اقبال کی پہلی تصنیف "اسرارِ خودی" 1915 میں شایع ہوئی۔
علامہ اقبال کے بقول اس مثنوی میں خودی کی حقیقت اور استحکام پر بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں کہ مذکورہ مثنوی "اسرار خودی" کا تصوف کے موضوع سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس مثنوی میں اقبال کی شاعری اور تصوف کے باہمی رشتے کا ایک بڑا نازک مقام ہمارے سامنے آتا ہے۔
مثنوی کے پہلے ایڈیشن میں علامہ اقبال کے قلم سے ایک دیباچہ شامل تھا جو بعد کے ایڈیشنوں میں نہیں رہا۔ اس دیباچے میں جہاں نفیِ خودی کے نظریے کی ابتدا اور مسلمانوں میں اس کی اشاعت پر بحث کی گئی ہے وہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے کیا نتائج ظہور پذیر ہوئے؟ مسلمان اسلام کی روح سے کس طرح بیگانہ ہو گئے اور یہ بیگانگی انہیں بالآخر کہاں تک لے گئی۔ آخر میں لفظ "خودی" کی وضاحت موجود ہے۔
مثنوی "اسرارِ خودی" کے متذکرہ دیباچے میں تصوف کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبال لکھتے ہیں:بنی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں سری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا کہ اس عظیم الشان انسان نے ایک نہایت دلفریب پیرائے میں اپنے ملک و قوم کی فلسفیانہ روایت کی تنقید کی اور اس حقیقت کو آشکار کیا کہ ترکِ عمل سے مراد ترکِ کلی نہیں ہے کیونکہ عمل اقتضائے فطرت ہے اور اسی سے زندگی کا استحکام ہے۔ بلکہ ترکِ عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے متعلق دل بستگی نہ ہو۔ سری کرشن کے بعد سری رامانج بھی اسی راستے پر چلے مگر افسوس ہے کہ جس عروسِ معنی کو سری کرشن اور سری رامانج بےنقاب کرنا چاہتے تھے، سری شنکر کے منطقی طلسم نے اسے پھر محجوب کر دیا اور سری کرشن کی قوم ان کی تجدید کے ثمر سے محروم رہ گئی۔
مغربی ایشیا میں اسلامی تحریک بھی ایک نہایت زبردست پیغام عمل تھی گو اس تحریک کے نزدیک انا ایک مخلوق ہستی ہے جو عمل سے لازوال ہو سکتی ہے مگر مسئلۂ انا کی تحقیق و تدقیق میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی ذہنی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثلت ہے اور وہ یہ کہ جس نقطۂ خیال سے شری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی اسی نقطۂ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے۔ شیخِ اکبر کے علم و فضل اور ان کی زبردست شخصیت نے مسئلہ وحدت الوجود کو، جس کے وہ ان تھک مفسر تھے، اسلامی تخیل کا ایک لاینفک عنصر بنا دیا۔ اوحدالدین کرمانی اور فخرالدین عراقی ان کی تعلیم سے نہایت متاثر ہوئے اور رفتہ رفتہ چودھویں صدی کے تمام عجمی شعرا اس رنگ میں رنگین ہو گئے۔ ایرانیوں کی نازک مزاج اور لطیف الطبع قوم اس طویل دماغی مشقت کی کہاں متحمل ہو سکتی تھی جو جزو سے کل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے جزو اور کل کا دشوار گزار درمیانی فاصلہ تخیل کی مدد سے طے کر کے "رگِ چراغ" میں "خونِ آفتاب" کا اور "شرارِ سنگ" میں "جلوۂ طور" کا بلاواسطہ مشاہدہ کیا۔
مختصر یہ کہ ہندو حکماء نے مسئلہ وحدت الوجود کے اثبات میں دماغ کو اپنا مخاطب کیا مگر ایرانی شعرا نے اس مسئلے کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا یعنی انہوں نے دل کو اپنی آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخرکار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر تقریباً تمام اسلامی اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کر دیا۔
علمائے قوم میں سب سے پہلے غالباً ابن تیمیہ علیہ الرحمہ اور حکما میں واحد محمود نے اسلامی تخیل کے اس ہمہ گیر میلان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی مگر افسوس ہے کہ واحد محمود کی تصانیف آج ناپید ہیں۔ ملا محسن فانی کشمیری نے اپنی کتاب "دبستانِ مذاہب" میں اس حکیم کا تھوڑا سا تذکرہ لکھا ہے جس سے اس کے خیالات کا پورا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ ابن تیمیہ کی زبردست منطق نے کچھ نہ کچھ اثر ضرور کیا مگر حق یہ ہے کہ منطق کی خشکی شعر کی دلربائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
The relation of Iqbal's poem Asrar-e-Khudi with tasawwuf
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں