پچھلے دنوں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مزار مبارک کی شہادت اور اس سے وابستہ تشویش ناک خبریں سوشل میڈیا پر خوب وائرل کی گئیں۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ انگریزی کے مین اسٹریم (قومی و بین الاقوامی) میڈیا میں ایسی کوئی خبر اشاعت پذیر نہیں ہوئی۔ تعمیرنیوز نے اپنے ذرائع سے بین الاقوامی معیار کے چند مشہور نیوز پورٹلس کے صحافیوں سے استفسار کیا تو انہوں نے ایسے کسی سانحے کے وقوع پذیر ہونے سے لاعلمی ظاہر کی۔
لہذا اس جعلی خبر کے رد میں شائع شدہ یہ مکمل مضمون مع تصاویر معاصر ویب پورٹل "ہم سب" کی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنے کے بعد ان کے شکریے کے ساتھ یہاں نقل کی جا رہا ہے۔
عثمان قاضی صاحب ان دنوں اپنے دفتری فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں دمشق میں مقیم ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک خبر چلی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مزار مبارک کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں عثمان قاضی صاحب نے تحقیق کی اور عینی شاہدین کے بیانات کی بنیاد پر امت کو اصل معاملے سے آگاہ کرنے کی خاطر یہ تحریر لکھی ہے کہ مزار مبارک کو نقصان پہنچانے کی خبروں میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک پریشان کن خبر پھیلی ہوئی تھی کہ شام کے شمال مغربی صوبہ ادلب میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار مبارک کو منہدم کر کے ان کے جسد فانی کو وہاں سے چرا کر ان کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ اس ضمن میں کچھ دھندلی سی تصاویر اور ویڈیوز بھی گردش کرتی رہیں۔ اس قبیح حرکت کا الزام مسلمانوں کے ایک فرقہ پر لگا کر شرانگیزی کی بھی بھرپور کوشش کی گئی۔
ستم ظریفی یہ کہ قبر کی بے حرمتی کا واویلا کرنے والوں میں وہ احباب پیش پیش تھے جو دوسروں کو قبر پرستی، تعزیہ پرستی اور شرک کا طعنہ دیتے آئے ہیں؛ مزارات کی ضریحیں اور شبیہیں بنانے کی رسم کو جعل سازی اور صنم پرستی کہتے رہے ہیں اور جنت البقیع میں واقع مزارات کو ڈھانے کے عمل کی عذر خواہی میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
اس سے قبل شام و عراق کی جنگوں میں صحابی رسول حضرت حجر بن عدیؓ اور ممتاز ترین تابعی حضرت اویس قرنیؒ کے مزارات کے سر عام انہدام، ان کی باقیات کی بے حرمتی اور اس پر مباہات کا اظہار کرنے والے مجاہدین کی اہل پاکستان کو خبر تک نہ ہوئی اور اگر خبر ہوئی بھی کوئی احتجاج کسی محراب منبر یا سوشل میڈیا پر سننے میں نہیں آیا۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ اس واویلا میں ایسی رقت آمیزی اور اور جذباتیت شامل تھی کہ جس کی پھبتی یہ لوگ دوسروں کی عزاداری پر کس کر اسے ڈرامہ بازی قرار دیتے رہے ہیں۔ مزید کیا پردہ رکھنا، مزار مبارک کی بے حرمتی کی قبیح حرکت کا مرتکب اہل تشیع کو قرار دیا جا رہا تھا۔
تسلیم ہے کہ اس مبینہ حرکت پر ہر سلیم الطبع شخص کی طرح یہ خادم بھی بہت مضطرب ہوا لیکن یہ الزام چند قرائن کے سبب حلق سے اترنے سے انکاری تھا۔ اہل تشیع کی اموی حکم رانوں سے مخاصمت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، کہ یہ انہیں غاصب اور اہل بیت کا قاتل قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس میں واحد استثناء حضرت عمر بن عبدالعزیز کو حاصل ہے۔ اہل تشیع کے ہاں تاریخ کا جو ورژن مستند سمجھا جاتا ہے، اس میں یہ بات مسلمہ ہے کہ اموی دور کی ابتدا سے، منبروں سے دیے گئے خطبات میں اہل بیت کرام اور ان کے حامیوں پر سب و شتم کا جو سلسلہ حکومتی احکامات کے تحت جاری تھا، اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے موقوف کر دیا، اہل بیت کے وظائف جاری کیے اور کچھ روایات کی رو سے، باغ فدک پر اہل بیت کا حق بھی تسلیم کر لیا۔ چنانچہ غالی روافض کے ہاں بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کا نام ادب اور عقیدت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
مختار ثقفی نے اہل بیت پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے امویوں اور ان کے حامیوں کے استیصال کا سلسلہ جاری کیا تو اموی خلفاء کی قبروں کو بھی نقصان پہنچایا اور بنو عباس کے دور میں اس عمل میں مزید شدت آئی۔ چنانچہ شام میں، حمص کے صوبہ میں حوارین نامی مقام پر یزید اول کی قبر کھود کر جسم کی باقیات جلا دی گئیں، اگرچہ قبر کی نشانی اب تک موجود ہے۔ اس تمام چیرہ دستی میں البتہ دمشق قدیم کے بازار قیماریہ کے قریب واقع حضرت امیر معاویہؓ کے مزار اور ادلب میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی قبر کو نہیں چھیڑا گیا۔
شک کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ان تمام خبروں کا واحد مبداء ایک ایسے ملک کا سرکاری خبر رساں ادارہ تھا جو شام کی جنگ میں براہ راست شریک ہے اور شام کے ایک حصے پر قبضہ کر کے اسے علانیہ خود میں ضم کرنے کا اعلان کرچکا ہے۔ اس سرکاری خبر رساں ادارے کی ویب سائٹ پر اس خبر کی بائی لائن میں کسی مجہول "فری لانس کنٹری بیوٹر" کا حوالہ تھا جو مبینہ طور پر ادلب میں موجود تھا۔
تیسرا سبب شام میں ڈھائی سالہ قیام کے نتیجے میں پیدا ہونے والا تاثر ہے۔ پہلے بھی بارہا عرض کیا جا چکا ہے کہ اس ملک کے حکم رانوں کے ذاتی عقائد جیسے بھی ہوں، یہاں کا نظام کٹر سیکولر بنیادوں پر استوار ہے۔ شہر کے سب سے اہم اور خوب صورت چوک کا نام "امیہ سکوائر" ہے جس پر آنے والی اہم ترین سڑک اول خلیفہ راشد کے نام نامی پر ہے۔ دوسرا بڑا چوک "عباسی سکوائر" ہے۔ اور یہ سب کام شام کے علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے صدر حافظ الاسد کے دور میں ہوئے۔
یہ ملک اپنے ماضی پر بہت نازاں بھی ہے، اور اپنے آثار قدیمہ کو ملی افتخار کے علاوہ سیاحت کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ سمجھتا ہے چنانچہ محکمہ آثار قدیمہ قبل از اسلام عکادی، آرامی، سیریانی، رومی ادوار سے لے کر اموی، عباسی، سلجوقی، ممالیک، عثمانی، حتی کہ فرانسیسی دور تک کے آثار کی دیکھ بھال نہایت توجہ اور اخلاص سے کرتا ہے۔ حلب کے عجائب گھر کا احوال میرے ایک پرانے مضمون میں دیا جا چکا ہے۔
ایک ہم کار نے بتایا کہ تین سال قبل کچھ شدت پسند ایرانی زائرین نے امیر معاویہؓ کے مزار پر گندگی پھینکنے اور تعویذ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی جس پر، شامی حکومت کے ایران سے قریب ترین تعلق اور فوجی اور اقتصادی معاملات میں ایران پر گہرے انحصار کے باوجود، ان مجرموں کو فوراً گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا گیا۔ بدقسمتی سے، اس افسوس ناک سانحے کے بعد سے مزار پر تالہ ڈال کر مسلح پہرہ لگا دیا گیا ہے۔
بات کو سمجھنے کے لیے مناسب ہوگا کہ صوبہ ادلب کی جنگی صورت حال کا مختصر احوال ہو جائے۔ شام کے شمال مغرب میں، ترکی کی سرحد سے متصل ادلب ایک تاریخی علاقہ ہے۔ ایک حکمت عملی کے تحت شام کی حکومت جس جس علاقے کو باغیوں سے واگزار کرواتی گئی، وہاں پر ہتھیار ڈالنے والوں کو ایک جنگ بندی کے معاہدے کے تحت بسوں میں بھر بھر کر سرکاری فوج کے پہرے میں، ادلب پہنچایا جاتا رہا۔ کہا جاسکتا ہے کہ ادلب اور حلب کی ایک پٹی القاعدہ سے سابق یا موجود، خفی یا جلی تعلق رکھنے والے مذہبی شدت پسند جنگجووں اور داعش کے بچے کھچے عناصر کا شام میں آخری بڑا ٹھکانہ بچا ہے۔
یہ لوگ کئی گروہوں میں منقسم ہیں اور ان میں غالب تعداد سابقہ چھوٹے جہادی گروہوں کے ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد "ہیئۃ التحریر الشام" کی شکل میں ہے۔ اس گروہ کی علاقے میں موجود دیگر جہادی گروہوں سے بھی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں اور شامی حکومت کے زیر تسلط علاقوں پر بھی یہ لوگ راکٹ اور مارٹر حملے کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
پورے شام بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے ان مجاہدین کے علاوہ اس صوبے میں کوئی بارہ لاکھ کے قریب نفوس رہتے ہیں۔ شام کی جانب سے دو رسمی گزرگاہوں کو چھوڑ کر ساری حدود پر آمد و رفت بند ہے اور یہاں کے مقیم ہر قسم کی رسد کے لیے ترکی پر انحصار کرتے ہیں، اور راحت کاری کے کام میں مصروف بین الاقوامی ادارے بھی ترکی کی سرحد کی جانب سے خوراک، ادویات، خیمے وغیرہ ترسیل کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے لوگوں کی جان بچانے کے مقاصد کے تحت شامی حکومت کی اجازت کے بغیر ان علاقوں میں امدادی سامان اور کارکنوں کو آنے جانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ شامی حکومت اور اس کے روسی اور ایرانی حلیف جنوب اور مشرق کی جانب سے ادلب پر فضائی اور زمینی یلغار کرتے رہتے ہیں اور تھوڑا تھوڑا علاقہ قبضے میں لیتے رہتے ہیں۔
ادلب کے مشرق میں معرۃ النعمان نامی قصبہ واقع ہے۔ اس کے نام کے پیچھے ایک دلچسپ دیومالائی داستان ہے لیکن اس کا بیان پھر کبھی۔ یہاں "دیر مار سمعان" یا "سینٹ سیمون چرچ" نامی مشہور کنیسہ ہے جس کا آثار قدیمہ میں، اس کے مخصوص طرز کے ستونوں کی وجہ سے بڑا نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے زندگی میں ہی اپنی جیب سے اس کلیسا کے منتظمین کو رقم ادا کر کے اپنی قبر کی زمین خریدی تھی اور وہ اسی احاطے میں زیر خاک محو خواب ہیں۔
یہ تحقیق بھی دل چسپ ہوگی کہ پانچویں خلیفہ راشد نے اپنے مرقد کے لیے اس مقام کا انتخاب کیوں کیا، شاید انہی کی برکت سے، تب سے اب تک اس کلیسا کے امور سے کبھی مسلمان حکومتوں نے تعرض نہیں کیا، علاوہ ماضی قریب کے۔ یہ قصبہ کوئی دس برس سے مختلف باغی گروہوں کے قبضے میں رہا اور وہ آپس کی لڑائی میں اسے ایک دوسرے سے چھینتے رہے ہیں۔ اس سال کے شروع میں بھی حضرت عمر ثانی کے مزار کو آگ سے ضرر پہنچنے کی اطلاع آئی تھی لیکن شاید بوجوہ اسے اس قدر شد و مد سے سوشل میڈیا پر مشتہر نہیں کیا گیا۔ اس جانے بوجھے اغماض کا تعلق اس وقت اس مقام پر قابض گروہ کی سیاسی اور فرقہ وارانہ وابستگی سے ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔
مارچ میں اس محاذ پر جنگ میں تیزی آ گئی اور چند ہفتے قبل شام کی سرکاری فوج اپنے روسی اور ایرانی حلیفوں کے ہمراہ اسے باغیوں سے واگزار کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی مذکورہ بالا مزار کی بے حرمتی کی خبر اور اس کی مبینہ تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں جن میں اس حرکت کا کھلم کھلا الزام شامی حکومت کی حلیف ایرانی ملیشیا پر لگایا گیا۔ میرے سوشل میڈیا کے حلقہ احباب میں دنیا کے بہت سے ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان شامل ہیں لیکن یہ مشاہدہ حیرت انگیز لگا کہ جس تسلسل اور دشنامی عنوانات کے ساتھ یہ بات پاکستان میں پھیلائی جا رہی تھی، دیگر مسلم ممالک میں اس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حتی کہ اس ملک میں بھی، جس کے سرکاری خبر رساں ادارے نے یہ بات پھیلائی اور اسی کا حوالہ دے کر دو اور ممالک کے سرکاری و نیم سرکاری میڈیا نے بھی اسے شایع کیا۔ شام اور ایران کی جانب سے بھی اس خبر کی کوئی تردید سامنے نہیں آئی جس پر اضطراب مزید بڑھا۔
میری شام میں موجودگی کی وجہ سے احباب اور اہل خانہ نے مجھ سے اس معاملے کی چھان بین کے لیے کہا لیکن شام کی سمت سے ادلب تک اب بھی امدادی کارکنان، خصوصاً غیر ملکیوں کی رسائی نہیں ہے چونکہ جنگ اب بھی جاری ہے اور علاقے میں بارودی سرنگوں کی موجودگی کا بھی واضح خطرہ ہے۔
بہت تگ و دو کے بعد کسی دوست کے توسط سے ایک حلبی بندے سے رابطہ کرنے میں کامیابی ہوئی جو اتفاق سے سنی ہے اور اس دستے کا حصہ تھا جو سب سے پہلے معرۃ النعمان میں داخل ہوا۔ خبر واحد تھی اور اس سے رازداری کا وعدہ کیا تھا لہذا اسے اس وقت سوشل میڈیا پر نہیں لگایا۔
اس کے مطابق یہ جگہ مذہبی شدت پسند باغی گروہ "ہیئۃ التحریر الشام" کے قبضے میں تھی اور وہ اسے دفتر کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ اسے وہاں فرنیچر اور مقامی آبادی سے جمع کیے گئے "حفاظتی ٹیکس" کے ریکارڈ کے جلے ہوئے کاغذات ملے۔ مزار کی عمارت اور قبر کے تعویذ کو جنگ میں نقصان پہنچا تھا۔ چند ماہ قبل ہونے والی آتش زدگی بھی وہاں قابض گروہ کے ذخیرہ کیے گئے گولہ بارود میں آگ لگنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ قبر کھودنے کا البتہ کوئی نشان نہ تھا۔
سچ پوچھیں تو راوی سے عدم واقفیت اور اپنی عربی دانی پر ناکافی اعتماد کے سبب دل کو پورا اطمینان نہ ہوا۔ بالآخر، دو روز قبل، ہمارا ایک ہم کار جان اور ملازمت جوکھم میں ڈال کر واگزاری کے بعد موقع پر پہنچنے والے محکمہ آثار قدیمہ کے اولین افسران کے ہمراہ وہاں جانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے زبانی اور تصویری شہادت بہم پہنچائی تو دل کو اطمینان ہوا۔
برسوں کی عدم نگہداشت، قابضین کے اسے دفتر، باورچی خانے، سٹور اور قیام گاہ کے طور پر استعمال کرنے، چند ماہ قبل بیرونی احاطے میں گولہ بارود پھٹنے اور تازہ جنگ میں گولیاں چلنے کے سبب عمارت کی دیواروں، محرابوں، کھڑکیوں اور چھت کے گنبد کو نقصان پہنچا ہے۔ دیگر اموی اور عباسی خلفاء کی پختہ، تعویذ دار قبروں کے برعکس، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور ان کی زوجہ محترمہ کی قبریں، ان کی وصیت کے مطابق اوپر سے کچی چھوڑ دی گئی تھیں۔ قبر کے مقام کی نشان دہی اور اوپر کی مٹی کے انبار کو سہارا دینے کے لیے پستہ قد سنگی احاطہ سا البتہ بنایا گیا تھا۔ اس سنگی دیوار کی اوپری سطح پر چند دراڑیں تھیں، لیکن وہ بھی امتداد زمانہ کی وجہ سے پڑی دکھائی دیتی تھیں۔ کسی بھی فریق کی جانب سے کھدائی، منتقمانہ بے حرمتی یا نوادرات کی چوری کی کوشش کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔
ایک جملہ معترضہ آخر میں عرض ہے۔ یہ خادم مقبول عام سازشی نظریات یا کانسپی ریسی تھیوری کو مضحکہ خیز بات سمجھتا ہے۔ اس کے باوجود، اگر ایک دم اس مشکوک خبر کا پاکستانی سوشل میڈیا پر پھیل جانا اور طول طویل نثری نوحوں اور تبرے کا ایک نامختتم سلسلہ اس قدر موثر انداز میں شروع ہونا کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور روشن فکر احباب تک کا اسے آگے بڑھانا، اسی ہفتے وطن عزیز کوئٹہ میں ایک لین دین کے جھگڑے میں ایک شخص کے ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے کے الم ناک واقعے کا اچانک فرقہ ورانہ منافرت میں بدل جانا اگر اتفاقات ہیں تو عجب سوئے اتفاق اور قرآن النحسین ہے۔ امید ہے کہ اہل وطن خبروں کی تحقیق کی زحمت کے ذرا خوگر ہو جائیں تو چنگاری پھینکنے والوں کو بھس کی فراہمی میں کچھ کمی آئے۔
The reality of Umar bin Abdulaziz's tomb desecrated in Syria's Idlib - Column: Usman Qazi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں