑکی والوں سے جہیز، بارات کا کھانا اور نقد رقم مانگنے والا ہرگز "مرد" کہلایا نہیں جا سکتا۔ یہ والدین ہیں جو آپ کو نامرد بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ آپ کے ماں باپ اور لڑکی کے ماں باپ مل کر آپ کے پیچھے جو سودے بازی کرتے ہیں پہلے وہ بند کروائیں۔ یہ درحقیقت Match Fixing ہے۔
لڑکے والے کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہئے بعد میں کہتے ہیں ہم نے تو منع کیا تھا لیکن لڑکی والوں نے اصرار کر کے دیا۔ اگر مرد واقعی مرد بن کر اپنا مطالبہ منوائیں تو سماج سے یہ Social blackmailing ختم ہو جائے گی، اور لڑکی والے اس خوف سے باہر نکل جائیں گے کہ شادی کے بعد لڑکی کو کوئی بے عزت نہ کرے۔ لیکن آپ کو اپنے ماں باپ کو ہر قیمت پر منوانا پڑے گا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہندوستان سے بت پرستی کو ختم کیا جا سکتا ہے، شراب ختم کی جا سکتی ہے لیکن لڑکے کی ماں، دادی اور نانی کے دماغ سے جہیز اور بارات کے ارمان کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے آپ کو مرد ہی نہیں بہت طاقتور مرد بننا پڑے گا ورنہ یہ ماں باپ جو بچپن سے آپ کو کبھی ختنہ کا دلہا، کبھی بسم اللہ یا روزہ رکھوائی کا دلہا بناتے رہے ہیں، اب شادی کادلہا بنا کر لڑکی والوں سے خوب وصول کر کے آپ کو نامرد بناتے رہیں گے۔ آپ کو مرد بننے کے لئے نامردی سکھانے والے سسٹم سے بغاوت کرنی ہوگی۔

اس جہیز اور بارات نے آپ کے منہ پر تالے پڑوا دیئے ہیں۔ آپ ہی کے نہیں بڑے بڑے مولویوں اور رہنماؤں کے بھی لبوں پر تالے پڑ چکے ہیں۔ یہ لوگ باہر تقریریں کر سکتے ہیں لیکن گھر والی کے سامنے کچھ نہیں کہہ سکتے ورنہ وہ گھور کر دیکھتی ہے اور پوچھتی ہے کہ :
"میرے ماں باپ سے جس وقت وصول کئے تھے اُس وقت اسلام کیوں یاد نہیں آیا تھا"۔
غور کیجئے کس طرح صحابہؓ ایک جنگ سے واپس آتے تھے اور فوری دوسری جنگ کے لئے نکل پڑتے تھے۔ کیونکہ ان کو نہ بہنوں کی شادی کی فکر تھی اور نہ بیٹیوں کی شادیوں کی۔ لیکن آپ گھر سے نہیں نکل سکتے۔ گجرات میں آپ کی بہنوں کو ننگا کرکے سڑکوں پر نکالا گیا اور عصمت ریزی کی گئی، دہلی میں کیا کیا ہوا یہ سب آپ جان کر بھی سوائے سوشیل میڈیا پر ان چیزوں کو Forward کرنے کے کچھ اور نہیں کر سکتے۔ گھر سے نکلنے کے بات آتے ہی آپ کو خوف آتا ہے کیوں کہ جس سسرال نے آپ کو گاڑی، پیسہ، بارات کا کھانا، فرنیچر وغیرہ دیا ہے اس کے بدلے آپ رہن Mortgage ہو چکے ہیں۔ آپ ان چیزوں کے چوکیدار ہیں۔ آپ ان کو چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ آپ کو اس غلامی سے نکلنے کے لئے بغاوت کی ہمت پیدا کرنی ہوگی۔

اب آپ کو سسٹم سے بغاوت یہ کرنا ہے کہ جو لوگ جہیز اور بارات کے کھانے لے چکے ہیں وہ اس کا پیسہ واپس کریں۔ جو ابھی لینے والے ہیں، وہ ہونے والے سسرال کو وضاحت کر دیں کہ اگر وہ جہیز اور معیاری دعوت کے بغیر شادی کے لئے تیار ہیں تو بسم اللہ ورنہ کہیں اور رشتہ ڈھونڈ لیں۔ رشتہ کینسل ہونے کے خوف سے لڑکی والے خود ہی آپ کے قدموں میں گِر کر تیار ہو جائیں گے۔ لڑکی سے راست کہئے کہ میں فلاں ہوں، میری آمدنی اتنی ہے، میں اتنا نقد مہر ادا کرسکتا ہوں اور اتنے لوگوں کا ولیمہ دے سکتا ہوں، کیا آپ کو منظور ہے؟ اگر لڑکی سمجھدار ہوگی تو فوری ہاں کہے گی، بے وقوف ہوگی تو کہے گی ممی سے یا پپّا سے پوچھ کر بتاؤں گی۔ ایسی بزدل لڑکیوں سے شادی کرکے آپ بھی ساری زندگی کیا بزدل ہی بنے رہیں گے؟
اسلام نے عورت اور مرد کو اپنی شادی کی بات چیت کی اجازت دی ہے۔ صحابہؓ کے کئی واقعات اس بات کا ثبوت ہیں۔ جو حق اسلام نے مرد اور عورت کو دیا تھا اس حق کو ماں باپ نے چھین لیا اور شادی کی بات چیت کو ایک سودے بازی بنا دیا ہے۔ دونوں طرف سے چچا، ماموں، تایا وغیرہ جاتے ہیں اور بات چیت طئے کرتے ہیں۔ ایک صاحب بارات میں کتنے آدمی ہوں گے یہ طئے کرتے ہیں، تو دوسرے صاحب جہیز میں کیا کیا ہوگا یہ طئے کرتے ہیں۔ یہ سارے آج کے مہذب دلال ہوتے ہیں۔ ان کو یہ خوف بالکل نہیں ہوتا کہ کل نبی ﷺ جب حوضِ کوثر پر یہ سوال کریں گے کہ تم نے وہ چیزیں دین میں کہاں سے لائیں جو دین میں تھیں ہی نہیں تو ان کے پاس کیا جواب ہوگا؟

نوجوانو!!
ذرا سوچیے کہ آپ کے دادا نے جو کچھ جائدادیں تھیں آپ کی پھوپھوؤں کی شادی کے لئے بیچ ڈالا۔ آپ کے ناناؤں نے اپنی جائدادیں آپ کی خالاؤں کی شادی کے لئے بیچ ڈالا۔ جو کچھ تھوڑا بہت بچا تھا آپ کے والد ماجد نے آپ کی بڑی آپا کی شادی کے لئے بیچ ڈالا۔ اب آپ کے پاس کل اپنی اولاد کی شادیوں کے لئے بیچنے کے لئے کیا ہوگا؟
لڑکیوں کی مائیں یہ بتائیں کہ کل آپ کی بیٹیاں اپنی بیٹیوں کی شادیوں کے لئے پیسہ کہاں سے لائیں گی؟ اگر لاکھوں روپیہ نہیں ہوگا تو کیا وہ اسی طرح کریں گے جو آج کی مجبور لڑکیاں کر رہی ہیں؟ ان حالات میں جب کہ فرقہ پرستوں نے یوں بھی مسلمانوں کی نوکریوں اور کاروبار کو ہر طرف سے روکا ہوا ہے، لاک ڈاؤن نے لاکھوں کو قرضوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ سیاسی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ہماری قوم معاشی یا سیاسی طور پر اوپر اٹھے گی اور کچھ پیسہ جمع کرے گی۔ اب جو کچھ بچا ہے اگر اس کو بھی شادیوں کی لعنت میں ختم کر دیا تو مسلمانوں کے پاس بھیک یا چوری کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچے گا۔

کیونکہ پیغمبروں کی بات جب جب رد کی گئی، نبیوں کے طریقے کو چھوڑ کر جب جب اپنی خواہشات کی پیروی کی گئی ایسی قوموں پر غربت، افلاس، زناکاری، فحاشی اور بالآخر ظالم قوموں کی غلامی کے عذاب اترے ہیں۔ شادیوں میں فضول خرچیاں اب اسی عذابِ الٰہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو لوگ نبیﷺ کے طریقے پر شادی نہیں کرتے، ان کی شادی کا دعوت نامہ قبول کرنا شریعت کی توہین ہے۔ ان لوگوں کا دعوت نامہ نہ صرف واپس کیجئے بلکہ ایسے لوگوں کا معاشرے میں ایسے ہی بائیکاٹ کیجئے جیسے کرونا وائرس کے مریضوں کا کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ لوگ کرونا وائرس سے بھی بدتر لوگ ہیں، نہ ان کو مسجدوں میں آنے دیں نہ اپنے قبرستانوں میں۔

***
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 09642571721
ڈاکٹر علیم خان فلکی

The need of Youth rebellion against parents and guardians. Article by: Dr. Aleem Khan Falaki

2 تبصرے: