اردو میں خاکہ نگاری ایک باضابطہ صنف کی حیثیت رکھتی ہے۔فنّی لحاظ سے خاکہ کی تعریف ایک باریک عمل ہے۔عام طور پر خاکوں میں کسی شخص کی ادبی، تہذیبی،فنّی، سیاسی،سماجی اور جذباتی زندگی کی ترجمانی ملتی ہے۔مگر یہ ترجمانی سوانحی مضمون سے چند امور میں مختلف ہے۔خاکہ نگارصاحبِ خاکہ کے پورے سوانحی خد و خال کو اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کرتابلکہ وہ اس سے وابستہ چند واقعات اور نجی و سوانحی کوائف کے پیش نظر اس کی شخصیت کے چند اہم گوشوں کو بے نقاب کرتا ہے۔چونکہ خاکہ نگار ایک چابکدست مصور کی حیثیت رکھتا ہے۔اس لیے وہ کم سے کم الفاظ میں شخصیت کی مصوری کرتا ہے۔وہ اپنے فن کو تخلیق میں بعض ایسے اہم پہلوؤں کا انتخاب کرتا ہے۔جن سے اس شخص کی پوری شخصیت،اس کے افکار و نظریات،ذہنی افتاد وغیرہ قاری کے سامنے ظاہر ہو جاتے ہیں۔خاکہ نگاری کا اہم وصف غزل کی طرح ایجاز و اختصار (Compactness) ہے۔
چوں کہ خاکہ نگاری کسی ایک شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے اس لیے اس صنف میں کامیابی کے لیے قوت ِمشاہدہ اور ادراک و فہم کے ساتھ ہمدردانہ،غیر جانبدارنہ اور حق پسندانہ رویے کا اختیار کرنا ضروری ہے۔انداز بیان میں فراہم شدہ مواد میں فصاحت ِبیانی کے ساتھ تنظیم و ترتیب کا ہونا بھی لازمی ہے۔اردو میں خاکہ نگاری کی دو روایتیں ہیں۔ایک مزاحیہ دوسرا سنجیدہ۔اردو خاکہ نگاری کی ابتدا مزاحیہ انداز سے ہوئی۔اردو کا پہلا باکمال خاکہ مرزا فرحت اللہ بیگ کے مزاحیہ خاکے کو "نذیر احمد کی کہانی کچھ میری اورکچھ ان کی زبانی" تصور کیا جاتا ہے۔سنجیدہ قسم کے اولین قسم خاکوں کے زمرے میں حسن نظامی،مولوی عبد الحق،خواجہ احمد فاروقی،خلیق انجم کے خاکے آجاتے ہیں۔فرحت اللہ بیگ کی آغاز کردہ روایت کو آگے بڑھانے والے مزاحیہ خاکہ نگاروں میں رشید احمد صدیقی،کنہیا لال کپور،کرشن چندر،یوسف ناظم،مجتبیٰ حسین وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔
ایک خاکہ نگار کی حیثیت سے اردو کی ادبی دنیا میں مجتبیٰ حسین کا ظہور 1962ء سے ہوتا ہے۔اس زمانے میں وہ حیدرآباد کے روزنامہ’سیاست‘ کی صحافتی شعبے سے منسلک تھے۔روزنامہ ’سیاست‘میں طنزو مزاح کے مشہور کالم نگار شاہد صدیقی کی بے وقت رحلت پر جو خلا واقع ہواتھا، اسے پُر کرنے کے لیے ان کو کالم نگاری کی کرسی پر بیٹھایا گیااور انہیں مجبوراً وہ ذمہ داری سنبھالنی پڑی۔ اسی واقعے کو خود مصنف کی زبانی سنیے:
"یہ 1962ء کی بات ہے۔ ایک دن یہ ادیب (شاہد صدیقی) اللہ کو پیارے ہو گئے تو اخبار کے انتظامیہ نے انھیں حکم دیا کہ وہ طنز و مزاح کا یہ کالم لکھنے کی ذمہ داری سنھالیں۔ اس سے پہلے انھیں پتہ نہیں تھا کہ طنز کسے کہتے ہیں اور مزاح کس چڑیا کا نام ہے۔ بہت منع کیا۔ہاتھ پیر جوڑے کہ یہ کام انھیں نہ سونپا جائے۔ لیکن ایک نہ چلی۔لوگ پیٹ کے لیے روتے ہیں۔ یہ پیٹ کے لیے ہنسنے لگے۔آدمی کیونکہ ڈرپوک تھے اس لیے اپنے مضامین میں دوسروں کا مذاق اڑانے کے بجائے اپنا مذاق اڑانے لگے۔"
(چہرہ در چہرہ، اپنی یادیں میں ص۔144)
الغرض مجتبیٰ حسین ایک کالم نگار کی حیثیت سے اس میدان میں قدم رکھا کم سے کم لفظوں اوراشارے کنایوں میں زیادہ سے زیادہ باتیں کہہ جانے کی ہنر مندی کے سبب وہ اس میدان میں خوب چمکے۔
مجتبیٰ حسین کے لکھے ہوئے شخصی خاکوں کا پہلا مجموعہ "آدمی نامہ" 1981ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔اس کے بعد دوسرا مجموعہ "سو ہے وہ بھی آدمی" اور تیسرا مجموعہ "چہرہ در چہرہ" بالترتیب 1987ء اور 1993ء میں منظر عام پر آئے۔آپ کا کمال یہ ہے کہ آپ نے اپنے دور کی کئی ادبی شخصیتوں کو اپنے طنز کا ہدف بنایا اور ایک جادو گر کی طرح گنتی کی چند لکیروں میں بہت سے خاکے کھینچ دیے۔
خاکہ نگاری میں انسان کی شخصیت کا ادراک بہت اہم ہوتا ہے۔اس ادراک میں ہمدردانہ جذبے کا غلبہ ہوتا ہے۔مجتبیٰ حسین کا کوئی بھی خاکہ اس کُلیے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔اس سلسلے میں چند مثالیں درج ہیں:
"پانی پت اپنی جنگو ں کے لیے مشہور ہے اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پانی پت کی آخری اور اصلی لڑائی خواجہ احمد عباس نے اپنی تحریروں کے ذریعے لڑی تھی۔یہ لڑائی تھی ظالم کے خلاف،مظلوم کے حق میں،سرمایہ دارکے خلاف، مزدور کے حق میں،ظلمت کے خلاف اجالے کے حق میں اور طاقتور کے خلاف کمزور کے حق میں اور جب تک اس لڑائی کا فیصلہ نہیں ہو جاتا ہمیں خواجہ احمد عباس صاحب کی تحریریں قدم قدم پر یاد آتی رہیں گیں اور اس یاد کو تازہ رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔"
(چہرہ در چہرہ،ص 22)
خاکہ شہریار سے مثالیں ملاحظہ ہوں:
"میں ان کی شاعری کا پرانا مداح تو تھا ہی لیکن تاش کے لیے ان کے انہماک کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ جو شخص تاش کے لیے اتنا سنجیدہ ہو سکتا ہے، وہ دوستی کیا خاک کرسکے گا۔اس وقت انھوں نے یہ احساس دلایا کہ جس انہماک کے ساتھ وہ تاش کھیلتے ہیں اسی انہماک کے ساتھ دوستی بھی کر سکتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ جب دوستی کرتے ہیں تو تاش نہیں کھیلتے اور تاش کھیلتے ہیں دوستی نہیں کرتے۔۔۔شہریا ر کی ایک ادا مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔وہ یہ کہ ایک سچے بے نیاز آدمی ہیں۔ اپنی شاعری سے بے نیاز،اپنی زندگی سے بے نیاز اوراپنے گھر سے بے نیاز۔ نہ شہرت کی طلب،نہ عہدے کی ہوس،نہ پیسے کا لالچ، نہ مرتبے کی حرص۔ ایسا آدمی عموما اپنے گھر میں نزاعی اور سماج میں ہمیشہ غیر نزاعی ہونے کے سارے نقصانات برداشت کرتا ہے۔" (چہرہ در چہرہ،ص 70)
خاکہ نگاری کی اہم شرط یہ ہے کہ خاکہ نگار اور صاحبِ خاکہ دونو ں جذباتی اور ذہنی سطح پر ایک دوسرے سے قریب تر ہوں۔یہ ذاتی و ذہنی دل بستگی ایک خاکے کی کامیابی کی پہلی شرط ہے۔صاحبِ خاکہ کی ذہنی کیفیتوں میں مجتبیٰ حسین برابر کے شریک نظر آتے ہیں۔ اس برخلاف بعض خاکہ نگارایسے بھی گذرے ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو اونچا دکھانے کے واسطے بنا کسی ذاتی تعلق کے، بڑے بڑے لوگوں کا خاکہ کھینچنے کی کوشش کی ہے۔مجتبیٰ حسین کے معیار پر یہ بالکل نہیں نکلتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے تیسرے مجموعے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ملا حظہ ہو:
"یہ خاکے احباب کے اصرار پر مختلف موقعوں اور تقاریب کے لیے لکھے گئے تھے۔مجھ ناچیزپر ایک دور ایسا بھی گزر چکا ہے۔جب حیدرآباد اور دہلی کے کسی ادیب یا شاعر کی کسی کتاب کی رونمائی اس وقت تک مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی جب تک کہ میں صاحب ِکتاب کاخاکہ نہ پڑھوں۔کسی شاعر کا جشن منایا جاتاتو میرا خاکہ جشن کے تابوت میں آخری کیل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔"
(چہرہ در چہرہ،ص 7، Edition: 1993)
خاکہ نگاری تاریخ اورتصور یا قیاس آرائی سے یکساں تعلق رکھتی ہے۔تاریخ اور خاکے میں بعض باتیں مشترک دکھائی دیتی ہیں۔مثلاََغیر جانب داری اور حق گوئی۔ مگر تاریخ میں اکثر و بیشتر نام اور سنہ ہی حقیقت رکھتے ہیں لیکن خاکہ میں نام اور سنہ کے سوا سب کچھ حقیقت ہے۔نیز مورخ کا اصل مقصد واقعات کو پیش کرنا ہے اور واقعات سے متعلق جتنی شخصیتیں ہیں وہ دوسرے درجے پر ہیں البتہ خاکہ نگارکی توجہ واقعات پر نہ رہ کر صرف شخصیت پر مرکوز رہتی ہے۔اس سلسلے میں خاکہ’اندر کمار گجرال‘ کا ایک اقتباس پیش ہے:
"آخر میں اتنا کہوں گا کہ گجرال صاحب اب صرف ایک فرد نہیں رہ گئے ہیں بلکہ ہمارے کلچر کی بہترین روایات کی ایک علامت بن گئے ہیں۔اردو والوں کے اعتماد کا نام اندر کمار گجرال ہے۔سیکولرزم کا ہندوستانی ترجمہ اندر کمار گجرال ہے۔انسان دوستی اور رواداری کو اندر کمار گجرال بھی کہتے ہیں۔میرے ساتھ اکثر یہ ہوتا ہے کہ موجودہ پر آشوب حالات کو دیکھ کر میں خوفزدہ سا ہو جاتا ہوں۔ دہلی کے دھکّے کھاتی ہوئی اور گرتی پڑتی زندگی سے میں مایوس ہو جاتا ہوں تو ایسے میں اچانک نہ جانے کیوں گجرال صاحب کا خیال آجاتا ہے۔" (چہرہ در چہرہ،ص 16)
مجتبیٰ حسین کے خاکے بے داغ مزاح کے بہترین نمونے ہیں۔آپ زندگی کے معمولی سے معمولی باتوں سے لیکر سنجیدہ ترین باتوں میں بھی بے لاگ مزاح کا پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
مجتبیٰ حسین کا خود وفاتیہ (Self Obituary) سے:
"آخری عمر میں مرحوم کی اٹوٹ وفاداری کو دیکھ کر ان کی بیوی ہمیشہ اس خواہش کا اظہار کرتی تھیں کہ اس کا دم مرحوم کی بانہوں میں ہی نکلے۔ لیکن مرحوم کی یہ بڑائی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمیشہ اس کو یہ کہہ کر چپ کرا دیتے تھے کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا، میں نے جب تمھیں اپنی بیوی بنایا ہے تواب بیوہ بھی بناؤں گا۔بیوی بنانا تو میرے اختیار میں نہیں تھالیکن بیوہ بنانا تو میرے اختیار میں ہے۔مرحوم بات کے بڑے دھنی تھے۔ساٹھ برس سے بھی زیادہ اپنی بیوی کے ساتھ جیسے تیسے گذار کر اسے بیوہ کا درجہ دے کر اس دنیا سے کوچ کر گئے۔" (چہرہ در چہرہ،ص 146)
"مرحوم کی زندگی کی ٹریجڈی یہ تھی کہ وقت ان کی زندگی میں کبھی وقت پر نہیں آیا۔ہر کام یاتو قبل از وقت کیا یا بعد از وقت۔گویا زندگی بھر وقت سے آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔یہاں تک کہ آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے ان کا آخری وقت آگیا۔شادی بھی کی تو وقت سے پہلے یعنی اس عمر کی جب انھیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔چنانچہ شادی کی پہلی ہی رات کو مرحوم اپنے کم عمر دوستوں کے ساتھ چاندنی رات میں کبڈی کھیلنے کے لیے نکل پڑے۔ بزرگ انھیں زبردستی پکڑ کر لے آئے اور تنہائی میں سمجھایاکہ کبڈی کھیلنا ہی ہے تو اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ کھیلو۔"
(چہرہ در چہرہ،ص 145)
"ان کی بڑی خواہش تھی کہ دیش کی آزادی کی جنگ میں بھرپور حصہ لیں۔ لیکن سات آٹھ برس کی عمر میں کون انھیں جنگ آزادی میں آنے دیتا؟ بڑی عمرکے لوگ تو اس جنگ میں پہلے ہی سے مصروف تھے۔ان کی بڑی تمنّا تھی کہ انگریزکی لاٹھی کھائیں۔ چناچہ جب جب وہ اس تمنّا کا اظہار اپنے والد سے کرتے تو والد کی لاٹھی ضرور کھاتے۔انگریز کی لاٹھی کھانے میں جو مزہ تھا وہ باپ کی لاٹھی میں کہاں۔"
(چہرہ در چہرہ،ص 144)
جب حکومت ہند نے اردو کی ترویج واشاعت کے لیے ایک کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی کا اصل نام Committee for Promotion of Urdu تھا۔مگر بعد میں "گجرال کمیٹی" کی حیثیت سے شہرت پائی۔ چنانچہ اردو کے سلسلے میں گجرال کمیٹی کی رپورٹ لٹکتی چلی آرہی تھی۔اس بات کی طرح اشارہ کرتے ہوئے مجتبیٰ حسین نے "گجرال کمیٹی"ضرب المثل کے طور پر استعمال کیا ہے۔ایک اقتباس پیش ہے:
"یار میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر وہ میرے ساتھ گجرال کمیٹی کر رہی۔"
"ایک زمانہ تھا جب آٹھوں پہر تمہاری یاد آتی تھی۔اب یہ حال ہے کہ گجرال کمیٹی کی طرح یاد آتی ہو"
(خاکہ۔ اندر کمار گجرال،ص 12)
مجتبیٰ حسین اپنے خاکوں کے ذریعے مزاحیہ انداز میں سماجی مسائل و قضیات کوبھی اپنی تنقید کا نشانا بنایا۔تخیلاتی عناصر سے بھی ان کے خاکے آراستہ پیراستہ ہیں۔ان کے مزاح میں طنز کی ہلکی سی تلخی ضرور ہوتی ہے۔ مگر اس کے پیچھے انسان دوستی و ہمدردی کے جذبات رواں دواں ہیں۔مجتبیٰ حسین نے مزاحیہ خاکہ نگاری کو ایک نئی جہت دی ہے۔ان کی تحریروں میں ظرافت کی روشنی کے ساتھ ہمدردی اور دردِ دل کی گرمی کا احساس بھی ہے۔
الغرض مجتبیٰ حسین کا شمار اردو کے با کمال خاکہ نگاروں میں کیا جاسکتا ہے۔ان کے خاکے بیاناتِ انسانیت اور بھائی چارگی کی بہترین مثالیں ہیں۔وہ ہمارے تمھارے جانی پہچانی تہذیب کے گل بوٹے ہیں۔وہ اپنے خاکوں کے ذریعے قاری کے دلوں کو شائستہ اور عمدہ خیالات سے منّور کرتے ہیں۔
***
Dr.Nakulan K. V.
Associate Professor of Urdu, Sree Sankaracharya University of Sanskrit
Regional Centre, Naduvathur, P.O. Koyilandy, Kerala. Kozhikode, Pin. 673620
Mob.No. 9497860850
Dr.Nakulan K. V.
Associate Professor of Urdu, Sree Sankaracharya University of Sanskrit
Regional Centre, Naduvathur, P.O. Koyilandy, Kerala. Kozhikode, Pin. 673620
Mob.No. 9497860850
ڈاکٹر نکولن کے۔ وی۔ |
The caricatures by Mujtaba Hussain. Article: Dr.Nakulan K. V.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں