حیدرآباد میں گوکھلے میموریل اسکالرشپ کا قیام - سابق ریاست حیدرآباد کا عطیہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-06-09

حیدرآباد میں گوکھلے میموریل اسکالرشپ کا قیام - سابق ریاست حیدرآباد کا عطیہ

gokhale-memorial-scholarship

گوپال کرشن گوکھلے انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کے قومی افق پر ابھرنے والی شخصیتوں میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ نہایت کم عمری میں ترقی اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی گوکھلے جیسی بہت کم شخصیتیں ہماری قومی تاریخ میں دیکھی گئی ہیں۔ گوکھلے 1889ء میں کانگریس میں شریک ہوئے اور 1905ء میں جب کہ وہ صدر کل ہند کانگریس منتخب ہوئے اس وقت انہیں کانگریس کے سب سے کم عمر صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

گوکھلے اس زمانے میں ملک کے ایک ممتاز سیاست داں اور ایک بہترین پالیمنٹرین ہی نہیں بلکہ ماہر تعلیم بھی تھے وہ چاہتے تھے کہ ملک میں تعلیم کو خصوصی اہمیت دی جائے اور علم کی روشنی کے ذریعہ ہندوستانی عوام کے سماجی اور سیاسی شعور کو بیدار کیا جائے۔ اس اہم شخصیت کی پچاس سال کی عمر میں موت کے بعد بمبئی میں ان کی ایک یادگار قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس یادگار کے قیام کے لئے آصف سابع نواب میر عثمان علی خان سے بھی مالی اعانت حاصل کرنا طے پایا تھا۔ اس بارے میں ساری کارروائی آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈز کے ذخائر میں محفوظ ہے۔ اس کارروائی کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ سابق ریاست حیدرآباد نے مالی امداد اور اعانت کے معاملات میں فیاضی ہی نہیں دکھائی بلکہ مذہبی عصبیت اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر اعلیٰ ترین صلاحیتوں کی قدر اور عزت کی۔ یہ کارروائی اس ریاست کے حکمران اور سارے نظم و نسق کے صاف ذہن، جذبہ اور رواداری اور روشن خیالی کامستند ثبوت ہے اس اجمال کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

گوکھلے میموریل فنڈ کی جانب سے جہانگیر بہمن جی کا جو خط آصف سابع کو بذریعہ ڈاک وصول ہوا تھا اسے معہ منسلکات واپس کرتے ہوئے آصف سابع نے اپنے حکم نامہ مورخہ5/رجب 1333ھ ، مطابق 30/مئی 1915ء میں تحریر کیا کہ اس بارے میں فریدوں جنگ بہادر کی رائے عرض کی جائے۔ اس حکم کی تعمیل میں فریدوں جنگ نے ایک عرضداشت مورخہ یکم جون 1915ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی جس میں انہوں نے لکھا کہ جہانگیر بہمن جی کے مکتوب اور اس کے منسلکات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر گوکھلے کے میموریل کے لئے آصف سابع سے مالی امدا د دینے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں فریدوں جنگ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اگر اس بارے میں معین المہام (صدرالمہام) فینانس کی بھی رائے لی جائے تو مناسب ہوگا اور اگر آصف سابع کا ارشاد ہو تو وہ معین المہام فینانس کی رائے طلب کرکے اس کے ساتھ اپنی بھی رائے عرض کریں گے۔ عرضداشت میں درج کردہ فریدوں جنگ کی رائے کے بارے میں آصف سابع نے اسی تاریخ کے اپنے حکم نامہ میں تحریر کیا:
"اس بارے میں مسٹر گلانسی کی بھی رائے لی جائے۔"
فریدوں جنگ نے مسٹر گلانسی کی رائے وصول ہونے پر ایک عرضداشت مورخہ 17/جون 1915ء میں گلانسی کی رائے کے ساتھ اپنی رائے درج کرتے ہوئے اسے آصف سابع کے ملاحظہ کے لئے روانہ کیا۔ اس عرضداشت میں فریدوں جنگ نے لکھا کہ مسٹر گلانسی نے رائے دی ہے کہ بیرون ریاست کسی ادارہ کے لئے چندہ بھیجنے کی بجائے خود اندرون ریاست، حیدرآبادیوں کے لئے مقامی طور پر گوکھلے میموریل اسکالرشپ کے نام سے ایک وظیفہ تعلیمی قائم کرنا بہتر ہوگا۔ اس وظیفہ کی شرائط اسکالر شپ کمیٹی طے کرے گی اور ان شرائط کی نسبت آصف سابع کی منظوری حاصل کی جائے گی۔
فریدوں جنگ نے عرضداشت میں مسٹر گلانسی کی رائے درج کرنے کے بعد لکھا:
" انہیں مسٹر گلانسی کی رائے سے کامل اتفاق ہے اس سے بمصداق بیک کرشمہ دو کاز مسٹر گوکھلے کی یادگار بھی قائم ہوجائے گی اور اس سے ہمارے ہی ملک کے نوجوان مستفید ہوں گے۔"
فریدوں جنگ نے مسٹر گلانسی کی رائے خود اپنی رائے کے ساتھ درج کرتے ہوئے لکھا کہ اگر آصف سابع ان آراء کو منظوری عطا فرماتے ہیں تو وہ وظیفہ سے متعلق شرائط بغرض منظوری پیش کرنے کے لئے سررشتہ فینانس کو لکھیں گے اور جہانگیر بہمن جی کو اطلاع دی جائے گی کہ باہر کی کسی یادگار میں چندہ دینے کے عوض آصف سابع نے خاص طور پر حیدرآباد ہی میں گوکھلے میموریل اسکالر شپ قائم کرنے کو پسند فرمایا ہے لہذٰا افسوس ہے کہ ان کی استدعا کے بموجب چندہ بھیجنا ممکن نہیں ہے۔
آصف سابع نے عرضداشت میں پیش کردہ متفقہ رائے کو منظوری عطا کی۔ عرضداشت پیش ہونے کے دوسرے ہی روز حسب ذیل فرمان صادر ہوا۔
"سر فریدوں جنگ بہادر اور مسٹر گلانسی کی متفقہ رائے مناسب ہے کہ باہر کی کسی یادگار میں چندہ دینے کے عوض خاص طور پر حیدرآباد میں ہی گوکھلے میموریل اسکالر شپ کے نام سے ایک وظیفہ تعلیمی قائم کرنا بہتر ہوگا۔ اس کی اطلاع مسٹر جہانگیر بہمن جی کو دے کر لکھا جائے کہ مذکورہ وجہ سے ان کی استدعا کے بموجب چندہ کا دیا جانا متعذر ہے۔"

مذکورہ بالا فرمان کے ذریعہ وظیفہ کے قیام کی منظوری مل چکی تھی مگر اس وظیفہ کے اجراء کے لئے ضروری شرائط کا طے کیا جانا باقی تھا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کمیٹی عطائے وظائف تعلیمی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اس وظیفہ کے اجراء کے سلسلہ میں چند تجاویز پیش ہوئیں۔ یہ تجاویز آصف سابع کی منظوری حاصل کرنے کی غرض سے صیغہ فینانس کے حوالہ کی گئیں۔ صیغہ فینانس نے ایک عرضداشت مورخہ 28/جولائی 1915ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی جس میں لکھا گیا کہ بذریعہ فرمان حیدرآباد میں گوکھلے میموریل اسکالر شپ کے نام سے ایک وظیفہ قائم کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے اور اس بارے میں کمیٹی عطائے وظائف تعلیمی نے بالاتفاق حسب ذیل تجاویز طے کی ہیں:

1۔ گوکھلے اسکالر شپ ان طلبہ کے منجملہ (جنہوں نے نہایت قابل اطمینان ہائی اسکول لیونگ سرٹیفکٹس حاصل کئے ہوں) بہترین طالب علم کو دیا جائے گا۔
2۔ وظیفہ مذکور کمیٹی عطائے وظائف تعلیمی ہائی اسکول لیونگ بورڈ کی رپورٹ وصول ہونے پر عطا کرے گی۔
3۔ وظیفہ مذکور ہر سال نظام کالج میں تعلیم پانے کے لئے دیا جائے گا اور اس کی مدت اجرائی چار سال ہوگی جو خاص صورتوں میں پانچ سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔
4۔ اس وظیفہ تعلیمی کی مقدار تیس روپے سکہ عثمانیہ ماہانہ ہوگی۔
5۔ ہر وظیفہ یاب کو گوکھلے پرائز کے نام سے ایک سو روپے کی کتابیں (جن کا انتخاب پرنسپل نظام کالج کریں گے) دی جائیں گی۔

ان تجاویز کو درج کرنے کے بعد عرضداشت کے آخر میں لکھا گیا کہ اگر آصف سابع ان تجاویز کو منظوری عطا فرمائیں تو سال حال بھی ایک وظیفہ کا اجراء عمل میں آئے گا۔
آصف سابع نے فوری ان تجاویز کو منظوری دی اور جس تاریخ کو عرضداشت پیش کی گئی تھی اسی تاریخ کو حسب ذیل فرمان صادر ہوا۔
"گوکھلے میموریل اسکالر شپ کی نسبت کمیٹی وظائف تعلیمی کے تجاویز، معین المہام فینانس کی رائے کے مطابق منظور کئے جاتے ہیں حسبہ، اس سال بھی ایک وظیفہ تعلیمی دیا جائے۔"

حیدرآباد میں گوکھلے میموریل اسکالر شپ کے نام سے ایک تعلیمی وظیفہ قائم کئے جانے کے باوجود بمبئی کی گوکھلے میموریل فنڈ کمیٹی نے گوکھلے میموریل کے لئے چندہ دینے کے لئے مزید درخواست روانہ کی جس کے بارے میں پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایک عرضداشت مورخہ 15/اگست 1915ء آصف سابع کی خدمت میں پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ حیدرآباد میں یادگار قائم ہو جانے کے بعد بمبئی میں گوکھلے کی یادگار قائم کرنے کے لئے چندہ دینا حکومت حیدرآباد کے لئے ضروری نہیں ہے۔
آصف سابع نے عرضداشت میں پیش کردہ رائے سے اختلاف نہیں کیا لیکن اپنی جانب سے چندہ دینا طے کیا۔ اس بارے میں بلا کسی تاخیر یعنی 15/اگست 1915ء کو آصف سابع کا جو فرمان صادر ہوا تھا اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
"مسٹر گلانسی اور فریدوں جنگ بہادر نے جو رائے دی ہے وہ اصولاً ٹھیک ہے مگر چونکہ ہزہائنس آغا خان اور دوسرے معزز لوگ اس چندہ میں شریک ہیں لہٰذا میری طرف سے بھی پانچ ہزار کا چندہ دیاجانا نامناسب نہ ہوگا۔ یہ چندہ دیتے وقت مسٹر گلانسی کی رائے کے مطابق کمیٹی کو ترکیب سے سمجھا دینا چاہئے کہ میں علاقہ بمبئی کا کوئی رئیس نہیں ہوں جیسا کہ کمیٹی کا خیال پایا جاتا ہے۔"

اس کارروائی کے بارے میں جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سابق ریاست حیدرآباد میں تعلیم کے میدان میں اس زمانہ کا یہ سب سے اہم اعزاز تھا۔ کیونکہ اس وقت تک ریاست میں جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔ یہ اہم اعزاز یا بڑا تعلیمی وظیفہ ریاست کے کسی فرد یا چونکہ حکمران ریاست کا مذہب اسلام تھا اس لئے کسی بڑی مسلم شخصیت کے نام موسوم نہیں کیا گیا، حالانکہ ریاست حیدرآباد میں باکمال شخصیتوں کی کمی نہیں تھی۔ آصف سابع چاہتے تو اپنے نام سے ہی یہ اعزاز و وظیفہ جاری کر سکتے تھے لیکن گوکھلے کا کم عمری میں اوج کمال کو پہنچنا، ان کی قومی و عوامی خدمات میں تعلیمی خدمات کا نمایاں حصہ اور ان کی تعلیم کی ترقی اور اشاعت پر توجہ مرکوز کرنا، ایک غیر ریاست میں ان کے نام سے سب سے اہم تعلیمی اعزاز ووظیفہ قائم کئے جانے کا سبب و محرک بنا۔
ریاست حیدرآباد میں یہ وظیفہ برسوں تک دیا جاتا رہا اور گوپال کرشن گوکھلے کی شخصیت کو خراج ادا کرنے کے ساتھ ہی ساتھ سابق ریاست حیدرآباد کے حکمران اور نظم و نسق کی اعلیٰ ظرفی کی بھی یاد تازہ کرتا رہا۔

یہ بھی پڑھیے:

ماخوذ:
نقوشِ تاباں
(آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذخائر سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر قلم بند کیے گئے تحقیقی مضامین)
ڈاکٹر سید داؤد اشرف
سن اشاعت: دسمبر 1994
ناشر : شگوفہ پبلی کیشنز

Hyderabad State Fund to Gokhale memorial Scholarship. Research Article by: Dr. Dawood Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں